امریکی عدلیہ کی آزادی پر فخر کا دم بھرنے والے امریکی میڈیا جو کسی صورت میں اپنے سرکاری عہدیدار پر کرپشن کا الزام تک برداشت نہیں کرتا کی جانب سے امریکا کے بڑے اخبارات میں پاکستانی عدلیہ کے خلاف اور اس کے این آر او کے متعلق فیصلے کے حوالے سے جو کچھ بھی شایع ہوا ہے وہ سب غلط، آدھا سچ اور انتہائی حد تک متعصبانہ اور حقیقت سے انتہائی دور ہے ۔ کئی رپورٹس نامعلوم ذرائع کے حوالے سے دی گئی ہیں اور ان میں پیپلز پارٹی کے حوالہ جات بھی شامل ہیں
صحافت کے اعلیٰ ترین معیارات کی پیروی کرنے کے دعوے کرنے والے ٹائم میگزین نے ڈھٹائی کے ساتھ پیپلز پارٹی کے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ نواز شریف کی جانب سے آئینی پیکیج کی حالیہ مخالفت چیف جسٹس کے دباؤ کا نتیجہ تھی ۔ میگزین کے مطابق چیف جسٹس نے نواز شریف کو دھمکی دی تھی کہ بصورت دیگر عدالتیں ان کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولیں گی
کئی اعلیٰ ترین وکلاء یہ سمجھتے ہیں کہ ٹائم میگزین میں جو کچھ شایع ہوا ہے وہ پروپیگنڈہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قاضی انور جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے حالیہ ہفتوں کے دوران چیف جسٹس سے دو مرتبہ ملاقات کی ہے ججوں کے تقرر کے معاملے پر نواز شریف کے مؤقف کے مخالف ہیں لیکن انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ چیف جسٹس ایسے کسی معاملے پر مشاورت کے خواہاں نہیں ہیں جو پارلیمنٹ کا اثاثہ تصور کئے جاتے ہیں ۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ ٹائم میگزین یہ نوٹ کرنے میں ناکام ہوگیا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے حال ہی میں سینیٹر رضا ربانی کی زیر قیادت پارلیمانی کمیٹی کے کام کی تعریف کی گئی ہے ۔
واشنگٹن سے شائع ہونے والے ایک اور جريدہ ”دی ہل” میں جارج برونو نے پاکستان میں ہونے والی ایک بغاوت کا ذکر کیا ہے ۔ بے وقوفی سے بھرپور اس تحریر میں پروپیگنڈہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور یہ مضمون پاکستانی لابِسٹس کے زیر اثر تحریر کیا گیا ہے ۔ اس مضمون میں پاکستانی عدلیہ کے سیاست زدہ ہونے کی بھی بات کی گئی ہے ۔ مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کی جانے والی کوششیں پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت کو نقصان پہنچا رہی ہیں ۔ مزید کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے آئین کی مخالفت میں نہ صرف عدالتوں میں پیدا ہونے والی اسامیوں پر تقرر کا وزیراعظم کا اختیار چھین لیا ہے بلکہ ایگزیکٹو برانچ کی طاقت بھی چھین لی ہے ۔ “دی ہل” کی جانب سے شائع کی گئی یہ رپورٹ ثابت کرتی ہے کہ اسے ان معاملات میں آئینی شقوں کا علم ہی نہیں ہے ۔
تحریر میں جارج برونو نے خود کو یونیورسٹی آف نیو ہمپشائر کے “پارٹرنز فار پیس” پروگرام کے شریک ڈائریکٹر کے طور پر متعارف کرایا ہے ۔ انہوں نے خود کو سابق امریکی سفیر بتانے کے علاوہ کلنٹن انتظامیہ میں خدمات انجام دینے کا بھی دعویٰ کیا ہے ۔ تاہم انہوں نے پاکستان کی عدلیہ کے خلاف جو کچھ بھی لکھا ہے اس کے بعد ان کی ساکھ کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہے
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے پاکستان میں جاری حالیہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان کے موقف اور سوئس پراسیکیوٹر جنرل کے بیان کے بعد سے پاکستان میں کرپشن کے کیسز پر غیر یقینی صورتحال برقرار ہے ۔ جبکہ ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار اور صدر زرداری کے قریبی دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی اخبار کو بتایا کہ جہاں تک میرا خیال ہے سپریم کورٹ میں ساری کارروائی ایک تماشہ اور سیاسی نمبر بڑھانے کا عمل دکھائی دیتی ہے کیونکہ چیف جسٹس اس قانونی صورتحال سے لاعلم نہیں رہے سکتے کہ درحقیقت سوئٹزرلینڈ میں اس کیس پر کارروائی نہیں ہوسکتی
بنیادی طورپر یہ امریکی میڈیا ہی تھا جس نے مقدمہ چلنے یا مؤاخذہ ہونے سے قبل ہی صدر رچرڈ نکسن کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا تھا ۔ امریکی میڈیا یہ بات بھی بھول جاتا ہے کہ پاکستان کے منتخب سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور ماضی کے حکمرانوں، بشمول موجودہ صدرِ پاکستان، کے خلاف کرپشن کے مقدمات ختم کرانے کی خاطر این آر او کے اجراء میں امریکا اور برطانیہ کا ہی ہاتھ تھا ۔ پارلیمنٹ کی جانب سے این آر او کو منظور کرنے سے انکار کرنے کے بعد ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے کالعدم قرار دیا ۔ اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ کیا امریکا اپنے ملک میں ایسا غلیظ قانون منظور ہونے دے سکتا ہے ؟ اگر نہیں تو امریکی میڈیا ایسی چیز کو ہمارے لئے اچھا کیوں سمجھتا ہے جو اس کے اپنے ملک کے لئے ناپسندیدہ ہو
بشکريہ ۔ جنگ