جاہل ملّا کہاں سے آئے

کہتے ہیں نیم حکیم خطرہء جان نیم مُلّا خطرہء ایمان ۔ صرف دو واقعات درج کروں گا ۔ آٹھویں جماعت میں میرے سکول کی اسلامیات کا حال دیکھ کر والد صاحب نے راولپنڈی شہر میں محلے کی مسجد کے امام صاحب کی ٹیوشن مقرر کی کہ میں قرآن شریف دوہرا لوں ۔ میں تلاوت شروع کرتا تو مولوی صاحب سو جاتے ۔ پارہ ختم ہو جاتا تو وہ جاگ جاتے ۔ اسی طرح دو ماہ میں پورا قرآن شریف پڑھا ۔ یہ صاحب بغیر مدرسہ گئے مولوی بن گئے تھے ۔ میری تلاوت کی تصحیح پھر میری والہ صاحبہ نے کی ۔

حکومت نے 1984 میں سکولوں میں مدرسوں سے سند یافتہ اسلامیات کے استاد رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ کام ایک سیکشن آفیسر کے سپرد ہوا جو ہمارے سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی والے گھر کے قریب مسجد کے خطیب بھی تھے ۔ ایک شام میں کسی کام سے ان کے پاس گیا تو پریشان پایا ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے پہلی قسط میں پانچ سو استاد بھرتی کرنا ہیں ۔ ایک سالہ کورس کی سند ہونی چاہیئے میں نے چھ اور تین ماہ والوں کے نام بھی لکھ لئے ہیں اس کے باوجود 247 ہوئے ہیں ۔ میں نے کہا جناب اتنے سارے امام مسجد خیراتی روٹیوں پر پل رہے ہیں ان کو لے لیں ۔ فرمانے لگے محلہ میں جو بقیہ چار مساجد ہیں ان کے امام ایک دن کے لئے مدرسہ نہیں گئے ۔ میں نے حیرت سے کہا تو یہ امام کیسے بن گئے ۔ فرمایا لوگوں نے اپنی مقصد براری کے لئے بنا دیئے یا خود زورآوری سے بن گئے ہوں گے ۔

جاہل ملّا کہاں سے آئے ۔ ملّا اور جاہل اس حقیقت نے مجھے لڑکپن ہی میں پریشان کر دیا تھا ۔ میں اس کا منبہ تلاش کرنے میں لگ گیا ۔ حالات کی سختیاں جھیلتے سال گذرتے گئے مگر میری جستجو جاری رہی ۔ آخر عقدہ کھلا ۔ ہندوستان ميں انگریزوں کی حکومت بننے سے پہلے بڑی مساجد علم کا گھر ہوا کرتی تھیں اور انہیں جامع یعنی یونیورسٹی کہا جاتا تھا ۔ وہاں دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی علموم بھی پڑھائے جاتے تھے ۔ طلباء دور دراز سے آکر سالہا سال قیام کرتے اور علم حاصل کرتے ۔ اساتذہ اور تعلیم کا خرچ چلانے کے لئے ان مساجد کے ساتھ بڑی بڑی جاگیریں تھی ۔ اس کے علاوہ مسلمان بادشاہ اور امیر طلباء نذرانے بھی دیتے تھے ۔ 1857 میں جب ہندوستان پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہو گیا تو انہوں نے ہنرمندوں کے ساتھ علماء بھی قتل کروا دیئے اور مساجد کی جاگیریں ضبط کر لیں ۔ پھر پسماندہ علاقوں سے لوگ چنے جو دینی علم نہ رکھتے تھے ۔ ان لوگوں کو برطانیہ بھیج کر چند ماہ کا امام مسجد کا کورس کرایا گیا اور واپسی پر مساجد کا بغیر تنخواہ کے امام مقرر کر دیا ۔ ان اماموں کا نان و نفقہ علاقہ کے لوگوں کے ذمہ کر دیا اور نگرانی علاقہ کے نمبردار یا چوہدری یا وڈیرے یا سردار وغیرہ جو خود انگریزوں نے مقرر کئے تھے کے ذمہ کر دی ۔ آجکل کے جاہل ملّا زیادہ تر اسی عمل کا نتیجہ ہیں ۔    

