پيش لفظ
ميں نے کچھ مہربان قارئين کی فرمائش بلکہ چند کے اصرار پر جد و جہد آزادی جموں کشمير کا خلاصہ پيش کرنا شروع کيا تھا ۔ ابھی مندرجہ ذيل تحارير لکھی تھيں کہ ملک شديد سيلاب کی زد ميں آ گيا جس نے ترجيحات بدل کے رکھ ديں ۔ اب تاريخ کے ان ابواب کا باقی حصہ دہرانا شروع کرتا ہوں ۔ اللہ تو فيق دے اور ہمارے ملک کو ترقی دے
تحريک آزادی جموں کشمير ۔ تاريخی پس منظر اور آغاز
ماؤنٹ بیٹن کی بھارت نوازی اور قراداد الحاق پاکستان
کيا حريت کانفرنس ميں تفرقہ ہے ؟
پاکستان کو تباہ کرنے کا منصوبہ
جموں ميں ہندو ۔ برہمن ۔ تعليم اور سياست
رياست کا جغرافیہ اور مُسلم کانفرنس
تین بڑے دریا سندھ ۔ جہلم اور چناب جموں کشمیر سے بہہ کر پاکستان میں آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ کئی چھوٹے دریا بھی ہیں جن میں نیلم اور توی قابل ذکر ہیں ۔ جموں کشمیر کے شمالی پہاڑوں میں مندرجہ ذیل دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ہیں
کے ٹو 8611 میٹر ۔ نانگا پربت 8125 میٹر ۔ گاشربرم ايک 8068 میٹر ۔ گاشربرم دو 8065 میٹر ۔ چوڑی چوٹی 8047 میٹر ۔ دستغل سار 7882 میٹر ۔ راکا پوشی 7788 میٹر اور کنجت سار 7761 میٹر
شیخ عبداللہ کانگرس کے نرغے میں
ميں لکھ چکا ہوں کہ 13 جولائی 1931ء کو ڈوگرہ پوليس کی سرينگر ميں مسلمانوں پر بلا جواز اور بغير وارننگ فائرنگ ميں 22 مسلمان شہيد ہوئے ۔ اس کے بعد جموں سے ایک زور دار تحریک اُٹھی اور جموں کشمیر کے شہروں ۔ قصبوں اور دیہات میں پھیل گئی ۔ اس تحریک کے سربراہ چوہدری غلام عباس تھے ۔ پھر 1932ء میں پہلی سیاسی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس تشکیل دی گئی ۔ شیخ محمد عبداللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ یہ تحریک پورے جوش و خروش سے جاری رہی جس کے نتیجہ میں مہاراجہ ہری سنگھ جمہوری نظام قائم کرنے پر مجبور ہوا اور 1934ء میں دستور ساز اسمبلی بنا دی گئی ۔ گو یہ مکمل جمہوریت نہ تھی پھر بھی مسلمانوں کے کچھ حقوق بحال ہوئے ۔ 1934ء 1938ء 1942ء اور شروع 1946ء میں اس اسمبلی کے پورے جموں کشمیر میں انتخابات ہوئے جن میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس 80 فیصد یا زائد نشستیں لے کر جیتتی رہی
شیخ عبداللہ 1939ء میں اپنے دوست پنڈت جواہر لال نہرو کے جھانسے میں آ گئے اور مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدل دیا ۔ شیخ عبداللہ کو 13 جولائی 1931ء کو کہے ہوئے ایک شہید کے آخری الفاظ بھی یاد نہ رہے کہ”ہم نے اپنا کام کر دیا اب آپ اپنا کام کریں” ۔
مسلم کانفرنس کی بحالی
شیخ عبداللہ سے مایوس ہو کر 1941ء میں چوہدری غلام عباس اور دوسرے مخلص مسلمانوں نے مسلم کانفرنس کو بحال کیا تو تقریباً سب مسلمان اس کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے ۔ اس وقت اعلان کیا گیا کہ ریاست کی تحریک آزادی دراصل تحریک پاکستان کا حصہ ہے
قائد اعظم محمد علی جناح مئی 1944ء میں جموں کشمیر گئے اور دو ماہ وہاں قیام کیا جس کے دوران وہاں کے سیاستدانوں بشمول شیخ عبداللہ اور دانشوروں سے ملاقاتیں کیں ۔ 26 جون 1944ء کو سرینگر میں منعقدہ مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ “مسلمان اپنی قومی جماعت مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اپنی تحریک جاری رکھیں” اور چوہدری غلام عباس کو مخاطب کر کے کہا “ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں”
یہ کاوش جاری رکھیں، تاریخ سے متعلق بہت کچھ، بہت آسان اور سہل انداز میں پڑھنے اور جاننے کو مل رہا ہے۔
بھوپال صاحب، آپ خیریت سے تو ہیں نا ۔
میری معلومات کےمطابق ان کوحادثہ پیش آگياہےاسی لئےوہ کافی عرصہ سےکوئی تحریر نہیں لکھ رہےہیں اللہ تعالی ان کوجلدازجلدصحت یاب کرے۔ آمین ثم آمین
اللہ تعالی ان کوجلد از جلد صحت یاب کرے ۔ جاوید صاحب، اپ ڈیٹ کرنے کا شکریہ ۔
السّلام و علیکُم ! میری دعا ہے اللہ آپ کو جلد مکمل صحت عطا کرے آمین ۔۔
اللہ تعالیٰ صحت کاملہ اور عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین
حجاب صاحبہ اور ج ج س ۔ جاويد اقبال اور لطف الاسلام صاحبان
شکريہ