Yearly Archives: 2009

عُلمائے ہِند ۔ علامہ اقبال ۔ قائداعظم اور دورِ حاضر

“سیکولر ہندوستان ایک ایسا شجر سایہ دار ہو گا جس میں ہندو کو اپنے مذہب کے مطابق اپنے بتوں کی پرستش اور اپنے طرز زندگی پر چلنے کی آزادی ہوگی۔ مسلمانوں کو اپنی مساجد اور عبادت گاہوں میں اپنے دین پر چلنے کی آزادی ہوگی اور میرے جیسے ”منکر خدا“ کو بھی اپنا عقیدہ رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہوگا”
یہ غیر منقسم ہندوستان کے مشہور کمیونسٹ لیڈر ڈاکٹر محمد اشرف صاحب کی تقریر کا اقتباس ہے جو اُنہوں نے 1940ء کے عشرے میں نمک منڈی چوک پشاور میں منعقدہ جمعیت علماء ہند کے جلسہ میں کی تھی

اسٹیج سیکرٹری میرے ماموں اور خسر مولانا محمد لطف اللہ صاحب تھے مجھے خود میرے ماموں جان نے بتایا کہ “میرا تو سُن کر خون کھولنے لگا لیکن مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی نے جو ان دنوں جمعیت علماء ہند کے صدر تھے اور جلسے کی صدارت فرما رہے تھے مجھے سختی سے مداخلت کرنے سے منع کیا کیونکہ ان دنوں برطانوی استعمار سے آزادی ہی اصل مقصود تھا اور برطانوی استعمار کے ہر مخالف کو گلے لگانا جمعیت علمائے ہند کی پالیسی تھی”

میرے والد محترم 1930 کے عشرے کے آخر اور 1940 کے عشرے کے آغاز میں جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے صدر تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد اسکول کے طالب علمی کے زمانے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ کی فکر سے وابستہ ہوا تو میں نے اپنے والد گرامی سے پوچھا کہ “ابا جان آپ لوگ مسلم لیگ کے مقابلے میں ہندو کانگریس سے کیسے وابستہ ہوگئے تھے” ۔ میرے والد گرامی نے اپنا موقف بیان کیا کہ “دراصل ہم یہ سمجھتے تھے کہ اصل مقابلہ امت مسلمہ اور برطانوی استعمار کا ہے ۔ برطانوی استعمار نے امت مسلمہ سے عالمی قیادت چھینی ہے خلافت کی مرکزیت کا خاتمہ کر کے عالم اسلام کو ٹکڑیوں میں تقسیم کیا ہے ترکوں اور عربوں کو آپس میں لڑا کر عربوں کو بھی کئی ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ مشرق و مغرب میں مسلمان ممالک پر استعماری گرفت مضبوط کر کے ان کے نظام تعلیم اور نظام قانون کو تبدیل کردیا ہے اور تہذیبی اور تمدنی لحاظ سے مسلمانوں کو مغربی رنگ میں رنگی ہوئی لیڈر شپ کی قیادت میں دے دیا ہے ۔ یا ان پر اپنے دست نگر بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں کو مسلط کر دیا ہے اس لئے مسلمانوں کا اصل مسئلہ برطانوی استعمار سے آزادی ہے اور برطانوی استعمار کے خاتمے کے بعد امت مسلمہ کو عالمی سطح پر لیڈر شپ کا مقام واپس مل جائے گا ۔ ہمارے پیش نظر صرف ہندوستان نہیں تھا جس میں ہندوؤں کی اکثریت تھی بلکہ پورا عالم اسلام تھا جو کرہٴ ارض کے ایک چوتھائی حصہ میں پھیلا ہوا تھا اور جو اپنے وسائل اور افرادی قوت کے لحاظ سے قوموں کی امامت کی صلاحیت رکھتا ہے”

