اس کا جواب تلاش کرنے کيلئے ہم ميں سے ہر ايک کو دوسروں کی آنکھوں ميں تنکا ڈھونڈنا چھوڑ کر اپنے گريبان ميں جھانکنا اور اپنے چہرے کو اصلی آئينے ميں ديکھنا ہو گا ۔ ميں اچھی طرح جانتا ہوں کہ دوسرے پر الزام لگانا بہت آسان کام ہے مگر اپنی بُرائی کو برائی سمجھنا بہت مشکل کام ہے ۔ ہم لوگ فقط بحث مباحثوں ميں بڑھ چڑھ کر بات کرنے کو بہادری اور علم کا عروج سمجھنے لگ گئے ہيں ۔ ہميں تاريخ سے سبق سيکھنے سے کوئی شغف نہيں ۔ کيا اسی طرح کے بے عمل بے نتيجہ مباحث بغداد اور غرناطہ کی تباہی کا پيش خيمہ نہيں تھے ؟
محمد بلال صاحب نے اپنی قوم کی حالت پر کچھ روشنی ڈالی تو ميں نے تصوير کا ايک اور رُخ دکھانے کيلئے اپنے مشاہدے ميں آنے والے مندرجہ ذيل تين واقعات لکھے تھے
1 ۔ ايک پڑھے لکھے صاحب نے کپڑا خريدا اور ساتھ کی دکان پر ميں اور دو جاپانی کچھ خريد رہے تھے ۔ اُن کی ستائش حاصل کرنے کيلئے کپڑے پر لگے ليبل کو اُنہيں دکھايا جو جاپانی زبان ميں لکھا تھا ۔ وہ دو نوں جاپانی ہنسنے لگے ۔ جب وہ شخص چلا گيا تو ميں نے اُن جاپانيوں سے پوچھا کہ آپ ہنسے کيوں ؟ بولے کہ جاپانی ميں لکھا تھا “پاکستان کا بنا ہوا”
2 ۔ کراچی ميں ايک بہت پرانا پلاسٹک کے برتنوں وغيرہ کا کارخانہ ہے ۔ ميں وہاں گيا ہوا تھا تو مالک سے کہا کہ آپ کا معيار بہت اچھا ہے تو اپنا مال ملک ميں پھيلاتے کيوں نہيں ؟ بولے “کيا کريں لوگ باہر کا بنا مال پسند کرتے ہيں چاہے گھٹيا ہو ۔ بھائی ۔ کيا بتائيں ہماری اپنی اماں دبئی گئيں اور وہاں سے ايک ٹب لے آئيں کہا اماں ہم سے کہا ہوتا يہ وہاں سے لانے کی کيا ضرورت تھی؟” بوليں” ارے تم کہاں ايسا بناتے ہو”۔ تو ميں نے اُلٹا کر کے ماں کو دکھايا ہمارے کارخانے کا بنا تھا
3 ۔ ايک پاکستانی نوجوان لندن سے پتلون خريد لائے اور بڑے فخر سے مجھے دکھا کر کہنے لگے يہ ديکھو کتنی بہترين ہے ہمارے ملک ميں تو ايسا مال بنتا ہی نہيں ۔ ميں تجسس سے پتلون اندر باہر سے ديکھنے لگا اچانک ميری نظر ايک ليبل پر پڑی جو پتلون کے اندر لگا تھا ۔ انگريزی ميں لکھا تھا “پاکستان کی ساختہ پاکستانی کپڑے سے”
مزيد يہ کہ :
ہمارے ملک ميں ہر قسم کا کپڑا بہت عمدہ معيار کا بنتا ہے اور قيمتيں بھی مناسب ہيں ۔ ميرے ہموطنوں کی اکثريت کپڑا خريدنے جاتے ہيں تو غير مُلکی تلاش کرتے ہيں ۔ کوئی مقامی کپڑے کو جاپانی کہہ کر بيچ دے تو دُگنی قيمت پر خريد ليتے ہيں اور اگر پاکستانی کہے تو آدھی قيمت پر لينے کو تيار نہيں ہوتے
