جاوید احمد گوندل صاہب نے میری کل کی تحریر پر تبصرہ کیا ہے جو ہر محبِ وطن پاکستانی کیلئے قابلِ غور ہے ۔ [میں نے ایک اہم پیرا نیچے سے اُوپر اُوپر کر دیا ہے]
کیاپاکستان کی حکومت اور انتظامیہ میں ایسے بے غیرت عناصر شامل ہوچکے ہیں یا پہلے سے شامل تھے جو ریاستِ پاکستان کے مفاد پہ اپنا مفاد عزیز سمجھتے ہیں۔ مفادات جو لازمی طور پہ کئی قسم کے ہوسکتے ہیں۔ مالی اور جان کی امان بھی اس میں شامل ہوسکتی ہے۔ اور وہ گھٹیا مالی مفادات بھی جیسے مشرف کے دور میں مشرف کا پاکستان پہ آئے قیامت خیز زلزلے کی تباہیوں کو کیش کروانا اور اربوں کی امداد کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا۔ ریاست اور عوام کی خودمختاری و خود اداری کے عوض پاکستانی قوم کے افراد کو امریکیوں کے ہاتھ
ملین ڈالرز وصول کرتے ہوئے بیچ ڈالنا، جنہیں امریکیوں نے پاکستانی دہشت گرد کی گردان کر کے اسے پھر سے پاکستان کے خلاف مذموم پروپیگنڈہ کے ذریعہ اپنے مذموم مقاصد کے لئیے استعمال کیا جو پاکستان پہ مہم جوئی کا دباؤ ڈالے رکھنا تھا۔کیا ایک بار پھر سے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اسمیں کام آئیں معصوم جانوں کو پھر سے کیش کروا رہے ہیں
جی ایچ کیو اور دوسری حساس جگہوں پر حملوں کے پیچھے، خاص کر اداروں کا انتخاب۔ انکے بارے میں صحیح صحیح معلومات ہونا۔ مکمل پلاننگ سے حملہ کرنا۔ دہشت گردوں کا انتہائی مہارت کی حد تک تربیت یافتہ ہونا۔ دہشت پھیلانے اور انسانی جانوں کی قربانی لینے کے ساتھ ساتھ ایسے نفسیاتی اہداف مقرر کرنا جن سے عام آدمی اور عام سرکاری اہلکار شدید دباؤ اور خوف کا شکار ہوجائے اور متواتر شکار رہے۔
یہ سارے عوامل اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس کے پس پردہ مکمل تربیت یافتہ دشمن انٹیلی جنس ایجنٹوں کا ہاتھ ہے خواہ وہ مقامی ایجینٹ ہیں یا غیر ملکی۔ انکا نیٹ ورک پاکستان کے بڑے شہروں میں آج سے نہیں بلکہ کئی سالوں سے کام کر رہا ہے جو ان شہروں میں مستقل سکونت رکھتے ہیں اور ایسے اہداف وغیرہ کے بارے میں انہوں نے پہلے سے ہر قسم کی معلومات اور تیاری کر رکھی ہوتی ہے۔ جب ان دشمن ایجنٹوں کے ممالک یا ملک کے مفادات پر کوئی ضرب لگتی ہے تو ان ممالک یا ملک سے ان ایجنٹوں کو اشارہ ہوتا ہے وہ پہلے
سے بنے بنائے پلانز کے تحت ان دہشت گردوں کو میدان میں لے آتے ہیں جنہیں افغانستان میں پاکستان کے خلاف بھارت تربیت دے رہا ہے۔
مختلف پاکستان دشمن طاقتوں کے مفادات اکھٹے ہوگئے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اسکے لیے قلیل ترین معاوضے پہ کام کرے اور اسکا ایک ہی آسان طریقہ ہے کہ پاکستان پہ دباؤ برقرار رہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ کسی طریقے سے بھارت میں جاری لگ بھگ چودہ کے قریب علٰیحدگی کی تحریکوں اور خاص کر کشمیر کے مسئلے سے توجہ ہٹائی جاسکے اور پاکستان کی افواج کو اس کے اپنے پاکستانی خون سے نہلا دیا جائے۔ اور پاکستان کو ایک ناکام ، انتہاپسند اور جنونی لوگوں کی ریاست قرار دلوا دیا جائے۔ اسرائیل کے مفادات پاکستان کے جوہری اثاثوں کی وجہ سے اسکے اپنے خدشات ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا اسرائیل کے پھیلاؤ اور علاقے کی چوہدراہٹ میں مستقبل میں رکاوٹ بن سکتا ہے ۔ اس شیطانی ٹرائیکا میں افغانستان کے شمالی اتحاد کے عناصر سے وجود میں آنے والی پاکستان مخالف حکومت جس کی سربراہی کرزئی کرتے ہیں بھی شامل ہے۔