فرقہ وارانہ تشدد ۔ موجودہ حالات میں سمجھ میں نہیں آتا کہ فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ متحدہ مجلس عمل دیوبندی ۔ بریلوی ۔ شیعہ یا اثناعشری اور اہل حدیث سب کا اتحاد ہے اور حکومت کی اسے توڑنے کی کوششوں کے باوجود یہ اتحاد قائم ہے ۔ کوئی ایسی قوت ہے جو ایم ایم اے کے اتحاد کو ختم کرنے کے لئے کبھی ایک فرقہ کے اور کبھی دوسرے فرقہ کے لوگوں کو قتل کر یا کروا رہی ہے ۔ ظاہر ہے یہ کام صرف دین کے دشمن ہی کر سکتے ہیں ۔

جاہل اور فرقہ واریت پھیلانے والے ملّا حکومت کی لگائی ہوئی پنیری اور حکومت کے باغ کے درخت ہیں ۔ حکمران ان لوگوں کو علماء و مشائخ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ ان میں مساجد کے امام بھی ہیں اور شیخ بے مسجد بھی ۔ کنونشن سنٹر اسلام آباد میں حکومت کے خرچ پر ایک علماء و مشائخ کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس سے صدر جنرل پرویز مشرف نے خطاب کیا اور ان سے اپنے حق میں قرارداد منظور کروائی ۔ اس کانفرنس کا ایم ایم اے ۔ بے نظیر کی پی پی پی اور نواز شریف کی مسلم لیگ نے بائیکاٹ کیا تھا ۔ اس کے باوجود صرف راولپنڈی سے 260 علماء و مشائخ شامل ہوئے جبکہ راولپنڈی میں 150 مساجد بھی نہیں اور بہت سے مولوی ایم ایم اے ۔ بےنظیر اور نواز شریف کے حامی ہیں ۔ ہر حکومت کو ایسے داڑھی والوں کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومت کے حق میں فتوی دیں ۔ باقی وقت اپنا ٹیکا رکھنے کے لئے یہ نام نہاد علماء و مشائخ فرقہ پرستی کرواتے ہیں ۔ ان کے خلاف اگر حکومت کوئی قدم اٹھائے گی تو پھر حکومت کے حق میں فتوے کون دے گا ۔

میں پاگل ہوں بیوقوف نہیں

دماغی امراض کے ہسپتال کے سب سے بڑے ڈاکٹر صاحب شام کو فارغ ہو کر گھر جانے کے لئے اپنی کار کے پاس پہنچے تو سر پکڑ کر رہ گئے ۔ ایک مریض اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھ رہا تھا بولا ۔

مریض ۔ ڈاکٹر صاحب کیا پریشانی ہے ؟

ڈاکٹر ۔ کوئی شریر میری کار کے ایک پہیئے کی چاروں ڈھبریاں اتار کر لے گیا ہے ۔ ڈھبری کو انگریزی میں نٹ کہتے ہیں ۔

مریض ۔ ڈاکٹر صاحب اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ۔ باقی تین پہیئوں سے ایک ایک ڈھبری اتار کر اس میں لگا لیں اور کار آہستہ چلاتے ہوئے سپیئر پارٹس کی دکان تک چلے جائیں ۔ وہاں سے چار ڈھبریاں خرید کر لگا لیں پھر گھر چلے جائیں ۔

ڈاکٹر ۔ تم نے پاگل ہوتے ہو وہ بات کہہ دی جو میری عقل میں نہیں آئی تھی ۔

مریض ۔ میں پاگل ہوں مگر بیوقوف نہیں ۔

ہم خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا ؟ ؟ ؟

جب شور ہوا تھا کہ بیکن ہاؤس کے سکولوں میں عریاں جنسی سوالنامہ مڈل سکول کے بچوں اور بچیوں میں تقسیم کیا گیا ہے تو ہماری ہمیشہ صحیح اور سچی موجودہ حکومت نے قرار دیا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا یہ دشمن یعنی اپوزیشن کا جھوٹا پراپیگنڈہ ہے بالخصوص دقیانوس اور جاہل ملّاؤں کا ۔ حکومتی اہلکاروں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ آغاخان بورڈ صرف امتحان لےگا اور سلیبس کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ کسی نے سچ کہا ہے سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے ۔