پاکستان ميں ميلامائن کے برتن بيس پچيس سال سے بن رہے ہيں جو بين الاقوامی معيار کے ہيں ۔ ايک کارخانہ حيدرآباد ميں تھا جس کا بنا ہوا ڈنر سيٹ جو ميں نے 1994ء ميں کراچی بوہری بازار سے خريدا تھا اُس دن سے آج تک ہمارے استعمال ميں ہے ۔ 1994ء ہی ميں ايک ميرے دفتر کے ساتھی ايرانی ميلامائن ڈنر سيٹ ڈھونڈ رہے تھے کسی نے وہی انہيں ايرانی کہہ کر ڈيڑھ گنا قيمت ميں ديا تو بڑے خوش تھے کہ بہت سستا مل گيا ۔ کراچی ميں سَيلُوکو ۔ گولڈن اور منيار اچھے معيار کا سامان بناتے تھے ۔ مگر ميرے ہموطنوں کی آنکھيں دساور پر لگی رہتی ہيں جس کے باعث ان کمپنيوں کو خاصہ نقصان برداشت کرنا پڑا
اب آيئے تعليم کی طرف جس کا رونا اکثر رويا جاتا ہے ۔ ہم ميں سے وہ لوگ جن کو تعليمی ترقی کا شوق پيدا ہوتا ہے اپنے بچوں کو ايسے سکول ميں داخل کراتے ہيں جس کا نام انگريزی ميں ہو يا جديد طرز کا ہو ۔ اپنے سرکاری سکولوں کو جنہيں انہی لوگوں کی جيب سے ادا کردہ ٹيکس کے پيسے سے چلايا جاتا ہے اچھوت تصور کيا جاتا ہے ۔ اگر ان سکولوں کی ہم حوصلہ افزائی کريں تو پھر ہميں ان کی برائياں گننے کا بھی حق پہنچتا ہے ۔ سيانے کہتے ہيں “جس شہر نہ جانا اس کا راستہ کيوں پوچھنا”۔ بلکہ ان سکولوں ميں ہم اپنے بچوں کو پڑھائيں تو ہم ان کی بہتری کی بھی کوشش کر سکتے ہيں ۔ 5000 سے 10000 روپے ماہانہ ادا کر کے انگريزی نام کے سکولوں ميں تو بچوں کو پڑھايا جاتا ہے اور جب سرکاری سکولوں کی بات آتی ہے تو 50 روپے ماہانہ بھی کھلتا ہے ۔ ايسا دوغلا پن کيوں ؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم ميں سے جو زيادہ شور مچانے والے ہيں دراصل شور مچانا اُن کا مشغلہ ہے جسے وہ اپنی بڑھائی سمجھتے ہيں ۔ يا يوں کہيئے کہ مسئلہ جھوٹی انا کا ہے
اگر ہم چاہتے ہيں کہ ہم بحثيت قوم عزت پائيں اور ترقی کريں تو اس کا ايک ہی حل ہے ۔ آج سے فيصلہ کر ليں کہ جو چيز اپنے ملک ميں بنتی ہے اور اس سے گذارا ہو سکتا ہے تو وہ صرف اپنے ملک کی بنی ہوئی ہی خريديں ۔ اگر غير ملک ميں کوئی چيز اچھی ہے تو اسے ملک ميں بڑائی کی خاطر نہيں بلکہ اس کی صنعت قائم کرنے کيلئے لايئے ۔ اس طرح ہمارے ذہين اور محنتی ہُنرمند جو مجبور ہو کر مُلک چھوڑ گئے ہيں وہ بھی واپس آنے کا سوچيں گے ۔ اگر وہ نہ بھی آئيں تو اگلی نسلوں ميں باہر جانے کی سوچ ختم ہو جائے گی
“ميں بھی پاکستان ہوں ۔ تو بھی پاکستان ہے” صرف ٹی وی يا محفلوں ميں گانے سے کچھ نہيں ہو گا ۔ پاکستانی بن کے دکھانا ہو گا اور اس کيلئے يہ بھی ضروری ہے کہ پنجابی ۔ سندھی ۔ پختون ۔ بلوچ ۔ مہاجر اور اُردو سپيکنگ صرف گھر کے اندر ہوں ۔ گھر سے باہر سب پاکستانی ہوں
شکریہ!!!!
اسر خوامخواہ جاپانی اصلی پاکستانی صاحب
آپ کا شکريہ شايد انٹرنيٹ کو پسند نہيں آيا تھا اور اسے سپيم ميں ڈال ديا تھا ۔ وہاں سے نکال لايا ہوں کہ اس کی مجھے بہت ضرورت ہے ۔ ورنہ عام طور پر گالياں اور طعنے ہی ملتے ہيں ۔ جزاک اللہ خير
ہر وہ پراڈکٹ جس پر ‘میڈ اِن پاکستان’ کا لیبل لگا ہوتا ہے، یقینا غیر ملکی مصنوعات سے بہتر ہوتی ہے مگر اس بات کو سمجھائے کون؟ یہ قوم ہے ہی غیرملکیوں کی ذہنی غلام!
