کل 9/11نے پہلے امریکہ کو ہلایا جس کے جواب میں امریکہ پوری دنیا کو ہلا رہا ہے خصوصاً مسلمان ممالک سے ۔ پہلے ویزوں پر بہت سخت قوانین لاگو کئے گئے ۔ امریکہ آنے والی تمام پروازوں کو خصوصی انتظام کے تحت امریکہ میں آنے کی اجازت دی گئی جس میں ہوائی جہازوں سے اسٹیل کے تمام چمچے کانٹے ہٹا دیئے گئے ان کی جگہ تمام سامان پلاسٹک کا کر دیا گیا ۔ امریکہ آنے والی تمام پروازوں کے مسافروں کا نام 48گھنٹے پیشتر فراہم کرنے کا پابندکردیا گیا
پھر افغانستان اور عراق جنگ کے بعد وہ اپنے شہریوں اور ملک کیلئے کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا اس لئے اس نے طرح طرح کے حفاظتی اقدامات کئے
امریکہ میں پھر ڈیلاس ائیر پورٹ پر جہاز میں افریقہ سے تعلق رکھنے والے باشندے نے جہاز کو اُڑانے کی کوشش کی جو ناکام تھی پھر مسلمانوں کی شامت آ گئی
امریکہ نے پھر 13ممالک جس میں تمام مسلمان رہتے ہیں ان کیلئے جامہ تلاشی کرنے کا حکم نامہ صادر کر دیا جس میں پاکستان بھی شامل ہے یہی نہیں پورے یورپ برطانیہ ،امریکہ میں ایک نئے الیکٹرانک نظام کو بھی متعارف کرانے کا اعلان کر دیا ہے جس میں ہر مسافر جسمانی برہنہ نظر آئے گا اس میں خواتین بھی شامل ہیں
ایک طرف 9/11سے لے کر ہم آج تک امریکہ کی ہر اچھی اور بری پالیسیوں کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ 9/11میں ایک بھی پاکستانی کا ملوث ہونا ثابت نہیں ہوا ۔اس موجودہ ڈیلاس حادثے میں بھی پاکستانی ملوث نہیں ہے پھر ہمارا نام اس میں کیوں شامل کیا گیا ؟
2009ء میں ڈرون حملوں سے شمالی علاقہ جات میں 600سے زائد بے گناہ مسلمان بچے ،عورتیں اور بوڑھے شہید ہو چکے ہیں
امریکہ ہمارا دوست ہے ۔ ہم امریکہ کے پورے حلیف ہیں مگر پاکستانیوں کیلئے قانونی گوشہ عافیت نہیں ہیں
یہ اقتباس ہے خلیل احمد نینی تال والا کی تحریر سے
میری ذاتی رائے میں ہمیں غیرت کا مظاہرہ بہت پہلے کرنا چاہئیے تھا۔ جو قوم اپنے ہی بیٹے اور بیٹیاں فروش ہو انکے ساتھ کچھ بھی کیا جائے کم ہے۔ جو کام ہمیں کرنا چاہئیے تھا وہ امریکہ اور حواری کر رہے ہیں۔امریکہ اور حواری ہمیں غیرت دلا رہے ہیں کہ تُم اور تمھاری اوقات کیا ہے۔؟
ابھی بھی وقت ہے کہ ہمیں امریکہ کا مشکور ہوتے ہوئے اس خوابِ گراں سے بیدار ہو جانا چاہئیے۔ جس میں گُم ہو کر ہم اپنی عزت نفس، غیرت، رزق و معاش نیز ہر قسم کی اخلاقی اچھائی کو پچھلی نصف صدی سے گُم کرتے چلے آرہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر ملکی امداد اور خاصکر امریکی خیرات سے ہاتھ کینچھتے ہوئے ، خود کفالت کے لئیے قومی اہداف مقرر کئیے جائیں۔ پوری قوم کو اعتماد میں لے کر، ہنگامی بنیادوں پہ اُن اہداف کو دیانتداری سے پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسکے لئیے قانون سازی بھی جاسکتی ہے۔ مگر یہ تبھی ہو سکتا ہے جب پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو گول میز کانفرس جیسے کسی انتظام میں اعتماد میں لیکر ایک دوسرے کی ٹانگ کینچھے بغیر مکمل دیانتداری سے کو شش کی جائے ۔ جس میں شاید اگلے بیس پچیس سالوں میں ہم اس قابل ہو سکیں کہ امریکہ بہادر کی بے جا فرمائشوں اور اور انکے انتہائی ذلت آمیز روئیوں کو ٹھکرا سکیں۔