آغا خان یونیورسٹی کی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز طلعت طیّب جی کے مطابق متذکّرہ بالا سوالنامہ سکولوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ مزید طلعت طیّب جی کے مطابق آغا خان بورڈ ایک ایسا نظام دینے کی کوشش کر رہا ہے جس سے طالب علموں کو سیکھنے اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع حاصل ہوں ۔طلعت طیّب جی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اردو کے سلیبس کی 32  کہانیوں میں سے عریاں سیکس کی شاہکار کہانیاں جیسے پچھم سے چلی پروا اور سعادت حسن منٹو کی کھول دو سمیت سات کہانیاں استانیوں اور استادوں کے احتجاج کے بعد نکال دی گئی ہیں ۔

صورت حال یہ ہے کہ حکومت کے بڑے بڑے اہلکاروں نے سراسر جھوٹ پر جھوٹ بولے ۔

والدین کے مطابق بقیہ 25 کہانیوں میں سے بھی زیادہ تر محظ  عریاں سیکس یا  پورنو  ہیں ۔ 

کہانیاں صرف اردو کے سلیبس میں شامل کی گئی ہیں اور وہ زیادہ تر پورنو ہیں ۔ لیکن انگریزی کے سلیبس میں کوئی کہانی شامل نہیں ۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ سب طلباء اور طالبات کے دماغ کو پراگندہ کیا جائے کیونکہ آغا خان بورڈ کے خیال میں سب بچے شائد انگریزی نہ سمجھ سکیں اور سیکس کی عریانی سے بچ جائیں اسلئے کہانیاں صرف اردو میں رکھی گئی ہیں جو کہ پورنو ہیں ۔

ایک اہم سوال پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اور جہاد میں کس طرح فرق کرنا چاہیئے؟

جہاد اور دہشت گردی میں فرق کرنا بہت آسان ہے مگر ہمارے لئے مشکل بن گیا ہے ۔ وجہ ۔ ہمارے دماغوں کی فریقوئنسی کچھ اس طرح سے سیٹ ہو گئی ہے کہ صرف مغربی دنیا سے آنے والی ویوز ہمارے دماغ میں سما سکتی ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دین سے دور ہونے کے ساتھ ہم انسانی سوچ سے بھی محروم ہو گئے ہیں ۔اچھائی اور برائی کی پہچان ہی مفقود ہو گئی ہے اور ہمیں ظالم اور مظلوم کی پہچان نہیں رہی ۔  

ہم نہیں جانتے سوائے اس کے جس کا علم ہمیں اللہ دے کیونکہ اللہ علیم الحکیم ہے ۔ اس لئے میں اللہ کے کلام سے صرف دو آیات نقل کرتا ہوں ۔ سورۃ 2 البقرہ آیت 85 ۔ اور کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیئے جائیں ۔ سورۃ 49 الحجرات آیت 14 ۔یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ۔ ان سے کہو تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہو گئے ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اختیار کر لو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا ۔

آج کل ہم لوگ نہ تو پورے قرآن پر عمل کرتے ہیں اور نہ ایمان ہمارے دلوں میں داخل ہوا ہے ۔ اس وجہ سے ہمیں اپنے دین کی بہت سی باتیں یا تو معلوم ہی نہیں یا سمجھ میں نہیں آتیں ۔

