مجھے اپريل 2010ء کے شروع میں دو برقی پيغامات آئے جن ميں سے ايک بين الاقوامی آن لائن اخبار کی طرف سے تھا اور دوسرا ايک خاتون کی طرف سے جو تعليميافتہ اور شادی شدہ ہيں اور پاکستان ميں سرکاری افسر بھی رہ چکی ہيں چند سالوں سے بيرونِ مُلک ہيں ۔ دونوں نے عورت کے دماغی عمل کی وضع کاری بھيجی ہے جسے ميں فی الحال سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ اس کا آخری حصہ غور طلب ہے
Yearly Archives: 2010
ايک خيال
کہتے ہيں کہ ميرے ہموطن بہت ذہين ہوتے ہيں اور بڑے بڑے معرکے سر کر ليتے ہيں گو مجھے سوائے مال کمانے کے کچھ نظر نہيں آيا
کوپن ہیگن [ڈنمارک] میں قائم ایک
Five Star Hotel, Crowne Plaza نے اپنے مہمانوں کو پیشکش کی ہے کہ 15 منٹ تک ورزشی سائیکل کی پیڈلنگ کرنے پر انہیں 36 ڈالر تک مفت کھانے کی سہولت حاصل ہو گی ۔ سائیکل چلانے والے اپنا موٹاپا ۔ کوليسٹرال اور شوگر کم کرنے کے ساتھ کھانا بھی مفت کھا سکتے ہيں
کتنی اچھی پيشکش ہے ؟
دراصل اس ہوٹل نے ماحول دوست بجلی پیدا کرنے کا طریقہ کار اپناتے ہوئے ان ورزشی سائیکلوں کے ساتھ جنریٹر منسلک کئے ہوئے ہیں جو بجلی پیدا کرتے ہیں ۔ ايک آدمی 15 منٹ سائيکل چلا کر 10 watt-hour بجلی پيدا کرتا ہے يعنی ايک سائيکل سے ايک گھنٹہ ميں 40 watt-hour بجلی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ اس طریقہ کار کے ذریعے ماحو ل کاربن ڈائی آکسائیڈ سے محفوظ رہیگا
يہ طريقہ ہمارے مُلک کی اہم ضرورت ہے پھر کيوں ہمارے ہاں ايسا خيال کسی کو نہيں آتا ؟
بھارتی حکومت کا سيکولرزم ؟
مقبوضہ جموں کشمير ميں ایس ایم ایس پر پابندی
جموں و کشمیر میں پری پیڈ موبائل فون سرو س [Prepaid Mobile Phone Service] پر ڈھائی ماہ کی پابندی کے بعد حکومت ہندوستان نے ریاست میں اب ایس ایم ایس سروس پر پابندی عائد کرنے کے احکامات صادر کر ديئے ہیں ۔ مواصلاتی کمپنیوں [Telecom companies] سے کہا گیا ہے کہ وہ صارفین کو ایس ایم ایس سروس بند کرکے سرکاری احکامات پر فوری عمل درآمد شروع کریں جو 16 اور 17 اپريل کی درمیانی رات سے لاگو ہو چکے ہيں ۔ اس دوران پری پیڈ موبائل سے جموں کشمير ميں رہنے والوں کو بھیجے جانے والے پیغامات کو بھی محدود کردیا گیا ہے چنانچہ مواصلاتی کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ بھارت اور دنیا کے دیگر خطوں سے بھی جموں و کشمیر کی حدود میں کو ئی ایس ایم ایس موصول نہیں ہونا چاہيئے
تفصيل پڑھنے کيلئے يہاں کلِک کيجئے
بينظير کا قتل ۔ چند حقائق
ميں نے کبھی پی پی پی کو ووٹ نہيں ديا ليکن 27 دسمبر 2007ء کو ساڑھے پانچ بجے شام مجھے اُس کے قتل کی خبر موبائل فون پر ملی تو برملا ميرے منہ سے نکلا “ظُلم ۔ ظُلم ۔ بہت بڑا ظُلم “۔ ميرے ارد گرد اجنبی لوگ ميری طرف سواليہ نظروں سے ديکھنے لگے ۔ ميں نے جب اُنہيں خبر بتائی تو اُنہوں يقين نہيں آ رہا تھا
