Yearly Archives: 2010

ہم کيا کر سکتے ہيں ؟

شگفتہ صاحبہ نے پوچھا ” کیا کوئی ہے جو پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہے ، اپنے معاشرے کے لیے کچھ کرنا چاہے ، اپنے لیے کچھ کرنا چاہے

سب سے پہلے تو ہر فرد کو يہ سمجھنا ہے کہ جب ہم اپنے ملک يا معاشرے کيلئے کچھ کرتے ہيں تو دراصل وہ ہم اپنے لئے اور اپنی اولاد کيلئے ہی کرتے ہيں اور اگر ملکی املاک کو کوئی نقصان پہنچاتے ہيں يا معاشرہ ميں کوئی گڑبڑ کرتے ہيں تو دراصل اپنا ہی نقصان يا بگاڑ کرتے ہيں

بہت کچھ ہے جو ہر فرد اپنی سطح پر بغير زيادہ مشقت اُٹھائے کر سکتا ہے ۔ مُشکل يہ ہے کہ ايک تو ہم لوگوں کی اکثريت باتوں کے شير اور عمل ميں ڈھير ہيں ۔ دوسرے ہم صرف حقوق کی بات کرتے ہيں جو خواہ ہوں يا نہ ہوں مگر ذمہ داری سے دُور بھاگتے ہيں حالانکہ جب تک ذمہ داری نہيں نبھائيں گے حق نہيں ملے گا بلکہ يوں کہنا چاہيئے کہ اگر ہر کوئی اپنی ذمہ داری نبھائے گا تو کسی کی حق تلفی ہو گی ہی نہيں

اوّل اور لازم عمل يہ ہے کہ جو کوئی بھی پاکستان کی شہريت رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو پاکستانی سمجھے کہے اور لکھے ۔ اگر وہ پنجابی يا سندھی يا پٹھان يا بلوچ يا اُردو سپيکنگ يا حق پرست ہے تو اپنے گھر پر ہو گا ۔ يہ پہچان صرف اُس کے خاندان يا محلہ کيلئے ہے مُلک کيلئے نہيں

اپنے گھر کا کوڑا کباڑ گلی يا سڑک کے کنارے پھينکنے کی بجائے ايک تھيلے يا ٹوکری يا بالٹی ميں ڈال کر اس کيلئے رکھے گئے کنٹينر کے اندر ڈاليں ۔ کنٹينر کے باہر نہ پھينکيں ۔ گاڑی ميں جاتے ہوئے گاڑی سے باہر کچھ نہ پھينکيں ۔ اسے ايک تھيلے ميں ڈال کر رکھيں اور جہاں اسے ڈالنے کا ڈبہ ملے اس ميں ڈاليں

جب بھِيڑ ہو تو قطار بنائيں اور صبر سے اپنی باری کا انتظار کريں ۔ سڑک پر گاڑی پر جارہے ہوں تو ہر وقت آگے نکلنے کی کوشش نہ کريں بلکہ دوسروں کا حق پہچانيں ۔ بالخصوص پيدل سڑک پار کرنے والے کو راستہ ديں

کسی کا مذاق نہ اُڑائيں

اپنی بڑھائی دکھانے کيلئے بڑی بڑی گاڑياں خريدنا اور گھر کے گرد بيش قيمت اور بڑے بڑے قمقمے جلانا بند کر ديں

فضول ضيافتوں جيسے مہندی تيل وغيرہ کو خير باد کہيں اور اس طرح ہونے والی بچت کو قومی يا اپنے خاندان کی بہتری ميں لگائيں

ميکڈونلڈ ۔ کے ايف سی ۔ وِيليج ۔ سَب وے وغيرہ پر صرف اس وقت جائيں جب کسی مجبوری کے تحت گھر ميں کھانا نہ پکايا جا سکا ہو ۔ يہ بچت آپ کے ہی کام آئے گی ۔ گھر کے سادہ کھانے صحت کيلئے بھی مفيد ہوتے ہيں

