گوشہ مار بندوق

گوشہ مار گن [Corner Shoot Gun] کے نام سے اسرائیل نے ایک ایسا جُگاڑ بنایا تھا جس میں ایک پستول نصب تھا ۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے عمارت کے کونے کی اوٹ میں کھڑے ہو کر 90 درجے پر عمارت کے ساتھ ساتھ آنے والا جو عام حالت میں نظر نہیں آتا کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے ۔ جب اسرائیل نے اس ہتھیار کا اعلان کرتے ہو ئے کہا کہ اسرائیل واحد ملک ہے جس کے پاس ایسا ہتھیار ہے تو پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں میری سابقہ فیکٹری جسے ویپنز فیکٹری کا نام اللہ کریم نے مجھ سے دلوایا تھا اور جس کی نشو و نما میں میری 13 سال کی دن رات کی محنت شامل ہے کے جوان انجنیئروں نے پیچھے رہنا گوارا نہ کیا اور صرف 6 ماہ کی محنت سے ایسی گوشہ مار گن بنائی جس میں پستول کی بجائے گن کو شامل کیا گیا ہے ۔ چنانچہ یہ پاکستانی گوشہ مار گن اسرائيل کی تیار کردہ گوشہ مار گن سے بدرجہا بہتر ہے ۔ دیکھئے اس گن کی وڈیو


مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ وہ فیکٹری جو پچھلی تقریباً دو دہائیوں سے خوابیدہ نظر آ رہی تھی اس نے اپنی ریت بحال کر لی ۔ وسط 1976ء میں میرے ملک سے باہر ایڈوائزر مقرر ہو جانے کے بعد ویپنز فیکٹری نے پہلے جرمن ایم پی 5 سب مشین گن اور پھر چائینیز ہیوی مشین گن 12.7 ایم ایم ڈویلوپ کی مؤخرالذکر اَینٹی ایئرکرفٹ رول میں بھی استعمال ہو سکتی ہے ۔ یہ دونوں پروجیکٹ 1976ء کے بعد 1984ء تک مکمل ہو چکے تھے

