حریت کانفرنس (گ) کے احتجاجی پروگرام کے پہلے روزجمعہ 25 جون 2010ء کو وادی میں مکمل اور ہمہ گیر ہڑتال سے زندگی کا پہیہ جام رہا ۔جنوبی کشمیر کے اسلام آباد ، کولگام ، پانپورجبکہ شمالی کشمیر کے سوپوراوربارہ مولہ میں پُر امن احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد بھڑکا اور بارہ مولہ میں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے ٹیئر گیس شيلنگ کی جسکے نتیجے میں نصف درجن افراد زخمی ہوئے۔اس دوران آزادی پسند لیڈران و کارکنان کے خلاف پولیس نے کریک ڈائون کا سلسلہ جاری رکھا۔پولیس نے تحریک حریت کے ایک کارکن کو گرفتار کر لیا جبکہ مسلم لیگ اور پیپلز فریڈم لیگ کے صدر دفتر پر بھی چھاپہ مارا۔ حریت کانفرنس (گ) کی طرف سے جاری کئے گئے احتجاجی کلینڈر کے پہلے روزجمعتہ البارک ‘کشمیر بندھ’ کی کال کے تحت وادی میں ہڑتال رہی ، تمام دکانیں اور کاروباری ادارے بند رہے جبکہ اسکولوں اور بینکو ں میں کام کام کا ج ٹھپ ہوکر رہ گیااور سڑکوں سے ٹرانسپورٹ غائب رہا۔ انتظامیہ نے امکانی مظاہروں اور سنگبازی کے واقعات کو روکنے کیلئے پائین شہر میں فورسز کی بھاری تعداد کوتعینات کیا تھا۔ نمازجمعہ کے بعد پائین شہر کے نوہٹہ، راجوری کدل، نواب بازار، صراف کدل اور دیگر علاقوں میں ہلاکتوں، گرفتاریوں اور زیادتیوں کیخلاف لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور اسی بیچ سنگباز بھی نمودار ہوئے تاہم اِکا دُکا جھڑپوں کو چھوڑ کر پائین شہر میں صورتحال پُر امن رہی۔ چنانچہ وادی کے کئی علاقوں میں نماز جمعہ کے موقعہ پر پُر امن احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ سیر ہمدان کولگام میں نماز جمعہ کے بعد چوگل گام کے مقام پر لوگوں نے زیادتیوں کیخلاف احتجاجی مظاہرے شروع کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوئی۔
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » کشمير چھوڑ دو مہم کا آغاز -- Topsy.com
حریت کانفرنس کا سنا تھا مگر پہلی بار بریکٹ میں (گ) پڑھا ہے ـ
شعيب صاحب
حريت کانفرنس کے ايک صاحب کو جنرل پرويز مشرف نے خريد ليا تھا چنانچہ وہ اپنے گروہ کو لے کر عليحدہ ہو گئے تھے ۔ باقی حريت کانفرنس گ ہے جو سيّد علی گيلانی کی رہنمائی ميں کام کر رہی ہے ۔ پرانی تاريخ پر نظر ڈالی جائے تو اصلی حريت کانفرنس يہی ہے
اللہ کے بندے کچھ عقل کو ہتھ ماریں اور گ کی جگہ پورا گیلانی لکھ دیا کریں!
کیوں اپنے ساتھ ساتھ سب کی جگ ہنسائی کرواتے ہیں!
عبداللہ صاحب
حقيقت تو يہ ہے کہ آپ نے اپنی عقل سنبھال کر رکھی ہوئی ہے کہ کہيں خرچ نہ ہو جائے ۔ تھوڑی سی استعمال کر ليتے تو پتہ چل چاتا کہ يہ سرينگر ميں رہائش پذير امتياز صاحب کی تحرير ہے جو ميں نے اُن کے حوالے کے ساتھ نقل کی ہے ۔ آپ نے آؤ ديکھا نہ تاؤ اور بنگلور کے شعيب صاحب کا تبصرہ پڑھ کر تبصرہ کر ديا
آج ہی پتہ چلا کہ گیلانی جماعت کا چھوٹا نام “گ” ہے –
مگر اخباروں میں گیلانی جماعت کو “گ” کبھی نہیں پڑھا!!
