Yearly Archives: 2009

عید مبارک

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

سب قارئین کو عیدالاضحٰے مبارک ۔ جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کی ہے اللہ اُن کی قربانی قبول فرمائے ۔ جنہوں نے حج کی سعادت حاصل کی ہے ان کو حج مبارک ۔ اللہ ان کا حج قبول فرمائے

کچھ ہلکا پھُلکا

پہلے 2 معروف لوگوں کی باتیں

مارک ٹوَین : دنیا میں سب سے آسان کام تمباکو نوشی چھوڑنا ہے ۔ میں نے ہزاروں بار اسے چھوڑا ہے

گریسی ایلن : میرے لئے تعجب خیز ہے کہ جب میں پیدا ہوئی تو ڈیڑھ سال تک نہیں بولی
‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –

” ہمیشہ ” اور ” کبھی نہیں ” دو ایسے مستعملِ گفتار ہیں جو آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ کبھی نہیں بولے جائیں

کبھی کسی احمق سے بحث نہ کریں ۔ ہو سکتا ہے لوگ نہ پہچانتے ہوں کہ احمق کون ہے

مہاجر کون ؟

نقلِ مکانی تو آدمی ازل سے کرتا ہی آیا ہے لیکن جسے طاقت کے بل بوتے نقل مکانی کرنے پر مجبور کر دیا جائے اُسے تاریخ میں مہاجر کہا گیا ہے اور وہ بھی کسی جگہ قیام کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے تو مہاجر نہیں رہتا یا کم از کم اُس کی اگلی نسل مہاجر نہیں ہوتی ۔ 1947ء میں پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل ہی ہندوستان میں ایک محتاط منصوبہ بندی کے تحت عسکری تربیت یافتہ ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے ۔ مسلمانوں کا قتل اور آگ لگانا روز کا معمول بن گیا ۔ جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں تھے وہاں بھی جن محلوں میں مسلمان اقلیت میں تھے یا جہاں کہیں اکیلا دوکیلا ملے اُن پر قاتلانہ حملے ہونا شروع ہو گئے

ان غیرمتوقع حالات نے بھارت کے زیرِ تسلط آنے والے علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کیا اور اُنہوں نے پاکستان کا رُخ کیا جن میں سے بہت سے سفر کے دوران شہید کر ديئے گئے ۔ یہ لوگ بے سر و سامانی کی حالت میں پاکستان پہنچے ۔ انہیں فوری طور پر سرحدوں کے قریب ہی بنائے گئے عارضی ٹھکانوں میں رکھا گیا اور بعد میں مختلف شہروں یا دیہات میں بسایا گیا ۔ اِن لوگوں کو مہاجر یا پناگزیں یا پناہ گیر کہا گیا لیکن اپنی روزی آپ کمانا شروع کرتے ہی انہوں نے یہ تخلص ترک کر دیا ۔ پھر اگر کوئی انجان ان میں سے کسی کو مہاجر کہہ دیتا تو اس کا بہت بُرا منایا جاتا ۔ 1948ء میں بھی مہاجر پاکستان آتے رہے ۔ سوائے جموں کشمیر کے باقی علاقوں سے اس کے بعد آنے والوں کو مہاجر نہیں کہا گیا کیونکہ وہ اپنی تسلی کے ساتھ آئے تھے اُنہیں زبردستی گھروں سے نہیں نکالا گیا تھا ۔ بعد میں آنے والے لوگ سوائے معدودے چند کے اپنے پورے ساز و سامان کے ساتھ آئے تھے اور وہ مہاجر نہیں تھے بلکہ اپنی مرضی سے نقل مکانی کرنے والے تھے ۔ 1951ء میں قانون بنا جس کے تحت بھارت سے پاکستان میں قیام کی خاطر داخل ہونے والے مسلمان کو بھی حکومتِ پاکستان سے باقاعدہ اجازت حاصل کرنا قرار پایا