اگر آپ کے پاس فالتو کھانا ہے تو اپنے گلی محلے پر نظر رکھيں کہ کوئی سفيد پوش بھوکا نہ رہے

اگر آپ کے پاس فالتو پيسے ہيں تو کسی ايسے بچے کی تعليم کا خرچ اپنے ذمہ لے ليں جس کے والدين يہ خرچ برداشت نہيں کر سکتے

رازق و مالک اللہ ہے فانی مخلوق کی بجائے پيدا کرنے اور مارنے والے مالک کُل پر بھروسہ رکھيں اور ہر قسم کی رشوت لينا اور دينا چھوڑ ديں

سب سے بڑی بات کہ جھوٹ کبھی نہ بوليں سوائے اس کے کہ کوئی گردن پر چھُری رکھ کر جھوٹ بولنے پر مجبور کرے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہميں دين کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفيق عطا فرمائے

[ميں نے صرف وہ عوامل لکھے ہيں جن پر ميں اور ميرے بيوی بچے عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہيں اور اللہ کی دی ہوئی توفيق سے عمل کر رہے ہيں]

محلِ وقوع

جن صاحب نے ہیلو۔ہائے۔اےاواے ۔ A Pass By ۔ بھونچال ۔ ميرے نام اور ديگر ناموں سے پراگندہ تبصرے مختلف بلاگز پر کئے ہيں اُن کا محلِ وقوع دريافت ہو گيا ہے ۔ اگر ميں اسلام آباد ميں ہوتا تو شايد اُن تک پہنچ بھی جاتا ۔ محلِ وقوع کچھ اس طرح ہے

اسلام آباد ميں بنی گالہ کے جنوب ميں ۔ راول جھيل کے مشرق کی طرف ۔ لکھوال کے مشرق مشرق شمال کی طرف ۔ پارک روڈ بنی گالہ لِنک کے قريب مشرق کی طرف

موصوف ہائر ايجوکيشن کميشن اسلام آباد کا انٹرنيٹ استعمال کر رہے ہيں . آئی پِيز ہيں
111.68.99.198
111.68.99.208

آپ مجبور ہيں تو ميں بھی مجبور ہو سکتا ہوں

ميرے معزز قارئين کو مجھ سے متنفر کرنے کی ايک بودی کوشش ميری تحارير پر ميرا بلاگ اور ای ميل ايڈريس استعمال کرتے ہوئے ميری طرف سے تبصرہ کيا گيا ۔ ميں نے انٹرنيٹ اعداد و شمار کے ريکارڈ کے ذريعہ معلوم کر ليا تھا کہ يہ کس کی حرکت ہے

يہ تبصرے لکھنے والے ہيں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیلو۔ہائے۔اےاواے

نام ظاہر کرنے کی ضرورت يوں پيش آئی کہ موصوف نے ميرا نام بگاڑ کر ميرا بلاگ اور ای ميل ايڈريس استعمال کرتے ہوئے ايک اور تبصرہ لکھ ديا

مجھے کچھ معزز قارئين نے نام ظاہر کرنے کی فرمائش بھی کی تاکہ وہ موصوف کے شر سے محفوظ رہ سکيں ليکن ميں نے نام ظاہر کرنے کی بجائے موصوف کو احساس دلانے کی کوشش ميں ايک تحرير لکھ دی ۔

تبصرے بحال کر ديئے ہيں اور نيچے نقل بھی کر ديئے ہيں
چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ عوامی نظريہ ضرورت پر 10 مئی کو بعد دوپہر ايک بج کر 43 ميٹ 41 سيکنڈ پر ۔ تبصرہ نمبر 6
میرے ساتھ تو تو تو تو تو شائشتگی سے بات کریں ورنہ میری میری میری میری میری ناشائشتگی کی بہت بہت بہت بہت بہت ہی معقول وجہ ہے اور اگر اس معقولیت کا ثبوت مانگا تو تو تو تو تو میں بھی دیکھ لونگا اور اور اور اور اور وہ بھی دیکھ لینگے ۔

