مجھے ایک کارٹون یاد آ گیا ہے جو میں نے رسالہ تعلیم و تربیت میں اُن دنوں دیکھا تھا جب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا [1951ء]
ماں بچے سے ” بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو”
بچہ ماں سے”ماں ۔ اور سوچنے سے پہلے ؟”
ماں ” یہ سوچا کرو کہ سوچنا چاہیئے یا نہیں ”
میں نے یکم جولائی 2009ء کو تمام قارئین کی خدمت میں ایک تحریر پیش کی تھی جس میں نے گوگل کا ربط دیا تھا ۔ اس کا پہلا فقرہ ملاحظہ ہو
میں مخاطب ہوں اُن قارئین و قاریات سے جن کے کمپیوٹر پر اُردو نصب [install] نہیں ہے یا اُن کے کمپیوٹر کا کلیدی تختہ [keyboard] اُردو نہیں لکھتا اس لئے پریشانی اُٹھانا پڑتی ہے یا وہ مجبور ہو کر انگریزی حروف [English letters] میں اُردو لکھتے ہیں جسے رومن اُردو [Roman Urdu] بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ سب کی مُشکل اللہ نے آسان کر دی ہے ۔ آپ مندرجہ ذیل ربط کو اپنے پاس محفوظ کر لیجئے
اس پر شاید صرف 4 قارئین [ منیر عباسی ۔ سعود اور احمد صاحبان اور شاہدہ اکرم صاحبہ] سوا کسی نے توجہ نہ دی چنانچہ چند ہفتوں کے وقفہ سے کچھ حضرات نے باری باری اسے دریافت کر کے قارئین کو آگاہ کیا
ہماری فوج کے “القاعدہ عمومی” پر “کرائے کے قاتلوں” کی طالبان کے تخیّلی اور فوج کے ظاہری بہروپ میں یلغار ایک افسوسناک واقع ہے کیونکہ اس میں ہمارے 11 محبِ وطن کام آئے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہونا چاہیئے کہ ہمارے ملک کے پاسبانوں نے اپنی جانیں قربان کر کے اپنا فرضِ منصبی احسن طریقہ سے انجام دیا ۔ میں نے انگریزی کے لفظ “جنرل ہیڈ کوارٹر” کا ترجمہ “القاعدہ عمومی” اس لئے کیا ہے کہ اس عام سے بے ضرر لفظ کو مسلم دُشمن دنیا نے اپنے ذرائع ابلاغ کے زور سے سفّاک مُجرم بنا کے رکھ دیا ہے
ماضی کی طرح حملہ کی خبر نکلتے ہیں “طالبان” “طالبان” کا شور اُٹھا اور کْرّہ ارض پر چھا گیا ۔ امریکہ اور یورپ والے بھی جانتے ہیں مگر میرے ہموطنوں میں سے کون ہے جو طُلباء یا طالبان کا مطلب نہیں جانتا ؟ یہ الگ بات ہے کہ دورِ حاضر کے باعِلم ہموطن آجکل “طلباء” کو “طلبہ” لکھتے ہیں
آمدن برسرِ مطلب [ماضی میں اعتراض ہوا تھا کہ آمدم ہونا چاہیئے۔ آمدم کا مطلب ہے “ہم آئے” يعنی ایک سے زیادہ لوگ آئے ۔ دوسرے یہ ماضی کا صیغہ ہے اور آمدن بسرِ مطلب کے معنی ہیں “آنا مطلب کی طرف”] ۔ دورِ حاضر میں “طالبان” نام دیا گیا ہے دینی مدارس کے فارغ التحصیل کو اور فرض کر لیا گیا ہے کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل جاہل اور دہشتگرد ہوتے ہیں ۔ اگر یہ تشریح جو بے بنیاد ہے کو مان بھی لیا جائے تو جو شخص کبھی دینی مدرسہ گیا ہی نہ ہو وہ کیسے طالبان ہو گیا ؟ ایک اور بھی اصطلاح ہے دورِ حاضر کے سندیافتہ لوگوں کی جس میں پی ایچ ڈی بھی شامل ہیں کہ پاکستان کے پختون قبائلی دہشتگرد ہیں ۔ کوئی بھی واقعہ ہو اسے اُن سے جوڑنے میں تاخیر کو شاید حرام سمجھا جاتا ہے ۔ آج تک کسی نے سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ واردات کرنے والوں کی پہچان کیا ہے ۔ بس ایک اعلان آتا ہے طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ۔ سب کو تسلی ہو گئی اور پھر استراحت فرمانے لگے یا ضیافتیں اُڑانے لگے ۔ ذمہ داری قبول کرنے والا درحقیقت کون ہے اور اُس کا آقا کون ہے ؟ اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہمیں صرف ایک بیان چاہیئے ہوتا ہے
سب سے پہلا حملہ پاکستان کی سپاہ پر پرویز مشرف کے زمانہ میں ہوا تھا ۔ اُس کے ردِ عمل میں کاروائی کی گئی تو 9 حملہ آور مارے گئے ۔ وہ نہ مسلمان تھے نہ یہودی کیونکہ اُن کے ختنے نہیں ہوئے تھے اور قبائلیوں نے انہیں نہلانے اور دفن کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ اس بات کو سختی سے دبا دیا گیا ۔ اور آج تک بار بار حقائق کو دبا کر تمام گندگی طالبان اور القاعدہ کے ناموں پر گرائی جا رہی ہے ۔ اور ايسا کرنے پر میرے بہت سے پڑھے لکھے ہموطن جن میں کچھ بلاگر اور میرے قارئین بھی ہیں فاتحانہ انداز اختیار کرتے ہیں
یہ حقیقت ثابت شدہ ہے کہ لاہور میں سری لنکا کے کھلاڑیوں اور اب جی ایچ کیو پر حملہ دونوں کمانڈو حملے تھے اور ان دونوں میں تمام تر دعووں کے باوجود نہ کوئی پختون قبائلی تھا نہ طالبان ۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ان کا تعلق پنجاب ۔ سرحد [قبائلی علاقہ نہیں] اور سندھ سے ہے
السلام علیکم۔
مجھے تو اب بھی سمجھ نہیں آئی کہ امریکہ کیسے دریافت ہوا تھا۔۔۔ :?
ویسے اردو لکھائی والے ربط پر میں نے توجہ دی تھی۔ قسم سے
اجمل صاحب
بس یہی وہ بات ہے جس کی بنا پر ہم کو آپ مخلص اور با خبر پاکستانی خیال کرتے ہیں، آپ سے بس ایک ھی اختلاف ہے ہماری رائے میں آپ کو اس موضوع پر یا تو معلومات نہیں یا مودودیت کا کچھ اثر ہوگا مگر باقی باتوں میں آپ سے اتفاق ہے اور آپ کو بامقصد خیال کیا ہے ۔
ایسے بلاگرز سے آپ جیسے لوگ کبھی بھی بہترین بلاگ کا ایوارڈ نہیں لے سکتے ، پختگی اور بصیرت بہیت آہستہ سفر کرتی ہیں۔
آپ اگر نہ ہوتے بلاگز میں تو یہ بلاگرز ( جن کی اکثریت لبرل، شیعہ اور قادیانی ہے ) صبح شام کورس میں امریکی ترانہ گاتے پاکستانیوں خاص کر پختونوں اور اصل میں بریلوی حضرات کو چھوڑ کر باقی سب پر تبراء بھیجتے
کچھھ لوگوں کی حس مزاح جاگتی اور وہ خوب مینا کاری کرتے
آج کے زمانے میں اللہ کسی صحابی کہ زندہ کر دے تو کیا ہوگا؟ لوگ تو اسلام سےہی گئے تھے
بات بڑی سادہ ہے، لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!!۔
