یاسر عمران مرزا صاحب نے سافٹ ویئر کا استعمال جسے Piracy کا نام دیا گیا ہے کے متعلق لکھا اور مبصرین نے زبردست تبصرے کئے ان میں سے دو تبصرے منطقی جواب مانگتے ہیں ۔
ایک ۔ عنیقہ ناز صاحبہ کا کتابوں کے حوالے سے
دوسرا ۔ نعمان صاحب کا سوفٹ ویئر کی استحصالی فروخت کے حوالے سے
اپنا تجربہ اور نظریہ بیان کرنے سے قبل میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ
1 ۔ صرف فرنگیوں کے بنائے ہوئے اصولوں یا قوانین کی خلاف ورزی ہی جُرم کیوں ہے جبکہ وہ خود تمام انسانی حدوں کو توڑ کر جسے چاہیں ملیامیٹ کرتے رہتے ہیں ؟
2 ۔ اجارہ داری کا مقابلہ کرنا اگر چوری یا ڈکیتی ہے تو پھر جمہوریت کے نعرے کیوں لگائے جاتے ہیں ؟
3 ۔ اگر ہم بہت دیندار ہیں تو کیا صرف امریکا کے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی سے گناہگار بنتے ہیں ؟ اور کیا ہم نے اپنے باقی سارے اوصاف دین کے مطابق ڈھال لئے ہیں ؟
4 ۔ دورِ حاضر میں بہت سی اشیاء کی اصل اور نقل ملتی ہیں ۔ مثال کے طور پر نیشنل کی استری یا مولینکس کا گرائنڈر بلینڈر ۔ اصل کی قیمت اگر 4000 روپے ہے تو نقل 2000 روپے یا کم میں مل رہی ہے ۔ ایسا صرف پاکستان میں نہیں ساری دنیا میں ہے ۔ درمیانی یا کم آمدن والے لوگ اصل کی قیمت ادا نہیں کر سکتے اسلئے نقل خریدتے ہیں ۔ باقی اشیاء کی نقل خریدنا جُرم نہیں پھر امریکی سافٹ ویئر کی نقل خریدنا جُرمِ کیوں ؟
5 ۔ آخر یہ سارا نزلہ پاکستان پر کیوں گرایا جا تا ہے ؟ اور ہم خود ہی اپنے آپ کو امریکا کی استحصالی اجارہ داری میں کیوں جکڑنا چاہتے ہیں ؟
حقیقت کیا ہے ؟
سود خور دنیا کی اجارہ داری اور سودی نظام کے ساتھ ساتھ استحصالی نظام میں دنیا کو جکڑنا ۔ کیا اس استحصال کے خلاف کھڑے ہونا انسانیت کی خدمت نہیں ہو گا ؟ اگر امریکا کی preemptive strategy کے تحت دہشتگردی کے خلاف جنگ اور اپنے بغل بچہ اقوامِ متحدہ کے ذریعہ امریکا کا تسلط نہ ماننے والے ممالک پر تجارتی اور دوسری پابندیاں لگانا درست ہے تو امریکا کے مال کی نقل بنانا کیوں غلط ہے ؟
آپ بیتی
میرا کمپیوٹر سے واسطہ ستمبر 1985ء میں پڑا جب مجھے جنرل منیجر منیجمنٹ انفارمیشن سسٹمز [Management Information Systems] تعینات کر کے انوینٹری منیجمنٹ سسٹم [Inventory Management System] کو کمپیوٹرائز کرنے کا پراجیکٹ دے دیا گیا ۔ ادارے میں موجود تھا آئی بی ایم کا مین فریم [IBM”s Main Frame] کمپیوٹر اور سافٹ ویئر ۔ دونوں کی قیمت ادا کر چکنے کے باوجود ہر ماہ ادائیگی کی جاتی جس کے عوض آئی بی ایم کا ایک نمائندہ ہمارے ادارے کی سیاحت کر کے سب ٹھیک کہہ جاتا ۔ اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو اس کا ہرجانہ علیحدہ ادا کرنا پڑتا ۔ اسی پر بس نہیں ذرا ذرا سی بات کیلئے ہم آئی بی ایم کے محتاج تھے ۔ ہم نے آئی بی ایم کے متوازی آزادی دینے والے ادارے نارسک ڈاٹا سے ناطہ جوڑا ۔ اُن کے ماہرین نے میرے ساتھ بیٹھ کر تمام سافٹ ویئر تیار کی اور اللہ کے فضل سے پاکستان کا سب سے وسیع اور فعال انوینٹری منیجمنٹ سسٹم کمپیوٹرائز ہو کر 1988ء میں بھرپور طور پر چالو ہو گیا
