اِنا للہِ و اِنا اِليہ راجعون
کل صبح ساڑھے نو [پاکستان کے ساڑھے دس] بجے يونہی ٹی وی ڈان نيوز لگايا تو سُرخ پٹی پر لکھا تھا اسلام آباد اور راولپنڈی کے ہسپتالوں ميں ايمرجنسی نافذ کر دی گئی ۔ دل دھک سے رہ گيا اور اس ميں سے التجائی آواز نکلی يا اللہ خیر ۔ اس کے بعد جو کچھ ديکھنے ميں آيا وہ آہوں اور آنسوؤں کا ايک سيلاب تھا ۔ سارا دن ٹی وی کے سامنے مبہوت بنا بيٹھا رہا ۔ بار بار کليجہ منہ کو آتا رہا اور آنکھيں آنسو برساتی رہيں ۔ چشم زدن ميں 152 افراد جن ميں 22 عورتيں 8 بچے جن ميں 2 شيرخوار تھے اس فانی دنيا کو چھوڑ گئے ۔ کسی کا بيٹا بيٹی کسی کا بھائی بہن کسی کا ماں باپ بچھڑ گيا ۔ ان ميں سے ہم کسی کو نہيں جانتے مگر يوں محسوس ہو رہا تھا کہ سب ہی اپنے ہيں ۔ ہاں 23 جولائی کو ايئر بليو کی پرواز سے دبئی آتے ہوئے جہاز ميں اعلان کرنے والی ايئر ہوسٹس ام حبيبہ تھيں جو کل کے حادثہ ميں چل بسيں
جس علاقہ ميں کل حادثہ پيش آيا اسی علاقہ ميں 48 سال قبل پاکستان ہوائی فوج کا ايک مال بردار طيارہ حادثہ کا شکار ہوا تھا جس ميں ميرا ايک دوست پرويز جہانگير اور اس کا ساتھی ہلاک ہوئے تھے ۔ ہوا يوں تھا کہ اُن کا طيارہ چکلالہ سے فضا ميں بلند ہوا تو اچانک طوفان آيا ۔ جب طيارہ اسی علاقہ ميں مارگلہ کی پہاڑيوں کے قريب پہنچا تو طوفانی ہوا نے بائيں جانب سے اُسے دھکيل کر داہنی جانب دُور اور نيچے کی طرف پھينکا ۔ طيارے کا داہنا پر پہاڑی کی چوٹی سے ٹکرا کر الگ ہو گيا پھر طيارہ ہوا ميں لٹو کی طرح گھومتا ہوا پہاڑی پر گرا اور اس کے ٹکڑے ميلوں ميں پھيل گئے ۔ حقيقت يہ ہے کہ طيارہ سامنے اور پيچھے کی طرف سے آنے والی تُند و تيز ہواؤں کو برداشت کر ليتا ہے ليکن اگر داہنے يا بائيں سے اچانک طوفانی ہوا طيارے سے ٹکرائے تو طيارے کو ساتھ اُڑا کر لے جاتی ہے اور ساتھ ہی طيارہ بہت نيچے چلا جاتا ہے ۔ ايک دفعہ ميں کراچی سے اسلام آباد جا رہا تھا تو اچانک طيارہ نيچے کی طرف گيا ۔ پائلٹ نے بعد ميں اعلان کيا کہ اللہ نے ہميں بچا ليا ۔ طيارہ بھنور ميں پھنس کر 2000 فٹ نيچے چلا گيا تھا
ميرا ذہن کہتا ہے کہ کل کا حادثہ ٥٨ سال قبل والے حادثہ سے مماثلت رکھتا ہے کيونکہ کل جب طيارہ چکلالہ اترنے لگا تو اسے نمبر 12 پر اترنے کا کہا گيا ۔ پائلٹ نے قبول کرنے کی اطلاع دے کر طيارہ اتارنا شروع کيا تو اسے کہا گيا کہ نمبر 30 پر اُترو ۔ نمبر 30 پر اترنے کيلئے اسے طيارہ کو دُور لے جا کر موڑ کر لانا تھا ۔ عين ممکن ہے طوفانی بارش کی وجہ سے پائلٹ طيارے کو جلد زيادہ اُوپر نہ اُٹھا سکا ہو اور مقررہ 6 ميل کی حد سے آگے نکل گيا ہو اور طيارے کو مڑتے ہوئے طوفانی ہوا نے پہاڑی کی طرف پھينک ديا ہو اور اس طرح طيارہ پہاڑی سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گيا ہو
واللہ اعلم
Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » آہ -- Topsy.com
مجھے بیٹے نے جب آ کر بتا یا کہ یہ روح فرسا حادثہ پیش آیا ہے تو خبریں سنتے ہوئے دلی افسوس ہو رہا تھا 152 افراد اپنوں سے جدا ہو گئے ۔ اللہ تبارک تعالی انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہہ دے آمین ثمہ آمین
بیت ہی افسوس ناک سانحہ ہے، لیکن جو ہونے کو کون روک سکتا تھا۔ یوتھ پاررلمینٹ کے کئی ساتھی بھی ہم سے جدا ہوئے اور 152 دیگر لوگوں کا یہ سفر بھی آخری سفر ثابت ہوا۔
اِنا للہِ و اِنا اِليہ راجعون
آپ نے حادثے کا عجب نقشہ کھینچا ہے
اور اس طرح عین ممکن ہے ویسے میرا نہیں خیال کہ اس میں تخریب کاری کا عنصر کارفرما ہو۔
میں طیارے کے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔
طیارے کے حادثے کی تحقیقات ایئربس کمپنی اور امریکی ادارے نیشنل ٹرانسپورٹیشن اینڈ سیفٹی بورڈ سے کروائی جائے۔کیونکہ پاکستانی اداروں کی تحقیقات کبھی عوام کے سامنے نہیں آتیں۔اگر آتیں ہیں تو مفصل نہیں ہوتیں۔
طیارے کے حادثے کی تحقیقات میں نیشنل جیوگرافک چینل کی ٹیم کو بھی شامل کیا جائے۔ تاکہ تحقیقات کی وڈیوز کو ریکارڈ کیا جا سکے۔نیشنل جیوگرافک حادثات کےواقعات کی تحقیقات کو فلمانے میں بہت مشہورہے۔
شازل صاحب
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے عقل سب انسانوں کو دی مگر ميرے ساتھ مزيد کرم نوازی کی کہ اس کے استعمال کا طريقہ بھی بتا ديا
فرحان دانش صاحب
آپ درست کہتے ہيں مگر آپ کی يا ميری مانے گا کون ؟
کنٹڑول ٹاور ميں موجود شخص اس حادثہ ميں قصور وار ثابت ہو سکتا ہے ۔ پہلی بات کہ طوفان اس طرف سے آ رہا تھا جس طرف طيارے کا رُخ تھا تو نمبر 12 پر اُترنے کا کيوں کہا ؟ ايسے حالات ميں نمبر 30 پر اترنے کا کہا جاتا ہے ۔ پھر اگر کہہ ہی ديا تھا اور طيارہ اترنا شروع ہو گيا تو نمبر 30 کيوں کہا ؟
دوسری بات کہ پی آئی اے اور ايک دوسرے طيارے کا اس سے قبل رخ بدلا گيا تھا اور انہيں لاہور ميں اترنے کا کہا گيا تھا تو اسے اترنے کا کيوں کہا گيا ؟
نہایت ہی افسوس ناک خبر ہے۔ اللہ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور انہیں شہادت کے رتبے سے سرفراز کرے ، آمین۔