میرے والد گرامی ایک مخلص اور عبادت گزار عالم دین تھے لیکن جس طرح جمعیت علمائے ہند نے اپنے تشخص کو ختم کر کے اپنی تنظیم کو انڈین نیشنل کانگریس میں ضم کر دیا اس سے بر صغیر ہند و پاک کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو اتفاق نہیں تھا ۔ وطن کو قومیت کی بنیاد پر تقسیم کرنے سے قرآن و سنت کے واضح دلائل کی روشنی میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے اتفاق نہیں کیا اور “مسئلہ قومیت” نامی کتاب لکھ کر واضح کیا کہ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد عقیدہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ہے وطن یا زبان نہیں ہے

علامہ اقبال نے اپنی فارسی کتاب مثنوی اسرار و رموز میں مسلمان فرد اور مسلم قوم کی حقیقت واضح کی اور وطن کو قومیت کی بنیاد ماننے سے انکار کیا ۔ انہوں نے اپنی اردو شاعری میں بھی صراحت کے ساتھ فرمایا

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے

علامہ اقبال نے اس موضوع پر اتنی تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے کہ اس موضوع کا حق ادا کر دیا ہے اور جو لوگ علامہ اقبال کو مفکر پاکستان مانتے ہیں ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ وہ سیکولرزم یا وطنیت کو پاکستانی قومیت کی بنیاد تسلیم کریں ۔ برصغیر ہند و پاک کے مسلمانوں نے کانگرس کے ساتھ اتحاد کو تسلیم نہیں کیا اور اسی وجہ سے علماء ہند کی قیادت سے نکل کر قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت قبول کر لی

پاکستان میں 62 سال بعد اب کچھ لوگ نظریہ پاکستان سے انکار کر رہے ہیں اور اس کے لئے قائد اعظم کی ایک تقریر کا حوالہ دے رہے ہیں جو انہوں نے ایک خاص پس منظر میں پاکستان میں رہنے والے غیر مسلموں کو تسلی دینے کی خاطر کی تھی کہ ان کی جان، مال اور آبرو پاکستان میں اسی طرح محفوظ ہو گی جس طرح مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو اورا نہیں اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہو گی ۔ اس ایک تقریر کو بنیاد بنا کر برصغیر ہند وپاک کے مسلمانوں کی اس عظیم الشان جدوجہد کی نفی نہیں کی جا سکتی جو انہوں نے پاکستان کی صورت میں پورے عالم اسلام کو ایک مرکز کے گرد جمع کرنے کے لئے کی تھی اور جس کی خاطر انہوں نے قائد اعظم کو قائد اعظم بنایا

مسلمانوں نے صرف اس بنا پر قائد اعظم کی قیادت قبول کی کہ انہوں نے قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق وطن کی بنیاد پر قومیت کا سیکولر نظریہ مسترد کر کے اسلامی قومیت اور اسلامی نظریہ حیات پر مبنی ایک ریاست کے قیام کا بیڑا اٹھایا ۔ قومیت کے اس اسلامی تصور کی بنیاد پر میری طرح کے بہت سے نوجوان جمعیت علمائے ہند کے اکابر کے گھرانوں میں پرورش پانے کے باوجود مولانا مودودی اور علامہ اقبال کے حلقہ بگوش بنے

پاکستان بننے کے بعد دستور اسلامی کا مطالبہ پاکستان کے مسلمانوں کا متفقہ مطالبہ تھا ۔ دستور ساز اسمبلی کے اندر شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی اور سردار عبدالرب نشتر اس کے سرگرم موئیدین میں سے تھے جبکہ مولانا مودودی نے اسمبلی کے باہر اس کے لئے آواز اٹھائی ۔ یہ مطالبہ بر وقت تھا اور اس کو اتنی عوامی تائید حاصل تھی کہ اس کا مسترد کرنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں تھا اس مطالبے کے نتیجے میں دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد پاس کی اگر قرار داد مقاصد کو اس تقریر کی روشنی میں دیکھا جائے جو اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اس کی تائید میں کی تھی تو دستور کی اساس کے طورپر اس قرارداد کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے

پاکستان کی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق پارلیمنٹ کی اکثریت کو بھی اس قرار داد کو دستور سے نکالنے کا حق نہیں ہے کیونکہ یہ ریاست کی وہ بنیاد ہے جو پاکستان کی گزشتہ اور آئندہ نسلوں کی امانت ہے جو لوگ قرار داد مقاصد کی مخالفت کرتے ہیں وہ دراصل اس بنیاد کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں جس پر یہ ملک قائم ہے

اس وقت جب کہ علاقائی اور لسانی بنیادوں پر پاکستان میں مرکز گریز رجحانات کو تقویت مل رہی ہے اور جب کہ امریکہ اور یورپ کی حکومتیں بھی اسلام کے مقابلے میں سیکولر ازم کا پرچار کر رہی ہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ اس بنیادی رشتے کو مضبوط کر دیا جائے جس کی وجہ سے ہم ایک پاکستانی قوم میں ڈھل سکتے ہیں قرار داد مقاصد میں پارلیمنٹ کو اللہ کی حاکمیت اور اقتدار اعلی [Sovereignty] ا ور قرآن و سنت کے دائرے میں رہ کر فیصلہ کرنے کا پابند بنا دیا گیا ہے ملک میں پھیلی ہوئی موجودہ بے چینی کو طاقت کے استعمال سے نہیں بلکہ قرار داد مقاصد اور دستور کی اسلامی دفعات پر صدق دل کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے جو لوگ ان نازک حالات میں جن سے ملک گزر رہا ہے قرار داد مقاصد کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں وہ ان طاقتوں کے آلہ کار ہیں جو ملک میں انتشار اور بے چینی پھیلا کر اس کا تیاپانچہ کرنا چاہتی ہیں

تحریر ۔ قاضی حسین احمد ۔ بشکریہ جنگ

اور منافقت کیا ہوتی ہے ؟

ایسا شاید ہی کوئی حافظہ گُم پاکستانی ہو جسے معلوم نہ ہو کہ الطاف حسین اور اس کے حواریوں نے پی سی او کے تحت ہٹائے گئے ججوں کی بحالی کی اپنی طاقت اور جسامت سے بڑھ کر مخالفت کی تھی اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب پر بہتان تراشی بھی کی تھی ۔ جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کراچی گئے تھے تو اُنہیں ایئرپورٹ سے باہر نہ نکلنے دیا گيا تھا ۔ کراچی میں ججوں کی بحالی کے حامیوں پر حملے اور عدالتوں کا گھیراؤ کر کے وکلاء کو محصور کر دیا تھا

یہ بھی حقیقت ہے کہ 2006ء میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب نے معاف کئے گئے قرضوں کے خلاف از خود کاروائی کا آغاز کیا تھا جو 9 مارچ 2007ء کو ان کے خلاف ہونے والی غیر قانونی اور غیرآئینی کاروائی میں دب کر رہ گیا تھا ۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے مقدمات کی فہرست میں شامل ہے اور اِن شاء اللہ اس پر کاروائی ہو گی

اب متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نام کھلا خط لکھا ہے جس میں چیف جسٹس کی توجہ ملکی حالات کی طرف دلاتے ہوئے ان سے کھربوں کے قرضے معاف کرانے والوں کے خلاف ازخود نوٹس لینے کی درخواست کی ہے

الطاف حسین کونسا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں ؟
کیا یہ کاروائی این آر او کے تحت بری ہونے والے سینکڑوں ایم کیو ایم کے وڈیروں کی پردہ پوشی کے لئے ہے ؟

