Monthly Archives: November 2010

احوالِ قوم ۔ 4 ۔ کردار

زمانے میں ہیں ایسی قومیں بہت سی۔ ۔ ۔ ۔ نہیں جن میں تخصیص فرماں دہی کی
پر آفت کہیں ایسی آئی نہ ہوگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کہ گھر گھر پہ یاں چھا گئی آکے پَستی
چکور اور شہباز سب اَوج پر ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ایک ہم ہیں کہ بے بال و پر ہیں

وہ ملت کہ گردُوں پہ جس کا قدم تھا۔ ۔ ۔ ۔ ہر اک کھونٹ میں جس کا برپا علَم تھا
وہ فرقہ جو آفاق میں محترم تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اُمت لَقَب جس کا خَیرُ الاُمَم تھا
نشاں اس کا باقی ہے صرف اس قدریاں۔ ۔ کہ گِنتے ہیں اپنے کو ہم بھی مسلماں
وگرنہ ہماری رگوں میں لہو میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے ارادوں میں اور جستجو میں
دِلوں میں زبانوں میں اور گفتگو میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طبعیت میں فطرت میں عادت میں خُو میں
نہیں کوئی ذرّہ نجابت کا باقی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہو کسی میں تو ہے اتفاقی

ہماری ہر اک بات میں سفلہ پن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ کمینوں سے بدتر ہمارا چلن ہے
لگا نامِ آبا کو ہم سے گہن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارا قدم ننگِ اہلِ وطن ہے
بزرگوں کی توقیر کھوئی ہے ہم نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرب کی شرافت ڈبوائی ہے ہم نے
نہ قوموں میں عزت، نہ جلسوں میں وقعت۔ ۔ نہ اپنوں سے اُلفت، نہ غیروں سے ملت
مزاجوں میں سُستی، دماغوں میں نخوت۔ ۔ ۔ ۔ خیالوں میں پَستی، کمالوں سے نفرت
عداوت نہاں ۔ دوستی آشکارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ غرض کی تواضع ۔ غرض کی مُدارا

نہ اہلِ حکومت کے ہمراز ہیں ہم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ درباریوں میں سرافراز ہیں ہم
نہ عِلموں میں شایانِ اعزاز ہیں ہم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ صنعت میں حرفت میں مُمتاز ہیں ہم
نہ رکھتے ہیں کچھ مَنزلت نوکری میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ حصہ ہمارا ہے سوداگری میں
تنزل نے کی ہے بُری گَت ہماری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت دور پہنچی ہے نکبت ہماری
گئی گزری دنیا سے عزت ہماری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں کچھ ابھرنے کی صورت ہماری
پڑے ہیں اک امید کے ہم سہارے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ توقع پہ جنت کی جیتے ہیں سارے

کلام خواجہ الطاف حسين حالی

قربانی ۔ ؟ ؟ ؟

سيّدنا ابراھيم عليہ السلام نے ہميں کيا اسی قربانی کا سبق ديا تھا ؟
ايسا ايک ہی شہر ميں کيوں ہوتا ہے ؟
کسی کے پاس ہے اس کا مدلل جواب ؟

کراچی 17 نومبر 2010ء ۔ میں عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کی کھالیں چھیننے کے دوران فائرنگ کے واقعات میں تین افراد ہلاک دس زخمی ہوگئے ۔ پولیس کے مطابق کراچی کے علاقے لیاری میں نیازی چوک پر قربانی کے جانور کی کھالیں مانگنے کیلئے مسلح افراد آئے لیکن علاقے کے لوگوں نے کھالیں دینے سے انکار کر دیا ، جس پر مسلح افراد نے مکینوں سے تلخ کلامی کے بعد فائرنگ کردی۔ فائرنگ کی زد میں آکردوبچوں سمیت10 افراد زخمی ہو گئے جبکہ دو افراد جاں بحق ہو گئے ۔زخمیوں کو سول اسپتال منتقل کیا گیا جہاں انھیں طبی امداد دی گئی واقع کے بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی جہاں قانون نافذ کرنے والوں نے متاثرہ علاقے کو گھیر لیا اور سرچ اپریشن کیا تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی۔گلشن اقبال بلاک سترہ کے اشرف اسکوائر میں قربانی کی کھالیں چھیننے کے دوران ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے جھگڑے کے بعد فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ان کا اپنا ساتھی افتخار شدید زخمی ہوگیا جو بعد میں جناح اسپتال میں ہلاک ہوگیا ،پولیس واقع کی تفتیش کررہی ہے