پاکستان آرڈننس فيکٹریز میں یکم مئی 1963ء کو ملازم ہونے پر مجھے سمال آرمز گروپ [Small Arms Group] میں بطور اسسٹنٹ ورکس منیجر تعینات کیا گیا اور میں جرمن رائفل جی ۔ 3 [Gewer G-3] کی منصوبہ بندی [planning] میں شریک ہو گیا ۔ ساتھ ساتھ مجھے بیرل ۔ بٹ ۔ فورآرم اور اسمبلی [Barrel, Butt, Fore-arm and Assembly] کی ڈویلوپمنٹ پيداوار اور شاپ [development, production and workshops] قائم [establish] کرنے کا کام دے دیا گیا ۔ جب وسط 1966ء میں جی ۔ 3 کی ڈویلوپمنٹ مکمل ہو کر ماس پروڈکشن [mass production] شروع ہو گئی تو جرمن مشین گن المعروف ایم جی 42 کا پروجیکٹ میرے ذمہ کر دیا گیا یعنی منصوبہ بندی ۔ ڈویلوپمنٹ اور پروڈکشن ۔ اس کی بیرل کے سوراخ کو اندر سے ہارڈ کروم پلیٹنگ [hard chrome plating] کی جاتی تھی جس سے اس کی کارآمد عمر 15000 راؤنڈ تک پہنچ جاتی تھی مگر یہ عمل خاصہ مہنگا تھا اور اس میں بنی بنائی بیرلز [Barrels] کا 15 سے 30 فیصد تک ضائع ہونے کا احتمال ہوتا تھا مگر مجبوری تھی کیونکہ بغیر کروم پلیٹنگ کے کارآمد عمر صرف 6000 راؤنڈ تھی ۔ جرمنی میں جو فرم پلیٹنگ کرتی تھی وہ ٹیکنالوجی بیچنے کیلئے تیار نہ تھی جو کسی صورت ہمارے وارے میں نہ تھا ۔ ہارڈ کروم پلیٹنگ سے جان چھڑانے کیلئے جرمن فرم جس سے ہم نے مشین گن 42 کا لائسنس لیا تھا وہ تین چار سال سے بیرل پر مختلف تجربات کر رہے تھے مگر کامیابی نہ ہو سکی تھی ۔ اللہ کی کرم فرمائی اور نصرت سے میں نے 1968ء میں پاکستان میں 2 ماہ کی محنت کے بعد بیرل کے سوراخ کا نیا ڈیزائن بنایا جسے پولی گون پروفائل بور [Polygon Profile Bore] کا نام دیا جس کے نتیجہ میں بیرل کی کارآمد عمر ہارڈ کروم پلیٹنگ کے بغير 18000 راؤنڈ ہو گئی ۔ ہم نے پولی گون بور والی کچھ بیرلز جرمن فرم کو بھیجیں ۔ جب انہوں نے اس کی ٹیسٹنگ کی تو ان کے ادارے کے سربراہ واہ چھاؤنی پہنچ گئے ۔ پاکستان آرڈننس فیکٹریز کے چیئرمین اُنہیں ساتھ لے کر ہماری فیکٹری میں پہنچے ۔ میں اس وقت ورکشاپ میں کام دیکھ رہا تھا ۔ وہ وہیں آ گئے اور جرمن سربراہ کے سامنے مجھے کہنے لگے “یہ آپ کو جرمنی لیجانے کیلئے آئے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ آپ کے پاس تو مسٹر بھوپال جیسے کئی لوگ ہیں ۔ ہمارے پاس صرف ایک مسٹر اجمل بھوپال ہے اور آپ اُسے بھی چھیننا چاہتے ہیں ۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟” میں نے ایکدم جواب دیا “آپ نے درست کہا ہے ان سے ۔ میں اپنا وطن چھوڑ کر نہیں جاؤں گا”۔ مجھے اس کام کا صلہ اپنے اطمینان کی صورت میں ملا ۔ نہ میں نے کوئی انعام لیا نہ کوئی سند ۔ البتہ میرا نام بابائے ویپنز رکھ دیا گیا

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

16 thoughts on “گوشہ مار بندوق

  1. ریحان

    زبردست لاجواب ۔۔۔

    آپ کا نیا نام ج رکھا گیا ۔۔ انبلیوبل آپ ویپنز ٹیکنالوجی میں جو اتنا علم رکھتے ہیں ۔

    اسرائیل کے انجینیرز کو چھوڑ دنیا کے انجئینرز پاکستانیوں سے سیکھ لینگے ۔۔ کمپیٹ کرنے کا فن ۔

  2. قدیر احمد

    السلام علیکم انکل۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔

    یہ سب جاننے کے بعد جب ذہن میں یہ سوچ آتی ہے کہ اتنی ان تھک محنت، ہنر اور علم کے باوجود ہم اپنے ہی ہاتھوں کس بری طرح سے پِٹ رہے ہیں، تو دل چاہتا ہے کہ یہ خبر نہ ہی ملتی، دکھ کم ہوتا۔ ایک ہتھیار جو ہم خود بنائیں، اسی سے ہمیں فنا کر دیا جائے تو کیا دکھ نہیں ہوگا۔

    میں آج کل بہت پریشان ہوں۔ میں پاکستان سے باہر نہیں جانا چاہتا، مجھے پتہ ہے وہاں ایک پاکستانی مسلم کی کیا عزت ہوگی۔ میں اسی ملک میں رہنا چاہتا ہوں۔ مگر میں یہاں کیسے خوش رہوں۔ قدم قدم پر، ہر لمحہ اذیت، نا انصافی، ظلم دبوچنے کو تیار ہے۔ لوگ درست بات سننے کو تیار ہی نہیں۔ اگر انہیں اچھا عمل کر کے دکھایا جائے تو حتٰی کہ دوست بھی کہتے ہیں کہ یہ شخص سعیِ لاحاصل کر رہا ہے، احمق ہے۔ مجھے میرا وطن پسند ہے، مگر یہ انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں، بالکل نہیں۔

