نبیل نقوی صاحب لکھتے ہیں
یہ بات کافی اطمینان کا باعث ہے کہ پاکستان میں مسلمان ایمان کی روشنی سے سرشار ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ جذبہ ایمانی اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ مذہبی جوش و جذبے کا تحت دوسروں کو جلا کر راکھ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کی اس بارے میں محض تردید کافی نہیں ہو گی بلکہ انہیں اپنے ایمان کی باقاعدہ تجدید کرنی پڑے گی۔ ان حضرت مولانا نے ایمان کی تجدید کا پروسیجر نہیں بتایا کہ آخر ایمان کی تجدید کیسے کی جاتی ہے۔ شاید ان ملاؤں کو نذرانے سمیت حلوے کی دیگ پکوا کر بھیجنی پڑتی ہوگی
ایسی دیوانگی کو ایمان کی روشنی لکھنا تمام مسلمانوں کا ہی نہیں دین اسلام کا بھی مذاق اُرانے کے مترادف ہے لیکن اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا ۔ اگر مرتد المعروف مرزائیوں یا اسرائیل یا امریکہ کے خلاف کچھ لکھا جائے تو طوفان برپا ہو جاتا ہے ۔ کیا مسلمانی کا يہی شیوہ ہے ؟
تجدیدِ دین کا معروف طریقہ جو بہت سادہ ہے کُتب میں موجود ہے ۔ ہر وقت دوسروں پر طنز کرنا بالخصوص جب وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوں کیا مسلمان ہونے کی نشانی ہے ؟
قادیانیوں کے تذکرے ہمیشہ سے سرد گرم حوالوں سے انٹرنیٹ پر بہت معروف رہے ہیں ۔ مگر الطاف حسین کے بیان کے بعد مختلف گروہوں اور مکتبہ ِ فکر کی طرف سے بہت سے اعتراضات سامنے آرہے ہیں ۔ جس میں تشدد اور انتہائی سطح پر جا کر ان کے خلاف اقدامات کی بے شمار باتیں کی جاتیں ہے ۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ الطاف حسین نے کیا کہا ہے ۔ مگر میں یہاں بڑی سادہ سی بات کہنے کی کوشش کرتا ہوں اور یہ اُمید رکھتا ہوں کہ آپ کو اس تحریر میں اگر کوئی مثبت پہلو نظر آتا ہے تو اس پر ٹھنڈے دل سے ضرور سوچیئے گا ۔ کوئی اعتراض ہے تو سر آنکھوں پر مگر خدارا مجھے قادیانی ہرگز نہ گردانیئے گا ۔
بحیثت انسان اور مسلمان میرے دل میں دنیا کے ہر انسان کے لیئے ایک نرم گوشہ موجود ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں جو تعلیم دی ہے اس کے مطابق کسی کی غلطی کو غلطی ضرور قرار دیا جائے مگر اس سے نفرت نہیں کی جانی چاہیئے ۔ مجھے احمدیوں سے اختلاف ہے کہ انہوں نے ایک غلط دعویٰ پر مبنی نبوت کو مان لیا ہے ۔اور میں پہلے بھی اس اختلاف کا اردو محفل پر تذکرہ کرتا رہا ہوں اور اس ضمن میں جو استدال میں نے اپنایا ہے وہ یہ ہے کہ میں اختلاف کیساتھ اصلاح و تلقین کا کام کروں مگر یہ نہیں کہ میں نفرت کروں اور پھر اس کو انتہا پر لے جاکر تشدد یا نفرت کی کسی شکل سے تعبیر کروں ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں احمدیوں کو دین کی طرف دوبارہ بلانا چاہیئے ۔ اگر ہم ماضی میں غلط رویے اختیار نہیں کرتے تو ان کی آئندہ اور موجودہ نسلیں آج دین کے دامن میں آچکیں ہوتیں ۔ ہمارے غلط اور تشدد مندانہ رویوں، بلکہ ایک حد تک پراسکیوشن تک پہنچے ہوئے رویوں نے ان کی نسلوںکو اپنے مذہب پر محکم کا موقع فراہم کیا ہے ۔ پھر ہم نے ان کو ملک سے نکالنے کا جو طریقہ اختیار کیا ۔ اس سے انہیں یہ موقع ملا کہ وہ اس ہجرت سے فائدہ اٹھائیں اور پھر اسی نتیجےمیں وہ لندن میں جاکر اپنا ایک بڑا مرکز بنانے بھی کامیاب ہوئے ۔ جہاں سے ان کے چینلز ، سیٹلائیٹ کے ذریعے پوری دنیا میں دکھائے جا رہے ہیں۔ یہ ہمارا وہ طرزِ عمل تھا جس کی بناء پر ان کو یہ فوائد حاصل ہوئے ۔ ہمیں داعی بن کر ان کی اصلاح کرنی تھی ۔ مگر ہم نے جذبات اور تشدد کے ذریعے ان کی دین میں واپسی تقریباَ ناممکن بنادی ۔ اور ان کو غلط نبوت کے دعوے پر مضبوط اور مستحکم کردیا ۔