اگر لاہور یا کراچی کا دولتمند اور طاقتور شخص کاہنا کاچھا یا لیاری کے غریب لوگوں کو اپنے آدمیوں کے ذریعہ قتل کروا دے اور ان کے اساسوں پر بھی قبضہ کر لے ۔ تو ہم کہیں گے کہ لاہور یا کراچی کا دولتمند ظالم ہے اور کاہنا کاچھا یا لیاری کے غریب لوگ مظلوم ہیں ۔ اگر یہ مظلوم لوگ یا ان کے عزیز و اقارب اپنے اساسے واپس لینے کی کوشش کریں اور اس سلسلہ میں اس ظالم کے خلاف بھی کاروائی کرنا پڑ جائے ۔ پھر ان کو اگر دہشت گرد کہا جائے تو یہ ظلم ہوگا انصاف نہیں ۔ تو پھر ہم فلسطینیوں ۔ کشمیریوں ۔ چیچنوں ۔ افغانوں اور عراقیوں کو دہشت گرد کس طرح کہہ سکتے ہیں ۔ اصل دہشت گرد تو ان کو دہشت گرد کہنے والے خود ہیں جنہوں نے ان کو مارا ۔گھروں سے نکالا اور ان کے اساسوں پر قبضہ کیا ۔

اللہ سبحانہ و تعالی نے انسانوں کو ہر بات بہت اچھے طریقے سے بتائی ہے ۔ ملاحظہ ہو سورۃ البقرہ کی آیات 190 تا 193 کا کچھ حصہ ۔ اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا ان سے مقابلہ پیش آئے اور ان کو نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے اس لئے کہ قتل اگرچہ برا ہے مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔

(ظلم ۔ بے انصافی ۔ فساد  سب فتنہ کی قسمیں ہیں)

محمد شاہد عالم صاحب امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں ۔ ان کے ایک مضمون کا مختصر خلاصہ نیچے درج کر رہا ہوں ۔

دہشت گردی کی جو ڈیفینیشنز امریکہ نے دی ہیں اگر ہم ان کی روشنی میں امریکہ کی یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کے کردار کا جائزہ لیں تو مسئلہ مبہم و مشکوک ہو جاتا ہے ۔ امریکی حکومت نے اکثر اوقات امریکہ میں اور امریکہ سے باہر دوسرے ملکوں میں سویلین لوگوں کے خلاف تشدد کی کاروائیاں کی ہیں جو امریکہ کی اپنی پیش کردہ ڈیفینیشن کے مطابق دہشت گردی قرار پاتی ہیں ۔ اگر غیرجانبدار مفکّروں کی ایک ٹیم پچھلی دو صدیوں میں ہونے والے واقعات کا تجزیہ کرے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ امریکہ دہشت گردوں میں سر فہرست ہے ۔ بلا شبہ جرمنی برطانیہ فرانس ہسپانیہ بیلجیم اٹلی روسی یونین اور جاپان کا بھی فہرست میں اونچا مقام ہو گا اور اگر اس فہرست میں عراق میں صدام کی حکومت بھی ہوئی تو شائد فہرست کے آخری چند میں سے ہو ۔   

جو ہم چھوڑیں اور غیر اپنائیں

تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کی جو مشرقی ثقافت تھی اس کو ہم فرسودہ جان کر چھوڑ رہے ہیں اور غیر جو نہ صرف اسلام بلکہ ہر باعمل مسلمان کے دشمن ہیں وہ ہماری ثقافت کے اجزاء پر یکے بعد دیگرے تحقیق کر کے اسے انسانی صحت کے لئے مفید ثابت کر رہے ہیں ۔ اس وقت ذکر صرف معانقہ یعنی بغل گیر ہونے کا ۔ صرف چند دہایاں پہلے جب دو مسلمان عزیز یا دوست ملتے تو بڑے جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے معانقہ کرتے یعنی بغلگیر ہوتے اور ان کے چہرے بشاش ہو جاتے ۔ ہماری نام نہاد ترقی کا یہ عالم ہے کہ اب دو عزیز یا دوست ملتے ہیں تو دور ہی سے صرف ایک ہاتھ ایک دوسرے کے کندھے کے پچھلی طرف لگا کر کے سمجھتے ہیں معانقہ ہو گیا ۔ اگر صحیح طرح معانقہ کیا جائے تو جسم میں ایک تازگی آ جاتی ہے ۔ ہم نمعلوم کس وجہ سے یہ چھوٹی چھوٹی صحتمند عادتیں چھوڑتے جارہے ہیں ۔