جب مجھے اکتوبر 1988ء میں ایم آئی ایس کا سربراہ بنا دیا گیا تو میں نے آئی بی ایم سے اگلا کنٹریکٹ ماضی کی شرائط پر کرنے سے انکار کر دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آئی بی ایم والے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ۔ ہم نے ایک اور آزاد کمپنی سے رجوع کیا تو آئی بی ایم والوں نے ملک کی اعلٰی سطح پر رابطہ کیا کہ مجھے زیر کر سکیں ۔ اللہ کی مہربانی سے وہ کامیاب نہ ہوئے اور اُن کے بڑے میرے پاس بھاگے آئے اور ایک جدید کمپیوٹر سی ایس پی اور ایس کیو ایل کے ساتھ دینے پر راضی ہو گئے اس شرط پر کہ ماہانہ کرایہ ختم صرف جب ضرورت پڑے مینٹیننس چارجز ہوں گے ۔ اُن دنوں پاکستان میں آئی بی ایم کے سربراہ یوسف صاحب تھے ۔ کمپیوٹر کی وصولی کے وقت سربراہ نثار میمن صاحب تھے جو پرویز مشرف کی حکومت میں وزیر رہے ۔ نثار میمن صاحب عہدہ سنبھالتے ہی واہ تشریف لائے اور مجھ سے ملاقات کر کے خوشی کا اظہار کیا
آئی بی ایم کی مہیا کردہ سافٹ ویئر کا یہ حال تھا کہ ایک فلاپی ڈسک سے 4 بار سافٹ ویئر انسٹال کرنے سے وہ سافٹ ویئر بیکار ہو جاتی تھی چنانچہ آئے دن آئی بی ایم سے نئی فلاپی ڈسکس بڑی قیمت پر خریدنا پڑتی تھیں یعنی ہاتھی کی قیمت میں چیونٹی ۔ ہمارے لوگوں نے کوڈ توڑااور ایک فلاپی ڈسک سے کئی فلاپی ڈسکس تیار کر لیں ۔ اگر امریکی قانون کو ماننا لازم ہوتا تو میں اور میرا سابق ادارہ بہت بڑے مجرم قرار پاتے ۔ گویا نہ میرا یہ بلاگ ہوتا اور نہ اتنے سارے ہونہاروں سے تعارف ہو پاتا
آجکل جسے پائریٹڈ سافٹ ویئر کہا جاتا ہے وہ مفت تو نہیں ملتی ۔ اب جو شخص بازار سے یہ سسستی سافٹ ویئر خرید کر لاتا ہے وہ مجرم کیسے ہوا ؟ مجرم تو وہ ہے جس نے کوڈ توڑ کر نقل بنائی ۔ سب کی اطلاع کیلئے لکھ دوں کہ کوڈ توڑ کر نقل بنانے والے پاکستانی نہيں ہیں بلکہ ان کا تعلق امریکا اور يورپ سے ہے ۔
ایک اہم واقعہ یاد آیا ۔ جب امریکا نے لبیا سے خام تیل خریدنے پر اقوامِ متحدہ کو استعمال کر کے پابندی لگوا دی اُن دنوں میں لبیا میں تھا ۔ امریکا کے تیل بردار جہاز مالٹا کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے اور مڈل مين [Middle Man] کے ذریعہ سودے ہوتے ۔ کسی نجی کمپنی کے جہاز لبیا سے تیل لے کر جاتے اور امریکی جہازوں میں ڈال دیتے ۔ اس طرح امریکا مہنگا تیل سستے داموں خریدتا رہا ۔ کیا یہ جعلسازی اور دھوکا نہیں ؟
امریکا اور يورپ والوں کی دیانتداری کا پول ماضی کی تاریخ کھولتی ہے ۔ یونانی مصنّف مارک نے اپنی کتاب لائبر اگنیم میں جس تحقیقی مواد کو یونانی کا لاطینی ترجمہ بتایا تھا بعد کی تحقیق میں ثابت ہو چکا ہے کہ وہ دراصل عربی سے لاطینی ترجمہ تھا ۔ اسی طرح جس اُوزی مشین گن یا مشین پِسٹل پر اسرائیل کی واہ واہ ہوتی ہے وہ دراصل نئی ایجاد نہیں بلکہ چیکوسلواکيا کی سب مشین گن کی نقل یا اس کی ترمیم ہے
