خواتين اسے پڑھيں تو اپنے اُوپر لينے کی بجائے اس کی ساخت پر غور کريں بالآخر يہ مذاح ہے
جس خاوند کو بيوی ڈانٹتی ہے وہ شريف مرد ہے
جو خاوند بيوی کو ڈانٹے وہ ظالم ہے
بيوی کے خاوند کو ڈانٹنے کا مطلب ہے کہ وہ خاوند سے پيار کرتی ہے
بيوی کے خاوند کو نہ ڈانٹنے کا مطلب ہے کہ خاوند بيوی سے پيار نہيں کرتا
عربی ميں مذکر کی جمع بھی مؤنث ہوتی ہے اسلئے حقوق صرف عورتوں کے ہوتے ہيں
مرد کا صرف ايک حق ہوتا ہے جو وہ نکاح کے وقت بيوی کے حوالے کر ديتا ہے
نکاح کے وقت تو حق مہر دیا تھا۔اب تو ہر جانہ اور تاوان دے رہے ہیں۔
بعض اوقات لتروں سے بال بال بچا ہوں۔
اچھا ہوا بیوی کو اردو بلا گ پڑھنا نہیں سکھایا ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شکایت کر نے ایک اور ڈانٹ پڑ جاتی
افتخار جی کیا بات ہے اتنے عرصے کے بعد آپ کو گزری ہوئی باتیں یاد آ رہی ہیں ۔۔۔سب خیریت ہے نا ۔۔۔۔۔۔ویسے سچی باتوں بیوی کسی کی بھی ہو ہر حال میں خوش نہیں رہتی۔۔۔خدا کی بندی کبھی تو خوش ہو لیا کرو ۔ ہر موقع پر میاں بچارہ ہی مار کھاتا ہے ۔۔۔ لیکن یہ باتیں صرف اور صرف شریف میاوں کے لیے ہے ۔۔
ياسر خواہ مخواہ پنجابی صاحب
بيگم صاحبہ کو سکھا ديا ہوتا تو شايد حالات خوشگوار ہو جاتے
تانيہ رحمان صاحبہ
مجھ پر تو اللہ کی مہربانی ہے ۔ جھگڑتے ضرور ہيں مگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر مثال کے طور پر ميں دوپہر کو آرام کيوں نہيں کر رہا ۔ دھوپ ميں باہر گيا تو ٹوپی کيوں نہ پہنی گو مں کار پر گيا تھا وغيرہ ۔
کیا خوب لکھا ہے
خواتین سے پنگا لینا کوئی اچھی علامت نہیں
شازل صاحب
مسئلہ ہمارے معاشرے کا يہ ہے کہ مذاق کرنے والوں کی اکثريت مذاق پسند نہيں ہے ۔ جس معاشرے کا دم بھرا جاتا ہے وہاں اکثر لطيفے عورتوں کے متعلق ہوتے ہيں يا فوجيوں کے متعلق ۔ وہ معاشرہ فرنگی کا ہے جہاں عورت کی آزادی کا دعوٰی کيا جاتا ہے ليکن ان ميں خوبی ہے کہ وہ مذاق پسند بھی کرتے ہيں
بہت خوب جناب نظم لکھ ماری ہے۔
لگتا ہے آپ متاثرین میںسے ہیں۔
اللہ آپ کو محفوظ رکھے۔
منظور عباس نيازی صاحب
تشريف آوری کا شکريہ ۔ اللہ کا کرم ہے کہ ايسا ميرے گھر ميں نہيں ہوتا ۔ ہم لوگ ايک دوسرے کے فرائض اور حقوق سے واقف ہيں
خوب
نکاح کے وقت وہ کون سا حق ہم دے دیتے ہیں؟
مجھے تو لگتا ہےمرد کے سارے ہی حق کسی نہ کسی حد تک مشکوک سے ہو جاتے ہیں
بلکہ مجھے تو یہ بھی سننا پڑتا ہے