چالاک مگر بيوقوف شخص پر 13 مئی کو صبح 7 بج کر 47 منٹ پر تبصرہ نمبر 9
میں ہوں بھونچال میں نے تو دینی ہی ہیں لوریاں، بھلا ہو بھونچال ۔ مارکس کی بدروح جتنا بھی ہو ئے بے حال ۔ ڈرو بھونچال سے، میں ہوں بھونچال، میں ہوں بھونچال ۔ میں ہوں، میں ہوں، میں ہوں، بھونچال ۔

چالاک مگر بيوقوف شخص

ميں 9 مئی 2010ء کی صبح اسلام آباد چلا گيا تھا اور 11 مئی 2010ء کی شام کو واپس لاہور پہنچا ہوں ۔ اسلام آباد ميں مصروفيت اتنی زيادہ تھی کہ ميں کمپيوٹر پر کام کرنا تو کُجا اس کا سوچ بھی نہ سکا

ايک شخص نے 10 مئی 2010ء کو بعد دوپہر ايک بج کر 43 منٹ 41 سيکنڈ پر ميرے بلاگ اور ای ميل ايڈريس کو استعمال کر کے ميری ہی تحرير پر فضول تبصرہ کيا ۔ اُس نے اپنا سب کچھ پوشيدہ رکھنے کی کوشش کی ليکن اُسے يہ شايد خبر نہيں کہ ايک ايسا نمبر ہے جو کوئی پوشيدہ نہيں رکھ سکتا ۔ وہ نمبر ميں نے محفوظ کر ليا ہے ۔ اگر ميں 10 مئی کو ہی يہ تبصرہ ديکھ ليتا تو اُس شخص کے متعلق زيادہ معلومات حاصل ہو سکتی تھيں

بہرکيف اس شخص نے اپنا چھوٹا پن ظاہر کر ديا ہے ۔ اُسے يہ بھی احساس نہيں ہے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی کسی کا کچھ نہيں بگاڑ سکتا ۔ اللہ ہميں سيدھی راہ پر چلنے کی توفيق عطا فرمائے

پروپيگنڈہ اور لطيفے

عام طور پر پروپيگنڈہ کا اثر بلا تامل قبول کر ليا جاتا ہے ۔ بہت کم لوگ جانتے ہيں يا احساس رکھتے ہيں کہ پروپيگنڈہ کا اثر لينے کا مطلب کسی دوسرے کے ہاتھ ميں کھيلنا ہوتا ہے ۔ اسی طرح لطيفے سُن کر دوسروں کو سُنانا عام انسان کا معمول بن چکا ہے يہاں تک کہ کئی لطيفے کسی انسان کی دل آزاری يا اللہ يا رسول کے حضور ميں گُستاخی کے موجب ہوتے ہيں

انٹرنيٹ سے تعلق رکھنے والے جانتے ہوں گے کہ کبھی کبھی ای ميل آتی ہے کہ فلاں فلاں ويب سائٹ نہ پڑھيں اور اپنے سب دوستوں کو يہ ای ميل فارورڈ کريں ۔ کبھی کسی نے تحقيق کی کہ ايسی ای ميل کا منبع کہاں ہے ؟ ايسی ای ميلز کا مقصد زيادہ سے زيادہ قارئين کو اس غلط ويب سائٹ سے متعارف کروانا ہوتا ہے ۔ منصوبہ يہ ہوتا ہے کہ اگر 5 فيصد قارئين بھی وہاں لکھی عبارت کا اثر لے ليں يا اصل عبارت کو مشکوک سمجھنے لگ جائيں تو يہ تحريک شروع کرنے والے کی 100 فيصد کاميابی ہو گی

