زبان سے امريکی حکمران کچھ بھی کہتے رہيں اُن کا عمل پُکار پُکار کر کہہ رہا ہے کہ دہشتگرد قرار ديئے جانے کی پہلی اور سب سے اہم شرط مسلمان ہونا ہے
اگر کوئی غير مسلم شخص فائرنگ کر کے درجن بھر بے قصور انسانوں جن ميں کمسن بچے بھی ہوں کو ہلاک کر دے تو امريکا کے حکمران ہی نہيں عدالتيں بھی اُسے صرف ايکيلا واقعہ اور درجن بھر انسانوں کے قتل کو قاتل ذاتی اور وقتی فعل قرار ديتی ہيں
اگر کسی مسلمان کی فائرنگ سے کوئی امريکی مر جائے تو حقائق معلوم کئے بغير فوری طور فائرنگ کرنے والے کو دہشتگرد قرار ديا جاتا ہے اور اس کا تعلق القاعدہ سے جوڑ ديا جاتا ہے
تفصيل پڑھنے کيلئے مندرجہ ذيل موضوع پر کلک کيجئے
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » دہشتگرد صرف مسلمان ہوتے ہيں ۔ امريکا -- Topsy.com
محترم اجمل صاحب!
میری ذاتی رائے میں بہتر ہوتا کہ آپ اس آرٹیکل کا اردو ترجمہ یا تلخیص لگا دیتے تانکہ انگریزی سے نابلد قارئین بھی گارڈین کے مزکورہ کالم سے استفادہ کر سکتے۔
تیرہ جنوری کو گارڈین میں چھپے مہدی حسن کے کالم پہ کوئی شک نہیں کہ انہوں نے مختصر الفاظ میں مسلمانوں کے ساتھ روا متعصب رویے کی بجا طور پہ نشاندہی کی ہے کہ کیونکر اور کیسے ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے اور حکومتی ادارے اور مغربی میڈیا مسلمانوں کے کسی بھی معاملے کو بڑھا چڑھا کر “دہشت گردی” کے طور پہ پیش کرتے ہیں جبکہ اسی معاشرے کے غیر مسلم افراد سے سرزد ہونے والے اسی طرح کے ملتے جلتے مگر سنگین واقعات کو عام سے طور پہ کسی فرد یا افراد کا معاملہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ جبکہ کسی مسلمان سے ایسا واقعہ سرزد ہونے پہ بغیر تحقیق پہلے لمحے سے اسے “دہشت گردی” کی کاروائی قرار دے دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں کسی کی بہن یا بیٹی اغواء کر لی جائے اور مظلوم ماں باپ کی داد رسی کے بہانے پولیس کی روزی روٹی شروع ہوجاتی ہے۔ بعین اسی طرح امریکن خفیہ اداروں۔ امریکی حکومت، دہشت گردی کے خلاف نامی گرامی ثقہ امریکی ماہرین یعنی “تھنک ٹینک” ، دہشت گردی سے بچاو کے لئے نت نئی ایجادات کرنے والے ، جنگی سازو سامان تیار کرنے والے اداروں اور مسلمان عوام اور ممالک کو پسماندہ اور جنگ میں الجھائے رکھنے کی خاطر کسی بھی حد تک جانے والے سیاستدان جو امریکہ میں ایک مخصوص مذھب کے ماننے والوں کے فنڈ اور حمایت سے امریکی کانگریس کے ممبر بنتے ہیں، اور مخصوص ہاتھوں میں کھیلنے والا امریکی میڈیا اور دیگران۔ اگر کوئی مسلمان شامت اعمال کی وجہ سے کوئی سنگین حرکت کر بیٹھے تو ان سبکی کی چاندی ہو جاتی ہے۔ ان سب عناصر کے اپنے اپنے مفادات ہیں جو بدقسمتی سے مسلمانوں کے خلاف یکجا ہو گئے ہیں۔
امریکہ وغیرہ میں مسلمانوں کے خلاف تعصب ان سبھی مندرجہ بالا عناصر کے اپنے اپنے مفادات ہیں جس پہ ان عناصر کو سوائے کوسنے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔کیونکہ وہ لوگ اپنے اپنے مفادات کے تابع اپنے آپ سے ۔ اپنے مفادات سے اپنی دانست میں سچے ہیں ۔ وفادار ہیں۔ جبکہ ہم لوگ ہم مسلمان اپنے اپنے ممالک میں اپنے کاز ۔ اپنے دین، اپنی روایات۔ اپنے سماج ، اپنے ممالک کے ساتھ سچے نہیں ۔ وفادار نہیں ۔ جسے غداری کی ایک قسم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جب ہم اپنے ملک قوم کے لئیے دل و جان سے درست انداز میں کام کرنا شروع کر دیں گے ۔ جسکے سامنے ہر قسم کے دباؤ اور لالچ کو ہیچ سمجھتے ہوئے پائے حقارت سے ٹھکرا دیں گے۔ جہد مسلسل سے اپنی جائز منزل پالیں گے۔ ہماری حکومتیں ۔ ہمارے کرتا دھرتا اپنے آپ کو ریاست اور عوام کے ملازم سمجھیں گے اور ہمہ وقت ملک قوم کو فائدہ پہنچانے کے اقدامات کریں گے۔ عام آدمی کی زندگی بہتر سے بہتر تر کرنے کے بارے میں نت نئی جہتیں دریافت کریں گے۔ قوم زیور تعلیم سے آشناء ہوگی۔ مدد اور خیرات لینے کی بجائے دوسری قوموں کی امداد کرنے والوں میں شمار ہونگے۔ تب کہیں جاکر دوسری قومیں اور انکا میڈیا ، انکے ادارے، آپکی مرضی ، آپکی خواہش کا احترام کریں گے۔ آپ کو عزت دیں گے۔
ایسا ہوگا یا نہیں ہوگا۔ ایک آزمائشی کیس ریمینڈ ڈیوس ہے۔ اسی بارے میں حکومتی اونٹ کی کروٹیں گنتے جائیں اور آخر کار اسکے بیٹھنے سے پتہ چل جائے گا کہ ہمارے ارباب اختیار و اقتدار اس بارے کس حد تک سنجیدہ ہیں۔ انھیں پاکستان کی عزت اور عام پاکستانی کی زندگی جیسی متاع پہ اسکے گھر میں ڈالے گئے ڈاکے کی کسقدر پرواہ اور فکر ہے۔
اگر پاکستان کے عوام اور حکومت آج فیصلہ کر لے کہ آج رات سے انہوں نے کوئی غیر قانونی ، غیر اخلاقی، غیر اسلامی۔ حرکت اور کام نہیں کرنا تو ایک رات میں سارا پاکستان مسلمان ہوجاتا ہے۔ آخر اس امر میں مانع کیا ہے؟
گویا جو دھشتگرد ہو، وہ مسلمان ہوتا ہے یا پھر کشتی مین مسلمان ھی بھاری ھے۔
جاويد گوندل صاحب
ميرا بھی خيال تھا کہ ترجمہ کروں مگر وقت نہيں مل رہا تھا اور اسی طرح تاخير ہوتی جا رہی تھی
اسماء صاحبہ
يا مسلمان کشتی ميں بھاری ہے يا مسلمان کا سر چھوٹا ہے کہ پھندا فِٹ آ جاتا ہے