ہمارے ملک میں بہت سے عجائبات میں سے ایک عجوبہ ہماری سیاسی جماعتیں بھی ہیں ۔ ان کے عمل اور بیان میں فرق تو ہوتا ہی ہے لیکن کچھ جماعتوں میں ایک خاص خُوبی پائی جاتی ہے کہ ان کے راہنماؤں کی تربیت اور ذہنی بالیدگی بطور حزبِ مخالف کے ہوئی ہے ۔ اس لئے جب وہ حسبِ مخالف میں ہوتے ہیں تو چھا جاتے ہیں اور حکومت میں ہوتے ہیں تو کچھ عوام کو ہنسانے اور باقیوں کو پریشان کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں
جے یو آئی [ف] کے سربراہ فضل الرحمٰن حکومت میں شامل ہوتے ہوئے عام طور پر جو بیانات داغتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ حزبِ اختلاف میں ہیں اسلئے حکومت کے خلاف بیان دے رہے ہیں
ان کے بعد باری آتی ہے پی پی پی کی جس نے کبھی پاکستان کی حکومت کو مانا ہی نہیں کیونکہ پی پی پی جب حکومت ہوتی ہے تو اس کے سب راہنما پی پی کی حکومت کی رُٹ لگائے ہوتے ہیں اور جب مخمہ میں تقریر کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ موصوف حزبِ اختلاف میں ہیں ۔ حالیہ مثال وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات قمر الزمان کائرہ نے مطالبہ کیا کہ “اگر سیاستدانوں کا احتساب کرنا ہے تو جرنیلوں اور ججوں کا بھی کیا جائے”
کوئی پوچھے کہ بھلے آدمی آپ کی حکومت ہے شروع کریں احتساب سب کا کِس نے روکا ہے ؟
اس عمل میں ایم کیو ایم بھی پیچھے نہیں ۔ باوجود مرکز اور صوبہ سندھ کی حکومتوں میں شامل ہونے کے حزبِ اختلاف کی طرح بیان داغے جاتے ہیں ۔ حالیہ مثال الطاف حسین کا بیان کہ “کراچی میں عاشورہ کے روز بم دھماکہ اور بعد میں ہونے والے واقعات کی تحقیقات اعلٰی عدلیہ سے کرائی جائے”
بھلے آدمی مرکز اور صوبہ سندھ میں آپ حکومت میں شامل ہیں اور کراچی میں ضلعی حکومت بھی آپ کی ہے ۔ آپ کو کس نے روکا ہے اعلٰی عدالتی تحقیقات سے ؟
کون یقین دلائے اِن حضرات کو کہ جناب حکومت آپ کی ہے الیکشن کمپین [Election campaign ] والی تقریریں چھوڑیئے اور کچھ کام کر کے دکھایئے تاکہ اگلے الیکشن میں پٹنے کی بجائے زیادہ نشستیں حاصل کر سکیں
بہت خوب !ـ نچوڑ کڈ کے رکھ دتتا جے
یارو حکومت تمہارے پاس ہے
اب کام کرو
لیکن جی یه بزدل لوگ اندر سے ڈرے هوئے هیں
چوھے اپنو سائے سے بھی ڈرے هوئے
اجمل صاحب آپ نے بلکل صحیح کہا ہے اب حکومتی جماعتیں حکومت میں رہتے ہوئے مطالبے کر رہے ہیں تو بھئی یہ بتا دیں کہ حکومت کر کون رہا ہے
اور عوام کس سے مطالبے کریں
انکل جی آپ نے ہمیشہ کی طرح ایک تعصب سے بھرا مضمون لکھا ہے۔ جی ہاںبس۔۔۔۔۔