دین سے تو وہ خارج کیئے ہی جاچکے تھے ۔ یعنی ہم نے ایک قانون پاس کیا اور دائرہ ِ اسلام سے انہیں باہر نکال کیا ۔ مگر اس کے بعد ہم نے ا ن کی اصلاح یا دین کے دعوت دینے کے بجائے ان کو مارنا شروع کردیا ۔ہم نے ان کے عقائد کی بناء پر ان کو اسلام سے خارج کیا ہے ۔ مگر ہمیں تاریخ کا بھی جائزہ لینا چاہیئے کہ یہ عقائد پہلے بھی مخلتف فرقوں میں رہے ہیں ۔ شعیوں کے بہت عقائد کو دیکھیئے ، سنیوں کے بہت سے عقائد کو دیکھیئے ، صوفیوں کے بہت سے عقائد کو دیکھیئے ۔ اسماعیلوں کے بہت سے عقائد کو دیکھئے ۔ پہلے بھی اسلام میں اسی طرح کی غلطیوں کی نشان دہی کرکے اصلاح ، دعوت و تلقین کا کام کیا جاتا تھا ۔ مگر اسلام میں کسی کو داخل اور خارج کرنے کا کام کبھی نہیں ہوا ۔اس سے فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اس طرح کے رویوں اور قانونی فیصلوں کے غلط نتائج نہیں نکلتے تھے ۔ آپ دیکھیں کہ اسماعیلیوں کا سربراہ جب ہمارے ملک میں آتا ہے تو سارے ملک کے اعلی عہدداران اس کے سامنے بچھ جاتے ہیں ۔ جبکہ ان کے عقائد سے سب کو کتنا بڑا اختلاف ہے ۔ یہ دورخی رویہ ہے ۔ دراصل اس قسم کے رویئے جب ہمارے علماء کرام پیدا کردیتے ہیں تو دین کی طرف لوٹ آنے کا راستہ بند ہوجاتا ہے ۔
پاکستانی قانون کے مطابق احمدی غیر مسلم ہیں ۔ مگر ہمارا فرض یہ بنتا ہے ہم اسلام کے داعی بنیں جو کہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے ۔ ہم ان کو دین کی دوبارہ بلائیں ۔ ان کی اصلاح ممکن بنائیں ۔ ہدایت و تلقین کا طریقہ اختیار کریں ۔ ان کے قریب آکر ان کو بتائیں کہ ان کو نبوت کے دعوے کے بارے میں کتنی زبردست غلطی ہوئی ہے ۔ اگر ہم یہ سلسلہ شروع کریں تو بہت ممکن ہے اللہ ان کے دلوں سے مہر ہٹا دے ، ان کا سینہ کھول دے ۔ قیامت کے دن ہم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ ” تم نے ان کو غیر مسلم سمجھا تھا کہ نہیں سمجھا تھا ۔ ” بلکہ یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ تم نے ان کو دین کی دعوت پہنچائی تھی کہ نہیں پہنچائی تھی ۔ صحیح بات ان پر واضع کی تھی کہ نہیں کی تھی ۔
یعنی جس کام پر اللہ نےہم کو مکلف نہیں کیا وہ تو ہم پورے زور و شور ، جذبات اور طاقت سے انجام دے رہے ہیں ۔ اور جس کام کے لیئے اللہ تعالی نے مکلف کیا ہے اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ چنانچہ اس استدلال کے نتیجے میں میرا حال یہ ہے کہ میں رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبوت ، کسی الہام ، کسی کشف ، کسی انقاء کا قائل نہیں ہوں ۔ میرے ہاں تو اس طرح کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔ ہر چیز ختم ہوگئی ہے ۔ جبکہ لوگ تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہے بناء ہی بہت سے گنجائشیں پیدا کرلیتے ہیں۔ ہمیں اللہ نے صحیح بات بتانے اور کہنے کے لیئے مکلف کیا ہے ۔ اسلیئے مکلف نہیں کیا ہے کہ ہم لوگوں سے نفرت کریں اور پھر ان کو قتل کرنا شروع کردیں ۔ سو اس سلسلے میں جو رویہ ہم نے اپنایا ہوا ہے ۔ اس سے اسلام کو کتنا نقصان پہنچا اور کتنا ان لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے ۔ اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے ۔
والسلام