پچھلے سوا دو سال ميں بہت کچھ پڑھا اور سنا جا چکا ہے اور اب اقوامِ متحدہ کے خاص کميشن کی رپورٹ کے کچھ حصے بھی سامنے آ چکے ہيں ۔ کميشن کی رپورٹ کے مطابق “27 دسمبر 2007ء کو کيا ہوا” پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے
جو حقائق ميرے علم ميں تھے اور مجھے ابھی تک ياد ہيں
سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ميٹنگ ميں فيصلہ ہوا تھا کہ بينظير مری روڈ سے لياقت روڈ کے راستے لياقت باغ ميں داخل ہو نگی اور جلسہ ختم ہونے پر لياقت باغ سے باہر نکل کر داہنی طرف مُڑ کر آنے والے راستہ پر جانے کی بجائے بائيں طرف مُڑ کر لياقت روڈ پر سے ڈی اے وی کالج چوک سے بائيں مُڑ کر گوالمنڈی کے راستہ واپس جائيں گی ۔ مگر جب جلسہ کے بعد اُن کی گاڑی لياقت باغ سے باہر نکلی تو بائيں طرف لياقت روڈ پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھيں چنانچہ خلافِ توقع داہنی طرف مُڑنے کی وجہ سے گاڑی کو مُڑنے ميں زيادہ وقت لگا اور لوگ اکٹھے ہو گئے
لياقت روڈ کے دوسرے سرے پر راجہ بازار کے پاس ڈسٹرکٹ ہيڈ کوارٹر ہسپتال لياقت باغ سے صرف دو منٹ کی ڈرائيو پر تھا جہاں تمام عملہ عام قوانين کے تحت ہر قسم کے حالات سے نپٹنے کيلئے تيار تھا مگر اُس طرف کا راستہ بند کر ديا گيا
رحمان ملک بينظير کا سيکيورٹی ايڈوائزر تھا اور بينظير کی ملکيت اُس بُلٹ پروف گاڑی ميں سوار تھا جو کسی بھی ايمرجنسی کی صورت ميں بينظير نے استعمال کرنا تھی ۔ لياقت باغ آتے ہوئے يہ گاڑی اُس گاڑی کے پيچھے چلتی رہی جس ميں بينظير سوار تھيں مگر لياقت باغ سے واپسی پر وہ گاڑی سب سے پہلے لياقت باغ سے نکلی اور جب تک بينظير کی گاڑی لياقت باغ سے نکل کر داہنی طرف مڑ رہی تھی رحمان ملک زرداری ہاؤس ايف 8 اسلام آباد پہنچ چکا تھا
ضروری شواہد اکٹھے کئے بغير اور کسی قسم کی تفتيش کے بغير جائے وقوعہ کی دھلائی کر کے تمام نشانات مٹا ديئے گئے
پوليس مقتول کا پوسٹ مارٹم ہر صورت ميں کراتی ہے اور اس سلسلہ ميں کبھی مقتول کے ورثاء کی رائے نہيں لی جاتی مگر بينظير کا پوسٹ مارٹم کرنے کيلئے ہسپتال کے ڈاکٹر اسرار کرتے رہے مگر پوليس نے پوسٹ مارٹم نہ کرنے دیا
آصف زرداری ۔ بلاول زرداری يا پی پی پی ميں سے کسی نے اس قتل کی ايف آئی آر کٹوانے کيلئے پوليس کو درخواست نہ دی جو عمل سمجھ سے باہر ہے
پی پی پی کی حکومت بن جانے کے بعد بھی کوئی تحقيقات يا تفتيش نہ کروائی گئی
پی پی پی کی حکومت نے يہ جانتے ہوئے کہ اقوامِ متحدہ قاتل کا تعين نہيں کرتی عوام پر ٹيکس لگا کر وصول کئے گئے لاکھوں ڈالرز کے عوض تحقيقات اقوامِ متحدہ کے حوالے کیں ۔ پھر اقوامِ متحدہ کے کميشن کو متعلقہ عہديداران سے تفتيش بھی نہ کرنے دی گئی اور رپورٹ کو جلد مکمل ہونے سے روکنے کيلئے بار بار روڑے اٹکائے گئے