یہی حال کتابوں اور تحقیقاتی مقالاجات کا ہے فرنگیوں نے عربی سے ترجمے کر کے اپنے ناموں سے شائع کئے اور جس کا ترجمہ نہ ہو سکا اُن کُتب کو جلا دیا گیا ۔ اپنے ملک کو ہی لے لیجئے ۔ ہندوستان پر ہیراپھیری سے قبضہ کے بعد تمام محققین اور ہنر مندوں کو ہلاک کر دیا گیا ۔ میرے اپنے آباؤ اجداد برطانوی حکومت کی دہشتگردی کا شکار ہوئے
مطلب کہ چوری کا سافٹویئر جائز ہے؟
سمجھ نہیں آتا کہ کچھ لوگ چوری کا سافٹویئر کیوں خریدتے ہیں حالانکہ آج اصلی سافٹویئر جوتوں کے دام میں دستیاب ہے ۔
آپ ٹھیک فرماتے ہیں چوری میں نمبر 1 تو یہ لوگ ہیں ہمیں چاہیے کہ انکی ذیادہ سے ذیادہ ٹیکنالوجی چوری کی جائے کیوں کہ ان لوگوں نے ہمارے بزرگوں کی تحقیق چوری کی اور انکو اپنے لیبل سے دنیا میں مشہور کیا پھر یہ ہی ٹیکنالوجی ہمارے خلاف استعمال کی اور اپنی شرائط پر ہمیں فراہم کی ۔
اجمل صاحب
اس موضوع پر لکھنے کا شکریہ، مگر میں آپ کے دلائل سے مطمئن نہیں ہوں۔
اگر امریکن چوری کرتے ہیں، اگر یورپین دغا بازی کرتے ہیں، تجارت میں، تحقیق چوری کرنے میں، کتب دوسروں کی اپنے ناموں سے شائع کرتے ہیں، یہ سب ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم بھی چوری کریں، دغا بازی کریں، ہم مسلمان ہیں، ہمارا اپنا ایک دین ہے، امریکن اور یورپین چاہے دین والے ہوں لیکن ان کے ہاں دینی تعلیمات کی کوئی اوقات نہیں، ہمیں اپنے دین کے لحاظ سے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا ہے
یہ تو پھر وہی بات کی نہ آپ نے، کی انگریز کے ساتھ دھوکا جائز ہے۔
دوسری بات، ان کمپنیوں کی استعمال کرنے والوں کو جھکڑ لینے کی پالیسی، پوری دنیا میں اب اس بات کا رواج قائم ہو رہا ہے کہ سالانہ بنیادوں پر ماہدے کیے جاتے ہیں، اپریٹنگ سسٹم سے لے کر اینٹی وائرس پروگراموں تک، ہر سافٹ ویر کا سالانہ لائسنس ہے، کمپنیاں ایسا نہیں ہونے دینا چاہتی کی استعمال کرنے والا ایک ہی دفعہ سافٹ ویر کی قیمت دے کر جان چھڑا لے، بلکہ وہ سالانہ بنیادوں پر سافٹ ویر کا لائسنس دیتی ہیں، تا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا پیٹ بھی بھرتا رہے۔ پہلے جب لیپ ٹاپ خریدتے تھے تو آپ کی مرضی پر منحصر تھا کہ آپ اصلی والا اپریٹنگ سسٹم لیتے ہیں یا پائریٹیڈ، مگر اب مائیکروسافٹ والوں نے لیپ ٹاپ بنانے والی کمپنیوں سے بھی ماہدہ کر لیا ہے، کہ جو بھی لیپ ٹاپ خریدے اس کو لیپ ٹاپ کی قیمت کے ساتھ اپریٹنگ سسٹم کی قیمت بھی دینی پڑے۔ ایسے قوانیں نہ صرف دینی لحاظ سے قابل پکڑ ہیں بلکہ انسانی حقوق کے حوالے سے، چونکہ یہ کمپنیاں امریکن حکومت کے تحت ہیں اس لیے امیریکن حکومت کو چاہیے کہ وہ انسانی حقوق کو مد نظر رکھتے ہوے قوانین بنائے اور ان کمپنیوں کو من مانی کا موقع نہ ملے
اجمل صاحب پوسٹ کا عنوان پڑھ کر ڈھارس ہوئی تھی کہ شاید بلاگ پڑھنے والوں کی اکثریت سافٹ ویر چوری کے حوالے سے اپنی رائے پر نظر ثانی کرے لیکن اس کے برعکس مکمل متن پڑھ کر سخت مایوسی ہوئی اور اس پیدا شدہ کنفیوژن کا اثر آپ تبصروں میں ملاحظہ کریں گے۔ آپ خضر راہ جیسے لوگ اگر اس فعل کو جائز قرار دینے لگیں تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔ کیا آپ چوری کی گاڑی جانتے بوجھتے کسی سے خرید لیں گے کہ چرانے والا ذمہ دار ہے مجھے کیا؟ کیا حکومت کے پیٹرول پر لگائے گئے ناجائز اور لٹیرانہ ٹیکسوں کی وجہ سے پیٹرول کی چوری حلال ہوگئی؟ کیا بجلی کے بحران کے باعث بجلی چوری اب گناہ نہیں رہی؟ چوری کا کوئی جواز نہیں ہوتا کسی بھی صورت میں۔ خاص کر اس صورت میں تو آپ پر انتہائی ذمہ داری عائد ہوگئی تھی جب آپ نے پوسٹ میں اسلام کا نام استعمال کیا ہے۔ اگر کسی کو سافٹ ویر کی شرائط و ضوابط پر اعتراض ہے اور اسکی قیمت بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے تو پھر یا تو متبادل فری سافٹ ویر استعمال کرے یا عدالت سے رجوع کر کے سافٹ ویر کمپنی کو متعین قمیت کا جواز مہیا کرنے کا معاملہ کرے۔
اس موضوع سے متعلق اگر کسی کو کسی عالم دین کی تحقیق وتجزیہ معلوم کرنے میں دلچسپی ہو تو یہ اور یہ تحریر مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر دوسری تحریر میں درج ذیل پیرا گراف قابل غور ہے :
***
بعض اوقات ايسے حالات پيش آ سكتے ہيں جن ميں مالك كى اجازت كے بغير ہى كاپى اور فوٹو كرنا جائز ہو جاتا ہے، اور يہ دو حالتوں ميں ہے:
1 – جب ماركيٹ ميں نہ ہو، اور ضرورت كى بنا پر كاپى كى جائے، اور خيراتى تقسيم كے ليے ہو اور فروخت كر كے اس سے كچھ بھى نفع نہ حاصل كيا جائے.
2 – جب اس كى ضرورت بہت شديد ہو، اور اس كے مالك بہت زيادہ قيمت وصول كريں، اور انہوں نے اپنے اس پروگرام پر خرچ آنے والى رقم ايك مناسب نفع كے ساتھ وصول كر لى ہو، يہ سب تجربہ كار لوگ جانتے ہيں، تو اس وقت جب مسلمانوں كى مصلحت اس سے معلق ہو تو اسے كاپى كرنا جائز ہے، تا كہ نقصان كو دور كيا جا سكے، ليكن شرط يہ ہے كہ اسے ذاتى مفاد كے ليے فروخت نہ كيا جائے.
شعیب صاحب
اس دکان کا پتہ بتا دیجئے جہاں جوتوں کے اصلی دام سافٹ ویئر بِکتا ہے ۔
ویسے اصلی جوتوں کی قیمت بھی آجکل 2000 سے 10000 روپے تک ہے یا شاید زیادہ
یاسر عمران مرزا صاحب
میں کسی صورت چوری کو جائز قرار دینے کے حق میں نہیں کیونکہ ہمارا دین اس کی اجازت نہیں دیتا ۔
حقیقت یہ ہے کہ عام پاکستانی بازار سے ایک سافٹ ویئر خرید کر لاتا ہے وہ نقل بمطابق اصل ہوتی ہے ۔ اصل پر اجارا داری ہے لیکن نقل پر نہیں ۔
دیگر آپ کے لکھے ہوئے اصول کو مان لیا جائے تو دنیا میں 80 فیصد لوگوں کے پاس کمپیٹیبل کمپيوٹر ہیں جو وہی حیثیت رکھتے ہیں جو پائریٹڈ سافٹ ویئر کی ہے ۔ اس کے متعلق آپ کیا کہیں گے
راشد کامران صاحب
اگر سافٹ ویئر کی اجارہ داری کو مان لیا جائے تو اگلا مرحلہ پرسنل کمپیوٹر کا ہے ۔ 80 فیصد لوگوں کے پاس کمپیٹیبل کمپیوٹر ہیں جن کی حیثیت نام نہاد پائریٹڈ سافٹ ویئر کی سی ہے ۔
آپ نے مثال چوری کی گاڑی کی دی ہے لیکن یہ مسئلہ چوری کی کار کا نہیں بلکہ ایسی کار کا ہے جس میں کسی اور ملک کی چرائی گئی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہو اور ایسا ساری دنیا میں بلا روک ٹوک ہو رہا ہے ۔
جہاں تک مقدمہ بازی کا تعلق ہے جو چند ہزار روپے کی سافٹ ویئر نہیں خرید سکتا وہ مقدمہ پر لاکھوں روپیہ کیسے خرچ کریں گے ۔ زمینی حقیقت تو يہ ہے کہ ایسے مدعی کی فریاد کوئی نہیں سنے گا
محترم اجمل صاحب!
