ميں اس سلسلے ميں ايک تحرير بعنوان ” کيا ہم ہميشہ بے عزتے تھے ؟” لکھ چکا ہوں
اب ڈاکٹر وہاج الدين احمد صاحب [جو امريکا کے معروف نيورولوجسٹ رہ چکے ہيں اور آجکل امريکا ہی ميں ريٹائرڈ زندگی گذار رہے ہيں] نے ايک وڈيو فلم کا ربط بھيجا ہے ۔ يہ وڈيو فلم بعد ميں پہلے موجودہ صورتِ حال
صدر آصف علی زرداری حال ہی ميں روس گئے تو وہاں پر ان کا استقبال نائب وزيرِ خارجہ [Deputy Foregn Minister] نے کيا
اب ديکھئے کہ ماضی ميں صدرِ پاکستان کا استقبال کيسے ہوتا تھا ۔ ميں نے اس وڈيو کو اپنے اس بلاگ پر شائع کرنے کی بہت کوشش کی مگر کاميابی نہ ہو سکی اسلئے اسے صدرِ پاکستان کا استقبال پر کلک کر کے ديکھئے ۔ وڈيو فلم کا دورانيہ 21 منٹ کے قريب ہے اسلئے جب وقت دے سکتے ہوں تو ديکھيئے گا
یہ استقبال ، اعشائیے ، پروٹوکول، عزت مآب، ایکسی لینسی، بینڈ باجے ، توپوں کی سلامی۔ یہ سب فراڈ اسلئیے کیا جاتا ہے کہ عقل کے گھٹنوں اور اپنے ہی عوام کا خون چوسنے والے شبخونیوں کو خوشامد اور چاپلوسی کے بانس پہ چڑھا امریکہ اپنی مطلب براری کرتا ہے۔
کچھ ایسا ذاتی استقبال کیمپ ڈیود میں جو شاہان امریکہ کی تفریح گاہ بھی ہے وہاں انورالسادات کا کیا گیا اور وہ مصر کو بیچ گیا۔ وہیں ننگ ملت ننگ قوم ننگ وطن مشرف کو آو بھگت کی گئی تو اس نے پورا پاکستان امریکیوں کے ہاتھ بیچ دیا جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔
امریکا کا معاملہ دنیا میں ایک ساہوکار کا سا ہے جو اپنے مفاد کے لئیے کسی سے بھی معاملہ کر لیتا ہے۔ اور وقت نکل جانے پہ آنکھیں پھیر لیتا ہے۔اور کاٹھ کے الؤ حسنی مبارک، مشرف وغیرہ کے غبارے میں اسقدر ہوا بھر دیتا ہے ۔ کہ ایوب کے انھی ایام میں انور مسعود نے اپنی ایک مزاحیہ نظم “اج کیہہ پکائیے” میں طنزیہ کہا تھا کہ ہمیں حبشیوں سے کیا لینا دینا “ساڈیاں تے نیں امریکہ نال یاریاں” یعنی امریکہ سے یاری کے نقصانات کو انور مسعود جیسے دانشور اور پاکستان میں اہل فہم نے تبھی جان لیا تھا کہ امریکہ ہمیں اس یاری کی سان پہ چڑھا کر ہم سے مطلب براری کر رہا ہے۔اور مطلب نکل جانے کے بعد ہماری درگت بنائی جائے گی۔
یہ غالبا پاکستان کی ننھی سی تاریخ میں تیسری بار ہے جب امریکہ ہم سے کسی بے وفا صنم کی طرح انکھیں موڑ رہا ہے۔ اس دفعہ طالبان اور افغانستان جنگ میں پاکستان کو اپنا گن میں بناتے ہوئے ہر دوسرا امریکی ایلچی پاکستان کے دورے پہ آتے ہوئے یہ کہتے نہیں تھکتا تھا کہ “اب کی دفعہ امریکہ پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ نیز پاکستان سے تعلقات دیرپا بنیادوں پہ قائم کئیے جائینگے۔ ابھی ان بیانوں کی روشنائی بھی اچھی طرح خشک نہیں ہوئی ۔ اور افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کی پالیسی اپناتے ہی امریکہ نے پاکستان سے حسب دستور آنکھیں بدل لی ہیں۔ بجائے اس کے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان پہ کسی مبینہ یا ممکنہ حملہ روکوانے کے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے امریکہ نے خود ہی پاکستان پہ حملہ کر کے ہمیشہ کی طرح اپنی اصلیت ظاہر کردی ہے۔