سوال يہ ہے کہ بينظير کو قتل کروانے والے کون ہيں ؟ حقيقت تو اللہ جانتا ہے يا قتل کروانے والے جانتے ہيں مگر حالات و واقعات تو پرويز مشرف اور آصف علی زرداری کی طرف اشارہ کرتے ہيں
روٹی کپڑا اور مکان
یہ ہماری ایک بڑی سیاسی جماعت کا نعرہ ہے جس کی بنیاد پر اُنہوں نے 1971ء کے الیکشن میں خاصی کامیابی حاصل کی تھی۔ یہ بے چاری سیدھی سادھی قوم ہے آپ اس کو جو بھی نعرہ دیں ، گولی دیں ، یہ بخوشی قبول کر لیتی ہے۔ پاکستان میں اس نعرہ کے بلند ہونے سے پیشتر یہ کمیونزم سے متاثر ہندوستان میں وجود میں آیا تھا اور یہ اس قد ر مشہور ہو گیا تھا کہ منوج کمار نے اپنی فلم کا یہی نام رکھدیا اور اس کو گولڈن جوبلی منا کر بہت شہرت ملی۔ کمیونزم نے ہندوستان میں پہلے اپنے قدم جمائے (مغربی بنگال اس کا گڑھ تھا) اور پھر پاکستان میں کچھ لوگ اس سے متاثر ہوئے کہ اس میں غریبوں کی مدد کا اصول اور وعدہ تھا۔ یہ تین نام یعنی روٹی، کپڑا اور مکان دراصل غریب انسان کی تین اہم بنیادی ضروریا ت کے نام ہیں یعنی خوراک، رہائش گاہ اور لباس (یعنی ستر پوشی)۔ عیار سیاست دانوں نے اس کی مقبولیت کو سمجھ کر انتخاب میں اپنے منشور میں شامل کر کے ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا اور وہ بے چارے غریب کی دلی تمنا اور آواز ہونے کی وجہ سے کامیاب رہے۔ دوسرے وعدوں کی طرح اس کا بھی بُرا حشر ہوا لیکن عوام خواب خرگوش میں مبتلا ہو کر اچھے دنوں کے خواب اور امید میں زند گی گزارنے لگے
ہندوستان میں بھوپال کا ایک چمار جگجیون رام نائب وزیراعظم اور وزیر دفاع کے عہدے پر فائز ہوا (اس کی بیٹی میرا کماری آجکل لوک سبھا کی اسپیکر ہے) ۔ یہ برسوں وزارت کے عہدے پر رہا اور اسکی مالی حالت اس قدر اچھی ہو گئی کہ پارلیمنٹ میں کسی نے جب اس سے سوال کیا کہ جگجیون رام جی آپکے بیٹے سریش بھائی نے چوبیس کروڑ روپیہ انکم ٹیکس کیوں ادا نہیں کیا تو منسٹر صاحب موصوف نے مسکرا کے فرمایا کہ وہ شاید بھول گیا ہو گا۔ اس سے آپ موصو ف کے ماضی اور موجو د ہ دولت کا اندازہ کر سکتے ہیں ۔ کچھ اسی قسم کے معجزات ہمارے ملک میں بھی ظہور پذیر ہوئے ہیں اور عوام ان سے اچھی طرح واقف بھی ہیں لیکن مجبور ہیں ، کچھ کر نہیں سکتے اور بولنے سے ڈرتے ہیں۔ بہرحال یہ اس ملک ہندوستان کا حال ہے جس نے یہ نعرہ ایجا د کیا تھا۔ لاتعداد کئی دوسرے سیاسی لیڈر بھی اس معجزے سے مستفید ہو گئے۔ جب یہ پُرکشش نعرہ پاکستان میں داخل ہو ا تو لیڈروں نے اس کو لبیک کہا اور گلے لگا لیا اور ہر گلی کوچے میں یہ نعرہ دیواروں پر نظر آنے لگا اور اس کا چر چا ہونے لگا لیکن نعرہ اورچیز ہے اور اس پر عمل کرنا دوسری چیز۔ اس نعرے کے تین اجزاء میں روٹی ، کپڑا اور