پاکستان کا بچنا ممکن نظر نہیں آتا، وہ گھر کیسے بچے گا جس پر ایک یہودی کی اولاد اور دوسری عیسائیوں کی کا کنٹرول ہو؟ جو اب بھی خوش فہمی کا شکار ہیں وہ یا تو گیم سے آگاہ ہیں یا گیم کا حصہ ہیں۔
آپ امریکہ جو کہ صرف علامتی ہے کی بجائے اصل اقوام کو سامنے لائیں، وہ امریکہ کے پردے میں واردات کیئے جاتے ہیں
اجمل صاحب لگے رہیں جب تک سانس آرہا ہے اپنا اپنا حصہ ڈالتے رہنا ہوگا
مخلص
احمد عثمانی
احمد صاحب – جذباتیت کے سوا آپ نے صرف مایوسی ہی پھیلائی۔ یہ بات پہلے بہت بار کہی جاچکی کہ وزیر علاقوں میں اکثر لوگوں کے ختنے نہیںہوتے۔ ساجد بھائی اگر اس بلاگ پر آتے ہیں تو وہ اس بارے میں مزید بتا سکیں گے۔ اسی وجہ سے کسی کا ختنہ نہ ہونا انہیں غیر قبائلی نہیںثابت کرسکتا۔ باقی جو بات ہے “طالبان” نام کی تو جب ایک سوچ سے کوئی نام جُڑ جاتا ہے تو پھر لفظی معنی غائب ہوجاتے ہیں۔ یہی صورت طالبان کے نام کی ہوئی۔
احمد صاحب
میں آپ کو ای میل بھیج رہا ہوں جواب جلد دیجئے
محمد سعد صاحب
میری تاریخ کی کتاب جو انگریز حاکموں نے ترتیب دلائی تھی اُس میں لکھا تھا کولمبس عربوں سے ہند کی تعریفیں سن کر ہند کو چلا اور کسی جگہ پہنچا جہاں کے باشندے اسے سُرخ نطر آئے تو اُنہیں اُس نے ریڈ انڈین کا نام دے دیا
آپ شریف آدمی ہیں اسلئے اُردو کے بارے میں آپ کی بات مان لیتے ہیں :smile:
خُرم صاحب
گستاخی معاف ۔ آپ کی معلومات درست نہیں ہیں ۔ قبائلی مسلمان بغیر ختنے کے نہیں ہوتے
طالبان سوچ بھی نجانے آپ کس چیز کو کہہ رہے ہیں ۔ طالبان لفظ کے ساتھ فضولیات اُن لوگوں نے لگائی ہین جو طالبان نہیں ہیں
اصل میں سمجھ نہ آنے سے مراد یہ تھی کہ مجھے عنوان مضمون سے کچھ زیادہ ہی مختلف نظر آیا۔
اجمل ساحب
انشاءاللہ میں آپکو ای میل کردوں گا
مسٹر خرم صاحب
یہ گھسے پٹے الفاظ بھی اب گھے پٹ گئے ہیں، ان جیسے الفاظ کے پردوں میں حقیقت نہیں چھپنے لگی اب کہ جزباتیت اور یہ اور وہ
مسلمان کو کانٹا بھی بھی لگے تو اس پر بھی اسکو اجر ہے ، منافقوں اور کافروں کا کیا ہوگا؟ مسلمان کے لیئے دنیا کوئی پھولوں کی سیج تو پہلے بھی نہیں تھی یہ دارالامتحان ہے جزا کا گھر نہیں۔ ان تکلیفوں سے یہ فائدہ بھی ہے کہ لوگ اپنے اعمال ٹھیک کریں گے اور منافق اور کافر؟
اب سمجھ کے مطابق امریکہ کوایک سمندری بابے نے دریافت کیا تھا
افتخار انکل ۔ آپ کے خیال میں یہ جو اپنے آپ کو طالبان کہلاتے ہیں یہ طالبان نہیں ہیں؟ تو پھر کیا حربہ کیا جائے کہ یہ اپنے آپ کو طالبان کہلانا چھوڑ دیں؟ کیونکہ جب تک وہ اپنے آپ کو طالبان کہیں گے، آپ کی خواہش کے باوجود انہیں طالبان ہی مانا جائے گا۔ اور قبائلیوں کے متعلق مجھے تو ایک قبائلی نے ہی بات بتائی تھی۔ بھائی ساجد اقبال سے تو آپ واقف ہی ہوں گے اور اس کی تائید بھی کی گئی تھی۔
