شايد ميرے کچھ ہموطنوں کے خيال ميں محسنِ انسانيت رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی [خاکم بدہن] توہين انسانيت کے ذمرے ميں آتی ہے ۔ وہ لَبَّيْکَ اَللَّہُمَّ لَبَّيْکَ کہنے کی بجائے جب وائٹ ہاؤس سے کوئی صدا بلند ہوتی ہے تو لَبَّيْکَ اَلامريکَا لَبَّيْکَ کہتے ہوئے لپکتے ہيں اور زمينی حقائق ان کی نظروں سے اوجھل اور دماغ سے محو ہو جاتے ہيں
ميرا پاکستان نے آسيہ کے توہينِ رسالت کے متعلق تحرير لکھی ۔ زيادہ مبصرين حسبِ معمول روشن خيالی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ميں انسانی ہمدردی کے داعی اور باعلم ہونے کی خيالی پتنگيں اُڑانے لگے ۔ چنانچہ ضرورت محسوس ہوئی کہ ريکارڈ پر موجود اور اخبار ميں چھپنے والے حقائق پيش کئے جائيں
آسيہ استغاثہ کی مختصر روداد
لاہور سے شايد 100 کلوميٹر دور ننکانہ صاحب کے ايک گاؤں اِٹن ولائی ميں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بہت سے عيسائی رہتے ہيں۔ اِٹن ولائی ميں فالسے کے کھيت ميں آسيہ اور کئی دوسری عورتيں جن ميں مسلمان اور عيسائی دونوں شامل تھيں کام کر رہی تھيں ۔ کام کے دوران کچھ عورتوں کے درميان نبيوں عليہم السلام اور مذاہب کا تذکرہ ہو رہا تھا کہ آسيہ نے نبی صلی اللہ عليہ و سلم اور قرآن شريف کی توہين ميں زبان درازی کی
19 جون 2010ء کوگاؤں کا کٹھ کيا گيا [ميٹنگ بلائی گئی] جہاں آسيہ نے اپنا قصور مانا اور کہا کہ “مجھے معافی دے دو”۔ مگر بات تھانے تک پہنچ چکی تھی جہاں سے اعلٰی افسران تک پہنچی ۔ اور قانون کے مطابق سيشن جج صاحب نے ايس پی انويسٹيگيشن کو تفتيش کا حکم ديا
ايس پی نے 29 جون 2010ء کو دونوں پارٹيوں کو بلايا ۔ 27 آدمی مدعيوں کی طرف سے اور 5 آدمی مدعيہ عليہ آسيہ کی طرف سے آئے اور ان کے بيانات قلمبند کئے گئے
بعد ميں عدالت سے اجازت لے کر ايس پی نے 6 جولائی 2010ء کو جيل ميں آسيہ کا بيان ليا ۔ آسيہ نے مؤقف اختيار کيا کہ “وہ عورتيں اسے مسلمان بنانا چاہتی تھيں ۔ اس کے انکار پر انہوں اس پر مقدمہ بنا ديا”۔ ليکن آسيہ اپنے اس مؤقف کا کوئی ثبوت پيش نہ کر سکی
عدالت ميں آسيہ کے وکيل نے صرف دو نقطے اُٹھائے
1 ۔ قانون کے مطابق تفتيش ايس پی کو کرنا ہوتی ہے مگر اس کی بجائے ايس ايچ او نے کی
2 ۔ صوبائی يا وفاقی حکومت سے اس کيس کی اجازت حاصل نہيں کی گئی
عدالت نے پہلے نقطہ کو غيرحقيقی قرار ديا اور دوسرے کے متعلق کہا کہ ايسا کوئی قانون نہيں
عدالت نے قاری سالم کے بيان کو سُنی سنائی بات قرار ديا ۔
کوئی بيان آسيہ کے مؤقف کی تائيد ميں نہ تھا
آسيہ نے عدالت ميں نہ تو کوئی دفاع پيش کيا اور نہ Section (2) CrPC کے تحت مدعيوں کے مؤقف پر اپنا بيان ديا يا داخل کرايا
کسی مبصر نے يہ کہا کہ ” عدالت ميں 6 آدميوں نے ہاتھ کھڑا کر ديا ۔ اور فيصلہ ہو گيا”۔
حقيقت يہ ہے کہ 5 آدميوں نے آسيہ کے خلاف بيان حلفی داخل کرائے ۔ ان کے علاوہ ايک نے آسيہ کے خلاف بيان ديا کہ “ميں نے سنا تھا کہ يہ ۔ ۔ وہ” جسے عدالت نے سنی سنائی کہہ کر مسترد کر ديا
مبصر شايد اس حقيقت سے واقف نہيں کہ اسمبلی ميں لوگ ہاتھ کھڑے کرتے ہيں تو قانون بن جاتا ہے ۔ اسی طرح ہاتھ کھڑے کرنے سے آئين ميں ترميم ہو جاتی ہے يا نيا آئين بن جاتا ہے تو عدالت ميں فيصلہ کيوں نہيں ہو سکتا
يہ سوال بھی پوچھا گيا کہ باقی مسلمان ممالک ميں بھی اسی طرح غريبوں کے ساتھ کيا جاتا ہے ؟ حقيقت يہ ہے کہ جس طرح وطنِ عزيز ميں حقيقت کچھ ہو نہ ہو کراری خبريں شائع کی جاتی ہيں جس کی وجہ ميرے ہموطنوں کا مزاج ہے جو چٹخارے دار خبريں پسند کرتے ہيں ۔ دوسرے ممالک ميں ايسی سچی خبر بھی چھاپنے کی اجازت نہيں جس سے اشتعال يا نقصِ امن پيدا ہونے کا خدشہ ہو ۔ اس کيلئے باقاعدہ قانون بنائے گئے ہيں اور ان پر فوری عمل ہوتا ہے ۔ البتہ امريکا اور يورپ ميں مسلمانوں يا اسلام کے خلاف من گھڑت کہانی بھی چھاپ دی جائے تو اسے آزادی اظہار کہہ کر اس کے خلاف کوئی کاروائی نہيں کی جاتی
انسانيت اور امن کے علمبردار اور عدمِ تشدد کا پرچارک امريکا پاکستان کے قبائلی علاقہ اور افغانستان ميں جو انسانيت بکھير رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے اس سے پہلے کی انسانيت پسندی کی کچھ جھلکياں يہاں پر اور يہاں پر کلِک کر کے ديکھی جاسکتی ہيں
امريکا کی پشت پناہی اور دولت پر پلنے والے اسرائيل جسے امريکا دنيا کی بہترين جمہوريت قرار ديتا ہے ۔ اس کے نام نہاد جمہوری کردار پر طائرانہ نظر ڈالنے کيلئے يہاں پر ۔ يہاں پر اور يہاں پر نظر ڈالئے
اہنسا پرمودھرما کے پُجاری سيکولر بھات کی امن کی آشا کی ہلکی سی جھلک ديکھنے کيلئے يہاں پر ۔ يہاں پر اور يہاں پر کلِک کيجئے
اسلام توہينِ رسالت کے متعلق کيا کہتا ہے قرآن و حديث اور مستند سُنی اور شيعہ اماموں کے مسلک پڑھنے کيلے يہاں کلِک کيجئے
تبصروں ميں فرنگی دنيا کی انسانيت پرستی کا ذکر بھی آيا ۔ ان کی انسانيت پرستی اور انصاف کے کئی نمونے ميں چند سال قبل پيش کر چکا ہوں ۔ آج ايک برطانوی وکيل کی تحرير سے اقتباس پيش کرتا ہوں