اب حکومت کیا کرے گی ؟

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے بینچ نے کی ۔ سپریم کورٹ نے عبوری حکم دیا ہے کہ درخواستوں کے حتمی فیصلے تک کاربن ٹیکس وصول نہ کیا جائے جبکہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کاربن ٹیکس وصول نہ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے ۔

کھری کھری باتیں

آج ہم ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں کہ جہاں

سچ کو جھوٹ قرار دیا جاتا ہے اور جھوٹ کو عام کیا جاتا ہے
اپنے عیبوں پر سے نظر ہٹانے کے لئے وہی عیب دوسروں میں بتائے جاتے ہیں
سچ کی تلاش بہت مشکل بنا دی گئی ہے
متعصب شخص اپنے سے متفق نہ ہونے والے تمام لوگوں کو تعصب سے بھرا قرار دیتا ہے اور عام فہم بات میں سے اپنی مرضی کا مطلب نکالتا ہے

یہاں کوئی پنجابی بتایا جاتا ہے کوئی پختون
کوئی کہتا ہے میں بلوچی ہوں کوئی کہتا ہے میں سندھی ہوں
کوئی کہتا ہے میں سرائیکی ہوں
کوئی مہاجر بنا ہے اور کوئی حق پرست ہونے کا دعوٰی کرتا ہے

یہ پاکستان ہے جہاں پاکستانی تلاشِ بسیار کے بعد ملتا ہے

کہتے ہیں کہ پاکستان میں مسلمان بھاری اکثریت میں ہیں
نکلیں ڈھونڈنے تو ملتے ہیں
چوہدری ۔ سردار ۔ ملک ۔ سیّد ۔ شاہ ۔ مزاری ۔ زرداری ۔ پیر ۔ پیرزادہ ۔ صاحبزادہ ۔ صدیقی ۔ فاروقی ۔ راجپوت ۔ وغیرہ وغیرہ
مسلمان کا لفظ آتے ہی تصور دیا جاتا ہے کہ انتہاء پسند ہو گا یا جاہل

کاش یہ پڑھے لکھے لوگ تعلیم یافتہ بنتے نہ کہ جاہل

عام شنید ہے کہ انتہاء پسند مُلا یا اُن کے شاگرد ہیں
گھر سے نکلیں چاہے کار پر یا پیدل چاروں طرف دہشتگرد نظر آتے ہیں
ٹکر مارنے والا معذرت کرنے کی بجائے اُلٹا آنکھیں دکھاتا ہے اور کبھی ڈانٹ بھی پلاتا ہے
حد یہ ہے کہ کھڑی گاڑی کو مارنے والا ايک دم سر پر آ کے کہتا ہے یہاں گاڑی کھڑی کیوں کی تھی ؟

کہتے ہیں کہ مدرسوں میں پڑھنے والے انتہاء پسند ہوتے ہیں ان کی وجہ سے ملک کو بہت نقصان پہنچا ہے
ذرا غور کریں تو نقصان پڑھے لکھے خوش پوش شہریوں کے اعمال کا نتیجہ نظر آتا ہے جن میں سے کچھ یہ ہیں

جھوٹ برملا بولنا
وعدہ کر کے پورا نہ کرنا
کہنا کچھ اور کرنا کچھ
اپنی تفریح کی خاطر دوسروں کو نقصان پہنچانا
اپنے حقوق کا شور مچانا اور دوسروں کا حق مارنا
دوسروں پر احسان جتانا اور خود کسی کا احسان نہ ماننا
طاقتور کے جھوٹ کو سچ ماننا اور کمزور کے سچ کو رَد کر دینا

حقیقت یہ ہے کہ ملک میں جو حالات ہیں ان کا سبب صرف اور صرف پڑھا لکھا اور با اثر طبقہ ہے اور یہ دہشتگرد کہلانے والے طالبان بھی انہی کے کرتوت کا پھل ہیں