عيد مبارک

آج يہ ورد کرتے ہوئے حجاج منٰی سے حرم کعبہ مکہ کی طرف رواں دواں ہيں

لَبَّيْکَ اَللَّہُمَّ لَبَّيْکَ لَبَّيْکَ لاَ شَرِيْکَ لَکَ لَبَّيْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَة لَکَ وَالْمُلْکَ لاَ شَرِيْکَ لَکَ

میں حاضر ہوں یااﷲ میں حاضر ہوں ۔ تیرا کوئی شریک نہیں ميں حاضر ہوں ۔ تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لئے ہیں اور ملک بھی ۔ تیرا کوئی شریک نہیں

باقی لوگ عيد سے پچھلی رات مغرب کی نماز کے بعد سے عيد کے تيسرے دن نصف النہار تک يہ ورد رکھيں کم از کم ہر نماز کے بعد ايک بار

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

جنہوں نے حج کی سعادت حاصل کی ہے ان کو حج مبارک اور اللہ ان کا حج قبول فرمائے
سب مسلمانوں کو عیدالاضحٰے مبارک ۔ اللہ سب مسلمانوں کو اپنی شريعت پر قائم کرے اور شيطان کے وسوسوں سے بچائے
جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کی ہے اللہ اُن کی قربانی قبول فرمائے

جدِ امجد کی قربانیاں

خلیل اللہ سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کی ایک قربانی سے مسلمان آگاہ ہیں ۔ جو ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر واجب کر دی گئی اور ہر سال ذوالحج کی 10 تاریخ سے 12 کے نصف النہار تک بکرہ ۔ دُنبہ ۔ گائے یا اونٹ ذبح کئے جاتے ہیں ۔ سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام اللہ کے دین کی خاطر کئی قربانیاں اس سے قبل دے چکے تھے

پہلی قربانی ۔ سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام ابھی نوجوان ہی تھے کہ بتوں کی پوجا کی مخالفت کرنے کی وجہ سے اُن کے ہموطنوں نے اُنہیں آگ میں پھینکنے کا فیصلہ کیا جس کیلئے بہت بڑا الاؤ تیار کیا گیا ۔ عام آدمی ایسی صورت میں شہر سے بھاگ جاتا یا کہیں چھپ جاتا لیکن سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام اللہ کے دین کی خاطر آگ میں زندہ جلنے کیلئے تیار ہو گئے ۔ جب اُنہیں آگ میں پھینکا گیا تو اللہ کے حُکم سے وہ سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کیلئے ٹھنڈی ہو گئی ۔ اسی کے متعلق علامہ اقبال صاحب نے لکھا ہے

بے خطر کُود گيا آتشِ نمرود ميں عِشق
عقل ہے محوِ تماشہ لبِ بام ابھی

دوسری قربانی مُلک بدری ہے ۔ کُفّار کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور اُنہوں نے سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کو مُلک بدر کر دیا

تیسری قربانی ۔ ایک اور امتحان سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام پر آیا جب اللہ نے اُنہیں اپنی بیوی اور ننھے بچے سمیت اُنہيں مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کا حُکم دیا اور اُنہوں نے بغیر پس و پیش اس پر عمل کیا۔ یہ ننھا بچہ سیّدنا اسمٰعیل علیہ السّلام تھے

چوتھی قربانی ۔ مکہ مکرمہ اس زمانہ میں بے آب و گیاہ صحرا تھا ۔ وہاں پہنچ کر سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کو اللہ کی طرف سے حُکم ہوا کہ بیوی اور بچے کو وہیں چھوڑ کر واپس چلے جائیں ۔ اُن کے چلے جانے کے بعد اُن کی واجب صد احترام بیوی ہاجرہ نے بچے کو ایک جگہ لٹا دیا اور خود اس کیلئے پانی کی تلاش کرنے لگیں ۔ اسی جُستجُو میں وہ قریب ہی ایک چھوٹی سی پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ گئیں جب پانی نظر نہ آیا تو نیچے اُتر کر دوسری چوٹی کی طرف گئیں ۔ اس طرح اُنہوں نے سات بار کیا ۔ اس کے بعد بی بی ہاجرہ نے دیکھا کہ جہاں اُن کے ننھے بچے نے ایڑیاں ماری تھیں وہاں سے چشمہ پھوٹ پڑا ہے ۔ اُنہوں نے آ کر پانی کو اکٹھا کرنے کیلئے روکنے کی کوشش کی اور اپنی زبان میں زم زم کہا یعنی رُک جا ۔ اللہ نے اس چشمہ کو ہمیش کر دیا اور پانی کو متبرک بنا دیا ۔ یہ چوٹیاں صفا اور مروہ ہیں ۔ اللہ نے بی بی ہاجرہ کے عمل کو ہر عمرہ یا حج کرنے والے پر فرض کردیا