  3. میرا پاکستان

    قدیر صاحب، آپ کے خیالات مایوسی کی عکاسی کرتے ہیں مگر ان میں وطن سے محبت بھی چھپی ہوئی ہے۔ ایسا کریں آپ لوگوں کی باتوں پر دھیان دیے بغیر اپنا کام جاری رکھیں اور اپنی دھن میں لگے رہیں۔ آپ منزل بھی پا لیں گے اور اچھے کام بھی کر جائیں گے۔
    باہر رہنے میں‌یہی ایک فائدہ ہے کہ ہر کام طریقے سے ہوتا ہےاور جان کو خطرہ بھی نہیں‌ہے۔ کوئی کسی سے بغض نہیں‌رکھتا اور نہ ہی ذات پات کی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات سچ ہے کہ اپنا وطن اپنا ہی ہوتا ہے جو مزہ اپنے لوگوں میں رہنے میں‌ہے وہ غیروں میں نہیں۔

  4. کنفیوز کامی

    زبردست سر جی قسم سے خون جوش مارنے لگ گیا ہے۔ الحمداللہ یا رب العلمین سلام پیش کرتا ہوں ان سب انجینئرز کو جن کی محنت رنگ لا رہی ہے۔

  5. ریحان

    قدیر بھائی ۔۔ باہر جا کر آزما لو ۔۔ اٍس دنیا کو ۔۔ یقین کرو گے تو کہتا ہو باہر کی دنیا یہاں کی دنیا سے کہیں زیادہ ظالم ہے ۔

    بات سمجھنے کی سوچنے کہ یہ ہے کہ ۔۔۔ ہمارا پاکستانی ظالم معاشرہ ہم سے ہے ؟ کہ ہم اس ظالم معاشرہ سے ؟

    اپنا پھر اپنا ہی ہوتا ہے

  6. افتخار اجمل بھوپال Post author

    قدیر احمد صاحب ۔ السلام علیکم و رحمة اللہ
    تشریف آوری کا شکریہ ۔ مایوسی گنا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ آدمی جتنا زیادہ حساس ہو اتنا ہی زیادہ پریشان ہوتا ہے ۔ مجھے ملازمت کے دوران ہمیشہ کام کے لحاظ سے بہترین اور اپنے مفاد کے لحاظ سے بیوقوف کہا گیا ۔ مجھے دیانت اور محنت سے کام کرنے میں جو لُطف ملتا تھا وہ روپے پیسے میں نہیں ۔ جو شخص آپ کی دیانت یا محنت کی قدر نہیں کرتا دراصل وہ خود بیوقوف ہوتا ہے ۔ انسان کو محنت اللہ کی رضا اور اپنے دل کی تسکین کیلئے کرنا چاہیئے نہ کہ دوسروں سے شاباش لینے کیلئے ۔ اپنے مکل سے باہر آپ کو دولت تو مل جائے گی لیکن وہ اپنائیت نہیں ملے گی جو اپنے ملک میں ملتی ہے ۔ جب میں آپ کی عمر کا یا شاید اس سے بھی چھوٹا تھا تو ایک گانا ریڈیو پر سنا تھا ۔
    اپنا ہے پھر بھی اپنا بڑھ کر گلے لگا لے
    اچھا ہے یا بُرا ہے اپنا اسے بنا لے

    اپنا بنانے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ڈاکہ ڈالے اور آپ اسے گلے لگا لیں ۔ آپ اس کے ساتھ ایسا سلوک کریں کہ وہ بُرائی چھوڑنے پر مجبور ہو جائے یعنی آپ اس کی برائی کی بجائے اس میں اچھائی کی تلاش کریں اور ملنے پر اس اس اچھائی کا احساس دلائیں ۔ اس طرح وہ آپ کی تقلید پر مجبور ہو گا