پروپيگنڈہ اس طرح نہيں ہوتا جيسے بہار يا برسات کے موسم ميں اچانک کونپليں پھوٹ پڑتی ہيں بلکہ اس کيلئے باقاعدہ اور لمبی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور ان کی نمُو کيلئے لمبی لمبی رقميں خرچ کی جاتی ہيں ۔ پروپيگنڈہ کے دو منفرد جزو ہيں ۔ ايک من گھڑت واقعات پھيلانا اور دوسرا لطيفے ۔ مقصود کسی گروہ يا قوم کے ذہن بدلنا ہوتا ہے

برطانيہ اُنيسویں صدی کے آخر اور بيسويں صدی ميں اُردن اور ہندوستان ميں ذہن بدلنے کی کامياب کوشش کر چکا تھا مگر دوسری جنگِ عظيم کے بعد محسوس کيا گيا کہ جنگ اور قبضہ کے بعد ايسا کرنے ميں جيتنے والے کا بھی کافی نقصان ہوتا ہے چنانچہ ايسا طريقہ نکالا جائے جس سے سانپ مر جائے اور لاٹھی بھی سلامت رہے ۔ اس میں پہل سووئٹ رشيا [USSR] نے کی اور يہ کام کے جی بی کے سپرد کيا ۔ امريکا [USA] کو بھی بھِنَک پڑ گئی اور اس نے يہ کام سی آئی اے کے سپرد کر ديا ۔ چنانچہ جسمانی جنگ کی بجائے ذہنی جنگ کا آغاز ہو گيا جس ميں اپنا مال خرچ کر کے دوسری قوموں کی زمينوں کی بجائے اُن کے ذہنوں پر قبضہ کرنے کی مُہمات شروع ہو گئيں ۔ اس پروپيگنڈہ کی جنگ کی دو شاخيں بنائی گئیں ۔ ايک لطيفے اور دوسرا من گھڑت واقعات ۔ جس ملک پر قبضہ کرنا مقصود ہو ان ميں سے ايک يا دونو اُس ملک ميں پھيلا کر وہاں کے باشندوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنا بنيادی مقصد قرار پايا ۔ مفکرين [Think Tanks] اس کام پر لگ گئے پھر لطيفوں اور من گھڑت واقعات کی قيمت لگنے لگی ۔ کئی ايسے لطيفے بھی تھے جن ميں سے ہر ايک کا معاوضہ 5 لاکھ روبل يا ڈالر ديا گيا ۔ ان منصوبوں ميں يگانگت يہ ہے کہ ان کا حدف صرف مسلم ممالک تھے جن ميں ہمارے مُلک [پہلے ہندوستان اور پھر پاکستان] کو ترجیح دی گئی

کچھ پرانے واقعات

پاکستان بننے کے بعد ايک لطيفہ مشہور کيا گيا کہ انگريزوں نے کچھ کشميری جوان فوج ميں بھرتی کر لئے ۔ جب اُنہيں بندوقيں دی گئیں تو اُنہوں نے کہا “تُپے رکھدا سُو ٹھُس کردا سُو” [اسے دھوپ ميں رکھو خود ہی چلے گی] يعنی کشميری اتنے بزدل ہوتے ہيں ۔ حقيقت يہ تھی کہ کشميريوں نے بغير کسی کی مدد کے ستمبر اکتوبر 1947ء ميں گلگت بلتستان وغيرہ آزاد کرا ليا تھا اور پرانے ہتھياروں کو استعمال کر کے منظم بھارتی فوج سے لڑ کر جنوری 1948ء تک وہ علاقہ جسے آزاد جموں کشمير کہا جاتا ہے بھی آزاد کرا ليا تھا

پاکستان کے پہلے وزيرِ اعظم نوابزادہ لياقت علی خان کی بيوی بيگم رعنا لياقت علی کے متعلق مشہور کيا گيا کہ ہندو ہے ۔ نوابزادہ لياقت علی خان کے قتل کے بعد جب لوگوں نے اپنی آنکھوں سے بيگم رعنا لياقت علی کو قرآن شريف کی تلاوت کرتے ديکھا تو پشيمان ہوئے

