جموں و کشمیر میں آزادی پسندوں کی طرف سے “کشمیر چھوڑ دو” مہم کے پروگرام پر عمل کرتے ہوئے ریاستی عوام نے اتوار کو دیواروں،سڑکوں اوردکانوں پر “گو انڈیا گو بیک” کا نعرہ مختلف علاقوں میں تحریر کیا جبکہ کئی ایک علاقوں میں “گو انڈيا گو بيک” کے بینر بھی آویزاں دیکھے گئے۔ واضح رہے کہ حریت کانفرنس (گ) نے “کشمیر چھوڑ دو” مہم کیلئے 25 جون سے 13 جولائی 2010ء تک مختلف پروگرام ترتیب ديئے ہیں جن میں سے “گو انڈيا گو بيک” کا نعرہ دیواروں ،دکانوں اور سڑکوں پر تحریر کرنے کیلئے کہا گیاتھا۔ مذکورہ احتجاجی پروگرام پر عمل کرتے ہوئے سرینگر کی مختلف سڑکوں اوردکانات پر نوجوانوں کو یہ نعرہ تحریر کرتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ وادی کے دیگر علاقوں سے بھی مذکورہ احتجاجی پروگرام عملانے کی اطلاعات ہیں۔پائین شہر کے مختلف علاقوں میں دکانوں، دیواروں، مکانوں اور اہم سڑکوں پر ”گو انڈیا گو” کے نعرے تحریر کئے گئے وہیں شہر کے مضافاتی علاقے لسجن میں بھی ”گو انڈیا گو ” کے بینر آویزان رکھے گئے تھے۔ ادھر بٹہ مالو ، حبہ کدل، آبی گذر اور دیگر مقامات پر بھی سڑکوں کے بیچوں بیچ ”گو انڈیا گو ” کے نعرے درج کئے گئے۔
[13 جولائی 1931ء کو جموں کشمير کے مسلمانوں پر جو ايک جگہ جمع تھے پر ہندو آفیسر نے بغیر وارننگ دیئے پولیس کو گولی چلانے کا حکم دے دیا تھا جس سے 22 مسلمان شہید اور بہت سے زخمی ہوئے تھے]
یہ ایک ہی تحریر دو بلاگوں پر کیوں موجود ہے؟
عثمان صاحب
آپ کے اعتراض کی اصل وجہ کيا ہے ؟ اگر آپ امتياز صاحب کے بلاگ کو دوسرا بلاگ کہہ رہے ہيں تو اس ميں ہرج کيا ہے ؟ ميں نے اُن کا ربط ديا ہے ۔ امتياز صاحب سرينگر [مقبوضہ کشمير] ميں ہيں جبکہ ميں پاکستان ميں ہوں ۔ اُن لوگوں کے متعلق بات کيجئے جو بغير ربط ديئے دوسروں کی تحارير اپنے بلاگوں پر نقل کرتے ہيں ۔ مناسب سمجھتے ہوں تو امتياز صاحب کو ميری شکائت کيجئے
آپ غلط سمجھے۔ میں کوئی اعتراض نہیں کر رہا۔ بلکہ حیرت کا اظہار کر رہا ہوں کہ اگر مصنف خود ایک بلاگ رکھتے ہیں تو پھر تحریر ایک سے ذائد جگہ پر رکھنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ جبکہ قارئین کو مصنف کے بلاگ تک باآسانی رسائی حاصل ہے۔
اگر آپ امتیاز صاحب کو جانتے ہو تو ان سے کہیے کہ اپنی تحریر کا فونٹ بڑا اور بہتر کریں۔ ان کی تحریر پڑھنے میں کافی دقت کا سامنا ہے۔
عثمان صاحب
ميرے بلاگ کی ہر تحرير ميرے بلاگ کے علاوہ کم از کم چار مختلف ويب سائيٹس پر نظر آتی ہے ۔ ان ميں سے صرف ايک پر ميں نے رجسٹر کيا تھا جس کا نام اُردو سيارہ ہے باقيوں نے خود ہی ايسا کيا ۔ مجھے بہت بعد ميں پتہ چلا ۔ اس پر بھی آپ اعتراض کريں گے ؟