برطانیہ کے ذہنی غلاموں نے 16 اکتوبر 1951ء کو پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور بابائے قوم کے قریبی ساتھی لیاقت علی خان صاحب کو قتل کرا دیا اور اپنی چالاکیوں کے نتیجہ میں خواجہ ناظم الدین صاحب کو چکمہ دے کر ایک اوباش شخص غلام محمد کو پاکستان کا سربراہ بنا دیا گیا جس نے 17 اپریل 1953ء کو پاکستان کی پہلی مُنتخب اسمبلی کو توڑ دیا جبکہ وہ اسمبلی پاکستان کا آئین تیار کر چکی تھی اور اسمبلی میں پیش کر کے اس کی منظوری لینا تھی ۔ اس کے بعد برطانیہ کے ذہنی غلاموں اور انڈین سول سروس کے سابقہ افسروں نے ملک کا پورا نظم و نسق سنبھال لیا ۔ آئین کو پسِ پُشت ڈال دیا گیا اور 1951ء کا قانونِ شہریت تو کیا ہر قانون کی صریح خلاف ورزیاں حکمرانوں کے ایماء پر ہونے لگیں ۔ اس کے نتیجہ میں بہت سے ایسے لوگ پاکستان میں آ کر بس گئے جو 1951ء کے شہریت کے قانون کے تحت شاید کبھی پاکستان میں مستقل رہائش اختیار نہ کر سکتے ۔ نہ صرف یہ بلکہ کئی مشکوک لوگوں کو اچھے عہدے بھی دیئے جاتے رہے

بقول شخصے ہمارے ہموطنوں کی ہر چیز ہی نرالی ہے ۔ پاکستان بننے کے تین دہائیاں بعد ایک ایسا وقت بھی آیا جب پاکستان میں پیدا ہونے والوں نے اپنے آپ کو مہاجر کا نام دے دیا اور کراچی يونیورسٹی میں 11 جون 1978ء کو الطاف حسین نامی طالبعلم نے آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کی بنیاد رکھی ۔ بعد میں اس نے مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی صورت اختیار کر لی ۔ اس میں شامل ہونے والوں میں اکثریت ان صاحبان کی اولاد ہے جو 1951ء کا قانون نافذ ہونے کے بعد اپنی مرضی سے نقل مکانی کر کے پاکستان آئے تھے ۔ کچھ اُن کی اولاد بھی شامل ہوئی جو مہاجر تھے لیکن اپنے آپ کو مہاجر کہنا پسند نہیں کرتے تھے اور چند ایسوں کی اولاد بھی جن کے آباؤ اجداد 14 اگست 1947ء سے پہلے اس علاقہ میں مقیم تھے جو پاکستان میں شامل ہوا ۔ اب گو حالات کے دباؤ کے تحت اس سیاسی جماعت کا نام بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا لیکن اس میں شامل لوگ ابھی بھی اپنی شناخت مہاجر کے طور پر ہی کراتے ہیں ۔ یہ رویہ کس حد تک مناسب ہے کوئی آنے والا مؤرخ ہی لکھے گا ۔ شروع میں میری ہمدردیاں مہاجر موومنٹ کے ساتھ تھیں کیونکہ میں اپنے بزرگوں کے ساتھ 1947ء میں ہجرت کر کے آیا تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ جب مہاجر قومی موومنٹ کے کچھ رہنماؤں کو بہت قریب سے دیکھا تو دور ہونا ہی قرینِ حقیقت سمجھا

اللہ ہر اُس شخص کو جو اپنے آپ کو پاکستانی کہتا ہے اُسے حقیقی پاکستانی بننے اور اس مُلک پاکستان کی خدمت کی توفیق دے

لطیف کھوسہ کے بعد بابر اعوان

بنک آف پنجاب کے قرض اسکینڈل کیس میں بڑے ملزم ، حارث اسٹیل ملز کے مالک شیخ افضل اور اس کے بیٹے حارث افضل کو آج سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا ، شیخ افضل نے کہا کہ وہ عدالت کے سامنے سرنڈر کرتے ہیں ۔ ملزم شیخ افضل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی وزیر ڈاکٹر بابراعوان نے مقدمہ کی پیروی کے لئے پچاس لاکھ روپے اور مقدمہ ختم کرانے کے لئے ساڑھے تین کروڑ مانگے تھے

