روزِ اوّل سے ہی اللہ کے دين کو مُتنازعہ بنانے کيلئے ابليس کے نرغے ميں آئے ہوئے انسان اپنی تمام تر توانائياں صرف کرتے آئے ہيں ۔ اُردو بلاگستان ميں تيسری بار سْنّت و حديث کا ذکر آيا ہے ۔ اس سے پہلے انگريزی بلاگز پر يہ کاوشيں کئی بار نظر سے گذری تھيں ۔ اب کچھ وجوہات کی وجہ سے عمران اقبال صاحب نے ” سُنّت و حديث ميں فرق ؟؟؟؟” لکھا ہے جس پر اہلِ عِلم اپنے خيالات کا اظہار کر رہے ہيں ۔ 3 سال سے زيادہ گذرے اُردو بلاگز پر لکھنے والے عُلماء فلسفہ نے اسے موضوع بنايا تو ميں نے اپنی سی ايک کوشش کی تھی ۔ اُسی ميں سے اقتباس حاضر ہے
میں چونکہ انجنیئرنگ سائنس کا طالب علم ہوں اسلئے اسی لحاظ سے مطالعہ کرتا ہوں ۔ کچھ صاحبان نے اصلاح معاشرہ کی بجائے تجدیدِ دین کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈال کر دین اسلام کو جدید دنیا کے مطالبات کے تابع بنانے کی کوشش کی ہے ۔ حدیث کی کُتب کو متنازیہ بناتے ہوئے یہ حقیقت نظرانداز کر دی گئی کہ جس ذریعہ سے ہمارے پاس سنّت یا حدیث کا بیان پہنچا ہے اللہ کا کلام “قرآن شریف ” بھی ہمارے پاس اسی ذریعہ سے پہنچا ہے ۔ پھر جب مانا جاتا ہے کہ قرآن شریف اصلی ہے تو مستند احادیث کیسے غلط ہو گئیں ؟ مزید یہ کہ اللہ نے قرآن شریف کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور اللہ سُبحانُہُ و تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے [سورت النَّجْم] ۔ جب سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہی تو پھر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہی کی خواہش ہم تک پہنچائی تو کیا اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کو اس کی حفاظت منظور نہ تھی ؟
[دورِ حاضر کے ايک صاحبِ عِلم قرآن شريف کو بھی متنازعہ بنانے ميں اپنی سی کوشش ميں لگے رہتے ہيں]
سنّت کے اتباع کی سند
سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیت 31 و 32 ۔ اے نبی لوگوں سے کہہ دو “اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو ۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگذر فرمائے گا ۔ وہ بڑا معاف کرنے والا رحیم ہے”۔ اُن سے کہو “اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو”۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں
سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 13 و 14 ۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا اُسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اُس کیلئے رسواکُن سزا ہے
سورت ۔ 53 ۔ النَّجْم ۔ آیات 1 تا 3 ۔ قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے کہ تمہارے ساتھی [سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم] نے نہ راہ گُم کی ہے نہ وہ ٹیڑھی راہ پر ہے اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتا ہے
سنّت کیا ہے ؟
سنّت کے لغوی معنی ہیں روِش ۔ دستور ۔ عادت ۔ لیکن دین میں سنّت کا مطلب ہے رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روِش [جو انہوں نے کیا] یا مسلمانوں کو کرنے کا کہا یا مسلمانوں کو کرنے کی منظوری دی ۔
حدیث کے بنیادی معنی ہیں خبر یا بیان ۔ اسی سے حدوث ۔ حادثہ ۔ حادث جیسے لفظ بنے ہیں ۔ لیکن مسلم آئمہ کرام کے مطابق یہ لفظ رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قول فعل یا تقریر کیلئے مختص ہے