میں آپ کی بہت سی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔ مگر چند ایک سے مجھے اتفاق نہیں۔
پاکستان میں جو لوگ افورڈ کر سکتے ہیں۔ مگر وہ اصلی سوفٹ وئیر نہیں خریدتے وہ لوگ ناحق اور ناجائز طور پہ اسلامی ، قانونی اور اخلاقی لحاظ سے ایک ناشائستہ قدم اٹھاتے ہیں۔ اگر وہ یہ سوفٹ وئیر انفرادی طور پہ صرف نجی طور پہ استعمال کرتے ہیں توان پہ عام فوجداری قوانین لاگو نہیں ہوتے چہ جائیکہ چوری یا سرقہ کی حد یا سزا جاری ہو ۔ نہ ہی فرد واحد پہ نجی استعمال کے لئیے دنیا میں جعلی اور نقلی سوفٹ وئیر استعمال کرنے پہ چوری کی سزا کسی قانون میں ہے۔ بلکہ ایسے لوگوں سے زیادہ سے زیادہ جرمانہ وغیرہ وصول کیا جاتا ہے۔
میری رائے میں پائریسی سوفٹ وئیر استعمال کرنا اگرچہ چوری جیسے سخت جرم میں نہیں آتا تو بھی اخلاقی اور قانونی لحاظ سے یہ درست نہیں۔ اسلام میں بہت سی انتہائی بنیادی ضرورتوں کے لوازمات چوری کرنے پہ سزا تو ہے مگر چوری کی سزا نہیں کہ وہ اشیاء بنیادی ضرورت تھیں۔ مثلا ایندھن کے لئیے لکڑی۔ جانوروں کے لئیے گھاس یا چارہ۔ روٹی ۔ کھانا وغیرہ۔ چونکہ ملازمت اور تعلیم کی خاطر دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی کمپیوٹر ٹکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہوتا جارہا ہے اور دن بدن نہائت سرعت اور تیزی سے ترقی کرتی اور بدلتی ہوئی، نئی نئی سوفٹ وئیر کا پاکستانی غریب عوام ، طلباء اور ملازمین کے لئیے انھیں خریدنا نا صرف مشکل بلکہ تقریبا ناممکن ہے۔اگر وہ پائریسی سوفٹ وئیر استعمال نہ کریں تو شاید بہت پیچھے رہ جائیں ۔ کہا جاسکتا ہے کہ بازار میں موجود نقلی سوفٹ وئیرکی حد تک تو انکا بنیادی ضرورت جیسا مسئلہ ہے۔ پائریسی سوفٹ وئیر دنیا بھر کے طالبعلم استعمال کرتے ہیں اسمیں یوروپ اور امریکہ بھی شامل ہیں۔ میری ذاتی رائے میں ایسے طلباء اور ضرورتمند لیکن اصلی سوفٹ وئیر افورڈ نہ کر سکنے والےافراد کو اپنی بحث سے منھا کرتے ہوئے صرف یہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے پیچھا نہیں چھڑا لینا چاہئیےکہ یہ انکی کے لئیے بنیادی ضرورت ہے اور اسکے بغیر چارہ نہیں ۔ ایک متحسن قدم نہیں۔ اس سے ہم نئے ذہن کو جنہوں نے کل کو قوم کی بھاری زمہ داریاں سبنھالنی ہیں ۔ اس ذہن کو خود ہی ایک غلط طریقہ سکھا رہے ہیں۔ جس سے وہ عمر بھر شارٹ کٹ پہ یقین کرنا شروع کردیتا ہے۔ جہ ایک اچھی روش نہیں ۔ کردار کی تربیت ہر جگہ اور ہر آن ہونی چاہئیے۔ جب اشیاء باآسانی دستیاب نہ ہوں تو کوشش اور کریٹ کرنے کا جزبہ بڑہتا ہے۔ اور سمجھدار لوگ خودبخود ہی ہر مشکل کا جائز اور درست حل دریافت کر لیتے ہیں ۔ نئے نئےالائسنس فری سوفٹ وئیر مارکیٹ میں یا انٹر نیت پہ دھونڈ نکالتے ہیں اور مقامی طور پہ سوفٹ وئیر تیار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ جس سے وہ شدید محنت سے مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق کم قیمتوں پہ اپنے تیار کردہ پروگرام مارکیٹ میں لاتے ہیں۔ جو مقامی لوگوں کی ضرورتوں اور قوتِ خرید کے عین مطابق ہوتے ہیں۔