پانچویں قربانی جس کا شروع ميں ذکر ہو چکا ہے ۔ جب سیّدنا اسمٰعیل علیہ السّلام نو سال کے ہو گئے تو سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام نے تین راتیں متواتر خواب میں دیکھا کہ بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں ۔ نبی کا خواب مُہمل نہیں ہوتا اسلئے وہ اپنے بیٹے کو لے کر چل دیئے کہ اللہ کا حُکم پورا کریں ۔ منٰی کے میدان میں پہنچے تو شیطان نے ورغلانے کی کوشش کی ۔ آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں ۔ چند قدم چل کر پھر شیطان نے ورغلانے کی کوشش کی ۔ اُنہوں نے پھر سات کنکریاں ماریں ۔ مزید چند قدم چلے تو شیطان نے تیسری بار ورغلانے کی کوشش کی اور آپ نے پھر سات کنکریاں شیطان کو ماریں ۔ اس کے بعد بیٹے کو لٹایا ۔ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی مبادہ ترس آ جائے ۔ چھُری چلانے لگے تو اللہ کا حُکم آ گیا “ہم نے تیرا عمل قبول کر لیا”۔ چھُری اللہ کے حُکم سے سیّدنا اسمٰعیل علیہ السّلام کے گلے پر پھرنے کی بجائے فرشتوں کے لائے ہوئے دُنبے کے گلے پر پھر گئی ۔ اللہ نے سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کے کنکریاں مارنے کے عمل کو حج کا رُکن بنا دیا اور قربانی ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر واجب کر دی

آج فجر کی نماز کے بعد سے عازمينِ حج مکہ مکرمہ سے مُنی کی طرف رواں دواں ہيں ۔ عيد پر گوشت کھايئے ليکن قربانی کا مقصد بھی ياد رکھيئے

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

میری ہتھیلیوں ميں کانٹے

ہمارے ہمسایہ عبدالمجید ریاست کی فوج میں کرنل تھے اور اُن دنوں اُن کی تعیناتی برفانی علاقہ گلگت بلتستان میں تھی ۔ آخر ستمبر 1947 ء میں پتہ چلا کہ ان کے بیوی بچے ستواری (جموں چھاؤنی) جا رہے ہیں ۔ ہمارے بزرگوں کے کہنے پر وہ لوگ ہم 6 بچوں کو ساتھ لے جانے کو تیار ہو گئے ۔ اگلی رات ایک اور دو بجے کے درمیان ایک فوجی ٹرک پر میں ۔ میری دونوں بہنیں (بڑی) ۔ دو سيکنڈ کزن اور ايک اُن کی پھوپھی [16 سولہ سال کی] ان کے ساتھ چلے گئے ۔ جو کچھ گھر ميں موجود تھا اُس ميں سے کچھ آٹا چاول ۔ دالیں ۔ ایک لٹر تیل زیتون اور کچھ پیسے ہمیں دے دیئے گئے

چھاؤنی میں بعض اوقات رات کو “جے ہند” اور” ست سری اکال” کے نعروں کی آوازیں آتیں جو کہ کبھی بہت قریب سے ہوتیں ۔ پتہ چلا کہ مسلح ہندو اور سکھ پچاس یا زیادہ کے جتھوں میں مسلمانوں پر حملے کرنے کے لئے کبھی وہاں سے بھی گذرتے ہیں ۔ حفاظت کا معقول انتظام نہ ہونے کے باعث ہم ہر وقت موت کے لئے تیار رہتے