شاید آپ نے شاٹ فام میں نام رکھ دیا ہو –
بزرگ صاحب، میں اردو زبان کا قاری “بھی” ہوں، بنگلور تو صرف ایک علاقہ ہے
جو سمجھ آئے اسی پر تبصرہ کرتا ہوں؛
آپ ہیں اور آپ کا بلاگ ۔
اگر میرے تبصرے پسند نہیںکرتے تو باقی آپ کی مرضی –
شعيب صاحب
يہ آپ نے کيسے تصور کر کيا کہ آپ کا تبصرہ مجھے پسند نہيں ؟ جس شخص کو جواب ديتے ہوئے ميں نے آپ کا ذکر کيا ہے وہ صاحب نکتہ چيں ہيں ۔ بنگلور کا ذکر مجھے اچھا لگتا ہے کيونکہ کسی زمانہ ميں ميرے دادا وہاں رہے تھے ۔ مجھے بچپن ميں بنگلور کی باتيں سنايا کرتے تھے
اصل ميں گ مجھے بھی اچھا نہيں لگا تھا ليکن ميں نے تبديلی نہيں کی کيونکہ يہ تحرير ميری نہيں بلکہ سرينگر ميں رہائش رکھنے والے ايک صحافی کی تحرير سے اقتباس ہے
اچھا تو آپ کے دادا جان بنگلو سے واقف تھے!!
بنگلور کے علاوہ میرا کوئی شہر نہیں، سبھی خاندان ہمیشہ سے ایک جگہ جمع ہیں ۔
اور بنگلور کو بھارت کا “آئی ٹی” شہر نام رکھا ہے، یہاں دنیا بھر کی سبھی سافٹوئیر کمپنیوں کا جیسے جنگل ہے ویسے پہلے گارڈن سٹی کہلاتا تھا یہ شہر۔
آپ کے داداجان کا بنگلور اور اب سو فیصد سے زیادہ فرق ہے ۔
آپ کی پوسٹ سے ہٹ کر تبصرہ کیا ہے معافی چاہتا ہوں –
شعيب صاحب
دادا جان دہلی آگرہ بريلی بنگلور اور حيدرآباد دکن ميں رہے ۔ حيدرآباد ميں اُنہيں بہت عزت ملی مگر کسی وجہ سے اُنہيں بنگلور پسند تھا ۔ دادا جان کو سچے ۔ محنتی اور مددگار آدمی پسند تھے ۔ پتہ نہيں بنگلور کے لوگوں ميں کونسی خصوصيت تھی
آپ کبھی بھارت آئیں تو جنوبی ہندوستان ضرور آنا
یہاں آپکو عرب ممالک، پاکستان اور انڈونیشیا سے بھی زیادہ مذہبی مسلمان نظر آئیں گے ۔
اور بھارت میں اردو اخبارات سب سے زیادہ جنوب سے پبلش ہوتے ہیں ۔
ویسے شمالی ہندوستان کے لوگ جنوب کا رخ کرچکے ہیں یہاں کی ترقی دیکھ کر ۔
آپ یہاں آئیں گے تو باہر کے لوگ زیادہ اور لوکل بہت کم دکھائی دیں گے ۔
بہت ہی پرخلوص لوگ ہیں جنوبی ہندوستان میں اور یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ آپ کے دادا جان نے جنوبی ہندوستان کو پسند فرمایا ۔
شعيب صاحب
يہ باتيں ميرے علم ميں ہيں مگر ميں بھارت نہيں آ سکتا کيونکہ مجھے بھارتی حکومت ويزہ نہيں ديتی ۔ ميرے دو جُرم ہيں ايک تو ميں جموں ميں پيدا ہوا تھا دوسرے پاکستان ميں محکمہ دفاع کی نوکری کی
بھارت میں ہر سال درجنوں پاکستانی آتے ہیں، کوئی علاج کیلئے تو کوئی درگاہ کی زیارت اور پھر اپنے رشتہ داروں سے ملنے!!
مگر آپ کو ویزا کیوں نہیں مل سکتا؟
خود اپنے بنگلور شہر میں کئی پاکستانی علاج، آپریشن کروانے کیلئے آتے ہیں۔
آپ بھی اپنے دادا جان کی یادیں تازہ کرنے ایک بار ضرور بنگلور تشریف لائیں ۔
شعيب صاحب
اُن لوگوں ميں کوئی بھی جموں [رياست جموں کشمير] کا نہيں ہوتا ۔ ہم لوگ کوشش کر چکے ہيں