آج کا دور مسابقت کا دور ہے۔ علم اور تکینک کا دور ہے۔ اگر پاکستانی ادارے اور سوفٹ وئیر ماہرین چاہئیں تو مقامی ضرورتوں کے لئیے فری وئیر نہایت آسانی سے تیار کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی اب صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ٹکنالوجی اور خاص طور پہ کمپیوٹر تکنالوجی پہ کچھ ادروں کی اجارہ داری کے خلاف مزاحمت شروع ہو چکی ہے اور انٹر نیٹ پہ کمپیوٹر آپریٹنگ سسٹم سے لے کر ٹیکسٹ ٹریٹمنٹ تک کے لئیے ہر قسم کے پروگرام اور فری وئیر باآسانی دستیاب ہیں۔
پائریسی سے گریز پاکستان کے لئیے مسلمان ہونے کے ناطے کے علاوہ اس لئیے بھی گریز ضروری ہے۔ کہ سوفٹ وئیر ایک ایسی انڈسٹری ہے جو پاکستان میں تیزی سے رقی کر رہی ہے اور پاکستان اب تقریباً ایک ارب سالانہ کے لگ سوفٹ وئیر برآمد کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ سوفٹ وئیر ایک ایسی صنعت ہے جس پہ بہت کم لاگت آتی ہے۔ اور اس سے وابستہ افراد کا روزگار خداداد ذہانت اور اپنی محنت و قابلیت کی وجہ سے ہے۔ سوفٹ وئیر تیار کرنے والے ذہن اس کاروبار کو صرف انٹر نیت کے ذریعئے بھی دوسرے ممالک سے کر سکتے ہیں اور کروڑوں روپیہ کما سکتے ہیں۔ جس سے پاکستان کو کثیر زرمبادلہ کی صورت میں رقم ملتی ہے۔ اور لاکھوں لوگوں کا اس مستقبل وابستہ ہو سکتا ہے۔ اور اگر ہم بہ حثیت ریاست پائریسی کی حوصلہ شکنی نہیں کریں گے تو ہم اپنے ہی سوفٹ وئیر تیار کندگان کو بے یارومددگار چھوڑ رہے ہونگے۔
آپ کی اس بات سے مجھے اتفاق ہے کہ قومی اور عوامی منصوبوں کے لئیے دوسروں کی مستعار ٹیکنالوجی سے اپنی ضرورت کی ٹیکنالوجی اخذ کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ورنہ قومیں ترقی نہیں کر پاتیں اور بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ اور ٹیکنالوجی سے فوجی و اقتصادی برتری کا یہ سائیکل اس دنیا میں ہمیشہ سے یوں ہی چلا آرہا ہے۔
شکر ہے آپ نے ضمیر کا بوجھ ھلکا کر دیا کہ چونکہ کسی نے غلط کام کیا تو اب ھمارے لئے بھی ٹھیک- اور آپ کا یہ جملہ تو تاریخی ہے کہ “، سافٹ ویئر خرید کر لاتا ہے وہ نقل بمطابق اصل ہوتی ہے اصل پر اجارا داری ہے لیکن نقل پر نہیں”
آپ ایم آئی ایس کے سربراہ رہیں ہیں آپ سے بہترسافٹوئر کے متعق کون سمجھے گا کہ اسکی نقل بھی اصل ھی ھوتی ہے۔۔اگر آپ کے پاس 2 کمپیوٹر کا لائسسنس ہے اور تیسرے پر انسٹال کر لیا تو وہ بھی چوری ھی کھلائے گی۔ اور”ہمارے لوگوں نے کوڈ توڑااور ایک فلاپی ڈسک سے کئی فلاپی ڈسکس تیار کر لیں ” بھی اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہے تو چوری ہی ہے
سافٹ وئیر پائیرسی کا اطلاق وہا ہے ۔۔ جہاں اس کا مکمل ایک سسٹمائیز قانون ہے ۔۔ آپ سب بلاگرز کے تبصرات پڑھ رہا ہو اور کوئی کنلیوزن نہیں نکال پا رہا !!