مکان ہیں اور ان میں روٹی سب سے زیادہ اہم ہے۔ روٹی صر ف روٹی ہی نہیں بلکہ کھانے پینے کی تما م چیزیں مثلاً اجناس، ترکاریاں ، گوشت ،چینی گھی اور تیل وغیرہ شامل ہیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ علامہ اقبال جو کمیونزم سے میلوں دور تھے انہیں بھی یہ کہنا پڑا :
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہءِ گندم کو جلا دو
ساتھ ہی انہوں نے ہمیں راستہ بھی بتلا دیا جس پر عمل ہو تو موجودہ نظام ہل جائے گا ۔
اُٹھو میری دنیا کے غر یبوں کو جگا دو
کاخ اُمراء کے در و دیوار ہلا دو
یہ بات برصغیر کے بڑے سے بڑے سوشلسٹ لیڈر کے ذہن میں اور زبان پر نہیں آ سکی ۔ راجہ مہدی علی خان نے یہ مشہور گیت لکھا تھا۔ ”دیوانہ آدمی کو بناتی ہیں روٹیاں“،
”خود ناچتی ہیں سب کو نچاتی ہیں روٹیاں“
عوامی کہاوت مشہور ہے کہ کسی نے بھٹو صاحب سے پوچھا کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا ”چار روٹیاں“۔ معین احسن مشہور بھوپالی شاعر جو علی گڑھ چلے گئے تھے انہوں نے بہت پیارا شعر کہاہے:۔
جب جیب میں پیسے ہوتے ہیں جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے
اس وقت یہ ذرہ ہیرا ہے اس وقت یہ شبنم موتی ہے
جگر مراد آبادی کو یہ شعر بہت پسند تھا ۔ بار بار یہ غزل پڑھواتے تھے اور جوش کی طرف مسکر ا کر کہتے تھے ۔ دیکھئے یہ ہے سوشلزم ۔ مذہبی اعتبار سے بھوکے کو کھانا کھلانا ثواب کا کام ہے ۔ پرانے زمانے میں امیر لوگ لنگر جاری کرتے تھے اور آج بھی نیک دل مخیر حضرات محدود طور پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزا دے اور بر کت عطا فرمائے۔ آمین
مشرف نے جہاں لاتعداد بدمعاشیاں کیں وہاں غریبوں سے روٹی تک چھین لی، اپنی گندم سستے داموں بیچ کر مہنگے داموں در آمد کیا اور لوگوں کو لمبی لمبی قطاروں اور فاقہ کشی پر مجبور کر دیا ۔ خوب کمیشن کھا یا اور مزے اُڑائے ، لاتعداد لوگ زخمی ہوئے اور فوت ہو گئے ۔ یہ کارکردگی ہے ہمارے حکمرانوں کی ۔ ماشاء اللہ موجودہ حکومت اُ س سے بھی دس قدم آگے بڑھ گئی ہے ۔ رمضان المبارک کے مہینے میں وزیروں اور ناظمین نے غریب خواتین او ر مر دوں کو تھپڑ لگا ئے ، جوتے مارے اور ڈنڈے برسائے۔ ایسے حکمران یقینا اپنے اعمال کا صلہ پائیں گے۔ اس بدنظمی کا سب سے بڑا سبب آئندہ آنے والے حالا ت سے غفلت ، ذخیرہ اندوزی اور وقت پر اناج کا ذخیر ہ نہ کرنا ہے اور کرپشن ہے۔ سر سے لے کر پیر تک ان کے بدن تعفّن کا شکار ہیں۔ یہی رواج جاری رہا تو کسان کاشتکار ی چھوڑ دے گا، لوگ اناج کو ترسنے لگیں گے اور غریب مستقل فاقہ کشی پر مجبور ہو جائے گا۔ خدا رحم کرے اور ہمیں ایسے حالات سے محفوظ رکھے ۔ آمین
