ميں نہيں جانتا ہينگ اور پھٹکری سے رنگ کا کيا تعلق ہے ؟ يہ محاورہ ميں نے مڈل سکول ميں پڑھا تھا ۔ مطلب جو ميری سمجھ ميں آيا يہ تھا کہ جيب سے کچھ خرچ نہ ہو پھر بھی فائدہ
ہاں جناب ۔ ايک ايسا عمل ہے جس کے سبب آدمی کا نہ تو کچھ خرچ ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی نقصان ہوتا ہے مگر فائدہ ہونے کی توقع ہوتی ہے اور عام طور پر فائدہ ہوتا ہے
سکول و کالج کے زمانہ ميں ہمارے اساتذہ پڑھانے کے علاوہ کبھی کبھی خاص طور پر وقت نکال کر ہماری کردار سازی بھی غيرمحسوس طريقہ سے کيا کرتے تھے ۔ ہم آٹھويں جماعت ميں پڑھتے تھے کہ ايک استاذ صاحب نے کہا
“ديکھو ۔ اگر کسی کے ساتھ اچھا سلوک کيا جائے تو نقصان تو کچھ نہيں ہوتا مگر فائدہ ہو سکتا ہے ۔ جب کسی سے مليں تو السلام عليکم کہيں ۔ پھر اپنا مدعا بيان کريں ۔ اپنے کسی بہترين اور بے تکلف دوست سے بھی کوئی مدد لينا ہو تو از راہِ کرم يا برائے مہربانی کہہ کر بات شروع کريں اور کام ہو جانے پر شکريہ ادا کريں”
يہ بات ميں نے پلے باندھ لی اور ساری عمر اس کے بے انداز پھل سے مستفيد ہوتا رہا ہوں اور اِن شاء اللہ آخر دم تک ہوتا رہوں گا
ميں سبزی يا پھل يا گوشت يا دال يا کپڑے ۔ کچھ بھی خريدنے جاؤں
بيچنے والا دکاندار ہو يا خوانچہ والا
اُس کے کپڑے صاف ستھرے ہوں يا پھٹے پرانے
پہلے ميں “السلام عليکم” کہتا ہوں
اگر کوئی چيز پکڑ کر ديکھنا ہو تو بيچنے والے سے اس کی اجازت مؤدبانہ طريقہ سے ليتا ہوں
جب وہ تول يا ناپ کر مجھے چيز ديتا ہے تو اس کا شکريہ ادا کرتا ہوں
اگر کوئی ميری مدد کی کوشش کرے مگر کر نہ سکے پھر بھی ميں اُس کا شکريہ ادا کرتا ہوں
ميرا يہ مشاہدہ ہے کہ سوائے معمولی استثناء کے اللہ کی مہربانی اور ميرے اس رويّے کی وجہ سے مجھے فائدہ ہوتا رہتا ہے
Pingback: ہينگ لگے نہ پھٹکری ۔ رنگ چوکھا آوے | Tea Break
لکھنے اور دیکھنے میں چھوٹی باتیں ہیں مگر فوائد کا ایک سمندر اپنے اندر رکھتی ہیں۔
میں بھی ان پہ عمل کرنے کی کوشش کروں گا
جزاک اللہ۔
یہ بھی کہ کچھ خریدنے سے قبل اسکا بھاؤ معلوم کر لیں۔ وغیرہ یہ بھی ایک مناسب عادت ہے۔