پچھلے دنوں ايک نئے اُردو بلاگر اطہر ہاشمی صاحب نے حاجی عديل صاحب کے راجہ داہر کو ہيرو کہنے کا ذکر کيا ۔ اتفاق سے ميں اس کے متعلق ايک تاريخ دان کی تحرير نقل کرنے ہی والا تھا ۔ سو حاضر ہے
غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوچکی تو ایک روز حضرت ابوبکر کے صاحبزادے عبدالرحمن اپنے والد گرامی سے ملے اور کہنے لگے کہ بدر کے میدان میں ایک موقع پر آپ کی گردن میری تلوار کی عین زد میں آگئی تھی لیکن میں نے آپ سے رشتے کا احترام کرتے ہوئے تلوار کا رخ موڑ دیا ۔ ظاہر ہے کہ اس وقت تک عبدالرحمن نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، چنانچہ وہ کفار کی جانب سے میدان میں اترے تھے ۔ یہ بات سن کر حضرت ابوبکر نے ایسا جواب دیا جس نے رشتوں کے درمیان حد فاصل کی وضاحت کردی ۔ آپ نے کہا کہ صاحبزدے اگر تمہاری گردن میری تلوار کی زد میں آجاتی تو خدا کی قسم میں اسے کاٹ کر تن سے جدا کردیتا
خون کے رشتے مذہب کے رشتوں کے مقابلے میں باطل ٹھہرے اور یہی وہ بات ہے جو ہمارے ان روشن خیال، سیکولر ازم پر فخر کرنے والے ا ور
نام کے مسلمان دانشوروں، لکھاریوں اور نام نہاد مؤرخین کو سمجھنی چاہيئے جو ہر وقت یہ رٹ لگاتے پائے جاتے ہیں کہ ہم اور ہندو اور سکھ ایک ہی نسل سے ہیں، اس لئے اختلافات اور علیحدگی چہ معنی ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ اگر قائد اعظم بھی ہمارے ان روشن خیال اور سیکولر دانشوروں کی مانند ہوتے تو وہ کبھی بھی اپنی صلاحیتوں کا بہترین حصہ اس موقف کی وضاحت پر صرف نہ کرتے کہ مسلمان ہر لحاظ، تعریف اور معیار کے مطابق ایک الگ قوم ہیں اس لئے وہ ایک الگ وطن چاہتے ہیں ۔ قائد اعظم اپنے مذہب اور عقیدے کی روح سے شناسا تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب ان کی اکلوتی اور نہایت چہیتی بیٹی دینا جناح نے ایک پارسی نوجوان سے شادی کرنے کا ارادہ کیا تو بقول سیٹنلے والپرٹ (جناح آف پاکستان) قائد اعظم نے دینا کو بلایا، نہایت محبت سے اسے سمجھایا اور کہا کہ ہندوستان میں کروڑوں مسلمان نوجوان ہیں جو تم سے شادی کرنے پر فخر محسوس کریں گے ، تم کسی بھی مسلمان نوجوان کو اپنا جیون ساتھی منتخب کر لو میں اس پرراضی ہوں گا لیکن اگر تم نے کسی غیر مسلم نوجوان سے شادی کی تو میری اور تمہاری راہیں جداجدا ہوجائیں گی ۔ اولاد اور پھر اکلوتی اولاد کو چھوڑنا قیامت سے کم نہیں ہوتا ۔ کسی صاحب اولاد سے پوچھو کہ یہ کتنا کٹھن اور دردناک فیصلہ ہوتا ہے؟ جو قائد اعظم نے اپنے مذہب اور دین کی خاطر کیا ۔ یہ بھی نہیں کہ قائد اعظم انسانی کمزوریوں سے ماوراء تھے ۔ ان میں بھی کمزوریاں تھیں لیکن ان کی دیانت، حق گوئی اور اعلیٰ کردار ان کی زندگی کے ایسے شعبے ہیں جن کا اعتراف ان کے بدترین دشمن بھی کرتے ہیں اور جس کی تصدیق اب تاریخ نے بھی کردی ہے
