يہ پرانے زمانے کی نظم ہے جو موجودہ دور ميں ميرے حال کو بيان کرتی محسوس ہوئی سو نقل کر رہا ہوں ۔ يہ نظم ميری ڈائری ميں شاعر کے نام کے بغير لکھی ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنے والا اُس دور کا معروف شاعر ہو گا ۔ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے اثرات کے تحت ابھی تک ميرا حافظہ درست کام نہيں نہيں کر رہا اسلئے شاعر کا نام ياد کرنے ميں ناکام رہا ہوں ۔ اگر کسی قاری کو شاعر کا نام معلوم ہو تو مستفيد فرمائے
کبھی کبھی مرے دل ميں خيال آتا ہے
کہ زندگی تری زُلفوں کی نرم چھاؤں ميں ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
يہ تيرگی جو مری زيست کا مُقدّر ہے ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تری نظر کی شعاعوں ميں کھو بھی سکتی تھی
عجب نہ تھا کہ ميں بيگانہءِ اَلَم ہو کر ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ترے جمال کی رعنائيوں ميں کھو رہتا
ترا گداز بدن، تيری نيم باز آنکھيں ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہيں حسين فسانوں ميں محو ہو رہتا
پکارتيں مجھے جب تَلخِياں زمانے کی ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ترے لَبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی ليتا
حيات چيختی پھرتی برہنہ سر اور ميں ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھنيری زلفوں کے سائے ميں چھپ کے جی ليتا
مگر يہ ہو نہ سکا
مگر يہ ہو نہ سکا اور اب يہ عالم ہے ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ تو نہيں ترا غم، تری جستجو بھی نہيں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جيسے ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہيں
زمانے بھر کے دُکھوں کو لگا چکا ہوں گلے ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہ گزروں سے
مہيب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہيں ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حيات و موت کے پُرہول خارزاروں ميں
نہ کوئی جادہءِ منزل نہ روشنی کا سُراغ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھٹک رہی ہے خلاؤں ميں زندگی ميری
انہی خلاؤں ميں ره جاؤں گا کبھی کھو کر ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ميں جانتا ہوں مری ہم نفس مگر يونہی
کبھی کبھی مرے دل ميں خيال آتا ہے
بہت خوب
بہت اچھی شاعری ہے
یہ تو ہندوستانی فلم کبھی کبھی کی نظم ہے جو ساحر لدھیانوی کی لکھی ہوئی ہے۔ جوانی میں بہت سنی ہے اور اب بھی بہت مقبول ہے۔
اس کا یوٹیوب کا لنک یہ ہے
http://www.youtube.com/watch?v=1TA-Ng3vHbw&feature=related
یقین سے نہیں کہہ سکتا کہیں پڑھا تھا کہ ساحر لدھیانوی نے اسے امرتا پریتم کے عشق میں یہ غزل کہی تھی۔ اور ساحر کو امرتا کے عشق کی پاداش میں کالج سے نکال دیا گیا تھا۔ یہ بھی ذکر تھا کہ ساحر اسکے فلیٹ پہ دوسرے دوستوں کے ساتھ محفل میں سگریٹ پھونکتے رہتے اور پھر اٹھ کر چلے جاتے اور امرتا پریتم دوسروں کے جانے کے بعد ایک آدھ دوست کے سامنے ساحر کے ادھ نوش کئیے بجھے ہوئے سگریٹوں کو دوبارہ سلگا کر ایک آدھ کش لیا کرتیں اور ساحر کے ادھ بجھے بچے کچھے سگریٹوں کے توٹے شیشے کے ایک جار میں محفوظ کر لیتیں۔یہ وہی امرتا پریتم ہیں جن کی یہ پنجابی شاعری بہت مشہور ہوئی تھی۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ کھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لِکھ لِکھ مارے وَین
اَج لَکھاں دھیآں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کَیہن
اٹھ دردمنداں دیا دردیا تک اپنا دیس پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ اج دتی زہر رلا
تے اوہناں پانیاں نوں دتا دھرت نوں لا
جتھے وجدی پھوک پیار دی او ونجلی گئی گواچ
رانجھے دے سب ویر اج بھل گئے اوس دی جاچ
دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیّئاں چون
پریت دیاں شہزادیاں اج وچ مزاراں رون
اج تے سبے کیدو بن گئے حسن عشق دے چور
اج کتھوں لیآئیے لبھ کے وارث شاہ اک ہور
واللہ علم باالصواب ۔ اسمیں حقیقت کیا ہے افسانہ کیا ہے ؟
ایک اہم بات کہ یہ یہ مندرجہ بالا پنجابی شاعری امرتا پریتم نے ہندوستان کی تقسیم پہ کہی تھی۔
ایک اہم بات جو دلچسپی سے خالی نہیں ۔ ساحر لدھیانوی کا اصلی نام “عبدل الحئی” تھا۔
عمران اشرف و عدنان صاحبان
حصلہ افزائی کا شکريہ
افضل صاحب
شاعر کا نام بتانے کا شکريہ ۔ ميں نے جوانی کے زمانہ مين بھی بہت ہی کم فلميں ديکھيں حالانکہ ہم لوگ مولوی نہيں تھے ۔ ميں نے کہيں يہ نظم پڑھی ہو گی اور اپنے پاس لکھ لی ہو گی
Pingback: سوچا تھا ۔ ۔ ۔ | Tea Break
ساحر لدھیانوی کی شاعری ہے ۔۔انڈین فلم کبھی کبھی میں امیتابھ بچن کے ساتھی راکھی پر یہ فلمایا گیا تھا۔۔۔محترم جاوید گوندل نے صحیح کہا ہے کہ ساحر لدھیانوی کا اصلی نام “عبدل الحئی” تھا۔باقی اللہ بہتر جانتا ہے