Pakistan Penal Code (PPC) of 1860 dates from the British colonial period (British Raj : Sections 295 to 298 of the PPC) dealing with religious offences dates back to that period and were intended to prevent and curb religious violence.
The offences were introduced to curb religious hatred amending then s.153 of British India Act which did not include Islam and Raj Pal in 1929 could not be prosecuted for writing ‘A colourful Prophet’ which hurt scores of Muslims and the High Court was not able to provide relief and riots erupted post the writer’s murder in United India. However UK laws were never amended to grant protection to Muslims. In particular S. 295-C of the Pakistan Penal Code says, “whoever by words either spoken or written or by visible representations or in any manner whatsoever, or by any imputation, innuendo or institution, directly or indirectly defiles the sacred name of the holy Prophet Muhammad (PBUH) shall be punished with death or imprisonment for life and shall also be liable to fine.”
However these offences have little value to the West who take freedom of expression as a superior force to all other political and religious compulsions. Their Blasphemy law though covers Christianity but does not cover Islam. Article 10 of European Convention of Human Rights 1950 which is similar to Article 19 of the Constitution of Pakistan 1973 says as follows: “1. Everyone has the right to freedom of expression. This right shall include freedom to hold opinion and to receive and impart information and ideas without interference by public authority and regardless of frontiers. This article shall not prevent States from requiring the Licensing of broadcasting, television or cinema enterprises.”
During the Salman Rushdie affair in the 1980’s after writing a book ‘Satanic Verses’ Britain never prosecuted Salman Rushdie under the Blasphemy Laws of Britain for defiling the Prophet of Islam as British laws only covers Christianity. Under Ex Parte Choudhary [1991] 1 All ER 306, private prosecution was not allowed either by British Courts due to lack of legal provisions. Britain since has introduced the Racial and Religious Hatred Act 2006 which intends to curb preaching religious violence, however it still does not address the core and causes of igniting religious hatred albeit blasphemy.
However in the west denial of holocaust as to whether or not Jews were oppressed by Hitler’s Nazi regime is a criminal offence in most parts of Europe. Holocaust denial is illegal in a number of European countries: In Austria (article 3h Verbotsgesetz 1947) punishable from 6 months to 20 years, Belgium (Belgian Holocaust denial law) punishable from Fine to 1 year imprisonment, the Czech Republic under section 261 punishable from 6 months to 3 years, France (Loi Gayssot) punishable from Fine or 1 month to 2 years, Germany (§ 130 (3) of the penal code) also the Auschwitzlüge law section 185 punishable from Fine or 1 month to 5 years, Lithuania, The Netherlands under articles 137c and 137e punishable from Fine or 2 years to 10 years, Poland, Romania, Slovakia,and Switzerland (article 261bis of the Penal Code) punishable from 6 months to 3-5 years. In addition, under Law 5710-1950 it is also illegal in Israel and punishable from 1 year to 5 years. Italy enacted a law against racial and sexual discrimination on January 25, 2007 punishable from 3 years to 4 years.
Now looking at this tendency the way the West is displaying insensitivity to the Muslim World’s feelings, It will be quite illogical for Islamic countries angry with the behavior of the west to start awarding notorious leaders the highest awards of bravery or who accommodate and promote writers that challenge the myth of the ‘holocaust’. These sentiments though exist which call for serious consideration by OIC and the West to sit together and find a solution to this hugely charged issue as the common man of each society calls for peace and harmony between ancient civilizations. The irony is that East and West are grappling with the situation where each other’s criminals are seeking refugee. Salman Rushdie’s gets a knighthood for Satanic Verses and Tasleema Nasreen protection but there is no law at all to protect the long and strongly held belief of Muslims in the West.