ممبئی پہ دہشت گرد حملوں کے جواب میں نئے نئے وزیرِ داخلہ بننے والے چدامپرم کا وہ بیان بھی ہمیں ذہن میں رکھنا چاہئیے جو موصوف نے ممبئے حملوں کا الزام ریاستِ پاکستان پہ رکھتے ہوئے یہ کہا تھا۔” کہ اب بھارت کا جو جواب ہوگا وہ ساری دنیا دیکھے گی”۔ کیا وہ یہی جواب تھا ۔؟ جو آجکل پاکستان کے حساس ترین اداروں پہ حملے کر کے ساری دنیا کو یہ باور کرانے کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان دنیا کی غیر محفوط ترین ریاست ہے۔ افغانستان سے بھی زیادہ غیر محفوظ۔؟ تاکہ پاکستان سے لوگ اپنا سرمایہ سمیٹ کر نکل جائیں۔ پاکستان کے حالات غیریقینی ہونے سے پاکستان کی تجارت ، صنعت ۔ سب تباہ ہوجائیں۔ عام آدمی عدم تحفظ کا شکار ہوجائے۔ کیونکہ ممالک اور قومیں امداد کے سر پہ ترقی نہیں کرتیں بلکہ وہ اپنی اکنامکس کو ترقی دے کر ہی کوئی مقام حاصل کر سکتی ہیں
اس شیطانی اتحادِ ثلاثہ۔ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے گٹھ جوڑ اور پاکستان کے خلاف بے تحاشہ وسائل جھونکنے کے باوجود یہ اتحاد کبھی پاکستان کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک ہماری حکومت اور حکومت میں شامل حد سے زیادہ امریکہ نواز طبقہ ان کڑوے حقائق پہ اپنی آنکھیں نہ بند کریں۔ یہ آنکھیں کیوں بند ہیں۔ یہ زبان پہ تالہ بندیاں کیوں ہیں۔ آخر اسقدر زیادہ ثبوت ہونے کے باوجود بھارت کا نام کھُل کر کیوں نہیں لیا جاتا ۔؟
بھارتی فوج اور خفیہ اداروں کے اسقدر اہلکار پاکستان مخالف کاروائیوں میں ملوث ہیں اور پاکستان کے شمال میں افغانستان میں سب بڑے
شہروں میں بھارت نے اپنے قونصلیٹ جن مذموم مقاصد کے لئیے کھول رکھے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
افغانستان میں چونکہ امریکہ کی عملداری ہے ۔ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ امریکہ سے سخت احتجاج کیا جاتا اور پاکستان کے
اندر موجودہ دہشت گردی کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں امریکہ سے تعاون کو اسوقت تک محدود کر دیا جاتا جب تک امریکہ افغانستان کے اندر سے بھارتی قونصلیٹس اور پاکستان کے خلاف چلنے والے دہشت گردی کی تریبت کے کیمپس بند نہ کرواتا اور غیر ضروری طور پہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں سے وہاں سے نہ نکالتا۔ اور ایسا نہ کرنے پہ اسے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی تعاون کو مکمل طور پہ ختم کرنے کی دہمکی دی جاتی کہ اس دہشت گردی کی آگ متواتر پاکستان کے اندر لگی ہوئی ہے اور جب تک ہم اپنے گھر کے معاملات پہ قابو نہیں پالیتے اسوقت تک ہم اپنی توانائی امریکی تعاون پہ خرچ نہیں کر سکتے
مگر اسکے لئیے کیری، لوگر بل امداد خیرات وغیرہ سے نجات پانا ضروری ہے۔ جب تک ہم بھیک میں ملی خیرات پہ خوشی کے شادیانے بجاتے رہیں گے۔ تب تک ایسا ہونا ناممکن ہے۔ تو اسکا مطلب ہے کہ پاکستان کے اندر ہونے والی یہ ننگی جارحیت اور دہشت گردی ہمیں ٹھنڈے پیٹوں پینا پڑے گی
اور آج پشاور میں ایک اور دھماکہ ہو گیا ہے ۔
اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں۔ ہائےافسوس