  7. جاوید گوندل ، بآرسیلونا ۔ اسپین

    ہماری قوم میں ٹیلینٹ کی کمی نہیں ہم شاید دنیا کی ذہین ترین اور خدا ترس قوموں میں شمار ہوتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کچھ بدیانت اور خائن لوگوں نے پورے سسٹم کو اپنے قبضے میں کیا ہوا ہے۔ جس وجہ سے عام آدمی کو اسقدر پریشانیاں اٹھانی پڑتی ہیں۔

    میری ذاتی رائے میں اگر دیانتداری کو کو بہ حثیت اپنا اوڑبچھونا بنا لیا جائے اور نیک نیتی سے محنت کی جائے تو اگلے پچیس تیس سال میں ہم دنیا کی کسی بھی ترقی یافتہ قوم کی ہمسری کا دعواہ کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ مگر بسا اے آرزو کہ خاک شُد۔

    اللہ تعالٰی آپ کی نیک نیتی سے کی گئی محنت اور حب الوطنی کا، آپ کو دین و دنیا دونوں میں اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین

  8. وھاج الدین احمد

    اپنے اور باہر کے ملکوں میں کام کرنے کی بات چلی ھے تو رھا نھیں جاتا۔ دل کی بات لکھ رہا ھوں
    اپنا ملک چھوڑنا میرے زمانے میں اتنا آسان نھیں تھا میرے جیسے ڈاکٹروں کے لیے
    میں نے ایک ماہ صرف مختلف دفتروں کے چکر لگانے میں صرف کیا تھا تاکہ میری درخواست “گم” نہ ہو جائے- ان کلرکوں کو جو دفتروں میں بیٹھے چائے پیا کرتے ھیں خوب سمجھ گیا تھا اور یہ سوچ کر خوش ہوتا تھا کہ اس کے بعد ان سے پالا نھیں پڑے گا-یہ تو تھی صرف پاسپورٹ لینے کی داستان
    این او سی یعنی نو ابجکشن سرٹیفکیٹ لینے کراچی جانا پڑا اور وہ بھی الگ داستان ھے میں تو ایسا بڑا سپیشلسٹ نھیں تھا لیکن دوسرے ماہروں کے ساتھ جو ھوتے دیکھتا رھا اس سے مزید یہی بات ذہن میں جمی کہ پاکستان میں کام کرنا مشکل ھوگا
    چنانچہ با دلے ناخواستہ “باہر” ھی رہ گیا
    مجھے ریٹائر ہوئے اب چھ سال ہو چکے ھیں اللہ کافضل ھے جہاں بھی رھا خدائے پاک نے عزت دی۔ مریضوں نے بھی اور ھم پیشہ حضرات نے بھی۔ مریضوں سے اظہار عقیدت سنکر یہ خیال آتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر میں “اپنے” لوگوں کی خدمت کی ہوتی
    باوجود اسکے کہ “اپنوں” کے برتائو سے میں بیزار رہا تھا-
    میرے بڑے بھائی اللہ انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے بھی ڈاکٹر تھے انھیں گوجراںوالہ میں “بابائے” میڈیسن کھا جاتا تھا یہ بھائی اجمل کے نام “بابائے ویپنز” سے یاد آیا ماشا اللہ آپ کا کام دیکھ کر اب سوچتا ھوں کیوں نا آپکا “نشانہ” درست ھو آپکی تحریروں میں بھی ایسی ہی بات ھے جو کچھ آپ لکھتے ھیں وہ قران مجید کے ان الفاظ ۔۔ “قولا” سدیدا” سے مطابقت رکھتا ھے

  9. محمد ریاض شاہد

    محترم بھوپال صاحب
    لوگ اپنا کام چھوڑ کر ملک کی فکر کرتے ہیں اگر اپنا کام ایمانداری سے مکمل کر لیں تو یہی بڑی بات ہے۔آخرت میں بھی صرف اپنے متعلق سوال ہو گا۔ میں آپ کی فیکٹری دیکھی ہے۔ماشااللہ اچھا معیار ہے۔خدا کرے لیاقت علی خان کا پودا پھلتا پھولتا رہے