احمد بھائی ۔ مسلمان کو تو کانٹا بھی لگے تو اس پر اجر ہے بے شک لیکن مسلمانی کیا ہے یہ تعریف آپ کہاں سے لائیں گے؟ اگر مسلمانی یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی بندوق اٹھا کر دوسرے مسلمان پر جہاد کرنے لگ پڑے تو پھر وہ دین جو رسول عربی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم لائے تھے وہ یہ دین نہیں۔ اور دوسری اقوام پر تبرے تو مسلمان پانچ صدیوں سے بھیج رہے ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ اگر کچھ کرنا ہے تووہ ہمت لائیے جو حالات کو اپنے مطابق ڈھال سکے وگرنہ چنگیز کو بھی لوگ اللہ کا عذاب سمجھ کر قبولے گئے تھے۔ خودداری و آزادی بھیک میں نہیںملا کرتیں اور غیر منظم ہجوم کبھی بھی باعزت نہیں ہوتے۔ ثبوت کے طور پر یہ دیکھ لیجئے کہ سینکڑوں کے ریوڑکو چند شیروں کا ایک منظم گروہ نہ صرف تتر بتر کردیتا ہے بلکہ ان سے اپنا شکار بھی وصول کر لیتا ہے۔
خرم صاحب
آپ صرف اتنا بتا دیجئے کہ آپ کے خیال میں مسلمان کیسا ہونا چاہیئے اور جو مسلمان کے اوصاف ہونا چاہیئیں ان پر آپ کتنا عمل کرتے ہیں سوائے دوسروں کو مفسد اور نامعلوم کیا کیا کہنے کے
خرم صاحب
مسلمانی کی تعریف وہی ہے جو پہلے تھی اور لاکھوں لوگوں سے اس پر عمل کروا کر بھی دکھلا دیا گیا۔ جیسا نبی نے بتلایا اور صحابہ نے عمل کرکے دکھلایا
تبراء کا کام جن کا ہے وہ اپنے کام کی بدولت خوب پہچانے جاتے ہیں گالیاں جن کا دین ہے اور عبادت۔ اور اس بھی جی نہیں بھرتا جڑ کاٹنے کی کوشش بقول خمینی اسلام کی عظیم خدمت ہے
جہاں تک ہمت کی بات ہے یہ اسی کا ثبوت ہے کہ قربانی پر قربانی دیئے جاتے ہیں ساری دنیا آگ و بارود لیئے صدیوں سے پیچھے ہے مگر سبائیت تو وہیں ہے اور اسلام پھیلتا رہتا ہے
چنگیز بے شک اللہ کا عذاب تھا مگر جو اسکا سہارا بنے جو اسکو لائے وہ اپنے عمل کی سزا پائیں گے ورنہ منافق کیلئے جہنم میں سب سے برا ٹھکانہ کیوں ہوتا؟۔
یہ کیسے شیر ہیں آپ کے کہ سازش کرکے اور کافروں سے کندھا ملائے شکار کرتے ہیں؟ یہی تو ہم کہتے ہیں کہ حملہ کرنا ہے مٹانا ہے یا جو بھی کرنا ہے منافقت سے نا کرو، وار سامنے سے کرو تو دیکھتے ہیں شیر کون ھے، ذلالت کو بہادری نہیں کہتے مگر کیا کریں جس دین کی بنیا ہی جھوٹ اور مکاری پر ہو وہاں سچ کس مول بکے؟
دنیا فریب کی چادر میں لپٹی ایک چیز ہے، یہاں 2 طبقے ہیں ایک فریب کی دنیا میں فریب ہی کو اپناتا ہے اور دوسرا فریب کی دنیا میں بچ نکلنے کی سوچتا ہے۔ مسئلہ وہاں بن جاتا ہے جب ایک تیسرا طبقہ بن جاتا ہے جو فریبی تو نہیں بنتا مگر فریبی کے فریب کو نہیں جان پاتا، مشکل میں پڑتا ہے اور دوسرے کو مشکل لاحق کرواتا ہے۔ دنیا فریب کا گھر ہے یہ اسکو پتا ہوتا ہے کہ یہ بات تو اللہ پاک نے خود بتا دی۔