طریقہ ۔ غیرتی اور حکومتی

این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں شامل وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر سعید مہدی مستعفی ہوگئے۔ ان پر پولو گراؤنڈ کیس ختم کروانے کا الزام ہے تاہم سعید مہدی نے کہا ہے کہ انہوں نے کیس ختم کرنے کیلئے کوئی درخواست نہیں دی تھی اور استعفیٰ اپنی عزت بحال رکھنے اور پارٹی گائیڈ لائن کے مطابق دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آج بھی مقدمہ کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہوں۔این آر او سے استفادہ کرنے والے افراد کی جانب سے یہ پہلا استعفیٰ ہے۔ سعید مہدی نے اپنے استعفے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف دور میں انہیں دو مقدمات میں ملوث کیا گیا تھا جس میں طیارہ کیس اور پولو گراؤنڈ کیس شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں 7اپریل 2000ء کو گرفتار کیا گیا جبکہ ایک روز قبل وہ طیارہ سازش کیس میں بری ہوگئے تھے

Minister for Information and Broadcasting Qamar Zaman Kaira on Monday said the NRO beneficiary ministers will not resign, as they were accused and not convicted, terming the demand unjustified.

Talking to media persons here at the CDA Academy, the minister made it clear that the cabinet members, who had benefited from the NRO were accused and not convicted to be asked to step down as minister

زرداری اور ايک ارب ڈالر کا غبن

سوٹزرلینڈ اور دبئی کے بنکوں کے ذریعہ کس طرح اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ آصف علی زرداری نے ايک ارب امریکی ڈالر ناجائز کمیشن کے طور پر پاکستان کے عوام کی گاڑھے پسینے کی کمائی سے چرا کر سِٹی بنک میں دبئی کے ذريعہ منتقل کئے ۔ این آر او کی وجہ سے نامکمل رہ جانے والی انکوائری رپورٹ یہاں کلِک کر کے پڑھیئے

سازشی نظریات ۔ ایک تجزیہ

سازشی نظریات [Conspiracy theories] ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے یا یوں کہنا چاہیئے کہ یہ عمل ہماری خصلت میں شامل ہو چکا ہے جن میں اَن پڑھ اور پڑھے لکھے برابر کے شریک ہیں ۔ چنانچہ تمام برائیوں کو کسی نہ کسی کی سازش یا ظُلم قرار دے کر اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ کچھ لوگ ہر خرابی کو غیرمُلکی سازش قرار دیتے ہیں اور کچھ لوگ جو اپنے آپ کو کُشادہ ذہن اور باعِلم سمجھتے ہیں وہ ہر ظُلم کو مذہب یا مذہبی لوگوں کے سر منڈ کر اپنے ذہن کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ قومی یا بین الاقوامی سطح پر ہی نہیں ذاتی سطح پر بھی سازشی نظریات بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ ایک چھوٹی سی مثال یوں ہو سکتی ہے کہ ایک شخص عرصہ دراز بعد کسی کو ملنے آتا ہے اور کچھ دن اُن کے ہاں قیام بھی کر لیتا ہے ۔ اِسی پر جاننے والے رشتہ دار اور محلہ والے کئی سازشی نظریات قائم کر لیتے ہیں

ہماری قوم کی بھاری اکثریت تن آسانی میں یقین رکھتی ہے اور ترقی کیلئے کوشاں قوموں کی طرح محنت اور تحقیق کو اپنا شعار بنانے کی بجائے غلط قسم کے مختصر راستے [shortcuts] اختیار کرتے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت کو تحقیق سے ڈر لگتا ہے ۔ ہر منفی واقعہ اور نتیجہ جسے وہ پسند نہ کرتے ہوں اور جس سلسلے میں وہ کوئی مثبت تبدیلی لانے کی خواہش نہ رکھتے ہوں اس کی وضاحت سازشی نظریات میں تلاش کرلی جاتی ہے ۔ سازشی نظریات فرار کی ایسی پناہ گاہ ہیں جو روح اور قلب کی تکلیف سے وقتی آرام اور تسکین فراہم کرتے ہیں اور مشقت سے بچاتے ہیں

