Monthly Archives: April 2010

امریکی اخبار ۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دِکھانے کے اور

امریکی عدلیہ کی آزادی پر فخر کا دم بھرنے والے امریکی میڈیا جو کسی صورت میں اپنے سرکاری عہدیدار پر کرپشن کا الزام تک برداشت نہیں کرتا کی جانب سے امریکا کے بڑے اخبارات میں پاکستانی عدلیہ کے خلاف اور اس کے این آر او کے متعلق فیصلے کے حوالے سے جو کچھ بھی شایع ہوا ہے وہ سب غلط، آدھا سچ اور انتہائی حد تک متعصبانہ اور حقیقت سے انتہائی دور ہے ۔ کئی رپورٹس نامعلوم ذرائع کے حوالے سے دی گئی ہیں اور ان میں پیپلز پارٹی کے حوالہ جات بھی شامل ہیں

صحافت کے اعلیٰ ترین معیارات کی پیروی کرنے کے دعوے کرنے والے ٹائم میگزین نے ڈھٹائی کے ساتھ پیپلز پارٹی کے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ نواز شریف کی جانب سے آئینی پیکیج کی حالیہ مخالفت چیف جسٹس کے دباؤ کا نتیجہ تھی ۔ میگزین کے مطابق چیف جسٹس نے نواز شریف کو دھمکی دی تھی کہ بصورت دیگر عدالتیں ان کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولیں گی

کئی اعلیٰ ترین وکلاء یہ سمجھتے ہیں کہ ٹائم میگزین میں جو کچھ شایع ہوا ہے وہ پروپیگنڈہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قاضی انور جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے حالیہ ہفتوں کے دوران چیف جسٹس سے دو مرتبہ ملاقات کی ہے ججوں کے تقرر کے معاملے پر نواز شریف کے مؤقف کے مخالف ہیں لیکن انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ چیف جسٹس ایسے کسی معاملے پر مشاورت کے خواہاں نہیں ہیں جو پارلیمنٹ کا اثاثہ تصور کئے جاتے ہیں ۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ ٹائم میگزین یہ نوٹ کرنے میں ناکام ہوگیا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے حال ہی میں سینیٹر رضا ربانی کی زیر قیادت پارلیمانی کمیٹی کے کام کی تعریف کی گئی ہے ۔

واشنگٹن سے شائع ہونے والے ایک اور جريدہ ”دی ہل” میں جارج برونو نے پاکستان میں ہونے والی ایک بغاوت کا ذکر کیا ہے ۔ بے وقوفی سے بھرپور اس تحریر میں پروپیگنڈہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور یہ مضمون پاکستانی لابِسٹس کے زیر اثر تحریر کیا گیا ہے ۔ اس مضمون میں پاکستانی عدلیہ کے سیاست زدہ ہونے کی بھی بات کی گئی ہے ۔ مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کی جانے والی کوششیں پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت کو نقصان پہنچا رہی ہیں ۔ مزید کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے آئین کی مخالفت میں نہ صرف عدالتوں میں پیدا ہونے والی اسامیوں پر تقرر کا وزیراعظم کا اختیار چھین لیا ہے بلکہ ایگزیکٹو برانچ کی طاقت بھی چھین لی ہے ۔ “دی ہل” کی جانب سے شائع کی گئی یہ رپورٹ ثابت کرتی ہے کہ اسے ان معاملات میں آئینی شقوں کا علم ہی نہیں ہے ۔

تحریر میں جارج برونو نے خود کو یونیورسٹی آف نیو ہمپشائر کے “پارٹرنز فار پیس” پروگرام کے شریک ڈائریکٹر کے طور پر متعارف کرایا ہے ۔ انہوں نے خود کو سابق امریکی سفیر بتانے کے علاوہ کلنٹن انتظامیہ میں خدمات انجام دینے کا بھی دعویٰ کیا ہے ۔ تاہم انہوں نے پاکستان کی عدلیہ کے خلاف جو کچھ بھی لکھا ہے اس کے بعد ان کی ساکھ کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہے

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے پاکستان میں جاری حالیہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان کے موقف اور سوئس پراسیکیوٹر جنرل کے بیان کے بعد سے پاکستان میں کرپشن کے کیسز پر غیر یقینی صورتحال برقرار ہے ۔ جبکہ ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار اور صدر زرداری کے قریبی دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی اخبار کو بتایا کہ جہاں تک میرا خیال ہے سپریم کورٹ میں ساری کارروائی ایک تماشہ اور سیاسی نمبر بڑھانے کا عمل دکھائی دیتی ہے کیونکہ چیف جسٹس اس قانونی صورتحال سے لاعلم نہیں رہے سکتے کہ درحقیقت سوئٹزرلینڈ میں اس کیس پر کارروائی نہیں ہوسکتی

بنیادی طورپر یہ امریکی میڈیا ہی تھا جس نے مقدمہ چلنے یا مؤاخذہ ہونے سے قبل ہی صدر رچرڈ نکسن کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا تھا ۔ امریکی میڈیا یہ بات بھی بھول جاتا ہے کہ پاکستان کے منتخب سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور ماضی کے حکمرانوں، بشمول موجودہ صدرِ پاکستان، کے خلاف کرپشن کے مقدمات ختم کرانے کی خاطر این آر او کے اجراء میں امریکا اور برطانیہ کا ہی ہاتھ تھا ۔ پارلیمنٹ کی جانب سے این آر او کو منظور کرنے سے انکار کرنے کے بعد ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے کالعدم قرار دیا ۔ اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ کیا امریکا اپنے ملک میں ایسا غلیظ قانون منظور ہونے دے سکتا ہے ؟ اگر نہیں تو امریکی میڈیا ایسی چیز کو ہمارے لئے اچھا کیوں سمجھتا ہے جو اس کے اپنے ملک کے لئے ناپسندیدہ ہو

بشکريہ ۔ جنگ

اظہارِ تشکر اور يک نہ شُد دو شُد

جن حضرات نے [پھپھے کُٹنی بھی حضرت ہے] ميرے ساتھ ہمدردی کی ہے اُن کا ميں ممنونِ احسان ہوں ۔ ميں جو کہ اُوندھا پڑا تھا ۔ ان کی حوصلہ افزائی سے اپنے پاؤں پر واپس کھڑا ہو گيا ہوں ۔ اس حادثہ سے ايک بار پھر ثابت ہو گيا ہے کہ اللہ کے کرم سے ميرے سے ناراض رہنے والے صرف چند ايک ہيں جبکہ ہمدرد بہت زيادہ ہيں ۔ اللہ سب کو خوش رکھے ۔ اللہ اُن کو بھی خُوش رکھے جو مجھ سے خُوش نہيں

جناب ۔ ميں نے ہر چيز کا بيک اَپ رکھا ہوتا ہے ۔ آج سے 20 سال پہلے کی بات کچھ اور تھی ۔ اُس وقت ميرا کمپيوٹر کا تجربہ صرف 5 سال تھا ۔ اب يہ ہوا کہ 21 مارچ کو ہم اسلام آباد چلے گئے ۔ واپس آئے تو کراچی اور برطانيہ سے باری باری قريبی عزيز مہمان ہوئے ۔ اس پر طُرّہ يہ کہ بجلی 12 سے 16 گھنٹے بند ہوتی رہی اور ميں بيک اَپ نہ لے سکا ۔ ان پندرہ دنوں کا مجھے اتنا دُکھ نہيں ہے ۔ آؤٹ لُک ايکسپريس ميں پڑی ميری ساری ای ميلز ضائع ہو گئی ہيں جن ميں بہت کچھ تھا

ابھی ميں اپنا سِسٹم بحال کر رہا تھا تو ميرا وائرليس انٹر نيٹ EVO جواب دے گيا ۔ جس کی وجہ سے ميں کچھ بھی نہ کر پايا ۔ آج ورڈ کا ڈی ايس ايل لگوايا ہے اور کام شروع کيا ہے

اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا ہی پڑے گی

کمپيوٹر پر خود کُش حملہ

نہ پوچھ ہوا جو حال ميرا ۔ ميرے کمپيوٹر پر خُودکُش حملے سے

دِل کو سنبھالوں يا دماغ کو قابو کروں ؟ دِل درد سے ايسے اُچھل رہا ہے جيسے ميمنا مَوج ميں آ کر چھلانگيں لگاتا ہے اور دماغ ميں سے اس طرح دھُواں نکل رہا ہے جيسے پرانے ٹرکوں کے پيچھے نکلتا ہے