ایک تحقیق کے مطابق بغل گیر ہونے سے صحت زیادہ بہتر رہتی ہے۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنامیں کی جانے والی تحقیق میں 38 جوڑوں پر بغل گیری کی عادت کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ تحقیق کے مطابق خوشی یا گرم جوشی سے بغل گیر ہونے سے جسم میں ایک ایسے ہارمون میں اضافہ ہوتا ہے جو بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے جس کی بدولت دل کی بیماریوں کے امکانات میں کمی واقع ہوتی ہے۔

اس تحقیق میں پہلے مرحلے میں جوڑوں کو الگ الگ کمروں میں رکھا گیا اور ان کا بلڈ پریشر اور ہارمون کا لیول نوٹ کیا گیا ۔ بعد میں انہیں بیس سیکنڈ تک ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہونے کے لئے کہا گیا۔ اس کے بعد ایسے ہارمون میں اضافہ دیکھا گیا جو دل کی بیماریوں میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ ایسے جوڑے جن کے درمیان ایک خوشگوار اور پیار کا تعلق ہوتا ہے ان میں ایسے ہارمون کا لیول زیادہ ہوتا ہے۔ عمومی طور پر بغل گیری سے خواتین میں مردوں کی نسبت ان ہارمونز کا لیول زیادہ نوٹ کیا گیا ہے۔

آؤ بچو سنو کہانی

ہم بہن بھائی جب چھوٹے چھوٹے تھے دادا جان سے کہتے کہانی سنائیں ۔ وہ کہتے آؤ سنو کہانی ایک تھا راجہ ایک تھی رانی دونوں کی ہوگئی شادی ختم ہوئی آج کی کہانی ۔ اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ۔ لیکن میں آج وہ کہانی کہنے لگا ہوں جو آپ نے پہلے کبھی سنی نہیں ہو گی ۔ ویسے کہانی شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے ۔ شادی سے پہلے تو صرف ہوائی قلعے ہوتے ہیں ۔

ایک درخت ہوتا ہے جو بہت جلد بڑا ہو جاتا ہے بہت بڑی جگہ گھیر لیتا ہے اور اس کی جڑیں بھی زیر زمین دور دور تک پھیل جاتی ہیں ۔ ایک علاقہ میں لوگ ٹھیک ٹھاک رہ رہے تھے ۔ ایک آدمی یہ کہہ کر ان کی زمین پر آیا کہ وہ ان کی زمین کی پیداوار بڑھا دے گا اور وہ اطمینان کی زندگی گذار  سکیں گے ۔ اس نے متذکرہ درخت وہاں بو دیا اور ساتھ ہی اپنا مکان بنا کر رہنے لگا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت بہت بڑا ہو گیا اور بجائے پیداوار بڑھنے کے اس کے سائے اور جڑوں کی وجہ سے وہاں پیداوار کم ہو گئی ۔ الله کا کرنا کیا ہوا کہ اس شیطانی درخت کی ایک شاخ درخت لگانے والے کے گھر میں گھس گئی ۔ اس نے وہ شاخ کٹوا دی ۔ اس کی جگہ دو شاخیں اُ گ کر اس کے گھر میں گھس گئیں ۔ اس نے وہ کٹوا دیں تو تین چار  شاخیں ان کی جگہ اگ کر اس کے مکان میں گھس گئیں اور ساتھ ہی درخت کی جڑوں نے اس کے مکان کی بنیادیں ہلا دیں جس سے درخت لگانے والا نیم پاگل ہو گیا ۔

جناب اس درخت کا نام ہے دہشت گردی ۔ اگر زمین فلسطین ہے تو درخت لگانے والا اسرائیل اور اگر زمین عراق ہے تو درخت لگانے والا امریکہ

بچو کہانی پسند آئی ؟  اپنی رائے ضرور بھیجنا