کھانا پکانے کے لئے میں اپنے سيکنڈ کزن کے ساتھ باہر سے سوکھی تھور توڑ کے لاتا تھا جس سے میری ہتھیلیاں کانٹوں سے چھلنی ہوگئیں تھیں ۔ جب تک ہم واپس نہ آتے ہماری بہنیں ہماری خیریت سے واپسی کی دعائیں مانگتی رہتیں ۔ ايک دن تو ہم واپس آئے تو ہماری بہنوں سميت سب خواتين کو نماز جيسی حالت ميں ديکھا ۔ وجہ ہميں کسی نے نہ بتائی ۔ دروازہ ميری سيکنڈ کزن نے کھولا جو ہم چھ ميں سے سب سے بڑی [17 سال کی] تھيں ۔ مجھے پيار کيا پھر ميرے دونوں ہاتھوں کی ہتھليوں کو چوما اور چند لمحے ديکھتی ہی رہ گئيں ۔ ميں نے ديکھا اُن کی آنکھوں سے برسات جاری تھی ۔ اچانک اُنہوں نے منہ پھير کر آنسو پونچھے اور پھر اپنے بھائی کو گلے لگايا ۔ اسی لمحے کرنل عبدالمجيد صاحب کی بيوی آئيں اور ميرے اور پھر ميرے سيکنڈ کزن کے سر پر ہاتھ پھير کر دعائيں ديں

ہمارے پاس کھانے کا سامان تھوڑا تھا اور مزید لانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا اس لئے ہم تھوڑا ہی کھاتے ۔ جب زیتون کا تیل ختم ہو گیا تو اُبلے ہوئے پھیکے چاولوں پر بغیر پیاز لہسن نمک مرچ مصالحہ صرف اُبلی ہوئی دال ڈال کر کھا لیتے

قربانی اور اس کے لوازمات

ہر سال عیدالاضحٰے پر بکرا ۔ گائے ۔ اُونٹ وغیرہ کی قربانی کی جاتی ہے ۔ اس سلسلہ میں کئی باتیں سُننے اور دیکھنے میں آتی ہیں جن سے کم و بیش ہر ہموطن کو واسطہ پڑتا ہے ۔ کچھ باتیں تو ہمیشہ سے ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو کچھ سال قبل نہ تھیں اور اب ہیں اسلئے انوکھی محسوس ہوتی ہیں

ہموطنوں کی بھاری اکثریت قربانی خود اپنے ہاتھ سے نہیں کرتی ۔ ايسا شايد صرف پاکستان بنگلہ ديش اور بھارت ميں ہوتا ہے ۔ ذبح کرنے کیلئے کسی قصائی یا نام نہاد قصائی کو پکڑ کر لایا جاتا ہے کئی جگہوں پر میں نے ایسے شخص کو بکرا ذبح کرتے دیکھا جسے ذبح کرنا تو بڑی بات ہے چھُری پکڑنے کا بھی سلیقہ نہ تھا ۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ قربانی دینے والے کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ذبح کرنے والا مسلمان بھی ہے یا نہیں ۔ جو چھُری اور ٹوکہ ہاتھ میں پکڑے نظر آ جائے اُسے پکڑ کر بکرا ذبح کروا لیا جاتا ہے ۔ اب تو 6 سال سے مجھے زمين پر بيٹھنے اور جھُکنے کی بھی اجازت نہيں ہے ۔ اچھے وقتوں ميں اللہ کے فضل سے ميں نے کم از کم 2 درجن قربانی کے جانور ذبح کئے اُن کی کھال اُتاری اور گوشت بھی بنايا

گوشت کی تقسيم

عام طور پر گوشت کے تین حصے کئے جاتے ہیں ایک اپنے لئے ۔ ایک عزیز و اقارب کیلئے اور ایک غُرباء میں تقسیم کرنے کیلئے ۔ یہ مُستحسن طریقہ ہے ۔ اگر سارا گوشت اپنے استعمال میں لایا جائے تو اس میں بھی کوئی بُرائی نہیں ۔ اسی طرح سارا گوشت پکا کر عزيز و اقارب کو کھلایا جا سکتا يا سارا گوشت عزيز و اقارب ميں بانٹا جا سکتا ہے يا سارا مساکين ميں تقسيم کيا جا سکتا يا اُنہيں پکا کر کھلايا جا سکتا ہے ۔ قربانی کے جانوار کے کسی بھی حصہ کے عِوض کچھ لینا حرام ہے ۔ کچھ لوگ اپنے افسر یا کسی اور بڑے آدمی کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کافی سارا گوشت یا پوری ران اُسے بھیج دیتے ہیں ۔ یہ مناسب بات نہیں کیونکہ اس میں قربانی کے جذبہ کی بجائے خود ستائشی یا خودغرضی آ جاتی ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ مساکین اور اپنے عزيز و اقارب بالخصوص جن کی مالی حالت اچھی نہ ہو کا خیال رکھا جائے

