پاک بحریہ نے 1994ء میں تین فرانسیسی سب میرین خریدی تھیں ۔ ایک فرانسیسی اخبار کے مطابق صدر زرداری نے ان سب میرینوں کی خریداری پر 43 لاکھ ڈالرز وصول کیے۔ رپورٹ کے مطابق سال2001 میں برطانوی حکومت کی جانب سے پاکستان کے قومی احتساب بیورو کو بھیجی گئی دستاویزات میں صدر زرداری کے سوئس بینک اکاؤنٹس میں لبنان کے سرمایہ کار عبدالرحمان العسیر کے ذریعے بڑی رقم منتقل ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا ۔ یہ رقم سال1994ء اور1995ء کے دوران ان کے اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی تھی ۔ فرانس کی نیول ڈیفنس کمپنی کے سابق ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ فرانس کے حکام نے العصیر کو اس ڈیل میں مددگار کے طور پر چنا تھا ۔ جس نے مبینہ طور پر معاہدے سے ایک ماہ قبل 15 اگست1994 سے 30 اگست کے دوران صدر زرداری کے اکاؤنٹس میں 13 لاکھ ڈالرز جمع کرائے ۔ معاہدے پر دستخط کے ایک سال بعد 12 لاکھ اور 18 لاکھ ڈالرز جمع کرائے گئے ۔ طے کی گئی رقم مکمل ادا نہ کرنے پر ہی کراچی میں8 مئی2002 کو فرانس کی نیول ڈیفنس کمپنی کے 11 ملازمین کو دہشتگرد حملے میں ہلاک کردیاگیا ۔ رپورٹ کے مطابق فرانسیسی کمپنی کے ملازمین نے دہشت گردی کے اس واقعہ کی تفتیش کے دوران بتایا کہ معاہدے کے تحت خریدی جانے والی آبدوزوں کی قیمت کا 10 فیصد حصہ کمیشن کے طور پر دیا جانا تھا ۔ جس میں 6 فیصد یعنی49.5 ملین ڈالرز فوج اور 4 فیصد یعنی33 ملین یوروز سیاسی حلقوں کو کمیشن کے طور پر دینا تھا ۔ سال 2001ء میں پاک بحریہ کے سابق چیف آف اسٹاف منصور الحق کو اس ڈیل میں کردار ادا کرنے پر گرفتار کیا گیا اور ان پر ستر لاکھ ڈالرز واپس دینے کے لیے دباؤ بھی ڈالاگیا۔ رپورٹ کے مطابق صدر آصف زرداری ملک کے امیر ترین آدمی ہیں ایک اندازنے کے مطابق ان کے اثاثوں کی مالیت1.8 ارب ڈالرز ہے۔آصف زرداری کے صدر منتخب ہونے سے چند ماہ قبل اپریل2008 میں ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کردیے گئے تھے
بشکریہ ۔ جنگ
دہشت گردی ایک اہم موضوع ہے اور آپ نے ایک اہم نکتے کی جانب توجہ دلائی ہے جو قابل تعریف ہے۔
تلخابہ والے صاحب
میں نے ماضی قریب میں متعدد بار کوشش کی کہ میرے کم از کم میرے قارئین سمجھ پائیں کہ طالبان کی رَٹ کے پیچھے اصل مُجرم کون ہیں ۔ لیکن بہت کم کو احساس ہوا کہ میں کیا کہنا چاہتا تھا ۔ اور چند تو لٹھ لے کر میرے پیچھے پڑ گئے
نا جی نا… صدر کیسے دہشت گرد ہوسکتا ہے.. وہ تو دودھ کا دھلا ہوا ہے… آخر عوام نے جو چنا ہے… عوام کیسے غلط ہوسکتی ہے… ہاں اگر آٹا چینی نہیں ملتا تو اللہ کی مرضی..!!
کافی روز سے منتظر تھا کہ حالات پر کوئی تحریر آئے جب بھی دیکھتا منہ بسورے اوپر X پر کلک کر دیتا
بلکل آپ نے ٹھیک بات کی اور اسی بات کولوگ نہیں مان رہے مگر یہ نہ ماننا کم کم ہی معلومات کی کمی ہے بلکہ یہ سیدھا سادہ عقیدہ کا معملہ ہوتا ہے اتنا بے وقوف تو کوئی بھی نہیں یہاں جانتے سب ہیں بلکہ خوش بھی ہوتے ہوتے ہیں ۔ بس لوگوں کو ٹھیک عقیدہ کیا جائے اور جنکا ہے ان کے ایمان پر محنت کی جائے تو بات بنے گی اور یہ کوئی آسان بات نہیں
اچھا جو لوگ اعتزاز احسن کو پتا نہٰن کیا سمجھ بیٹھے تھے اب کیا کہتے ہیں؟ صاحب کردار انسان سے اچھی توقع رکھنا چاہیئے دنیا دار سے کبھی بھی نہیں
اور نجات، کامیابی، ناکامی سب اللہ پاک کے ہاتھ ہیں کاش اللہ سے ہونے کا یقین لوگوں کو آجائے
اسلام علیکم
آرٹیکل دلچسپ ہے ۔ میں ذاتی طور پر یقین رکھتا ہوں کہ کمیشن ایک قبیح گناہ اور جرم ہے اور اس کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں ضرور لانا چاہیے چاہے وہ کوی بھی ہو – کونکہ وہ مذہب اور قانون کے مجرم ہیں ۔ مگر یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس اس طرح کی اطلاعات ایک خاص وقت میں کیوں لیک کی جاتی ہیں ۔ کیا ماضی میں فرنچ گورنمنٹ اپنے شہریوں کے قتل پر جان بوجھ کر خاموش رہی ۔ میرے خیال میں بطور مسلمان ہمیں بغیر تصدیق کے کسی خبر پر یقین کرنے میں احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہے جب تک کہ معاملہ کی تصدیق مستند ذرایع سے نہ ہو جاے ۔
اسی بارے میں کچھ لکھا ھے
http://sadiasaher.wordpress.pk/2009/11/13/%D8%A7%D8%B3-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%D8%A6-%D8%AE%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%DA%BE%DB%92-%D8%9F%D8%9F/
مسٹر ٹن پرسنٹ سے آپ کیا امید کرتے ھیں ؟؟
ماضی مین ایسے تھے اب کیا بدل گئے ھونگے
وہ کہتے ھیں نہ چور چوری سے تو جائے ہیرا پھیری سے نا جائے
دہشت گرد وہی جو کمزور ہے۔
محمد ریاض شاہد صاحب
نام نہاد آزاد دنیا کا سارا کام اس نام نہاد کمشن سے ہی چل رہا ہے
یہ سوال ‘دہشت کون’ قدرے مشکل ہے۔ اگر یہ پوچھا جاتا کہ معصوم کون؟ تو جواب دینے میں آسانی ہوتی اور فہرست بھی زیادہ طویل بھی نہیں ہوتی۔
محمد اسد صاحب
آپ میری تحریر ذرا غور سے پڑھیئے ۔ میں نے پوچھا نہیں بتایا ہے