کہاں تو پاکستان میں ایک ڈاک بنگلے کے چوکیدار کے ناحق مارے جانے پہ امریکہ سے فورا ایک مذمتی بیان جاری ہوجاتا تھا اور بعض اوقات تو امریکہ صد اوبامہ بہ نفس نفیس پاکستان کی حمایت اور دہشت گردی کی وارداتوں کو لائیو یعنی براہ راست مذمت کرتے تھے ۔ اور کہاں جب کراچی میں پاکستان کے نیول بیس پہ حملہ ہوا اور پوری قوم نے ساری رات آنکھوں میں جاگ کر کاٹی گھنٹے دن میں بدل گئے مگر پاکستان کے نام نہاد اتحادیوں کی طرف سے اور خاصکر امریکہ کے طرف سے غالبا کامل چوبیس گھنٹے گزر جانے کے بعد جب پاکستانی فوجی دستے اپنی مشکلات پہ قابو پا کر دہشت گردی کی اس ننگی واردات پہ قابو پا چکے تھے اور بیس سے ممکن بچ جانے اور چھپے ہوئے دہشت گردوں کے بارے وسیع و عریض رقبے پہ سرچ آپریشن مکمل ہوئے بھی گھنٹے گزر چکے تھے اور سوڑتھال مکمل قابو میں آجانے کے بعد امریکہ کے ایک جونئیر اہلکار نے اور بعد ازا خارجہ سیکرٹری ہیلری کلنٹن نے مذمت کے دو لفظ کہے۔ جبکہ امریکہ یہ بخوبی جانتا ہے کہ پاکستان کے طول عرض دہشت گردی کی بھڑکتی آگ پاکستانی حکمرانوں کی بے وقوفی اور امریکہ کے نمک کو حلال کرنے کی وجہ سے بھڑک رہی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے نہ خودکش دہماکے تھے اور نہ تھانوں اور کچہریوں، مساجد اور چھاونیوں پہ حملے تھے۔
ہماری حماقتوں، بے وقوفیوں کی انتہاء اور طرف تماشہ یہ ہے کہ وہی امریکہ جس کی وجہ سے پاکستان آگ اور خون کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ اسکا صدر اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے قوانین کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک آزاد اور خودمختار ملک جیسے پاکستان پہ واشگاف الفاظ میں نئے حملوں کا اعلان کر رہا ہے۔ اور پاکستانی بودے حکمرانوں کی امریکہ کی دوستی اور اندھی تقلید میں آج پاکستان جل رہا ہے اور امریکہ صدر اسی تھانوں کچہریوں پہ ہونے والے دہماکوں کو جواز بناتے ہوئے ہمیشہ کی طرح مطلب نکل جانے کے بعد پاکستان سے منہ موڑنے کی امریکی پالیسی اپناتے ہوئے انھی دہماکوں کو جو حکمرانوں کی حماقتوں اور امریکی جنگ کی وجہ سے پاکستان کا مقدر بنے ہیں انھیں جواز بنا کر دہمکی آمیز نصحیت کی ہے کہ پاکستان والوں کو انھیں روکنا ہوگا۔ نیز جس بھارت کا ہوا کھڑا کر کے ہماری اسٹیبلشمنٹ نے امریکہ کا ہاتھ تھاما تھا اسی بھارت کے بارے پاکستان کے حفاظتی خدشات کو نہ صرف پس پشت ڈالتے ہوئے بلکہ پاکستان کے اپنی سلامتی کے متعلق جائز خدشات کو سرے سے ماننے سے ہی انکار کرتے ہوئے پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت کا سبق دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ پاکستان تجارت کے لئیے اپنے دروازے کھولے ۔ یعنی بھارت کو پاکستان میں تجارت کرنے کا موقع دے ورنہ پاکستان کہ پاس کیا ہے جو پاکستان بھارت کو بیچے گا؟ یعنی کمال اغماض برتتے ہوئے یہاں بھی بھارتی مفادات کی وکالت کی ہے۔ امریکہ کا پاکستان پہ اگلا دباؤ بھارت کی افغانستان سے تجارت کے لئیے نہ صرف پاکستان کی تجارتی گزرگاہیں مہیاء کرنا اور بلکہ اپنے اسٹرائجک پارٹنر بھارت کو خوش کرنے کے لئیے پاکستان کی منڈیاں بھارتی مال کے لئیے کھولنے کا حکم نامہ بھی ہوگا۔ اور امریکی صدر نے اپنے اتنے لمبے چوڑے انٹرویو اور بیان میں مسئلہ کشمیر پہ ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔ جبکہ پاکستانی وزیر اعظم کا اگلے دن کراچی پہنچنے پہ پہلا بیان یہ تھا کہ دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کو جاری رکھا جائے گا۔