عید والے دن کئی لوگ گوشت مانگنے آتے ہیں ۔ ان پر اگر غور کیا جائے تو کچھ لوگ چند گھروں سے گوشت لے کر چلے جاتے ہیں اور کچھ کے پاس پہلے سے ہی چار پانچ کلو گرام یا زیادہ گوشت ہوتا ہے اور وہ مزید گوشت اکٹھا کرتے جاتے ہیں ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی خاندان کے سب افراد گوشت مانگنے نکل پڑتے ہیں ۔ یہ لوگ مستحق لوگوں کا حق مارتے ہیں ۔ اس لئے میں تو بہتر سمجھتا ہوں کہ پہلے سے ہی اہل محلہ پر غور کیا جائے اور ان میں جو گوشت خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں ان کو ایک دن کیلئے کافی گوشت دے دیا جائے اور جو باقی بچے وہ مانگنے والوں میں بانٹا جائے ۔ اسلام آباد میں لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والے لوگوں میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جو سارا سال گوشت نہیں کھاتے ۔ اگر ایسے لوگوں کو سال میں ایک دن کیلئے گوشت کھانے کو دیا جائے تو اُن کے دل سے جو دُعا نکلے گی اس کا اندازہ عام انسان نہیں کر سکتا

ايک نيا نعرہ
کچھ سالوں سے سُننے ميں آتا ہے “مسلمان اتنے زيادہ جانور ذبح کر کے ضائع کرتے ہيں ۔ يہی روپيہ زلزلہ يا سيلاب کے متاءثرين کو دے ديں”
يہی بات حج کے معاملہ ميں بھی کہی جاتی ہے
يہ خام خيالی ہے ۔ نفلی حج يا نفلی قربانی کرنے کی بجائے اس کی قيمت صدقہ کر دينا بہتر ہے مگر فرض حج کو ملتوی کرنے کی دينی وجوہات کے علاوہ کسی اور وجہ سے ملتوی کرنا جائز نہيں ہے ۔ اسی طرح قربانی کرنے کی بجائے اس کی قيمت صدقہ کرنے سے قربانی ساقط نہيں ہوتی ۔ اس طرح کے استدلال ماننے کا مطلب اللہ اور اللہ کے رسول سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کے فرمان پر اپنی عقل کو ترجيح دينا ہے

امن کی آشا ۔ يا ۔ قوم کا استحصال ؟

آجکل ايک ٹی وی چينل ايک اشتہار بار بار دکھا رہا ہے جس کا منظر کچھ اس طرح ہے

پاکستان اور بھارت کے نزديک کسی قصبہ يا گاؤں ميں اپنے لوگ خيموں کے باہر کھڑے ايک بوڑھا پاکستانی فصا ميں اپنے ہاتھ بلند کئے کچھ عجيب سے اشارے کر رہا ہے اور باقی لوگ اُس کی ہلہ شيری کر رہے ہيں ۔ اُن سب کا رُخ بھارت کی طرف ہے جہاں کچھ خُوش پوش بھارتی اپنے پکے مکانوں سے باہر دُوربينوں کے ذريعہ ان نادار پاکستانيوں کو ديکھ رہے ہيں ۔ بھارتی اپنے گھروں ميں جا کر آل انڈيا ريڈيو کو ٹيليفوں پر بارتی فلمی گانا لگانے کی فرمائش کرتے ہيں ۔ جونہی گانا بجايا جاتا ہے ۔ پاکستانی اپنے 1950ء کے ماڈل ريڈيو کے گرد ناچنے لگتے ہيں

حقيقت يہ ہے کہ اس اشتہار کا ہر سيکنڈ اصل حالات کے بر عکس ہے ۔ آيئے ذرا حقائق کا اندازہ اُن اعداد و شمار سے لگاتے ہيں جو بين الاقوامی ادارے مہيا کرتے ہيں ۔ خيال رہے کہ يہ ادارے پاکستان دوست نہيں ہيں

