رہے جب تک ارکانِ اِسلام برپا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چلن اہلِ دیں کا رہا سیدھا سادا
رہا مَیل سے شہد صافی مصفّا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رہی کھوٹ سے سِیمِ خالص مبرا
نہ تھا کوئی اسلام کا مردِ میداں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علم ایک تھا شش جہت میں درافشاں
پہ گدلا ہوا جب کہ چشمہ صفا کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گیا چھوٹ سررشتہ دینِ ھدیٰ کا
رہا سر پہ باقی نہ سایہ ہُما کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو پورا ہوا عہد جو تھا خدا کا
کہ ہم نے بگاڑا نہیں کوئی اب تک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بگڑا نہیں آپ دنیا میں جب تک
بُرے ان پہ وقت آکے پڑنے لگے اب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دنیا میں بس کر اُجڑنے لگے اب
بھرے ان کے میلے بچھڑنے لگے اب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنے تھے وہ جیسے بگڑنے لگے اب
ہری کھیتیاں جل گئیں لہلہا کر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھٹا کھُل گئی سارے عالم پہ چھاکر
نہ ثروت رہی ان کی قائم نہ عزت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گئے چھوڑ ساتھ ان کا اقبال و دولت
ہوئے علم و فن ان سے ایک ايک رخصت۔ ۔ مِٹیں خوبیاں ساری نوبت بہ نوبت
رہا دین باقی نہ اسلام باقی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اک اسلام کا رہ گیا نام باقی
ملے کوئی ٹیلہ اگر ایسا اونچا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ آتی ہو واں سے نظر ساری دنیا
چڑھے اس پہ پھر اک خرد مند دانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ قدرت کے دنگل کا دیکھے تماشا
تو قوموں میں فرق اس قدر پائے گا وہ۔ ۔ ۔ ۔ کہ عالم کو زیر و زبر پائے گا وہ
وہ دیکھے گا ہر سو ہزاروں چمن واں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت تازہ تر صورتِ باغِ رضواں
بہت ان سے کمتر پہ سر سبز و خنداں۔ ۔ ۔ ۔ بہت خشک اور بے طراوت ۔ مگر ہاں
نہیں لائے گو برگ و بار اُن کے پودے۔ ۔ ۔ ۔ نظر آتے ہیں ہونہار اُن کے پودے
پھر اک باغ دیکھے گا اُجڑا سراسر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں خاک اُڑتی ہے ہر سو برابر
نہیں تازگی کا کہیں نام جس پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہری ٹہنیاں جھڑگئیں جس کی جل کر
نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل۔ ۔ ہوئے روکھ جس کے جلانے کے قابل
جہاں زہر کا کام کرتا تھا باراں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں آکے دیتا ہے رُو اَبر نیساں
تردّد سے جو اور ہوتا ہے ویراں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں راس جس کو خزاں اور بہاراں
یہ آواز پیہم وہاں آرہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ اسلام کا باغِ ویراں یہی ہے
کلام ۔ خواجہ الطاف حسين حالی