یہ طوطا چشمی محض اسلئیے کہ کہ امریکہ مہاراج افغانستان سے کوچ کرنے کو تیار کھڑے ہیں۔ پاکستانی حمکرانوں کی نا عاقبت اندیشیوں کی وجہ سے جو امریکہ کی طرف محض ضرورت سے زیادہ ایک اچھے استقبال ۔ عشائیے اور پالش کے ساتھ پاکستانی وسائل کی حکمرانوں کی طرف سے بندربانٹ پہ آنکھیں بند رکھے جانے کی وجہ سے شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار ثابت ہوتے ہیں۔جبکہ پاکستان اس دوران لہو لہو اور اندھیروں میں ڈوب گیا ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے ۔ جو لوگ دنیا میں حکومتی کاروبار کے بارے سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں حکومتی کاروبار میں ایک گلاس کے ٹوٹنے سے لیکر کسی شاہ حکومت کی بیماری پہ دعائے صحت تک کو ایک دستاویزی شکل میں محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ بلکہ قرون وسطٰی کے بادشاہوں کے زبانی حکم کو بھی ساتھ ساتھ تحریری شکل دینے کے لئیے کاتبوں کا ایک دفتر ہمہ وقت موجود رہتا تھا۔ خود امریکہ کی جنگ آزادی میں مصور اور کاتب میدان جنگ کے مناظر کو اور عین جنگ کے دوران ایمرجنسی میں دئیے گئے احکامات کو تحریری شکل دے کر محفوظ کر لیتے تھے۔ اور آج دنیا بھر میں کسی بھی وزارت کے اہلکار اپنے محکمے کے سربراہ کے احکامات کو عملی شکل نہیں دیتے جب تک ان کے پاس تحریری احکامات نہیں پہنچ جاتے۔ جبکہ طرف تماشہ یہ ہے کہ پاکستان میں جونئیر امریکی اہلکاروں کے زبانی کلامی حکم پہ پاکستانی اینجینسیوں نے اپنے ہی شہری دہشت گردی کے الزام میں پھڑکا دینے میں کوئی حرج نہیں جانا اور آج جب ایبٹ آباد میں امریکہ نے دوستی کی آر میں پاکستانی سرحدوں کے تقدس کے پرخچے اڑاتے ہوئے پاکستان پہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں پاکستان پہ “نتھنگ” کا الزام لگا کر حسب دستور ڈو مور کا نادر شاہی حکم جاری کیا ہے تو پاکستانی اداروں کو دنیا پہ یہ ثابت کرنے کے لئیے مشکل ہورہا ہے کہ کب اور کہاں کس کس شخص کو القاعدہ اور طالبان کا حمایتی ہونے کے الزام میں کس کس امریکی کے حکم پہ پھڑکایا گیا یا گرفتار کیا گیا اور بہ مجموعی پاکستان نے دنیا بھر کے سبھی ملکوں بشمول امریکہ القاعدہ کے زیادہ رکن پکڑے یا مارے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ امریکہ سے جوش عقیدت میں یہ ادارے کسی امریکی سے ایسے حکم سے پہلے یا بعد میں کسی دستاویز پہ دستخط لینے کو بے ادبی خیال کرتے رہے۔