قائد اعظم محمد علی جناح کے متعلق کئی بار مشہور کيا جا چکا ہے کہ وہ اچھے مسلمان نہيں تھے جبکہ قائد اعظم نے بارہا اپنی تقريروں ميں دين اسلام اور اس پر عمل کی بات کی اور اُن کے قريب رہنے والے شہادت دے چکے ہيں کہ اُنہوں نے قائد اعظم کو نماز پڑھتے اور مصلے پر دعا کے دوران آنسو بہاتے ديکھا تھا

نوابزادہ لياقت علی خان امريکا کی دعوت پر امريکا گئے ۔ اُن کے واپس آنے پر مشہور کر ديا گيا کہ وہ امريکا کے دستِ نگر بن گئے ہيں ۔ کئی سال بعد سرکاری ريکارڈ سے ظاہر ہوا کہ امريکا نے بُلايا تو اپنی تابعداری کيلئے تھا مگر نوابزادہ لياقت علی خان نے کہا ” ہم ايک خود مُختار رياست ہيں”۔ اور يہی بات اُن کے قتل کا سبب بنی

جب جنرل ايوب خان نے امير محمد خان نواب کالا باغ کو پنجاب کا گورنر بنايا تو مشہور کيا گيا کہ امير محمد خان قاتل اور غُنڈا ہے ۔ حقيقت يہ ہے کہ امير محمد خان صرف ايک روپيہ ماہانہ تنخواہ ليتے تھے ۔ اپنے بيوی بچوں کو کبھی گورنر ہاؤس ميں نہيں رکھا ۔ اُن کا کھانا اُن کے گھر سے آتا تھا ۔ اپنا بستر بھی وہ اپنے گھر سے لائے ہوئے تھے ۔ جب وہ گورنر تھے تو اُن کے دو بيٹے لاہور ميں پڑھ رہے تھے جو کرائے کے مکان ميں کچھ اور لڑکوں کے ساتھ رہتے تھے روزانہ اپنے بائيساکلوں پر کالج جاتے تھے ۔ ايک دن چھوٹا بيٹا جو لاء کالج ميں پڑھتا تھا کا بائيسائکل خراب تھا تو صبح سويرے پيدل کالج جا رہا تھا کہ چڑيا گھر کے قريب گورنر کی سرکاری کار آ کر رُکی ۔ ڈرائيور نے حال احوال پوچھا اور کہا “ميں سيکريٹريٹ جا رہا ہوں ۔ بيٹھ جائيں راستہ ميں اُتر جانا “۔ وہ بيٹھ گيا ۔ دو دن بعد گورنر امير محمد خان نے بُلا بھيجا ۔ وہ گيا تو اُسے باپ نے بہت ڈانٹا

ايک بزرگ ريٹائرڈ اعلٰی اہلکار نے مجھے بتايا تھا کہ ايک نيک بزرگ لاہور ميں فوت ہو گئے ۔ اُن کی وصيت تھی کہ نمازِ جنازہ وہ پڑھائے جس نے کبھی نماز قضا نہ کی ہو ۔ بڑے بڑے مسلمان جنازہ پڑھنے آئے ہوئے تھے سب خاموش سر جھکائے کھڑے تھے پانچ سات منٹ بعد امير محمد خان جو پچھلی صفوں ميں کھڑے تھے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے آگے آئے اور نمازِ جنازہ پڑھائی ۔ کوئی ليڈی ڈاکٹر ميانوالی ميں تعينات ہونا پسند نہ کرتی تھی ۔ ايک ليڈی ڈاکٹر وہاں تعينات کی گئی ۔ وہاں ايک عورت کا غلط معائنہ سرٹيفيکيٹ مانگا گيا جو اُس نے نہ ديا ۔ دوسرے دن وہ اغواء ہو گئی ۔ اُس کے خاوند نے گورنر کو درخواست دی اور بتايا کہ ڈاکٹر کو نيو خان بس سروس کی بس پر ليجايا گيا تھا جس پر گورنر کے حُکم سے نيو خان کی تمام بسیں جہاں جہاں تھیں روک دی گئيں ۔ يہ بسيں ايک بہت بڑے شخص کے خاندان کی بسيں تھيں جس کی بيٹی گورنر کی بہو تھی ۔ تين دن بعد ڈاکٹر بحفاظت اُس کے گھر پہنچا دی گئی