آپ لوگ ایک انتہائی اہم عامل “شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی” کو کیوں نظر انداز کردیتے ہیں۔۔ چلیں مان لیں کہ بھارتی یا اسرائیلی تمام دہشت گردوں کی کاروائیوں میں ملوث ہیں تو ان کاروائیوں کے لیے خام مال تو مذہبی انتہا پسندی فراہم کررہی ہے۔ جو چیز ہمیں اندر ہی اندر کھائے جارہی ہے اس پر سے توجہ ہٹا کر ثانوی عوامل پر لوگوں کو مرتکز کرکے کیا فائدہ ہوگا؟ تعلیم کے فروغ، غربت اور جہالت کے خاتمے کے بغیر آپ لوگوں کا خیال ہے کہ کیری لوگر بل کو رد کرکے ہم ایک با عزت اور امن پسند قوم بن جائیں گے تو بڑی بھول ہے۔ بنیادی طور پر دوسرے ممالک میں کاروائیوں کے لیے جو جہادی جھتے ہم نے تیار کے تھے وہ گھر لوٹ آئے ہیں اور ہم ابھی تک نادیدہ ہاتھ تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
کالی بھیڑیں تو ہر جگہ ہوتی ہیں۔ اصل مسئلہ تب ہوتا ہے جب انکی تعداد حد سے زیادہ تجاوز کر جائے۔
عقیل عرف ڈاکٹر عثمان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ وہ کس مذہبی انتہا پسندی سے متاثر ہے۔ وہ تو پڑھا لکھا ہے وہ کیسے بھٹک گیا۔
راشد کامران صاحب
آپ یہ تو بتا دیجئے کہ کس مذہب میں یہ سب کچھ جائز ہے جو ہمارے ملک میں ہو رہا ہے ۔ آپ انتہاء پسند ہندو تو کہہ سکتے ہیں کہ ہندو ازم مذہب نہیں ہے یا انتہاء پسند صیہونی کہہ سکتے ہیں کے وہ یہودیت پر نہیں چلتے بلکہ اپنے بنائے ہوئے اصولوں پر چلتے ہیں ۔ آپ انتہاء پسند مسلمان بھی کہہ سکتے ہیں کہ نام کے مسلمان انتہاء پسند ہو سکتے ہیں ۔ يہودیت ۔ عیسائیت اور اسلام انتہاء پسند نہیں ہیں اور دنیا میں يہی تین مذاہب ہیں
تعلیم کا فروغ ؟ کیا تعلیم رہ گئی ہے ہمارے ملک میں ۔ مجھے تو صرف کاغذ کی اسناد بانٹنے والے ادارے دکھائی دیتے ہیں ۔ تعلیم کا نظام تو قائم ہو ۔ فروغ کی باری تو بعد میں آئے گی ۔ غُربت کا خاتمہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب عوام کی اکثریت اسے ختم کرنے کی کوشس کرے گی ۔ قوم کی اکثریت بغیر محنت کے معاوضہ نہ صرف چاہتی ہے بلکہ ناجائز طریقہ سے حاصل کرتی ہے ۔ اگر کسی طرح تعلیم اپنے ملک میں آ جائے تو غُربت اور جہالت خود ہی ختم ہو جائیں گے مگر تعلیم بھی اُسی وقت آئے گی جب عوام کی اکثریت چاہے گی
اب آتے ہیں اُس پر جس طرف آپ کا اشارہ ہے ۔ جس عمل کو آپ مذہبی انتہاء پسندی کہہ رہے ہیں وہ مذہبی انتہاء پسندی نہیں بلکہ بے راہ روی ہے اور ان حملہ آوروں میں کراچی سے لے کر طورخم تک کے زرخرید کرائے کے قاتل حصہ لے رہے ہیں ۔ اس قسم کے لوگ پاکستان کے ہر شہر میں پائے جاتے ہیں اور اگر دل ٹھنڈا رکھ کر حقائق کو دیکھا جائے تو کراچی میں آئے دن کی قتل و غارت بھی اسی طرح کے لوگ کرتے ہیں ۔ کیا کراچی میں مذہبی انتہاء پسند رہتے ہیں ؟ نہیں لیکن کافی تعداد میں شِدّت پسند کراچی میں فیصل کالونی ۔ گلستانِ جوہر ۔ لیاری ۔ لیاقت آباد اور کئی دوسرے علاقوں میں رہتے ہیں جو یا تو سندھ کی حکومت کے پروردہ ہیں یا حکومت کے قابو سے باہر ہیں ۔ انہیں نہ تو کوئی طالبان کہتا ہے اور نہ دہشت کرد بلکہ شِدّت پسند بھی نہیں کہا جاتا بلکہ کہا جاتا ہے دو گروہوں یا گروہ
عارف کریم صاحب
درست
نازیہ صاحب
عقیل ضلع راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ کے ایک گاؤں کا رہنے والا تھا ۔ راولپنڈی چھاؤنی میں فوج کے ایک بڑے ہسپتال میں نرسنگ سٹاف میں تھا ۔ پانچ سال قبل غائب ہو گیا تھا اور فوج کو مطلوب تھا ۔ اپنے ماں باپ کو کہہ کر گیا تھا کہ تبلیغ پر جا رہا ہوں ۔ پچھلے سال اسلام آباد میں میریئٹ ہوٹل پر حملے کے سلسلہ میں گرفتار ہوا تھا ۔ اسے کیوں رہا کیا گیا اور کس کے کہنے پر جبکہ یہ فوج کا بھگوڑا تھا ؟ یہ ایک بڑا سوال ہے