امیرکہ ۔۔ انگلینڈ و دیگر ممالک جہاں سافت وئیر پائیرسی کا قانون ہے ۔۔ یہ کیسے کام کرتا ہے بھلا ؟
سٍمپل ہے ۔۔ میں گر کسی کا بنایا گانا ۔۔ ویڈیو ۔۔ سافٹ وئیر جس کی بنانے والے نے حقوق کا رائیٹ عدالت میں جما کرا رکھا ہے ( جو ایک پروسیجر ہوتا ہے پورا ) پھر گر میں اسی قانون کے انڈر جیتے ہوے گر ڈائنلوڈ یا کریک کرتا ہو تو اب سافٹ وئیر یا گانا بنانے والے کی اپنی مرضی پر ہے کہ وہ مجھے کب اپنے وکیل کے تھرو اب نوٹس کب اور کیو اور کیسے بھیجے گا ۔۔ عدالتی کاروائی ہونی ہو گی نا پھر ایک مکمل سسٹمائیز طریقا سے ۔۔
آپ سب یہاں پاکستانیوں کے بارے میں لکھ رہے ہو جب کے سب سے بڑے پائیریٹ ترقی یافتہ ممالک کو لوگ خود ہے ۔۔ سر اجمل کی تحریر کے متن کو سمجھنا چاہیے ۔
پمارے ملک میں ایس ایم ایس کرنے کا قانون کا اطلاق بڑے خوب سسٹم مائیز طریقے سے ہوا ہے ۔۔۔ پر یہاں کوئی حال ہے قانون کا ؟ بک جاتے ہیں وکیل بک جاتے ہے پولیس ۔۔ دین ایمان وہاں گڈمگا جاتا ہے ۔ سافت وئیر پارئیرسی کو گناہ تب کنسڈر کریں آپ جب وہ ہم کر رہے ہو ۔۔ سافٹ وئیر کا کوئی کریکر میں نہیں جانتا جو پاکستان میں سورس اتار کر ۔۔ کریک کر کے تو نیٹ پر دے دیتا ہو ۔۔ مزید ابنٹو لینکس پی ایچ پی ان کے کمرشل ماڈیولز کے کریکز ورزن بھی لوگ ویب میں استعمال کر رہے ہیں ۔۔ جن کو کریک کرنے والے بھی وہی خود ہیں ۔ امیرکنز ۔
ریحان
اگر آپ ایک چور سے کمپیوٹر خریدتے ہیںجب کے آپ جانتے ہیں چوری کا ہے تو یہ گناہ ہے کہ نہیں؟
یہاںپر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اگر دوسرے لوگ چوری کرتے ہیں تو ہماری چوری بھی جائز ہے۔ یہ مانا کہ اس وقت ساری دنیا میں سافٹ ویئر کی نقل بک رہی ہے، آڈیو اور ویڈیو کی چوری ہو رہی ہے، دو نمبر کی الیکٹرونکس مارکیٹوں میں دستیاب ہیں مگر ان کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام نے ان غلط کاموں کی اجازت دے دی ہے۔ اسلام میں چوری چوری ہی ہے چاہے کوئی مجبور کرے یا عام آدمی ہاں چوری کی سزا مختلف ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جو کام ہم غلط کرتے ہیں اس کا جواز ڈھونڈنے میں دیر نہیں لگاتے اور جو کام ہم غلط نہیں کرتے اس پر فتوے پہ فتوے جاری کردیتے ہیں۔ یہی ہم مسلمانوں کی خرابی ہے۔ ہم اسلام کو مکمل ضابطہ حیات مانتے ہیں مگر اسے لاگو کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ہم وہ اسلام پسند نہیںجو ہماری ناجائز خواہشات کی راہ میں رکاوٹ بنے۔
لگتا ہے اجمل صاحب پائریٹڈ ساوفٹویئر استعمال کر رہے ہیں تبھی انہوں نے اسے جائز قرار دینے کیلیے اتنا لمبا مضمون لکھا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ سر عام تسلیم کریں کہ جو کام ہم کر رہے ہیں وہ اسلام میں ممنوع ہے مگر ہماری مجبوری ہے۔ یہ کوئی منطق نہیں کہ بڑے بڑے امریکہ جیسے غلط کام کرتے ہیں تو پھر پاکستان جیسے چھوٹے چوری کیوں نہ کریں۔ اس طرح برائی کا خاتمہ نہیں ہو گا بلکہ یہ مزید پھیلے گی۔
فارغ بھائی
میں نہیں جانتا آپ کو تعلق کہاں سے ہے ۔۔ پر گر آپ ایک سسٹم مائیز لا فل ملک سے ہو جہاں پائیریسی والے قانون کا اطلاق اس کی صحیح روح میں ہو رہا ہے ۔۔ تو میں آپ کے ساتھ ہو بھائی جان ۔۔ یہاں پاکستان میں پبلک پلیس پر سگریٹ پینے کے قانون کا اطلاق نہیں ہو پارہا ۔