جب ذوالفقار علی بھٹو وزير اعظم بنے تو چوہدری فضل الٰہی صاحب کو صدر بنايا گيا ۔ اُن کے متعلق ايک لطيفہ مشہور ہوا کہ وزير اعظم دساور سے وطن واپس آ رہے تھے تو صدر نے اپنے سيکريٹری سے کہا “بھٹو صاحب آ رہے ہيں ۔ اُن کا استقبال کرنے ايئر پورٹ چليں” ۔ سيکريٹری نے کہا “سر ۔ آپ صدر ہيں ۔ صدر وزير اعظم کا استقبال کرنے نہيں جاتے”۔ تو چوہدری فضل الٰہی صاحب نے کہا ” مياں ۔ اچھی طرح پتہ کر لو ۔ کہيں مروا نہ دينا”
مطلب يہ کہ چوہدری فضل الٰہی صاحب صدارت کے اوصاف سے ناواقف اور بزدل تھے ۔ مگر جب ريٹائرڈ جنرل ٹکا خان کی تجويز کہ” دو تين لاکھ لوگ مار ديئے جائيں تو پھر بھٹو کی کوئی مخالفت نہ کرے گا” بھٹو صاحب نے منظور کر کے صدر صاحب کو دستخط کليئے بھيجی تو چوہدری فضل الٰہی صاحب نے بھٹو اور اُن کے ساتھوں کو قيد کروا ديا ۔ اس طرح اُن کی حکومت جاتی رہی [اسے ضياء الحق کا مارشل لاء کہا جاتا ہے ۔ يہ لمبی کہانی ہے ميں نے صرف نتيجہ لکھ ديا ہے]

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ عوامی نظریہ ضرورت

ہنری بريکٹن [1210 تا 1268ء] ايک برطانوی ماہرِ قانون تھا جس نے کہا تھا “جو عمل قانونی نہ ہو وہ ضرورت کے تحت قانونی بن جاتا ہے”۔ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل غلام محمد نے من مانی چلانے کيلئے بغير کسی جواز کے پہلے مُنتخب وزير اعظم پھر مُنتخب کابينہ فارغ کر دی اور پھر پاکستان کی مُنتخب اسمبلی کو 24 اکتوبر 1954ء کو اُس وقت چلتا کيا جب اسمبلی پاکستان کا آئين متفقہ طور پر منظور کرنے والی تھی ۔ اس کے خلاف اسمبلی کے سپيکر مولوی تميز الدين صاحب نے سندھ چيف کورٹ [اب ہائيکورٹ] میں پيٹيشن دائر کر دی جو منظور ہو گئی ۔ غلام محمد اور اس کے نامزد نئے وزراء نے اس کے خلاف اپيل دائر کی جس کا فيصلہ مارچ 1955ء ميں عدالت نے جسٹس منير کی سربراہی میں غلام محمد کے حق میں دے ديا ۔ اس کے نتيجہ میں 1950ء سے لے کر اُس دن تک جو بھی کاروائی ہوئی تھی سب غيرقانونی ہو گئی ۔ اس انتشار سے بچنے کيلئے غلام محمد نے اسمبلی توڑنے کے علاوہ تمام احکام کی پرانی تاريخوں سے منظوری کا حکمنامہ جاری کر ديا ۔ اس کالے قانون ‘نظريہ ضرورت” کا استعمال بار بار کيا گيا جس کے نتيجہ میں ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے

يہ تو معاملات حکومتی ہيں جنہيں آج تک سب بُرا کہتے آئے ہيں ليکن “نظريہ ضرورت” کا کُليہ ہماری قوم کی رگوں میں اس قدر حلُول کر چکا ہے کہ جسے ديکھو وہ پورے کرّ و فر سے اس کا استعمال کر رہا ہے ۔ بات چاہے پہاڑوں پر برف پڑنے سے شروع ہو يا درياؤں کا پانی کم ہونے سے ۔ نظامِ تعليم سے يا کھيلوں سے ۔ بات پٹرول اور گيس کی قمتيں بڑھنے کی ہو يا بجلی کی کمی کی ۔ کسی طرح گھسيٹ گھساٹ کر اس میں اسلام اور انتہاء پسندی ضرور لائی جاتی ہے يا کسی طرح مُلا کے اسلام سے ناپسنديدگی کا اظہار ضرور ہوتا ہے

کبھی ان باعِلم اور ہرفن مولا لوگوں نے سوچا کہ يہ مُلا آئے کہاں سے آئے ہيں ؟ اور اِنہيں مسجدوں میں کس نے بٹھایا ہے ؟

جن لوگوں کو مُلا کا اسلام پسند نہيں وہ کونسا اسلام رائج کرنا چاہتے ہيں ؟ وہ اسلام جو اُنہيں من مانی کرنے کی اجازت دے ؟

ايک مسئلے کا حل تو ان لوگوں کے ہاتھ ميں ہے ۔ اگر یہ مُلا بقول ان کے جاہل ہیں تو اپنے محلے کی مسجد کے مُلا کو ہٹا کر وہاں دين اسلام میں اعلٰی تعليم یافتہ آدمی کو مسجد کا امام بناديں ۔ کس نے ان کو ايسا کرنے سے روکا ہے ؟ ليکن وہ ايسا نہيں کريں گے کيونکہ يہی مُلا جس کو وہ اپنی تقريروں اور تحريروں میں جاہل ۔ انتہاء پسند اور نجانے کيا کچھ کہتے ہيں وہ اپنا اور اپنے بيوی بچوں کا پیٹ بھرنے کيلئے محلہ والوں کا دستِ نگر ہے اور اُن کے ہر جائز و ناجائز فعل پر اُن کی مرضی کا فتوٰی ديتا ہے

تعليم يافتہ امام مسجد رکھيں گے تو پندرہ بيس ہزار روپيہ ماہانہ تنخواہ مانگے گا ۔ بات صرف وہ کرے گا جو قرآن و حديث میں ہے اور محلہ والوں کے خلافِ دين افعال پر تنقيد بھی کرے گا ۔ ايسے شخص کو يہ لوگ کيسے برداشت کر سکتے ہيں ؟

ايک اور پہلو ہے جسے شدّ و مد کے ساتھ نظر انداز کيا جاتا ہے ۔ کيا يہ مُلا ہمارے ہی معاشرہ کا حصہ نہيں ہيں ؟ کونسی بُرائی ہے جو ہمارے معاشرے کے ہر طبقہ ميں نہيں ؟ پھر اگر ايک شخص نے داڑھی رکھ لی ہے اور اُس ميں وہی بُرائی ہے جو معاشرے کے دوسرے طبقات جن ميں اکثر مراعات يافتہ ہيں ميں بھی ہے تو مطعون صرف داڑھی والے کو کيوں کيا جاتا ہے ؟

لوگ صرف باتوں پر اکتفا کرتے ہيں کہ آج کی سياست اور کشادہ نظری کی بنياد تقرير و تحرير پر قائم ہے عمل پر نہيں
جبکہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
يہ خاکی اپنی فطرت ميں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

دو سطريں

دو سطروں کے لطيفے ۔ کہاوتيں ۔ بول وغيرہ بھيجنے کی دعوت دی گئی ۔ جن دو سطروں نے انعام پايا وہ يہ ہيں

ايک فلسفی نے لکھا
“زندگی ميں ميری کھو جانے والی اشياء ميں سے
سب سے زيادہ کمی ميں اپنے دماغ کی محسوس کرتا ہوں”۔