اجمل صاحب کیا دوسرے مسلمانوں کو زیب دیتا ہے کہ وہ بات بے بات دوسروں کے ایمان پر شک کا اظہار کریں انہیں قادیانی اور کافر قرار دیں اور اس بات پر اسرار کریں کہ دین کی جس خاص تعبیر پر انکا اطمینان ہے دوسرے بھی صرف اسی تعبیر پر اکتفا کریں وگرنہ انہیں مسلمان نہیں سمجھا جائے گا۔ اور کیا ایک عام مسلمان کو دینی لحاظ سے یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی غیر مسلم، مرتد یا مسلمان جس سے کوئی کفر سرزد ہوگیا ہو کے قتل کا فتوی جاری کرے؟ آخر کو ہم مسلمان اپنے لیے ہر وہ چیز جائز کیوں سمجھتے ہیں جس کا حق ہم دوسروں کو دینے کو تیار نہیں؟
ظفری صاحب ۔ السلام عليکم
آپ کا مؤقف درست ہے لیکن کچھ معلومات شاید آپ تک نہیں پہنچیں ۔ لندن اور اسرائیل میں مرزائیوں کے بڑے مراکز کم از کم 55 سال پرانے ہیں ۔ یہ فتنہ ملکہ وکٹوریہ کے زمانہ میں کھڑا ہی برطانیہ نے کیا تھا ۔ ان کے بین الاقوامی پرچار کا سبب پاکستانیوں کا رویہ نہیں بلکہ اسلام دُشمن ممالک کی پُشت پناہی ہے ۔ مرزائیت ایک ایس تحریک ہے جس میں داخل ہونے کے بعد باہر نکلتے ہوئے لوگ بہت ڈرتے ہیں ۔ وجہ انہی کو معلوم ہو گی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مرزائیوں کو غیرمسلم قرار دینے کا فیصلہ سیاسی مفاد حاصل کرنے کیلئے کیا تھا ۔ دین کے لئے نہیں
وعلیکم السلام اجمل صاحب !
آپ کی بات بجا ہے کہ یہ تحریک اسلام دشمن قوتوں کی پشت پناہی پر ابھر کر سامنے آئی ہے ۔ مگر جب اس تحریک کے سرکردہ لیڈرز ایک عام مسلمان کو گمراہ کرتے ہیں تو پھر ہمارا رویہ ان لوگوں ساتھ کیسا ہونا چاہیئے ۔ دراصل میرے تبصرے کا اصل ماخذ یہی لوگ ہیں جو ان سازشیوں کے ہاتھوں نادانستگی میں آلہ کار بن جاتے ہیں ۔ ہمارے ہاتھ اسرائیل اور برطانیہ کے اصل ماسٹر مائنڈ تک نہیں پہنچ سکتے مگر ہم جذبات اور جوش میں ان متاثر شدہ لوگوں کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں ۔ اس پر سر جھکانے کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ لہذا میرا مدعا یہی تھا کہ ہم ان سے نفرت کرنے کے بجائے ان کو واپس دین کی طرف بلائیں اور ان کو بتائیں کہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے یا کھیلا گیا ہے ۔
ظفری صاحب
آج تک ہمارے حکمران جاہل داڑھی والوں کی پشت پناہی کرت رہے ہیں اور اصل علم والوں کو یا تو قتل کروا دیا یا جیل میں ڈال دیا ۔ تعلیم کا مقصد صرف اسناد حاصل کرنا رہ گیا ہے ۔ تربیت غائب ہے ۔ بڑے نام کے تعلیمی اداروں میں آزادی اور حقوق کے نام پر فحاشی اور بے ادبی کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ دین پر عمل کرنے والوں کی بات کون سُنتا ہے ۔ ملک میں ایسے مُلاؤں کا چرچہ ہے جو حکومت کو خوش رکھیں ۔ اسی وجہ سے مسلمانوں میں بے شمار بدعتیں جنم لے چکی ہیں
در اصل عدم برداشت ہر جگہ ہے۔ علما میں بھی ہے، اور ان کے ناقدین میں بھی۔ ہر ایک سمجھتا ہے کہ سخت سے سخت الفاظ استعمال کر کے دوسرے کی جتنی اہانت کی جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ عدل اور انصاف کا چرچا تو ہر ایک کرتا ہے، عمل کوئی نہیں کرتا۔
ظفری کی باتوں سے مجھے اتفاق ہے، ہم نے جس طرح مختلف فرقوں کا ایک لحاظ سے سماجی بائیکاٹ کر رکھا ہے وہ نقصان دہ ہی ثابت ہوتا ہے، مگر اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ملک میں مذہب کے نام پر اجتماعیت نہیں ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کسی اہم دینی مسئلے کی صورت میں کس سے رجوع کیا جائے۔ ایک مرکزی قیادت کے نہ ہونے کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اب کوئی بھی ، کہیں بھی کھڑا ہو کر ایک عدد فتویٰ صادر کر سکتا ہے ، اور اس فتوے کے نتیجے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ماضی قریب میں گوجرہ میں ہونے والے فسادات میں اور لاہور میں جس طرح ایک فیکٹری کے مالک کو مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر اعلان کر کے ایک ہجوم جمع کرنے کے بعد ہلاک کر دیا گیا، بہت اہم مثالیں ہیں۔