جب ایسی شخصیت پر حاجی عدیل آف اے این پی نے کیچڑ اچھالا تو مجھے نہایت صدمہ ہوا اور میں فقط یہی سمجھ سکا کہ گویا ابھی تک آنر بیل خان عبدالغفار خان کے سیاسی جانشینوں نے قائد اعظم کا پاکستان قائم کرنے کا جرم معاف نہیں کیا، گویا ابھی تک ان کے باطن میں نہرو اور گاندھی سے عقیدت و وفاداری کے بت موجود ہیں ۔ میں نے عمر بھر نیپ اور پھر اے این پی کی جمہوریت پسندی کی حمایت کی ہے اور عمر بھر یہ لکھتا رہا ہوں کہ ان علاقائی سیاسی قوتوں کو قومی دھارے میں شامل اور ضم کرکے ہی جمہوری عمل کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے لیکن حاجی عدیل کے پے در پے قلبی انکشافات کے بعد مجھے تشویش ہے کہ کیا کبھی پاکستان اور قائد اعظم مخالف قوتیں قومی دھارے میں ضم ہوں گی ؟ کیا ان کی موجودہ نسلیں جو وقتاً فوقتاً قائد اعظم کے قائم کردہ پاکستان میں اقتدار کے ”لوشے“ لوٹتی رہتی ہیں اپنے ذہنوں اور دلوں کے چوکھٹوں میں گاندھی کی جگہ قائد اعظم کی تصویر سجائیں گی ؟ میرا خیال تھا کہ تقسیم ہند سے نفرت کا ورثہ سرحدی بزرگوں کے ساتھ دفن ہوچکا لیکن لگتا ہے کہ یہ محض ہمارا حسن ظن تھا
اس حوالے سے مجھے قائد اعظم کے وہ ا لفاظ یاد آتے ہیں جو انہوں نے 20 اپریل1948ء کو پشاور کے جلسہ عام میں کہے تھے ۔ ہماری نوجوان نسلوں کو علم نہیں کہ قائد اعظم نے بحیثیت گورنر جنرل پاکستان 18,17,16اپریل 1948ء کو صوبہ سرحد کا دورہ کیا تھا ۔ پشاور کے قیام کے دوران وہ مسلسل دو دن خان عبدالغفار خان سے ملے اور انہیں پاکستان کے قومی دھارے میں شریک کرنا چاہا اور پھر مایوس ہو کر 20 اپریل کو جلسہ عام میں یہ اعلان کیا کہ اے قوم یہ لوگ قابل اعتماد نہیں ۔ جو دوست اس موضوع پر تفصیل پڑھنے کی خواہش رکھتے ہوں وہ میری کتاب درد آگہی کا آخری باب ملاحظہ فرمائیں
قائد اعظم نے اپنے خیالات کا اظہار جن شخصیتوں کے بارے میں کیا تھا وہ اللہ کو پیاری ہوچکیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ان کا سیاسی ورثہ حاجی عدیل جیسے وفاداروں کے ذہنوں پر آج تک چھایا ہوا ہے حاجی عدیل صاحب کے ذہنی رہنما اور سیاسی گرو کو اپنے سرحدی گاندھی ہونے پر فخر تھا اور گاندھی کی سوچ کیا تھی اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ وہ قائد اعظم سے خط و کتابت اور ملاقاتوں میں فرمایا کرتے تھے کہ میں کیسے مان لوں کہ کچھ مذہب تبدیل کرنے والے (Converts) علیحدہ قوم بن گئے ہیں
مسلمانوں سے حقارت اس قدر کہ ایک بار مسلمانوں کے نام کھلی چھٹی لکھی کہ تمہارے ڈرپوک بزرگ اور نگزیب کی تلوار سے ڈر کر
مسلمان ہوگئے تھے ۔ تم واپس ہندو دھرم میں آجاؤ ۔ جمیل الرحمن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ گاندھی نے اپنے رسالے میں لکھا
ہندوستان کے مسلمانوں سے نپٹنے کے دو طریقے ہیں ۔ اول ان کو واپس ہندو دھرم میں لایا جائے، دوم جو اس کے لئے تیار نہ ہوں انہیں ملک
بدر کردیا جائے ۔ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں سرآغاخان کی آٹو بائیو گرافی کے حوالے سے لکھا ہے کہ گول میز کانفرنس لندن کے دوران