آخر کچھ تو ہے جو پاکستان ایک ہی دائرے میں سفر کر رہا ہے۔ایوب خان نامی ڈکٹیٹر کے جس اسقبال کو “تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو، ہمیں یاد ہے سب زرا زرا” کہہ ہم پاکستانی یاد ماضی پہ حیرت ذدہ ہوتے ہیں اس پورے استقبال میں پاکستانی کلچر ثقافت ، یا اسوقت تک دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست ہونے کے ناطے پاکستانی سربراہ حکومت ایوب خان سے کسی طرف سے پاکستانی ثقافت یا اسلامی ہونے کا شائبہ تک نہیں ملتا البتہ وہ کسی امریکی ریاست کے سربراہ اور گورنر زیادہ نظر اتے ہیں۔ جس میں دانس پارٹی۔ صحت کے جام اور خدا جانے کون کون سی لغویات جن کا ایک مسلمان اور مسلمان ریاست کے حکمران ہونے کے ناطے تصور تک نہیں ہونا چاہئیے۔ آج اگر پاکستان لہو لہان ہے تو اسکی بنیاد باوجود آپکے اختلاف رائے کے اس پاکستان کی لہو لہو تاریخ کی بنیاد یوب سے ھی پہلے لیاقت علی خان نے اسطرح کے استقبالیہ دوروں پہ رکھ دی تھی۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ آخر کچھ تو ہے کہ ایک جونئر لیول کے امریکی اہلکاروں تک کے جنگی نوعیت کے احکامات جن میں مارے جانے والے اور مارنے والے بھی پاکستانی تھے۔کے بارے دستاویزی ریکارڈ تک رکھنے کی زحمت تک نہیں کی گئی ۔ یہ سب مشرف کو کیمپ ڈیود نامی تفریح گاہ میں استقبال اور ناشتے کا خمیازہ ہے ہے جس پہ جنرل موصوف نے پھول کر کپا ہوتے ہئے کہ کمیپ ڈیوڈ میں انھیں مدعو کرنے کا اعزاز بخشا گیا ہے پاکستان کی سالمیت پہ امرکہ کے اختیار کو تسلیم کر لیا تھا۔
ہمارا کوئی دوست نہیں۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ امریکہ برطانیہ یوروپ بھارت چین سعودی عرب دنیا کا کوئی ملک ہمارا دوست نہیں۔ اور سبھی ہمارے دوست ہیں۔ بس اس دوستی کے پاردے میں ان ملکوں یا قوموں کے کون کون سے مفادات کی تکمیل ہوتی ہے ۔ اج کی دنیا میں یہ بنیادی نکتہ ہمارے بادشاہوں ۔ سیاستدانوں ، جرنیلوں، اور افسر شاہی کو سمجھ نہیں آیا اور اگر آیا ہے تو انھوں نے اغماض برتا ہے تو ہر دو صورتوں میں ہمارے بادشاہ ، سیاستدان، جرنیل، اور افسر شاہی نااہل ہے۔
پاکستان اپنے پاؤں پہ وزن ڈالے۔ اپنی ٹانگوں پہ کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ پاکستان خود امریکہ ہوگا۔ اور ساری دنیا آپکی دوستی پہ فخر کرے گی۔ ورنہ جس جگہ ہم آج کھڑے ہیں اور ہم نے اپنی آنکھیں نہ کھولیں تو کوئی وقت جاتا ہے پاکستان پہ فوجی، اقتصادی اور دیگر پابندیوں کا کھیل شروع ہونے کو ہے۔ عالمی تنہائی پھر سے اس وقت تک پاکستان کا مقدر ہوگی جب پھر سے خطے میں امریکی مفادات کے تکمیل کی کوئی نئی مہم شروع نہیں ہوتی، اور تب تک ہم معکوس دائرے کا سفر کرتے کئی دہائیاں پیچھے جاچکے ہونگے۔ آج بجلی نہ ہونے پہ قوم سراپا احتجاج ہے تب پانی کی بوند بوند کے لئیے خدا نخواستہ دربدر ہونگے۔ امریکہ افغانستان سے جاتے ہوئے خطے میں نئے صف بندیاں اور نئے اتحادی قائم کر رہا ہے۔ ایک طرف افغانستان میں کرزئی کی طرح کی امریکہ کے زیر اثر حکومت اور فوجی ادارے دوسری طرف بھارت کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ امریکہ اور پوری اقوام متحدہ۔ نئی صف بندیاں ہوچکیں۔ جس طرح گھنٹے کا سفر طے کرنے والی گھڑی کی سوئی بظاہر چلتی نظر نہیں آتی مگر ٹھیک ایک گھنٹے بعد وہ اگلے نشان پہ جاچکی ہوتی ہے وقت دبے پاؤں آگے گزر جاتا ہے۔