  10. قدیر احمد

    انکل افتخار اجمل اور محمد افضل:
    میں مایوس نہیں ہوں۔ اگر مایوس ہوتا تو کچھ اور لکھتا۔ مجھے دکھ ہے، اتنا دکھ کہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ سب لوگ آگے جا رہے ہیں۔ ہم بھارت کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں؟ اسے دیکھیے وہ کہاں پہنچ گیا ہے اور اب اس نے کہاں تک جانا ہے۔ اور ہم کیا کر رہے ہیں گپیں مارنے کے علاوہ؟

    ہم لوگ اپنے ہی خول میں باسٹھ سالوں سے یہ سوچ کر سمٹے ہوئے ہیں کہ ہم سب سے بہتر ہیں اور ہمیں تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ ہر مسئلے پر بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ پاءجی ایتھے تاں ایداں ہی ہوندا اے، تسی چپ کر کے اپنا کم کرو۔ what the hell is this? ہم لوگ بات بات پر اللہ رسول اسلام کی بات کرتے ہیں، ان کے حکم پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ کتنے ہی لوگ ہیں جو میرے اس تبصرے کے جواب میں عالیشان تقریریں جھاڑ دیں گے لیکن جب عمل کی بات آئے گی تو سب بھول جائیں گے۔

    اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے سوچ دی ہے اور سمجھایا ہے کہ میں کیسے اس وطن اور اس کے لوگوں کے سدھارنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہوں۔ اگرچہ مجھے دکھ ہے اور میرا دل کُڑھتا ہے لیکن میں عمل کر رہا ہوں الحمدللہ۔ دوسروں سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو اپنی سوچ کو مثبت انداز میں بدلیے اور یہ نہ دیکھیے کہ میں اکیلا کیا کر لوں گا۔ پوری دنیا تباہی میں مبتلا تھی تو ایک انسان “محمد” اٹھا تھا اور اس نے سب بدل کر رکھ دیا تھا۔ ہم کا مقابلہ نہیں، ان کی پیروی تو کر سکتے ہیں نا؟

  11. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد ریاض شاہد صاحب
    واقعی اگر لوگ دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنا کام دیانتداری سے کریں تو اپنا ملک بہت تیزی سے ترقی کرے گا ۔
    آپ نے بڑی پرانی یاد دِلا دی ۔ یہ پروجیکٹ نوابزادہ لیاقت علی خان شہیدِ ملت نے ہی منظور کیا تھا اور اس کا سنگِ بنیاد خواجہ ناظم الدین صاحب نے رکھا تھا ۔ اس دن میں اپنے والدین کے ساتھ واہ گیا تھا اور ہمیں خواجہ صاحب کے بال بچوں کے ساتھ ٹیکسلا عجائب گھر بھیج دیا گیا تھا

  12. Pingback: پاکستان آرڈینینس فیکٹریز کا تیار کردہ جدید ہتھیار - پاکستان کی آواز - پاکستان کے فورمز

  13. یاسر عمران مرزا

    افتحار انکل
    آپ تو بڑے گریٹ آدمی ہیں، آپ پروفیشنلی انجینئر ہیں یہ مجھے نہیں پتہ تھا، شکریہ ہمیں بتانے کا
    ایک بات بتا دیں، گن کا ڈیزائن بنانا کیا آرکیٹکٹ کام جیسا ہے ؟
    یعنی آپ کمپیوٹر میں یا ہاتھ سے ڈرائنگ بناتے ہیں، پھر انجینئر اس کو مادی شکل دیتے ہیں؟
    میرا چھوٹا بھائی سویڈش کالج گجرات میں تین سال فونڈری کی تکنیکی تعلیم حاصل کرتا رہا، کیا یہ کام بھی فونڈری کے ذمرے میں آتا ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.