کشادہ نظری سے دیکھا جائے تو سنّت اور حدیث ایک ہی چیز ہے ۔ اسلامی شریعت میں قرآن شریف کے بعد حدیثِ نبوی کو نص مانا جاتا ہے ۔ وہی حدیث قابلِ اعتبار سمجھی جاتی ہے جبکہ اس کے اسناد میں راویوں کا غیر منقطع سلسلہ موجود ہو ۔ راوی قابلِ اعتماد ہوں جس کا قیاس ان کی زندگی کے عوامل سے لگایا گیا ہے ۔ حدیث کی صحت پر چودہ صدیوں سے امت کا اجتماع چلا آ رہا ہے سوائے سر سیّد احمد خان ۔ چراغ علی ۔ عبداللہ چکڑالوی ۔ احمد دین امرتسری ۔ اسلم جیراج پوری ۔ غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی صاحبان کے ۔ خوارج اور معتزلہ کی تحریک تو دوسری صدی ہجری میں اُٹھی اور دم توڑ گئی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان صاحبان کے پاس کونسی سند ہے جس کی بنیاد پر پچھلی 14 صدیوں میں ہونے والے سینکڑوں اعلٰی معیار کے علماء دین کو یہ غلط قرار دے رہے ہیں
سنّت کی اقسام
قولی ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کرنے کا کہا
عملی ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا
تقریری ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اصحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کیا اور انہوں نے منع نہ فرمایا
حدیث کی تاریخ
آغازِ اسلام میں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حدیث کی کتابت سے منع فرمایا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ قرآن شریف کے ساتھ کسی اور شے کا امتزاج و التباس نہ ہونے پائے لیکن جب قرآن و حدیث کی زبان میں امتیاز کا ملکہ راسخ ہو گیا تو آپ صلعم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حدیث لکھنےکی اجازت دے دی اور حدیث کی کتابت کا آغاز سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیاتِ مبارک ہی میں ہو گیا ۔
حدیث کی سند تصحیح اور کتابی شکل دینے کے متعلق پڑھیئے
دائرہ معارفِ اسلامیہ جلد 7 ۔ صفحات 962 سے 981 تک
یہ تحقیقی مجموعہ پنجاب یونیورسٹی کے قابل اساتذہ کی تیس چالیس سالہ محنت کا ثمر ہے جو 1950ء میں شروع ہوئی تھی ۔ پہلی جلد کی طباعت 1980ء میں ہوئی اور آخری جلد کی 1990ء میں ۔ مجھے دائرہ معارفِ اسلامیہ کے تحریر اور مرتب کرنے والے سب دانشوروں کی مکمل فہرست اور ان کی تعلیمی درجہ کا مکمل علم نہیں ہے ان میں سے چند یہ ہیں
ڈاکٹر محمد شفیع ۔ ایم اے [کینٹب] ۔ ڈی او ایل [پنجاب] ۔ ستارۂ پاکستان
ڈاکٹر محمد وحید میرزا ۔ ایم اے [پنجاب] ۔ پی ایچ ڈی [لندن]
ڈاکٹر محمد نصراللہ احسان الٰہی رانا ۔ ایم اے ۔ پی ایچ ڈی [پنجاب] ۔ پی ایڈ [کینٹب]
سیّد محمد امجد الطاف ۔ ایم اے [پنجاب]
سیّد نذیر نیازی
نصیر احمد ناصر ۔ ایم اے [پنجاب]
عبدالمنّان عمر ۔ ایم اے [علیگ]
جو لوگ رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث کو ایک انسان کا قول و فعل فرض کرتے ہوئے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے [متذکرہ بالا] فرمان کو بھول جاتے ہیں اور اس اہم حقیقت کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے جو احکام قرآن شریف میں ہیں ان میں سے بیشتر پر عمل کرنے کی خاطر سنّت [حدیث] سے مدد لئے بغیر ان کو سمجھنا ناممکن ہے
میری سمجھ کے مطابق
جب کہ نماز صرف واحد خالق کی حمد و ثناء کیلئے ہے پھر اس میں درود کس واسطے؟
برائے مہربانی آپ اپنی عقل سے جواب دیں ناکہ کسی حوالہ سے –
شعیب، ہندوستان سے
شعيب صاحب
سورت 33 ۔ الاحزاب ۔ آيت 56 ۔ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو
Pingback: سُنّت اور حديث کی تکرار | Tea Break
میں نے حوالہ نہیں بلکہ آپ اپنی عقل سے جواب دریافت کیا ہے تاکہ میری نالج میں اضافہ ہوجائے – سوال دوبارہ نوٹ کریں :
“جب کہ نماز صرف واحد خالق کی حمد و ثناء کیلئے ہے پھر اس میں درود کس واسطے؟”