کہا جاتا ہے کہ طالبان ناپُختہ ذہنوں کی برین واشنگ [brain-washing] کرتے ہیں مگر جو برین واشنگ دینی مدرسوں سے بہت دُور شہروں میں ہو رہی ہے اُس پر کسی کی نظر نہیں اور وہ قوم کو اندر ہی اندر سے کھا رہی ہے paper1
پاکستان کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ پڑھے لکھوں کے شہر میں کی گئی برین واشنگ کا ایک ادنٰی نمونہ جو اتفاق سے میرے تک پہنچ گیا

ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے

ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے ۔ حالِ چمن پھر کیا ہو گا

سینیٹ سیکریٹریٹ نے 1973ء کے آئین کے غیر آئینی نسخے شائع کرنے کی ذمہ داری پاکستان پیپلز پارٹی کی وزارت قانون پر عائد کردی ہے۔ ان غیر آئینی نسخوں میں اقتدار سے بے دخل کئے جانیوالے آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007ء کے غیر آئینی اقدامات کو آئین کا حصہ بنایا گیا ہے

سینیٹ سیکریٹریٹ کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز نے واضح کیا ہے کہ ارکان سینیٹ کو آئین کی جو کاپیاں مہیا کی گئی ہیں وہ ہو بہو وہی ہیں جو وزارت قانون نے اپریل 2008ء میں تقسیم کی تھیں اور اُس وقت سینیٹ کے موجودہ چیئرمین فاروق نائیک وزیر قانون تھے ۔ اگرچہ سینیٹ سیکریٹریٹ کی وضاحت آئین کے غیر آئینی نسخے شائع کرنے پر ایک طرح سے معذرت کا اظہار ہے لیکن اس سے ایک سنجیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر موجودہ حکومت نے کس طرح سینیٹ سیکریٹریٹ تک آئین کی ایسی کاپیاں پہنچنے دیں جن میں پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کی منظوری کے بغیر پرویز مشرف کے اقدامات کو توثیق دیدی گئی

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید گیلانی حکومت نے بھی کسی رسمی اعلان کے بغیر مشرف کے غیر آئینی اقدامات کو آئین کا حصہ مان لیا ہے ۔ اگرچہ آئین اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ آئین میں بگاڑ پیدا کرنے والوں پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے لیکن موجودہ حکومت پرویز مشرف کے خلاف ایسا کوئی تاثر نہیں دے رہی شاید ممکنہ طور پر پرویز مشرف کے بینظیر بھٹو کے ساتھ این آر او سے متعلق معاہدے کا قرض ادا کیا جا رہا ہے

غیر آئینی نسخوں کی تقسیم ۔ بشکریہ جنگ

انسان کے تخیّل سے باہر

دنیا میں کچھ ایسے عوامل یا واقعات ہوتے رہتے ہیں جو انسان کی عقل و سوچ سے باہر ہوتے ہیں شاید انہی کو معجزہ کہا جاتا ہے ۔ یہ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی کا بنایا نظام ہے ۔ ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں جن کو اللہ پر یقین نہ رکھنے والے نہیں سمجھ سکتے

جڑواں کائری اور بری ایل 17 اکتوبر 1995ء کو میسا چوسیٹ میموریل ہسپتال میں پیدا ہوئیں ۔ پیدائش کے وقت ہر ایک کا وزن 2 پاؤنڈ تھا اور ان کی صحت کچھ ٹھیک نہ تھی ۔ اُن دونوں کو علیحدہ rescue_hug علیحدہ اِنکیوبیٹرز میں رکھا دیا گیا ۔ کائری کا وزن بڑھنا شروع ہو گیا اور وہ صحتمند ہوتی گئی لیکن بری ایل کا وزن نہ بڑھا اور اسے کوئی افاقہ نہ ہوا ۔ وہ روتی رہتی جس سے اس کی سانس بھی رُکنے لگتی اور رنگ نیلا ہو جاتا ۔ کچھ دن بعد بری ایل کی حالت خراب ہو گئی ۔ نرس نے بہت جتن کئے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ آخر نرس نے ہسپتال کے قوائد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بری ایل کو کائری کے ساتھ اسکے اِنکوبیٹر میں ڈال دیا ۔ چند ہی لمحے بعد کائری نے کروٹ لے کر اپنا ایک بازو بری ایل پر رکھ دیا ۔ اس کے بعد بری ایل کی حالت سدھرنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی سانس ٹھیک ہو گئی اور رنگ بھی گلابی ہو گیا اور وہ صحتمند ہونے لگی