‘جو کچھ میرا ہے وہ میرا ہے اور جو کچھ تمھارا ہے وہ بھی میرا ہے’
میں بیگم تو دکھا تو دون یہ بلاگ مگر ڈر ہے کہ وہ جو آپ نے لکھا ہے بیوی ڈاںٹتی ہے تو اس کا مطلب ہو وہ پیار کرتی ہے
یہ پڑھ کر ڈاںٹ میں’ ترقی’ نہ ہو جائے
ایک پرانا معین اختر کا سناتا چلوں
‘ایک صاحبہ میری آواز پسند کرتی تھیں–میں بولتا تھا وہ سنتی تھی-میں بولتاتھا وہ سنتی تھی
بات آگے بڑھی ہماری دوستی ہوئ–پھر وہ بولتی تھی میں سنتا تھا وہ بولتی تھی میں سنتا تھا وہ بولتی تھی میں سنتا تھا
بات اور آگے بڑھی- ہم دونوں کی شادی ہو گئ
اب ہم دونوں بولتے ہیں محلے والے سنتے ہیں’
بھائی وھاج الدين احمد صحب
نکاح کے وقت اپنی مرضی کر
نے کا حق ختم ہو جاتا ہے
محترم چچا جان۔ آپ ایک چیز بھول گئے۔
جس خاوند کو بیوی کہتی ہے کہ “تم میرے ہو” تو اس سے مراد صرف سر سے پیر تک نہیں بلکہ بنک بیلنس جائیداد اثاثہ جات سب کے ساتھ ۔۔۔
وغیرہ
حيدرآبادی صاحب
ميرے اتنے اثاثے ہی نہيں اسلئے اس طرف خيال نہيں گيا ۔ اللہ کی کرم نوازی ہے کہ ميری بيوی اور بچے يعنی بيٹے بہويں اور بيٹی سب روپے پيسے کے لالچ سے آزاد ہيں ۔ يہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس کيلئے ميں جتنا بھی اللہ کا شکر ادا کروں کم ہے
تحریر سے ثابت ہوا کہ میں انتہائی شریف آدمی ہوں اور میری زوجہ مجھے انتہائی پیار کرتی ہیں ۔
مگر میں بلا کا ظالم بھی ہوں
وسلام
طالوت صاحب
يہ سب کچھ اکٹھا ؟
جی ہاں ۔ ہم میاں بیوی ادھار کے قائل نہیں ۔ البتہ میں بلا کا ظالم اسلئے کہ میری زوجہ شوہر کے مجازی خدا ہونے پر کسی قدر ایمان رکھتی ہیں مگر میرا ایسا کوئی ایمان نہیں
وسلام
انکل آپکو بھی؟
میںسمجھا یہ صرف ہماری نسل کا مسئلہ ہے۔
فيصل صاحب
اللہ کا کرم ہے کہ ميری بيوی اسلامی شريعت کی پابند ہے ليکن گھر ميں حکومت اُسی کی چلتی ہے
اللہ خیر کرے
اور ایسی نوبت سے بچائے
پیار محبت اور تو تو میں میں سے آگے بات نا بڑھے
گھر جنت ہونا چاہیئے جہاں انسان آکر سکون سے رہ سکے
میاں اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے کی ضروریات سمجھنے سے ایسے حالات کی نوبت نہیں آپاتی
محم طارق راحيل صاحب
آپ نےبالکل درست کہا ۔ ميرا اور بيوی کا جھگڑا تو ہوتا ہی رہتا ہے ۔ بيوی کو مجھ سے شکائت رہتی ہے کہ ميں آرام نہيں کرتا ۔ بيمار ہوں تو بتاتا نہيں ۔ مجھے بيوی سےشکائت ہوتی ہے کہ وہ کم کھاتی ہے اور صحت کا خيال نہں رکھتی اور ان کی بناء پر جھگڑا ہوتا ہے