افتخار انکل۔۔۔ میں نے کسی فساد کے لیے یہ سوال اپنے بلاگ پر نہیں لگایا تھا۔۔۔ بلکہ میں اس روز روز کی بک بک سے تنگ آ گیا ہوں جہاں ہر دوسرا بندہ اپنی اپنی عقل کے مطابق قرآن، حدیث اور سنت پر نکتہ چینی کر رہا ہے۔۔۔
شعیب صاحب۔۔۔ کیا افتخار صاحب کے دئیے ہوئے حوالے کے بعد بھی عقل کے گھوڑے دوڑانا ضروری ہے۔۔۔ کیا ہماری اور آپ کی عقل اللہ کے ارشاد سے زیادہ مقدم ہے۔۔۔؟
شعيب صاحب
آپ نے ميرا خيال يا نظريہ پوچھا تھا ۔ ميں مختصر سا جواب لکھ کر چلا گيا تھا کيونکہ ميرا رہنما قرآن شريف ہی ہے ۔ ميری لائبريري اُوپر کی منزل ميں ہے ۔ نيچے کوئی آيا تھا اسلئے جانا پڑا ۔
ميرے مطالعہ اور عمل کے مطابق اللہ کے احکامات پر عمل کرنا واجب ہے يعنی اس کے بغير يا اس سے کم ميں گذارہ نہيں ۔ اللہ نے اپنے نبی کی اطاعت کا حُکم ديا تو حديث يا سُنّت واجب ہو گئی ۔ ہند و پاکستان ميں فرض کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کا ترجمہ انگريزی ميں ڈيوٹی ہے جبکہ واجب کا ترجمہ کمپلسوری ہے ۔ ڈيوٹی ميں چھوٹ ہے مگر جو عمل کمپلسوری ہو اس ميں چھوٹ نہيں مل سکتی
اب ” نماز “۔ ميرے مطالعہ اور عمل کے مطابق نماز ايک واجب عمل ہے جو بنيادی طور پر دعا ہی ہے ۔ دعا کا احسن طريقہ اللہ کے نبی نے ہميں بتايا ہے ۔ پہلے اللہ کی صفات بيان کی جائيں جسے ہم حمد و ثناء کہتے ہيں پھر اللہ سے اپنی غرض بيان کی جائے اور اس ميں اللہ کے نبی کيلئے بھی دعا کی جائے جسے ہم درود کہتے ہيں ۔
اب ” عبادت “۔ ہم تسبيح پڑھتے ہيں اور کوئی دعا نہيں مانگتے تو عام طور پر اسے عبادت کہا جائے گا ليکن آخر ہم يہ تکلف کيوں کرتے ہيں ؟ اس کے پيچھے ايک مقصد ہے کہ اللہ ہم سے ۔خوش ہو جائے ۔ راضی ہو گا تو کيا ہو گا ؟ ہمارے اُوپر مہربانی کرے گا ۔ بات پھر وہيں پر آ گئی کہ سب کچھ دعا ہی ہے
ہم اپنی دنياوی زندگی ميں بھی ايسا ہی کرتے ہيں کہ جس سے ہميں کام ہو اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہيں
شعیب۔
کلمہ پر غور کریں تو آپکو یہی نظر آئے گا۔۔
یہ اللہ کی محبت ہے اپنے محبوب کے ساتھ اور اس کے اظہار کا طریقہ۔
اور جب بھی اللہ نے اپنی وحدانیت کی بات کی ہے ساتھ نبی کا زکر کیا ہے
ازان ہو نماز ہو کلمہ ہو یا قرآن۔۔
یہ محبت ہے سادہ الفاظ میں
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی علیہ وسلم تک اللہ نے جتنے بھی پیغمبر نبی یا رسول بھیجے ان کے اصحاب تابعین اور پھر تبعہ تابعین کے بعد یا مزید بعد کے لوگوں نے دین میں جدت پیدا کی اور یہ جدت دوسرے مذاہب کے لوگوں سے ان کے مذہب میں داخل ہوئی چاہے وہ سازش کے ذریعے سے ہو یا پھر جذبات سے مغلوب ہو کر پر دین کی اصل وہی ہے جو نبی نے بتائی صحابہ نے عمل کی اور تابعین نے پیروی کی آرام طلب آج کے اہل علم جو لحاف یا کرسی میں اے سی چلا کر نرم گرم اشیاء سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سگار و سگریٹ یا کافی کی چسکییاں لیتے ہوئے ان لوگوں کی محنت جو ایک ایک حدیث کی تحقیق کے لئے مہینوں میلوں سفر کیا کرتے جاگ جاگ کر کتابت کرتے اور زندگی بھر ایک نماز بھی قضا نہ کرتے ان کی یہ اجتہادی کتابیں پڑھ کر بقول خود کے میرے مطابق یہ حدیث ٹھیک نہیں یہ ہوتے کون ہیں نماز روزہ اور اسلام کے دوسرے ارکان میں تجدید کرنے والے ہم ہی ہیں جو ان کی ان ملحدانہ رائے پر کان دھرتے ہین قرآن حدیث سے بڑھ کر ان کی باتیں ٹی وی پر دیکھ کر ان کو نیک سمجھتے ہم ہی لوگ ہیں
جو بھی ٹی وی پر آ کر مذہب کی باتیں کرنا شروع کر دے ہماری نگاہ مین یہ عالم اور علم کی سند بن جاتا ہے
اللہ رحم فرما اچھے برے کی تمیز کرنے کی توفیق دے
نیک لوگوں کا راستہ دکھا نہ کہ ان کا کے جو گمراہ ہوئے