دوسری اہم ضرورت کپڑا ہے جس سے ستر پوشی کے تمام وسائل موجو د ہیں۔ انسان کی تخلیق کے بعد ہی شجر ممنوعہ کے پاس جانے سے آدم و حوّا برہنہ ہو گئے تو ستر پوشی کے لئے درختوں کے پتے ان کے کا م آئے ، پھر جانوروں کی کھالیں یہ کام دینے لگیں ، چرخہ کی ایجا د ہوئی تو کھّد ر سے ہوتے ہوتے بڑے بڑے مِل بن گئے لیکن مہنگائی بھی بڑھنے لگی تو ساحر لدھیانوی چلا اُٹھا :
مِلیں اس لیے ریشم کے ڈھیر بُنتی ہیں
کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں
آج اُمراء کے پاس ضرورت سے زیادہ اور غریب کے پاس بمشکل ستر چھپانے کو کپڑ ے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ نئے نئے فیشن کی وجہ سے امیر لوگ پرانے کپڑے جلد غریبوں کو دے دیتے ہیں۔ اسی طرح باہر سے پرانے کپڑے ، جو اعلیٰ قسم کے اور اچھی حالت میں ہوتے ہیں ، در آمد کئے جاتے ہیں اور لنڈ ا بازار میں معمولی قیمت پر غربیوں کو مل جاتے ہیں اور خاص طور پر سر دی کے موسم میں ان کو سردی کی شد ت سے بچا لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ عر صہ بعد لوگ بنیان اور لنگی اور پھر شاید قدرتی لباس میں نظر آنے لگیں۔ اسی لئے شاعر نے برجستہ کہا تھا:
تن کی عریانی سے بہتر ہی نہیں کوئی لباس
یہ وہ جامہ ہے نہیں جس کا کچھ اُلٹا سیدھا
کپڑے کی انسان کو نہ صرف زندگی میں بلکہ موت کے بعد بھی کفن کی صورت میں ضرورت پیش آتی ہے گویا :
جائے گا جب یہاں سے کچھ بھی پاس نہ ہو گا
دو گز کفن کا ٹکڑا تیرا لباس ہو گا
(اسد بھوپالی )
نعرے لگانے کے بجائے موجودہ حکومت کا فرض ہے کہ غریبوں کو کم قیمت پر کپڑا مہیا کرے اور اپنے لیڈروں کے وعدوں کا ایفا کرے۔
سب سے آخری مگر نہایت اہم ضرورت سر چھپانے کی جگہ ہے جس کو کُٹیا ، چھونپڑی، مکان، فلیٹ، حویلی، محل وغیرہ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ۔
دراصل یہ سائبان سر چھپانے اور قیام و رہائش کی جگہ ہے جسے کسی نہ کسی طرح حاصل کرنا فطرت و ضرورت انسانی ہے۔ آسمان ، فلک ، چرخ نیلی کو شاعروں نے ظالم اور بُرا کہا ہے سوائے ایک شاعر آتش لکھنوی کے جس نے کہا تھا:
خدا دراز کرے عمر چر خ نیلی کی
کہ ہم اسیروں کی تربت پہ شامیانہ ہوا
وہ تو تربت پر شامیانہ کو غنیمت سمجھتے ہیں مگر آج زندہ لوگ چھت سے محروم ہیں اور شاعر کو کہنا پڑتا ہے:
فٹ پاتھ پہ سو جاتے ہیں اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
اس طرح پچھلے چند سالوں میں لوگوں کو اس حالت میں پہنچا دیا ہے کہ آج فٹ پاتھ ، ویران علاقہ ، کھنڈرات ، درختوں کے سائے اور کچی
