وسط فروری 2010ء ميں ہم يعنی مياں بيوی علامہ اقبال ايئرپورٹ پر بيٹی کو لينے گئے جو ايک عشرہ کيلئے دبئی اپنے بھائی کے پاس گئی تھی ۔ ہم بين الاقوامی آمد والے دروازے کے سامنے کھڑے تھے کہ کچھ دير بعد درجن بھر سبز پگڑيوں والے باريش لوگ آئے جن کے ہاتھوں میں سبز ریشمی کپڑے کے گوٹہ لگے جھنڈے بھی تھے ۔ وہ گانے لگے جو مجھے سمجھ آیا وہ يہ تھا ۔ نبی کا جھنڈا پيارا جھنڈا ہمارا جھنڈا ۔ نبی کی آمد مرحبا ۔ رسول کی آمد مرحبا ۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی کہہ رہے تھے جو کچھ مجھے سمجھ نہيں آيا اور کچھ بھول گيا ہوں ۔ وہ اس طرح سے گا رہے تھے کہ شور محسوس ہوتا تھا ۔ ایک گھنٹہ بعد ہمارے وہاں سے واپس آنے تک وہ متواتر گا رہے تھے صرف عشاء کی اذان کيلئے خاموش ہوئے
میری بیٹی کا بارہويں جماعت کا سالانہ امتحان ہو رہا تھا [1990ء]۔ دفتر سے چھٹی ہوئی میں گھر پہنچا تو شور کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہ ديتی تھی ۔ گھر میں داخل ہوا تو کھڑکيوں کے شيشے کھڑکھڑا رہے تھے ۔ بيٹی نے آنسوؤں کے ساتھ ميرا استقبال کرتے ہوئے کہا “ابو ۔ کل ميرا پرچہ ہے اور صبح سے اس شور کی وجہ سے ایک لفظ نہیں پڑھ سکی”۔ اندازہ لگانے کيلئے کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے گھر کے پائیں باغ میں نکلا ۔ دیکھا کہ پيچھے آفيسرز میس کے ملازمین کے کوراٹروں کے ساتھ جو چھوٹی سی مسجد بنی ہے اس کے چھوٹے سے مينار پر چار لاؤڈ سپیکر لگے ہیں اور اُس پر فلمی گانوں کی نقل نعتیں پڑھی جا رہی ہيں ۔ آواز اتنی اوُنچی کہ میں دونوں کانوں کو اپنی ہتھيليوں سے بند کرنے کے بعد سجھ سکا کہ گايا کيا جا رہا ہے
اس 8 فٹ چوڑی 7 فٹ لمبی اور 8 فٹ اُونچی مسجد کی تاریخ يہ ہے کہ آفيسرز ميس جی ايم ہاؤس کے پيچھے آٹھ دس سرونٹ کوارٹر بنے ہوئے تھے جن ميں آفيسرز ميس کے ملازمين رہتے تھے ۔ 1972ء ميں پيپلز پارٹی کی حکومت بنی تو اُن دنوں جی ايم ہاؤس ميں پروجيکٹس کے دفاتر بنے ہوئے تھے جو عارضی تھے مگر اس کی وجہ سے سرونٹ کوارٹرز خالی تھے ۔ اُوپر سے حُکم آيا کہ يہ کوارٹر لوگوں کو الاٹ کر ديئے جائيں ۔ جن کی سفارش کی گئی تھی وہ ہر جماعت ميں اپنا نام لکھانے والے کھڑپينچ تھے ۔ ايک دو سال بعد اُنہوں نے اپنے کوارٹروں کے ساتھ سرکاری زمين پر يہ مسجد بنا لی حالانکہ اس علاقے کی بڑی مسجد وہاں سے صرف تين منٹ کی پيدل مسافت پر تھی
ميں آفيسرز ميس پہنچا ۔ مسجد کے اندر کوئی لاؤڈ سپیکر نہيں لگايا گيا تھا کيونکہ بغير سپيکر کے مسجد کے اندر بولنے والے کی آواز مسجد کے باہر پہنچ سکتی تھی آفيسرز ميس کے دوسری طرف جا کر تاکہ شور کم ہو اور ايک دوسرے کی بات سُنی جا سکے منتظم کو بلایا ۔ مُنتظم آئے ۔ وہ اسسٹنٹ منيجر ايڈمن تھے جو ماسٹر اِن ايڈمن سائنس [Master in Admin Science] تھے منتظم سے میں نے کہا ” مسجد میں امام ظہر اور عصر کی نماز آواز کے ساتھ نہیں پڑھاتے ۔ اب عصر کی نماز ہونے والی ہے ۔ اس مسجد میں ايک لاؤڈ سپيکر کی بھی ضرورت نہیں اور آپ نے اُوپر چار لگا رکھے ہیں اور وہ بھی فُل واليوم پر صبح سے اب تک متواتر محلہ والوں کو بيزار کئے ہوئے ہیں ۔ کوئی مريض آرام کرنا چاہتا ہے ۔ کوئی طالب علم امتحان کی تياری کرنا چاہتا ہے”
جملہ آيا “آپ کا مسلک دوسرا ہے”
میں نے کہا “آپ کو کيسے معلوم ہوا کہ ميرا مسلک کیا ہے ؟ آپ تو مجھے زندگی میں پہلی بار مل رہے ہیں”
جواب میں خاموشی
میں نے سوال کیا ” يہ مسلک کيا ہوتا ہے اور آپ کا مسلک کيا ہے ؟”
جواب ملا ” میں بریلوی ہوں ”
میں نے کہا “احمد رضا بریلوی صاحب کی وہ کتاب دکھايئے جس میں لکھا ہے کہ اس طرح محلہ والوں کو بيزار کرو”
جواب میں خاموشی
میں نے پوچھا “آپ نے احمد رضا صاحب کی کونسی کتاب پڑھی ہے ؟”
جواب ملا “کوئی نہيں”
میں نے التجا کی “پھر يہ لاؤڈ سپیکر بند کر ديجئے”
جواب ملا “يہ نہيں ہو سکتا”
اسی دوران ايک اسسٹنٹ منيجر فنانس جو مجھے جانتے تھے آ کر کھڑے ہو چکے تھے ۔ اُنہوں نے اپنے ساتھی کو مخاطب کر کے کہا ” جانتے ہو یہ کون ہیں ؟ اگر يہاں آنے کی بجائے يہ ایک ٹیلیفون کر ديتے تو سب کچھ اب تک بند ہو چکا ہوتا”
مگر اُن صاحب پر کوئی اثر نہ ہوا
ميرے پاس سوائے اپنی سرکاری حيثيت استعمال کرنے کے کوئی چارہ نہ رہ گيا تھا ۔ میں نے گھر پہنچ کر چيف ايڈمن آفيسر اور اسٹیشن کمانڈر دونوں کو ٹیليفون کیا جس کے بعد آدھے گھنٹہ کے اندر لاؤڈ سپيکر خاموش ہو گئے