میں اُن دنوں لبیا میں تھا ہمیں پاکستان سے ڈاک ڈپلومیٹک بیگ کے ذریعہ تین دن میں مل جایا کرتی تھی ۔ اپریل 1981ء میں میری بڑی بہن کا خط ملا کہ “والد صاحب تمہیں یاد کرتے ہیں”۔ میرے ذہن نے کہا کہ والد صاحب تو ہمیشہ ہی یاد کرتے ہیں ۔ یہ کچھ گڑبڑ ہے ۔ میں نے دو ہفتے کی چھٹی لی اور بیوی بچوں سمیت پاکستان پہنچا ۔ سٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی اپنے گھر پہنچا تو والد صاحب کو وہاں نہ پا کر سیدھا بڑی بہن کے گھر واہ چھاؤنی پہنچا ۔ دیکھا تو والد صاحب بے سُدھ بستر پر لیٹے ہیں اور خُون چڑھایا جا رہا ہے

میں نے اپنی بڑی بہن جو ڈاکٹر اور پیتھالوجسٹ ہیں کو کمرہ سے باہر لیجا کر پوچھا کہ ” کیا ہوا ؟” وہ آنسو بہاتے ہوئے بولیں “سپیشلسٹس بورڈ نے نااُمید کر دیا تھا اور کہا کہ ان کے بڑے بیٹے کو بُلا لیں تو میں نے آپ کو خط لکھ دیا”۔ ہم کمرہ میں واپس گئے تو میری بیوی اور بچے پریشانی میں گُم سُم کھڑے میرے والد صاحب کی طرف دیکھے جا رہے تھے ۔ باجی نے ابا جان کو ہلا کر کہا ” ابا جی ۔ دیکھیں اجمل آیا ہے اور ساتھ بچے بھی ہیں “۔ والد صاحب نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا اور کچھ کہنا چاہا مگر نہ کہہ سکے ۔ میں نے آگے بڑھ کر والد صاحب کا ہاتھ چُوما اور پھر اُن کا ہاتھ پکڑے اُن کے بستر پر بیٹھ گیا

دوسرے دن صبح ڈاکٹر صاحب دیکھنے آئے تو مجھے دیکھ کر کہنے لگے “اچھا کیاکہ آپ آ گئے ۔ ہم اپنے پورے جتن کر چکے تھے “۔ والد صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے تو والد صاحب نحیف آواز میں بولے “ڈاکٹر صاحب ۔ یہ میرا بیٹا ہے “۔ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ ڈاکٹر صاحب نے میری طرف دیکھ کر والد صاحب سے کہا “ہاں ۔ اب اِن شاء اللہ آپ جلد ٹھیک ہو جائیں”

ڈاکٹر صاحب روزانہ آتے تھے ۔ تین دن بعد والد صاحب بیٹھ کر یخنی پی رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب پہنچے اور والد صاحب کو دیکھتے ہی بڑے جوش سے بولے “بزرگوار ۔ آپ نے ہمیں فیل کر دیا اور اجمل صاحب پاس ہو گئے ۔ اب اللہ کے فضل سے آپ تیزی کے ساتھ صحتمند ہو رہے ہیں”

اللہ کی کرم نوازی کہ والد صاحب دس دن میں بالکل تندرست ہو گئے ۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا ۔ صرف میرا قُرب تھا جس کو بہانہ بنا کر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے شفاء دینا تھی