جھونپڑیا ں ان کی پناہ گاہیں بن گئی ہیں۔ غریب اب غریب سے غریب تر ہو گیا ہے، نہ کھانا مل رہا ہے ، نہ کپڑا پہننے کو مل رہا ہے اور نہ سر پہ سایہ ہے۔ یہ موجودہ ترقی یافتہ زمانہ ہے اس کے مقابلہ میں ذرا وہ غیر ترقی یافتہ زمانہ جو حضرت عمر اور حضرت عمر بن عبد العزیز کا دیکھیں ، کوئی غریب نہ تھا، کوئی زکوة لینے والا نہیں ملتا تھا۔ نہ ہوائی جہاز، نہ بحری جہاز، ریل ، ٹرک، ٹیلیفون، موبائل، ای میل، فیکس وغیرہ کچھ بھی نہ تھا پھر بھی مدینہ سے تاشقند ، ثمر قند اور شمالی افریقہ تک کے ممالک کے عوام کو تمام ضروریات زندگی میسر تھیں اور امن و امان قائم تھا۔ حکمران خوف الہٰی سے کانپتے تھے اور رات میں گھنٹوں عبادت اور دعا مانگتے رہتے تھے۔ مگر آج کے حکمران ہر چند روز بعد ایوانوں میں عشائیہ دیتے ہیں ، لاکھوں روپے کے اعلیٰ کھانے کھائے جاتے ہیں اور عوام کو ہر دوسرے روز جھوٹے وعدوں سے بہلا دیا جاتا ہے ۔ اس کی یقینا باز پُرس ہو گی اور ان کے اعمال کا بدلہ ان کو دیا جائے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ہیں اور مخلص لوگوں کی تجاریز اور مشورے ان کے بہرے کانوں تک نہیں پہنچتے ، گویا بقول مومن#:
تیرا ہی دل نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں
کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے جوکہ ایوانوں کے مکینوں کے ضمیر کو ہلانے کو کافی ہے :
”جو گھر بنا تے ہیں اس گھر میں وہ نہیں رہتے “
بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ روٹی ، کپڑ ا اور مکان کا نعرہ توپورا نہ ہو سکا بلکہ اس کی جگہ جوتا، لاٹھی اور تھپڑ نے لے لی ہے۔
تحرير ڈاکٹر عبدالقدير خان ۔ بشکريہ جنگ
تصحيح
ميری تحرير ” چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ہندسے” کے متعلق سعادت صاحب کے توجہ دلانے پر ميں نے ديکھا کہ ميں نے اُردو لکھنے ميں غلطی کر دی تھی ۔ اب درست کر ديا ہے جو کہ اس طرح ہے ۔
ان پر مزید کام کرتے ہوئے ایک معروف مُسلم سائنسدان ابو عبداللہ محمد ابن موسٰی الخوارزمی نے صفر کو بھی قیمت عطا کی ۔ اکائی کے حصے اعشاریہ کی صورت ميں کئے اور ریاضی کے دو ایسے نظام وضع کئے جنہيں ايلگورتھم [algorithm] اور لوگرتھم [logrithm] کے ناموں سے جانا پہچانا جاتا ہے
لو کر لو بات
بقلم خود
عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر تعلیم قاضی اسد کے بعد عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ايک اور رکن سرحد اسمبلی گوہر نواز نے بھی ہزارہ کو الگ صوبہ بنانے کے لئے اسمبلی سیکریٹریٹ میں قرارداد جمع کرا دی ہے
اب قائد صرف ايک کيا کريں گے؟
کراچی سینٹرل جیل کے جوڈیشل کمپلیکس میں واقع عدالت نے غیرقانونی اسلحہ اوردھماکہ خیزموادرکھنے کے مقدمے میں مہاجر قومی مومنٹ پاکستان کے چئیرمین آفاق احمد کو ناکافی شہادتوں کی بنا پر بری کردیا۔ آفاق احمد پر یہ مقدمہ 5 اگست 2004ء کو قائم کیا گیا تھا