اسمیں کوئی شک نہیں ہمیں آنے بہانے سے ننگ انسانیت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی گھیرا جائے گا۔ امریکہ بھی ہمارے اندرونی معاملات میں دخل در معقولات کرے گا ۔ ہمارا ازلی اور روائیی دشمن بھارت بھی اپنی پوری پوری کمینگی کا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ عالمی استعمار یہود و ہنور سازشیں بھی رستہ روکیں گی۔ اناسنی حقوق ، حقوق نسواں، چائلڈ لیبر وغیرہ کے حیلے بہانوں سے اور بین القوامی ادراروں جیسے اقوام متحدہ وغیرہ سے بھی ہماری مخالفت سامنے آئے گی۔ ضد اور مخاصمت سے گھیراؤ بھی کیا جائے گا۔مگر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ ماضی اور حال کی کئی قومیں اس سے بھی سخت حالات سے باعزت برآمد ہوئی ہیں۔ جبکہ پاکستانی عوام میں صبر ۔ مشقت، محنت ، استقامت اور ٹیلینٹ دوسری عام قوموں سے سوا ہے۔
اگر زمانے میں ہمارے کچھ دشمن ہیں(جنہیں دشمن بنانے میں ہمارااپنا بھی کردار ہے) تو کچھ دوست بھی ہیں۔ ہمیں اپنے لوگوں کی اپنے عوام کی بلاتفریق صوبائی تعلق اور بلا تفریق رنگ و نسل اور مذھب سب کی عزتِ نفس بحال کرنی پڑے گی۔ خواص کو عوام کا معیار اُونچا کرنے کے لئیے ایثار کرنا پڑیگا پھر آپ عوام سے بھی ایثار کی توقع کرتے ہوئے مکمل منصبہ بندی سے خود کفالت کے رستے پہ گامزن ہوسکتے ہیں۔ اور امریکہ اور حواریوں سے کسی حد تک برابری کی سطح پہ بات کر سکتے ہیں۔
کام مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔
جاوید گوندل صاحب
آپ نے بالکل درست کہا ہے لیکن اس کیلئے حکمرانوں کو محلوں سے نکل کر مکانوں میں آنا پڑے گا اور دعوتیں اُڑانے کی بجائے سادہ کھونا پڑے گا جس کیلئے وہ تیار نہیں ۔
لیکن ایسا کیوںہے کہ جو بھی کوئی پکڑا جاتا ہے وہ کہتا ہے کہ جی میں پاکستان گیا تھا۔۔۔ پاکستان میں تربیت لی تھی وغیرہ وغیرہ؟؟؟ ہمارے فوج کو اپنے ہی علاقے میں آپریشن کیوں کرنا پڑتا ہے؟؟؟ پاکستان میںدو دفعہ انتخابات ہوئے کسی میں بھی کسی پارٹی نے امریکہ کے افغانستان سے جانے کو اپنے منشور کا حصہ کیوں نہ بنایا؟؟؟ ہم اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے اور ہماری ترجیحات اتنی ڈھلمل کیوں ہیں؟ ووٹ دیتے وقت ہم ذات برادری دیکھتے ہیں اور گالیاں دیتے وقت امریکہ۔ جو بندہ اپنے نسلی، لسانی و علاقائی تعصب سے اُٹھ کر ووٹ ڈالنے کی ہمت نہ رکھتا ہو وہ اوروںسے یہ توقع کیسے رکھے کہ معلوم تاریخ کی سب سے طاقتور قوم سے ٹکرا جائیں؟ کب ہم اپنی معاشرتی برائیوں کو اپنے سماجی نفاق سے جوڑنا شروع کریں گے؟