جناب ميں نے زر کو آگ لگا کر برينڈِڈ يُو پی ايس لگايا ہوا تھا ۔ يُو پی ايس کی بيٹری کيا کرے جب آدھے سے ايک گھنٹے تک بجلی موجود ہو اور ايک سے چار گھنٹے تک غائب رہے ۔ جب بيٹری بيکار ہو گئی تو نئی بيٹری کی تلاش جاری تھی مگر کم طاقت کی مل رہی تھيں جو چند دن بھی بمُشکل نکالتی ۔ اتوار 4 اپريل صبح کمپيوٹر چل رہا تھا کہ بجلی اچانک غائب ہو گئی ۔ جب واپس تشريف لائی تو ميرے کمپيوٹر نے بُوٹ ہونے سے انکار کر ديا

خُود کُش حملہ ميں يہی ہوتا ہے نا کہ حملہ کرنے والا مرتا ہے اور ساتھ دوسروں کو لے مرتا ہے ۔ سو بجلی خود مری اور ميرے کمپيوٹر کی ڈرائيو سی کے سارے ڈاٹا کو لے مری

ميرا نقصان نقد سکہ رائج الوقت مبلغ 3200 روپے جو ہوا اُس کی کوئی وقعت نہيں مگر ميری سالہا سال کی محنت اور تحقيق کے نتيجہ ميں جو تحارير اور پروگرام اس ميں پڑے تھے اُن کی قيمت کوئی ادا نہيں کر سکتا اور نہ ہی مجھ ميں اب اتنی ہمت و استقلال ہے کہ ميں وہ سب کچھ دوبارہ تيار کر سکوں اور نہ ہی ايسا ممکن ہے کيونکہ نہ وہ مواقع اور نہ وہ مناظر دہرائے جا سکتے ہيں اور نہ شايد کبھی اُن تحارير سے متعلق آدميوں سے ميری ملاقات کا کوئی تصوّر ہے

دو دن کی محنت سے اس قابل ہوا ہوں کہ حاضرِ خدمت ہو سکوں ۔ نيک لوگوں کی دعاؤں کا متمنی ہوں کہ سب کچھ نئے سرے سے سيٹ ہو جائے ۔ اگر کسی ہمدرد کی مدد آئے تو بسم اللہ

وہ بھی چھوڑ گئے

اٹارنی جنرل انور منصور جنہوں نے کل عدالتِ عظمٰی ميں بيان ديا تھا کہ وزيرِ قانون اور وزارتِ قانون اُن کی راہ ميں روذے اٹکارہے ہيں ۔ آج وہ اس رويّہ کے خلاف مستعفی ہو گئے ہيں

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

موبائل فون سے دو دو ہاتھ

موبائل فون کی تين بيمارياں ہيں
1 ۔ مختصر پيغامات ۔ ايک ۔ کمپنی کے اشتہارات ۔ دوسرے ۔ جو فارغ لوگ بھيجتے ہيں
2 ۔ دھوکہ والی کالز
3 ۔ مِسڈ کالز

ميں اُلٹی ترتيب سے چلتا ہوں ۔ ہم رات کو نو دس بجے تک سونے کے عادی ہيں ۔ دو تين رات گيارہ بارہ بجے کے درميان مِسڈ کالز آئيں تو ميں نے صبح کے وقت اُس نمبر پر ٹيليفون کيا ۔ خاتون نے ہيلو کہا ميں نے وجہ بتائی تو کھِلکھلا کر ہنس پريں اور کہنے لگيں “يہاں سے تو کسی نے نہيں کيا ۔ ميں نے کہا “اگر اب اس نمبر سے کال آئی تو اس کی سزا کا بندوبست کرنا پڑے گا”۔ اگلی رات ايک اور دو بجے کے قريب اُسي نمبر سے مسڈ کال آئی ۔ اگلے دن صبح ميں نے پی ٹی اے کے چيئرمين کو ای ميل بھيجی اور اس کا نمبر بلاک کر ديا گيا ۔ اس طرح ميں پچھلے چار سال ميں چار نمبر بلاک کروا چکا ہوں جن ميں سے تين خواتين کے تھے اور ايک لڑکے کا