1 ۔ پاکستان ميں 22 فی صد لوگوں کی آمدنی 1.20 ڈالر يوميہ سے کم ہے جبکہ بھارت مين 42 فيصد لوگوں کی آمدنی 1.2 ڈالر يوميہ سے کم ہے
2 ۔ پاکستان ميں بے گھر لوگوں کی تعداد ايک فيصد بھی نہيں جبکہ بھارت ميں 17 فيصد لوگ بے گھر ہيں ۔ خيال رہے کہ يہ اشتہار سيلابوں سے بہت پہلے کا چل رہا ہے

3 ۔ پاکستانيوں کو بھارت کے ريڈيو سے گانے سننے کی کيا ضرورت ہے جبکہ پاکستان ميں پچھلی صدی کے وسط سے ساری دنيا کی نشريات سُنی جا سکتی ہيں جن پر بھارتی فلمی گانے بھی سنائے جاتے ہيں ۔ پھر 2001ء سے ايف ايم چينل چل رہے ہيں جن پر بھاتی گانے عام سنائے جاتے ہيں ۔ اس کے بر عکس بھارت ميں ايف ايم کے لائيسنس 2007ء ميں جاری کئے گئے ہيں باقی 21 چينل سخت حکومتی نگرانی ميں چل رہے ہيں

4 ۔ 1950ء کا ماڈل ريڈيو سيٹ پاکستان ميں ايک عجوبہ ہی ہو سکتا ہے ۔ يہاں تو 80 فيصد آبادی ٹی ديکھ رہی ہے جبکہ بھارت کے 60 فيصد لوگوں کو يہ سہولت ميسّر ہے

5 ۔ کمال تو يہ ہے کہ بھارتی گاؤں ميں تو ٹيليفون کی سہولت اور پاکستانيوں کو ناچ کر اپنا پيغام دينا پڑے ؟ جبکہ پاکستان ميں 65 فيصد لوگوں کے پاس ٹيليفون کی سہولت موجود ہے اور بھارت ميں يہ سہولت صرف 50 فی صد لوگوں کو حاصل ہے

پاکستان نمبری کہاں سے بنتا ہے ؟ عوامی ادراک يا احساس سے ۔ خود گناہی کا يہ ادراک يا احساس کون اُجا گر کرتا ہے ہماے ٹی وی چينل اور اخبارات جو ايک واقعہ برائی کا پکڑتے ہيں اور اُسے دہرانے کا معمول بنا ليتے ہيں ۔ اس دوران بيسيوں اچھے واقعات نظروں سے اوجھل رہتے ہيں ۔ اور پاکستان دنيا کے بدترين مُلکوں ميں پاکستانيوں ہی کے غلط ادراک يا احساس کی وجہ سے پہنچ جاتا ہے

ميں يہ ٹائپ کر رہا ہوں اور جيو ٹی وی ” امن کی آشا” دکھا رہا ہے پاکستان اور بھارت کے عوام کو قريب لانے کيلئے ؟ کيا پرويز مشرف نے کرکٹ ۔ بسنت اور ناچ کے ذريعہ يہی کوشش نہيں کی تھی ؟ جس پر بھارتی رسالے نے لاہور کو “Bich in heat” کہا تھا ۔ اور وہ رسالہ جس کا مقام ممبئی ہے جہاں کم از کم 100000 جنسی ورکر [Sex workers] ہيں

کبھی اپ نے پڑھا ہے ؟ ايک دن ايسا نہيں ہوتا کہ اس کے پہلے صفحہ پر پاکستان کے خلاف کوئی انتہائی بودی خبر يا مضمون نہ ہو ۔ ان حالات ميں بھارت سے دوستی ؟

جو نيا نمبر جيو ٹی وی بتاتا ہے ميں نے اس پر ٹيليفون کيا مگر ميرا پيغام نشر نہيں کيا جبکہ وہ سب کا پيغام نشر کرنے کا دعوٰی کرتے ہيں

يہ چند اقتباسات عشر يعقوب صاحب کے مضمون ميں سے ہيں ۔ پورا مضمون پڑھے بغير مکمل صورتِ حال واضح نہيں ہو گی
پورا مضمون يہاں کلک کر کے پڑھيئے