جس طرح ہمیں علما پر ہونے والی بے جا تنقید کو روکنا ہے، اسی طرح ہمیں یہ کوشش بھی کرنی ہو گی کہ یہ لوگ کسی ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں، لوگوں کو مشتعل کر کے فساد فی الارض کے مرتکب نہ ٹھہریں۔ ایک مناسب طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت اب جتنی ہے، پہلے کبھی نہ تھی، مگر افسوس، ایسی کسی بھی کوشش کو کفار کی سازش کہہ کر رد کر دیا جائے گا۔ آخر اپنے ہاتھ سے اپنا اختیار جانے کون دیتا ہے۔
اجمل صاحب ہم آُپ کی بات سے متفق ہیں اور اسی لیے نبیل صاحب کی تحریر پر مندرجہ ذیل تبصرہ کیا ہے امید ہے وہ اسے من و عن چھاپ دیں گے۔
نبیل صاحب، کیا آپ کی تحریر میں بھی طالبان کی طرح انتہاپسندی نہیں ہے۔ اگر دوسروں نے سیکولرز اور قادیانیوں پر لعن طعن کی ہے تو آپ نے بھی طالبان کو درندہ صفت، وحشی، جنگلی، مولویوں کو دھوکے باز اور بلاگرز کو بلاتفریق جھوٹے اور منافق کے خطابات سے نوازا ہے۔ اگر آپ کا بلاگ فریق مخالف کے پاس ہوسٹ ہوتا تو وہ اسے بھی بلاک کر دیتے۔
سوچنے والی بات ہے پھر نبیل صاحب اور فریق مخالف میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے۔ یہی بات اجمل صاحب نے سمجھانے کی کوشش کی ہے اب اگر کوئی اس کا بھی الٹ مطلب نکال لے تو اس کی مرضی۔
راشد کامران صاحب
آپ کا تبصرہ میری تحریر کے دائرے سے باہر نکل گیا ہے ۔ میں نے یہ سب کچھ کہاں لکھا ہے جس پر آپ نے تبصرہ کیا ہے ؟
بنیادی طور پر نبیل نقوی کی جو تحریر اس پوری پوسٹ کا محرک بنی ہے اس کے پیچھے دراصل یہی کچھ ہے جو تبصرہ میں نے کیا ہے۔ نبیل نقوی کی پوسٹ سے آپ نے جو اقتباس نقل کیا ہے اس میں بنیادی سوال یہی اٹھایا گیا ہے۔
شاید ان ملاؤں کو نذرانے سمیت حلوے کی دیگ پکوا کر بھیجنی پڑتی ہوگی۔
ہم بھی، کم علم اور غیر مستند لوگوں کے فتاوٰ ی کے حق میں نہیں۔ مگر مندرجہ بالا زبان بھی درست نہیں۔
السلام علیکم۔
(میرا تبصرہ شاید کچھ لوگوں کو موضوع سے ہٹا ہوا نظر آئے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس کا اس مسئلے کے ساتھ اگر براہِ راست نہیں تو بھی تعلق ضرور ہے)
مجھے اس بات پر بہت حیرت بھی ہوتی ہے اور دکھ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کو صرف وہی لوگ مولوی نظر آتے ہیں جن میں داڑھی اور حلیے کے علاوہ اور کوئی قابلِ ذکر دین والی بات نہیں ہوتی۔ اور عموماً جب بھی مولوی کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کا خیال ایک لمحے کو بھی ذہن میں نہیں لایا جاتا جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ساری عمر لگا دیتے ہیں اور مولوی کہلوانے کے اصل حق دار ہیں۔
پتا نہیں دنیا والوں کو کیا بیماری ہے کہ ہر ایک میں بس خامیاں ہی ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اور خاص طور پر تب تو کیڑے نکالنا فرض ہو جاتا ہے جب سامنے والا کسی ایسے معاملے میں نصیحت کر رہا ہو جس میں ہمیں اس کی نصیحت پسند نہ آئے اور ٹالنے کا کوئی بہانہ بھی موجود نہ ہو۔
بھئی اگر نصیحت پسند نہ آئے تو خاموش رہ لو۔ کیا گناہ کو نیکی ثابت کرنا یا محض ناصح کو نصیحت سے باز رکھنے کے لیے اس میں کیڑے نکالنا کوئی مسلمانوں والا کام ہے؟