یہ تیرا پاکستان ہے، نہ میرا پاکستان ہے
یہ اسکا پاکستان ہے ، جو صدر پاکستان ہے
جناب بھوپال صاحب السّلام و علیکم
اگر میں اپنی بات کروں تو ، میں خود پاکستان سے ہی کپڑے خریدتا ہوں اور اپنے یوروپین ساتھیوں کو دکھاتا ہوں کے یہ دیکھو یہ ہوتی ہے quality اور اسکی صحیح قیمت .
آپ نے اسس بلاگ کے ذریعے ایک اچھے کام کی طرف راہ دکھائی . مجھے حکیم محمّد سعید صاحب یاد آ گۓ، آپ بھی تمام عمر یہی کہتے رہے کے پاکستان بنو اور پاکستانی خریدو.
ویسے کافی حیرت ہوتی ہے یہ دیکھ کر کے لوگ کہاں کی کہاں ملاتے ہیں . اس بلاگ کے comments میں بھی یہی دیکھنے کو ملا .
ایک زاویہ نظر یہ بھی ہے ، پڑھیں اور اپنی آنکھیں کھولیں ،
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/07/100702_brelvi_deobandi.shtml
۔”
دل تو بہت چاہ رہا ہے کے بہت کچھ کہوں comments پہ لیکن رہنے دیں
نعمان صاحب اگر بی بی جی کے مبارک صاحب کی بات ٹھیک ھے تو یہ وہابی بڑے ظالم ھوئے جی۔پہلے برطانیہ کے خلاف دنگہ فساد کرتے تھے اب امریکہ صاحب کے خلاف بھی لڑتے ہیں۔
جی جناب آپکے بتاۓ ہوئے اصول کے مطابق اگر کل کلاں امریکا پاکستان پی حملہ کر دیتا ہے تو آپ اسکے خلاف لڑنے والوں کو بھی وہابی اور دہشت گرد اور جانے کیا کیا کہیں گے .
جناب ان صوفیا کرم نے اپنے دور میں جہاد کی سرپرستی فرمائی ہے ، محمود غزنوی کس کے پاس لاہور اتا تھا ، احمد شاہ ابدالی کو کس نے خط لکھ کے بلایا تھا ، عبدللہ ابنے مبارک کون تھے
باقی بات بعد میں ہو گی
اجمل صاحب وقار اعظم اور کشف نصیر کے جعلی ھونے کے امکانات ہیں۔
محمد نعمان صاحب
شايد آپ نہ مانيں ليکن يہ حقيقت ہے کہ ميرے خاندان ميں اہلِ حديث ديوبندی اور بريلوی کی تفريق کوئی نہيں مانتا ۔ ہم لوگ سيدھے سادھے مسلمان ہيں ۔
ميں نے بی بی سی اُردو پر يہ تحرير پڑھ لی ہے ۔ اس ميں محسوس ہوتا ہے کہ بی بی سی کے نمائندے نے بھی کچھ کرتب دکھايا ہے ۔ بہر حال يہ سب کچھ موضوع سے باہر ہے
محمد نعمان صاحب
اخلاق سے گرا ہوا آخری فقرہ تو ميں نے حذف کر ديا ہے ليکن آپ کا باقی تبصرہ بھی سمجھ سے باہر ہے ۔ ايسا تو نہيں کہ آپ نے تبصرہ لکھنا کہيں اور تھا اور لکھ ميرے بلاگ پر ديا ہے ؟
جناب عالی میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہے کہ میں نے یہاں کوئی تبصرہ کیا ہے۔ آپ قسم لے لیجئے۔۔۔۔۔۔۔
کل سے میرے بلاگ پر بھی کوریا سے تبصروں کا تانتا بندھا ہوا ہے اور کاشف نصیر اور بدتمیز کچھ اسی طرح کے تبصرے کررہے ہیں بیچارے جن کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوگی کہ وہ میرے بلاگ پر تبصرہ کررہے ہیں۔ پتہ نہیں کہاں کہاں میرے نام سے یہ تبصرے ہورہے ہوں گے اب میں کہاں کہاں تردید کرتا پھروں؟؟؟؟؟؟؟؟
یا اللہ کوریا والوں کے شر سے بچا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