سازشی نظریات میں پناہ ڈھونڈنے والے اپنی تمام غلطیوں اور ذمہ داریوں کے اسباب سازشیوں کو قرار دے دیتے ہیں اور خود کو سازش کا شکار تصور کرتے ۔ کبھی اس مفروضہ سازشی کا پس منظر دین بتایا جاتا ہے کبھی شیطان ۔ کبھی مُلا اور کبھی غیرملکی ہاتھ ۔ اس طرزِ عمل کا بنیادی سبب ہماری اکثریت کا آسانی پسند ہونا ہے ۔ تعلیم سے لے کر ملازمت یا تجارت تک صبر و تحمل کے ساتھ محنت کی بجائے سفارش ۔ رشوت ۔ متعلقہ فرد کی ذات کی خدمت وغیرہ میں ترقی تلاش کرتے ہیں

ہر طرزِ عمل یا طرزِ فکر کے پیچھے کچھ عوامل کارفرما ہوتے ہیں ۔ ہماری قوم کے اس رویّے کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں

پہلا سبب ۔ آمریت کی طویل تاریخ ۔ جس میں فوجی آمروں کے علاوہ جمہوری طریقہ سے منتخب حکمران بھی شامل ہیں کیونکہ اطلاعات کی کمی اور کمزوری ہی سازشی نظریات کے اصل محرک ہیں جس میں اپنے مسائل کی اصل وجوہ کا پتہ لگانے کی کوشش کم کی جاتی ہے اور فوری حل کی خاطر کسی کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے

دوسرا سبب ۔ غلط تعلیمی نظام ۔ جس میں طالبعلم کو کتابیں پڑھنے اور محنت و تحقیق کی تلقین کی بجائے خلاصوں اور ٹیوشن مراکز کا گرویدہ بنا دیا گیا ہے ۔ تعلیمی نظام کی تباہی کا آغاز 1972ء میں جدیدیت کے نام پر ہوا اور وقت کے ساتھ تعلیم و تربیت تنزل کا شکار ہوتی چلی گئی ۔ دورِ حاضر میں اکثریت سطحی علم تو بے شمار موضوعات کا رکھتی ہے لیکن گہرائی میں جائیں تو شاید ایک موضوع پر بھی عبور حاصل نہ ہو

تیسرا سبب ۔ مُلکی ذرائع ابلاغ ۔ جنہوں نے اپنی دکان چمکانے کی خاطر قوم کی غلط راستے کی طرف رہنمائی کی ۔ سیاہ کو سفيد اور سفید کو سیاہ بتاتے رہے ۔ بایں ہمہ علم و تحقیق کی طرف مائل کرنے کی بجائے بے ہنگم ناچ گانے اور جھوٹی اور برانگیختہ کرنے والی کہانیوں پر بنے ڈراموں پر لگا دیا جس کے نتیجہ میں لوگ احمقوں کی تخیلاتی جنت میں رہنے کے عادی ہو گئے

چوتھا سبب ۔ اشرافیہ ۔ جو اپنی جائیدادیں اور بنک بیلنس عوام کی ہڈیوں پر تعمیر کرتے رہے مگر اتنا بھی نہ کیا کہ ان ہڈیوں کی مضبوطی تو کُجا ان کی سلامتی ہی کیلئے کچھ کرتے ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ انتظامیہ اور عدالتیں ایسے لوگوں کی بیخ کنی کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے

پانچواں سبب ۔ عوام ۔ جنہیں کسی پر یقین نہیں ۔ مُلک کا قانون ہو یا آئین یا اللہ کے احکامات وہ کسی کا احترام کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ سب منتشر ہیں اور محنت کی روزی کمانے کی بجائے اپنی کمائی جوئے میں لگا کر کاریں حاصل کرنا ان کو مرغوب ہے ۔ جو تاریخ سے نابلد ہیں چنانچہ سالہا سال دہائی مچاتے ہیں اورانتخابات کے وقت ماضی کو بھول کر پھر اُسی کو مُنتخِب کرتے ہیں جو ان کے دُکھوں کا سبب تھا گویا اپنے آپ کو اذیت پہنچانے کو شوق ہو