پاکستان کے پاس اسقدر ڈیموں کی گنجائش ہونے کے باوجود جس طرح آج سے دس پندرہ سال پہلے پاکستان میں بجلی کا سطرح کا بحران کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی طرح آج پاکستان میں پانی کا بحران کا تصور محال نظر آتا ہے۔ نئی صف بندیاں و منصوبہ بندیاں ہوچکیں۔ ہمارے عوام اور حکمران آنکھیں کھولیں۔ اور امریکی تقدس کو خیر باد کہتے ہوئے اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کی کوشش کریں اور جو حکمران یا سیاستدان اس راہ میں حائل ہوں انھیں رد کر دیں۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو۔
Pingback: صدرِ پاکستان کا استقبال | Tea Break
جاوید صاحب نے تفصیل سے ‘شکایت’ لکھی ھے اور میں ان سے ایک حد تک اتفاق بھی کرتا ہوں- لیکن ذرا سوچنے کا مقام ہے
اس لئے نہیں کہ رھا کہ امریکہ میں رہتا ہوں بلکہ اس لئے کہ میرے ناقص خیال میں ہمیں امریکہ یا یورپ یا کسی اور ملک کی ‘ساہوکارانہ’ حرکتوں پہ تنقید کرنے کے بجائے اپنے ملک یعنی پاکستان اور اس کے لیڈروں پہ تنقید کرنی چاھئے جاوید بھائی کے الفاظ کو ہی استعمال کرتے ہوئے میں یہ کہنا چاہوںگا کہ کاش پاکستان کے کرتا دھرتا بھی اسی طرح کے ساہوکارانہ کام کرتے تو آج پاکستان کی بھی انڈیا سے زیادہ عزت ھوتی۔
کمھاری اپنے ہی برتن سنبھالتی ہے—پنجابی کا ترجمہ کیا ہے
اس میں کوئی برائی نہیں آخر امریکہ بہادر امریکہ کی طرفداری نہ کرے گا تو اور کس کی؟پاکستان کو بھی ایسے کرنا چاھئے
تو میرا خیال ہی اس وڈیو کو اور اجمل بھائی کے قول کو دونوں طرف سے دیکھنا بھی اچھا ہے کیوںکہ یہی سوال پیدا ہوتا ہے پاکستان یا ہم نے عزت کیسے گنوائی اور پھر اسکو کیسے واپس لایا جا سکتا ہے۔
“پاکستان اپنے پائوں پہ کھڑا ہونے کی کوشش کرے” کوئی ہے جو جاوید صاحب کی نصیحت پہ کان دھرے؟
جاويد گوندل صاحب
ہر ملک يا قوم صرف اپنی بہتری کيلئے کام کرتی ہے ۔ گڑ بڑ يہ ہے کہ ميرے ہموطن غير کے ہاتھ ميں کھيل کر اپنوں کو کاٹتے ہيں ۔ ميں صرف حکمرانوں کی بات نہيں کر رہا ۔ اس ميں عوام بھی شامل ہيں ۔ اللہ کی کرم نقوازي ہے کہ ميں اپنی ملازمت کے دوران جن سربرہانِ پاکستان سے ملا اور ان کے ساتھ تبادلہ خيال بھی کرنے کا موقع ملا ان ميں ۔ ايوب خان ۔ يحیٰ خان ۔ ضياء الحق ۔ محمد خان جونيجو اور بينظير بھٹو شامل ہيں ۔ نواز شريف سے ملاقات ہوئی مگر تبادلہ خيال کا موقع نہ ملا مگر اُس کے ارد گرد کے لوگوں سے واسطہ رہا ۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنے خاص سيکيوريٹی والوں کے سوا کسی کو قريب نہيں آنے ديتا تھا ۔ اسلئے ملاقات کا سوال ہی پيدا نہ ہوتا تھا
ان ميں سے جن لوگوں نے غير ممالک ميں اپنی عزت قائم رکھی وہ ايوب خان ۔ ضياء الحق اور نواز شريف ہيں ۔ باقی لوگوں نے پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کيا
امریکا آمروں کا استقبال ایسا ہی کرتا ہے ،کیونکہ ان سے کام کروانے آسان ہوتے ہیں جبکہ جمہوری حکمرانوں سے کام کروانے مشکل ہوتے ہیں۔
دانيال دانش صاحب
ناظم الدين صاحب کے بعد سے آج تک زرداری اور گيلانی سميت جو جو جمہوری حکمران ہوئے ہيں اُن کے نام تو لکھ ديجئے
اچھا ھے