دراصل افتخاربھائی، یہ چلن ہم کوٹی وی ڈراموں نےدیاہےیامیڈیاجس میں سب کچھ اخبارات ٹی وی ریڈیووغیرہ سب آتےہیں کہ وہ دراصل ماحول کواسطرح قاری کےسامنےپیش کرتےہیں کہ دیکھنےوالااسی میں کھوجاتاہے۔جبکہ حقیقت یہی ہےکہ پاکستان کی مصنوعات دنیابھرکی مصنوعات کاناصرف مقابلہ کرتی ہیں بلکہ ان سےکوالٹی میں بھی بہت بہترہیں۔
والسلام
جاویداقبال
Pingback: Tweets that mention کيا ہم آزادی کے مستحق ہيں ؟: اس کا جواب تلاش کرنے کيلئے ہم ميں سے ہر ايک کو دوسروں کی آنکھوں ميں تنکا ڈھونڈنا چھوڑ... -- Topsy.com
وقار اعظم صاحب
جو لوگ کسی اور کے نام سے تبصرہ کرتے ہيں ميں ان کو بھی دہشتگرد گردانتا ہوں ۔ اللہ ہميں شيطان کے شر سے بچائے ۔ آپ نے درست کہا اس کا آئی پی کوريا کا ہی ہے
جناب بھوپال صاحب السّلام و علیکم
یہ تبصرہ یہاں کے لئے نہیں بلکہ ایک دوست کے لکھا گیا تھا ، جس کی بات کا تھوڑا تلخ ہی سہی لیکن اسکے ہی لہجہ میں جواب دیا گیا تھا . آپ سے معذرت کہ آپکے بلاگ پہ ایک غیر اخلاقی جملہ تھوڑی سی دیر ہی کے لئے صحیح لیکن آیا .
اور جو جواب جناب یاسر صاحب کے لئے لکھا وہ دوست کو email کر دیا.
خیر
ہو سکتا ہے کے مبارک علی صاحب کے انٹرویو میں BBC کے نمائندے نے بھی کچھ کا گزاری دکھائی ہو.
لیکن میں اسس لئے متفق ہوا کیوں کے اسس موضوع پہ میرا بھی کچھ مطالعہ ہے جو کے مبارک علی صاحب جیسے تاریخ دان کی تحقیق سے کچھ اور بڑھا .
رہی بات ان فرقوں میں بٹنے کی تو کوئی بھی ذی شعور شخص یا خاندان اس کا قائل نہیں ہوتا . بہت خوشی ہوئی کہ آپ بھی ایسا سوچتے ہیں .
یہی بات سمجھنے کی ہے کے دین اسلام جوڑتا ہے توڑتا نہیں ہے .
اور گندی مچھلیاں ہر مکتبہ فکر میں ہوتی ہیں . ہمارے محلہ کی مسجد میں امام صاحب نے خوشیاں منائیں اور خطبہ میں بھی ذکر فرمایا جب امریکہ نے افغانستان پہ حملہ کیا اور …. باقی تو آپکو پتا ہی ہے، وہ صاحب بریلوی ہیں . جبکہ شاہ نورانی صاحب نے امریکہ کی مزممت کی تھی . تو ایک دو لوگوں سے پورے مکتبہ فکر کو سمجھا نہیں جا سکتا .
یہ تبصرہ یہاں کے لئے نہیں بلکہ ایک دوست کے لکھا گیا تھا ، جس کی بات کا تھوڑا تلخ ہی سہی لیکن اسکے ہی لہجہ میں جواب دیا گیا تھا . آپ سے معذرت کہ آپکے بلاگ پہ ایک غیر اخلاقی جملہ تھوڑی سی دیر ہی کے لئے صحیح لیکن آیا .
اور جو جواب جناب یاسر صاحب کے لئے لکھا وہ دوست کو email کر دیا.
خیر
ہو سکتا ہے کے مبارک علی صاحب کے انٹرویو میں BBC کے نمائندے نے بھی کچھ کا گزاری دکھائی ہو.
لیکن میں اسس لئے متفق ہوا کیوں کے اسس موضوع پہ میرا بھی کچھ مطالعہ ہے جو کے مبارک علی صاحب جیسے تاریخ دان کی تحقیق سے کچھ اور بڑھا .
رہی بات ان فرقوں میں بٹنے کی تو کوئی بھی ذی شعور شخص یا خاندان اس کا قائل نہیں ہوتا . بہت خوشی ہوئی کہ آپ بھی ایسا سوچتے ہیں .
الله سے dua ہے کے ہمیں ایک بنے اور نیک بناۓ.
محمد نعمان صاحب
جسے مخاطب کريں اس کا نام اُوپر لکھ دينا چاہيئے
ياسر خواہ مخواہ جاپانی صاحب نے نمعلوم کس پيرائے ميں وہ فقرہ لکھا ۔ شايد کچھ غلط فہمی ہوئی ہو