چھٹا سبب ۔ غیروں کی امداد پر انحصار ۔ نمعلوم ہمارے کم از کم تعلیمیافتہ افراد کو سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ہمارا ہمدرد صرف کوئی ہموطن ہی ہو سکتا ہے غیرمُلکی نہیں ۔ غیرمُلکی تو ہمارا اُس وقت تک یا ان عوامل کیلئے دوست ہو گا جو اُس کے مفاد میں ہیں ۔ ان میں سے کچھ ہمارے مفاد میں بھی ہو سکتے ہیں ۔ کبھی “امریکا ہمارا دوست ہے” اور کبھی “امریکا ہمارا دُشمن ہے” کے نعرے بے عقلی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے ؟

تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ جو قومیں اپنی محنت پر بھروسہ کرتی ہیں وسائل کم بھی ہوں تو وہ ترقی کی معراج پا لیتی ہیں ۔ جاپان اور چین کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ موجودہ چین کے بانی مَوذے تُنگ نے قوم کو کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑا کیا ؟ ایک چھوٹی سی مثال ۔ میرا ایک دوست جو 4 دہائیاں قبل کسی تربیت کیلئے چین گیا تھا اُس نے واپس آ کر بتایا تھا کہ اُنہیں کھانے میں صرف 3 سبزیاں ملتی تھیں ۔ وہ بہت بیزار ہوئے اور وہاں کے مہتمم سے شکائت کی ۔ مہتمم نے جواب دیا کہ ہر کمیون میں جو لوگ رہتے ہیں وہی چیز کھاتے ہیں جو وہ اُگاتے ہیں ۔ اگر وہ کوئی چیز فاضل اُگائیں تو قریبی کمیون سے اُن کی فاضل پیداوار کے ساتھ تبادلہ کر سکتے ہیں ۔ ان کے کمیون میں دو سبزیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں سے ایک فاضل ہوتی ہے چنانچہ کبھی کبھی تیسری سبزی تبادلہ میں مل جاتی ہے ۔ ہمارا حال پنجابی کی ضرب المثل کی طرح ہے ۔ پلّے نئیں دھیلہ تے کردی میلہ میلہ ۔ جو قومیں دوسروں کی دستِ نگر ہوتی ہیں وہ ذلت کی زندگی گذارتی ہیں اور بسا اوقات اُن کا نام و نشان بھی مٹ جاتا ہے

دو دہائیاں قبل تک پاکستان نہ صرف اناج میں خود کفیل تھا بلکہ اناج کا درآمد کنندہ بھی تھا مگر حکمرانوں کی غلط منصوبہ بندی اور عوام کی کاہلی اور آسان دولت کی ہوس نے قوم کو موجودہ دور کی مصیبتوں میں مبتلا کر دیا ہے ۔ پھر بھی بجائے اپنے اصل دُشمن کاہلی کو مارنے کے خرابیوں کی جڑ دوسروں کو قرار دیاجا رہا ہے ۔ خودمختاری، خوشحالی اور ترقی قوموں کو خیرات میں نہیں ملتے اور نہ امداد کے طور پر دستیاب ہیں بلکہ اس کیلئے دن رات محنت کرنا پڑتی ہے ۔ پُروقار اور خوشحال قوموں کی ترقی کا راز مندرجہ ذیل عوامل ہیں

1 ۔ انصاف ۔ 2 ۔ دیانت ۔ 3 ۔ محنت ۔ 4 ۔ اتحاد ۔ 5 ۔ عِلم ۔ 6 ۔ اہلیت ۔ 7 ۔ اجتماعی کوشش ۔ 8 ۔ باہمی اعتماد ۔ 9 ۔ برداشت ۔ 10 ۔ قناعت

جس قوم میں یہ خوبیاں نہ ہوں اس کی ترقی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اُس کا زندہ رہنا بہت مُشکل ہے ۔ میں نے ایک بار لکھا کہ معجزے اب بھی ہوتے ہیں تو کسی مبصّر کا خیال تھا کہ معجزے صرف نبیوں کے زمانہ میں وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ تمام وہ عوامل جو کسی قوم کے زندہ رہنے کیلئے ضروری ہیں وہ ہماری قوم میں کم از کم پچھلی 4 دہائیوں سے مفقود ہیں اور اُن کا اُلٹ بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ قوم ابھی بھی نعرے لگا رہی ہے ۔ عصرِ حاضر میں اس سے بڑا معجزہ اور کیا ہو سکتا ہے ؟