سر آغا خان نے گاندھی سے کہا کہ آپ ہندوستان کے باپو کہلاتے ہیں کیا آپ مسلمانوں کے باپو بھی بن سکتے ہیں ۔ گاندھی کا جواب نفی میں تھا ۔ وہ گاندھی جو مسلمانوں سے اتنی”محبت“ بہ وزن ”حقارت“ کرتا تھا اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو سرحدی گاندھی کہلوانا اور قیام پاکستان کی ڈٹ کر مخالفت کرنا بذات خود پاکستان اور قائد اعظم سے ”محبت“ کے واضح ثبوت ہیں لیکن اس کے باوجود ہم جیسوں کو خوش فہمی تھی کہ شاید قیام پاکستان کے وقت پیدا ہونے والی نسل اپنا قلبی و ذہنی قبلہ تبدیل کرکے ماضی کے سیاسی ورثے سے تائب ہوجائے کہ انہیں پاکستان نے بے حد عزت و احترام دیا ہے لیکن میرے ممدوح حاجی عدیل صاحب تو چند قدم مزید آگے چلے گئے اور یہ بیان دے کر اپنی”اصل“ آشکارا کردی کہ میرا ہیرو راجہ داہر ہے نہ کہ محمد بن قاسم ۔ بے شک انہوں نے گاندھی کے سچے پیروکار اور ذہنی چیلے ہونے کا ثبوت دے دیا اور ظاہر ہے کہ ان کا ہیرو راجہ داہر ہی ہونا چاہئے تھاکیونکہ وہ اسلامی مملکت کی بنیاد ڈالنے والے محمد بن قاسم کو کیسے اپنا ہیرو مان سکتے ہیں ؟ اسی طرح بانی پاکستان ان کا ہیر و کیسے ہوسکتا ہے کیونکہ راجہ داہر کے مریدوں کا ہیرو تو صرف گاندھی ہی ہوسکتا ہے
محمد بن قاسم کا اصل قصور کچھ اور تھا وہ 712 ء میں ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور اسلامی مملکت کی بنیاد رکھ کر 715ء میں واپس چلا
گیا ۔ 997ء سے لے کر 1030ء تک محمود غزنوی نے ہندوستان پر تیرہ حملے کئے لیکن اس نے اسلامی مملکت کی بنیاد ہرگز نہیں رکھی ۔ اس کے باوجود 1192ء میں جب غوری اور پرتھوی راج کے درمیان جنگ ترائن ہوئی تو تاریخ فرشتہ کے مطابق شہاب الدین غوری نے پرتھوی راج کو جو خط لکھا اس میں واضح کیا کہ سندھ پنجاب اور سرحد میں مسلمان مقابلتاً اکثریت میں ہیں اس لئے یا تو یہ علاقے مجھے دے دو یا پھر جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ
یہ محمد بن قاسم سے لے کر محمود غزنوی اور غوری تک کا اعجاز تھا کہ ان علاقوں میں مسلمان مقابلتاً اکثریت میں ہوئے جس میں صوفیاء
اکرام اور اولیاء اکرام نے بے حد اہم کردار سرانجام دیا ۔ مشیت الٰہی یہ تھی کہ جغرافیائی حوالے سے ایک دوسرے میں پیوست علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہوئے جس کی بنیاد پر قائد اعظم نے پاکستان کا مطالبہ کیا ۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ان ملحقہ علاقوں میں اسلام محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور غوری اور مسلمان صوفیاء اکرام کے سبب پھیلا اور اسی لئے وہ ہمارے ہیرو ہیں جبکہ کچھ حضرات ان کے مخالفین کو اپنا ہیرو مانتے ہیں اور ہندو مؤرخین کی پیروی کرتے ہوئے ان کی کردار کشی کرتے ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ مسلمان ہونے پر شرمندہ ہوں ؟
بشکريہ ۔ جنگ