آج کے دبئی کے انگريزی اخبار “گلف نيوز” ميں ايک خبر پڑھ کر تازہ ہوا کا جھونکا آيا اور سينہ کشادہ ہو گيا ۔ ايک 32 سالہ پاکستانی بايزيد شفارس خان 2003ء سے متحدہ عرب امارات ميں ٹيکسی چلا کر اپنی روزی کما رہا ہے اور پاکستان ميں اپنے خاندان کی کفالت کرتا ہے ۔ پچھلے ماہ اپنے کمرے ميں آرام کر رہا تھا کہ ايک ساتھی نے بتايا کہ تين آدميوں نے ايک چور کو پکڑ ليا ہے ۔ بايزيد باہر نکلا تو ديکھا کہ چور ان کی گرفت سے نکلا جا رہا ہے ۔ اُس نے جاکر چور کو قابو کيا ہی تھا کہ وہ تين لوگ چھوڑ کر چلے گئے
بايزيد خان کہتا ہے کہ “ارد گرد کے لوگوں پر مجھے حيرت ہوئی کہ وہ کہہ رہے تھے چھوڑ دو ۔ خواہ مخوا اپنے گلے کيوں مصيبت ڈالتے ہو ۔ اُس کے ساتھی کل کو تُم سے بدلہ ليں گے ۔ ہم نے تو اچھائی کا ساتھ دينا اور برائی کو روکنا سيکھا ہے ۔ اس لئے ميں نے اسے نہ چھوڑا حالانکہ اس نے اپنے آپ کو چھڑانے کی بہت کوشش کی ۔ پوليس کو آنے ميں دير لگی مگر ميں نے اُسے نہ چھوڑا”
کاش ميرے ہموطن اس غريب ٹيکسی ڈرائيور سے ہی کچھ سبق سيکھيں جس نے غير ملک ميں بھی اچھائی اور برائی کو درست طريقہ سے ياد رکھا
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ھم تعصب ، حرام خوری اور اپنی ذات کے پسندیدگی سے باہر آئیں تو ملک کے بارے میں سوچیں نا۔
اگر بايزيد شفارس خان پاکستان میں ہوتاتوچورکو پکڑنے کے بعد پہلے چورکی اچھی خاصی مرمت کرتا اور پھر اسے پولیس کے حوالے کرتا
اچھے لوگوں کی کمی نہیں، لیکن ہم پاکستانی کچھ لوگوں کی وجہ سے بہت بدنام ہوگئے ہیں۔ اس لئے بد اچھا، بدنام برا۔
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » پاکستانی ابھی زندہ ہے -- Topsy.com
فرحان دانش صاحب
مرمت کرتا يا زندہ جلا ديتا ؟
ھارون اعظم صاحب
آپ نے درست کہا ہے