ايک سال قبل ايک کال آئی “ميں فلاں کمپنی سے بول رہا ہوں ۔ سيل پروموشن کے سلسلہ ميں آپ کے نمبر پر انعام نکلا ہے ۔ آپ فلاں نمبر پر کال کيجئے تاکہ انعام کنفرم کيا جائے”۔ ميں نے اُس کی بجائے جس موبائل کمپنی کا نمبر تھا اُن کو شکائت بھيجی اور نمبر بلاک کر ديا گيا ۔ 22 مارچ 2010ء کو ايک کال آئی “ميں وارد کے ہيڈ آفس سے بول رہا ہوں ۔ سيل پروموشن کے سلسلہ ميں آپ کا پانچ لاکھ کا انعام نکلا ہے ۔ آپ اسی نمبر پر کال کيجئے تاکہ آپ کا انعام کنفرم کيا جائے”۔ ميں نے وارد کے منيجر ريگوليشنز کو ای ميل بھيجی اور دوسرے دن اُس کا جواب آ گيا کہ نمبر بلاک کر ديا گيا ہے

موبائل فون کمپنی کے اپنے اشتہارات کا تو ميں کچھ کر نہيں سکتا ۔ البتہ فارغ لوگوں کو ميں کم ہی جراءت کرنے ديتا ہوں ۔ ايک ميرا ہم زُلف ہے ۔ اُسے اسی ماہ يو فون والوں نے 3000 مختصر پيغامات بھيجنا مُفت کر ديا ۔ اُس نے پچھلے چار دن سے پريشان کيا ہوا ہے ليکن چند پيغامات اس قابل ہيں کہ يہاں لکھے جائيں

سب سے اچھا ہے
ہم تو مِٹ جائيں گے اے ارضِ وطن ليکن تم کو
زندہ رہنا ہے قيامت کی سحر ہونے تک

ايک آدمی نے دريا سے مچھلی پکڑی اور خوش خوش گھر آيا ۔ ديکھا تو بجلی بند ۔ گيس کم ۔ اور تيل بھی ختم ۔ واپس گيا اور مچھلی کو دريا ميں پھينک ديا ۔ مچھلی اُچھل کر پانی سے باہر آئی اور نعرہ لگايا “جيو زرداری”

کون کہتا ہے کہ پاکستان ميں غم ہيں خوشياں نہيں ۔ بجلی آنے کی خوشی ۔ بازار سے ہو کر زندہ واپس گھر آنے کی خوشی ۔ مسجد ميں نماز کے بعد خودکُش حملے سے بچ جانے کی خوشی ۔ بس سے اُترنے کے بعد اپنے موبائل کو اپنی جيب ميں پانے کی خوشی ۔ اتنی خوشياں ہونے کے باوجود پاکستانی عوام خوش نہيں

نيند اور سُستی ہماری بہت بڑی دُشمن ہيں ۔ علامہ اقبال
ہميں اپنے دُشمن سے بھی پيار کرنا چاہيئے ۔ قائد اعظم
دسو ہَن بندہ کِدی منّے

A mistake which makes you sober is much better than an achievement which makes you proud

الطاف بھائی حج کرنے گئے ۔ جب وہ شيطان کو پتھر مارنے لگے تو آواز آئی “بھائی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ۔ آپ نے يہاں آنے کی زحمت کيوں کی ۔ مجھے لندن بُلوا ليا ہوتا”

فقير “بھوکا ہوں ۔ اللہ کے نام پر تھوڑا سا کھانا دے ديں”
باجی “کھانا ابھی نہيں پکا”
فقير “باجی ۔ نمبر لکھ ليں جب پک جائے تو مِسڈ کال دے دينا”

سال 1990ء
“يار ۔ آج بجلی کيوں بند ہوئی ہے ؟”
“ٹرانسفارمر بدل رہے ہوں گے”

سال 2010ء
“يار ۔ يہ بجلی کب آئے گی ؟”
“جب ہمارے محلے کی بند ہو گی تو تمہارے محلے کی آئے گی”

سال 2020ء
” يار ۔ صبح سے بجلی بند ہے ۔ کب آئے گی”
“آج ملتان کی باری ہے اور کل لاہور کی ۔ سو کل تمہاری بجلی آئے گی اور ملتان کی بند ہو گی”

سال 2030ء
“يار سُنا ہے کہ بجلی نام کی کوئی چيز ہوا کرتی تھی ۔ جس سے گھر جگ مگ کرتے تھے”
“چُپ کر کے سو جا ۔ تمہيں ايسے ہی کسی نے بہکا ديا ہے”