زمانے میں ہیں ایسی قومیں بہت سی۔ ۔ ۔ ۔ نہیں جن میں تخصیص فرماں دہی کی
پر آفت کہیں ایسی آئی نہ ہوگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کہ گھر گھر پہ یاں چھا گئی آکے پَستی
چکور اور شہباز سب اَوج پر ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ایک ہم ہیں کہ بے بال و پر ہیں
وہ ملت کہ گردُوں پہ جس کا قدم تھا۔ ۔ ۔ ۔ ہر اک کھونٹ میں جس کا برپا علَم تھا
وہ فرقہ جو آفاق میں محترم تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اُمت لَقَب جس کا خَیرُ الاُمَم تھا
نشاں اس کا باقی ہے صرف اس قدریاں۔ ۔ کہ گِنتے ہیں اپنے کو ہم بھی مسلماں
وگرنہ ہماری رگوں میں لہو میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے ارادوں میں اور جستجو میں
دِلوں میں زبانوں میں اور گفتگو میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طبعیت میں فطرت میں عادت میں خُو میں
نہیں کوئی ذرّہ نجابت کا باقی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہو کسی میں تو ہے اتفاقی
ہماری ہر اک بات میں سفلہ پن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ کمینوں سے بدتر ہمارا چلن ہے
لگا نامِ آبا کو ہم سے گہن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارا قدم ننگِ اہلِ وطن ہے
بزرگوں کی توقیر کھوئی ہے ہم نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرب کی شرافت ڈبوائی ہے ہم نے
نہ قوموں میں عزت، نہ جلسوں میں وقعت۔ ۔ نہ اپنوں سے اُلفت، نہ غیروں سے ملت
مزاجوں میں سُستی، دماغوں میں نخوت۔ ۔ ۔ ۔ خیالوں میں پَستی، کمالوں سے نفرت
عداوت نہاں ۔ دوستی آشکارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ غرض کی تواضع ۔ غرض کی مُدارا
نہ اہلِ حکومت کے ہمراز ہیں ہم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ درباریوں میں سرافراز ہیں ہم
نہ عِلموں میں شایانِ اعزاز ہیں ہم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ صنعت میں حرفت میں مُمتاز ہیں ہم
نہ رکھتے ہیں کچھ مَنزلت نوکری میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ حصہ ہمارا ہے سوداگری میں
تنزل نے کی ہے بُری گَت ہماری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت دور پہنچی ہے نکبت ہماری
گئی گزری دنیا سے عزت ہماری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں کچھ ابھرنے کی صورت ہماری
پڑے ہیں اک امید کے ہم سہارے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ توقع پہ جنت کی جیتے ہیں سارے
کلام خواجہ الطاف حسين حالی