پہلی بات تو یہ کہ میں واضح کر چکا ہوں کہ میں کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کر رہا اور نہ ہی مجھے کوئی حق پہنچتا ہے۔ جو پوچھ رہا ہوں ازراہ معلومات ہی پوچھ رہا ہوں۔
دوسرے یہ کہ میں آپ کی بے جا تلخی کی وجہ سمجھ نہیں پایا۔ اگر وجہ “میرا پاکستان” کے بلاگ پر حالیہ گفتگو ہے تو یہ واضح کردوں کہ میں صرف تحریر پڑھ کر ہی اختلاف یا تائید کرتا ہوں۔ اور یہ تمام تر بحث اسی صفحہ پر ختم ہو جاتی ہے۔ پرانی کدورتیں آگے لے کر چلنے کا میں عادی نہیں۔ نہ ہی میں سکرین کے پیچھے بیٹھے فرد کی شخصیت کے متعلق کوئی رائے قائم کرتا ہوں۔
آپ کے دفاع میں میں نے اس بلاگ پر اپنا احتجاج درج کروایا ہے۔ شائد آپ دیکھنا پسند کریںگے ۔
http://noumaan.sabza.org/archives/594
عثمان صاحب
ميرا دفاع کرنے پر آپ کا ممنون ہوں ۔ معذرت خواہ ہوں ۔ آپ بہت سنجيدہ ہو گئے ۔ چليئے آپ نے اعتراض کی وجہ نہيں بتائی تو ميں خود ہی وضاحت کر ديتا ہوں ۔ ميں نے امتياز صاحب کی تحرير کے اقتباسات اپنے بلاگ پر اسلئے شائع کرنا شروع کئے ہيں کہ جيسا کہ ميں نے پہلے اشارہ ديا تھا وہ سرينگر ميں رہتے ہيں اور وہاں کے چشم ديد واقعات لکھتے ہيں ۔ يہاں پاکستان ميں بھارتی خبر رساں ايجنسيوں کے ذريعے خبريں پہنچتی ہيں ۔ ميری کچھ عرصہ قبل ان سے واقفيت ہوئی تو ميں نے اُن سے کہا تھا کہ جب بھی وہ تحريک آزادی کی جدوجہد کا حال لکھيں تو مجھے مطلع کريں ۔
ايک دفعہ ميں نے بھی عنيقہ کے بلاگ پر آپ کا دفاع کيا تھا بلکہ بدلے ميں نامعلوم نے ميرا تعلق بازار سے جا ملايا تھا آپ نے مجھے تو ممنون نہيں کہا حالانکہ سنا ہے نبی کريم نے فرمايا تھا سب بچوں کو ايک آنکھ سے ديکھنا چائيے اور پيار بھی سب کو برابر ، ادھر تو لڑکا دوگنا اور لڑکی آدھا والا چکر بھی نہيں
اسماء بتول صاحبہ
ميری دو آنکھيں ہيں تو ميں ايک آنکھ سے کيسے ديکھ سکتا ہوں ؟ ويسے ادھر بيٹی دگنی اور بيٹا آدھی والا چکر ہے
بہت گندھی بچی ہے ۔ اس وقت کيوں نہيں بتايا ۔ ميں اس نامعلوم کو پکا نامعلوم کرنے کی کوشش کرتا
ميں لڑکيوں کا شکريہ ادا نہيں کرتا مجھے لڑکيوں سے ڈر لگتا ہے
کشمیر والوں کی ہمت کو سلام جو وہ کب سے اپنے لیے لڑ رہے ہیں ۔۔ اور وہ دن دور نہیں جب وہ اپنا الگ کشمیر بنا کر دم لیں گے ۔۔
تانيہ رحمان صاحبہ
سرفروشی کی تمنا سدا ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
لے کے رہيں گے آزادی ۔ اِن شاء اللہ