آپ ہمارے حکمرانوں خط لکھیں ۔۔ ان کو بتائیں کے اس کو یہاں کاپی رائیٹ کا قانون اس کی صحیح روح سے لاگو کریں ۔۔ مایکروسافت و دیگر کمرشل سافٹ وئیر ہاوس یہاں آئیں ۔۔ انویسٹمنٹ لگائیں ( یہاں جہاں سوئی پیدا نہیں ہو رہی ۔۔ بجلی نا ہونے سے موٹر پانی ٹینکی میں چڑھا نہیں رہی ) ۔۔ وہ اپنی پوری کسٹمر سپورٹ بھی بلکل امریکن طریقے والی پاکستانی گاہکوں کو دیں ان پاکستانیوں کو جو کوانٹیٹی کو کوالٹی پر ترجیح دے رہے ہیں ۔۔ برانڈڈ امریکہ کے پھینکے ہوے کمپیوٹر خرید کر کہتے ہیں جو کہ نیا کمپیوٹر خریدا ہے ۔۔۔ لنڈا سسٹم کو پسند و ترجیح دیتے ہیں جو ۔ آپ رحمان ملک سر کو خط لکھیں ۔
لوگ پھر جو کوالٹی کنسرن ہونگے پھر نقل کے بجائے اصل خریدنا ہی پسند کریں گے ( خریدنا ) بلکل ویسے جیسے لوگ ۔۔ چائینا کے مال پر جاپانی یا امریکن مال کو ترجیح دیتے ہیں ۔
میں آج یہاں نیٹ پر بیٹھ کر ونڈوز کی رجیسٹر چابی تو خرید سکتا ہو ۔۔ گلوبائیزیشن جو ہے ۔۔ پر آپ بتاو ۔۔ وہی امریکہ کیا مجھے میرے خریدے کاپی کے رائیٹ مجھے دیگا ۔۔ پاکستان میں ؟ ۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ امریکن سٹائیل کی کسٹمر سپورٹ دیگا ۔۔ نہیں ۔۔۔ ؟ ارے وہ پاکستان شپنگ نہیں کرتے جو پرادیکٹ سپورٹ میں پاکستان کا نام نہیں لکھنا پسند کرتے جو ۔
ضمیر کے بھوج کی بات لکھیں پر تھوڑا سا زرا ہمارے حالات کا کھلی نگاہ سے جائیزہ بھی لیں ۔۔ انگریزی کو اردو پر ترجیح دیتے ہیں جو ۔۔ بیکن ہاوس کو اردو میڈیم پر ترجیح دیتے ہیں جو ۔۔ مدرسے اکسٹریمنٹس پیدا کرتے ہیں یہ بیان دیتے ہیں جو ۔۔ اور پاکستانیوں پر صوبائی و عالاقائی لیبل لگاتے ہیں اور بیرونی ممالک کو پاکستان پر ترجیح دیتے ہیں جو ۔۔۔۔ ضمیر تو ان کا بھاری ہونا چاہیے ۔ آپ کا نہیں
فارغ بھائی جان ۔۔ آپ کے نام میرا تبصرا جو میں نے لکھا وہ آپ کا سوال پبلش ہونے سے پہلے لکھا ہے ۔۔ آپ کا سوال بہت جائیز ہے ۔۔ جواب بھی ملے گا کہ پہلے میں تو جان جاو آپ ہو کہا کے ۔
جاوید گوندل صاحب
آپ کے تبصرہ سے اتفاق کرتا ہوں ۔ میں چوری کو جائز قرار نہیں دینا چاہتا بلکہ اجارہ داری کے خلاف ہوں ۔
فارغ صاحب
میں کسی غلط کام کو درست ثابت نہیں کرنا چاہتا ۔ صرف تصویر کا دوسرا رخ اور حقائق سامنے رکھے ہیں ۔ اس لئے ضمیر کو طفل تسلی نہ دیجئے ۔
کوڈ توڑنے کی بات اس زمانہ سے تعلق رکھتی ہے جب سافٹ ویئر کی نقل کا کوئی قانون معرضِ وججود میں نہیں آیا تھا ۔ آئی بی ایم والوں نے ایسا صرف اسلئے کر رکھا تھا کہ ایک ہی سافٹ ویئر بار بار ان سے خریدا جائے ۔ آپ نے جس اصول یا قانون کی طرف اشارہ کیا ہے اس کے مطابق تمام نان برینڈڈ کمپیوٹر بھی استعمال کرنا بھی جرم ہے ۔
افضل صاحب
مجھے حسرت ہی رہتی ہے کہ کوئی میرے لکھے کو سمجھنے کی کوشس کرے اور فوری طور پر فیصلہ صادر نہ کرے ۔لیکن ہوتا وہی ہے جس کا ذکر میں نے اپنے تحقیقاتی مقالہ میں کیا ہے ۔ وقت ہو نظر مار لیجئے
http://iabhopal.wordpress.com/8acommunication/
آپ سب تبصرات والوں سے مخاطب ہو کر کہنا چاہو گا ۔۔ یہ بلاگ پوسٹ سب اپتنی اپنی ترجیحات پر پڑھ رہے ہیں تو تو پھر ٹھیک ہے ۔۔ کسی کی کسی پر اجارا داری نہیں ۔
سر اجمل کی تحاریر میں ان ہو نے پڑھنے والوں کو چند سوالات لکھیں ہیں ۔۔۔ آپ سب میں سے بشمول میرے بھی کسی نے ان سوالات کے صرف اکیلے جوابات تحریر کرنا یہاں شاید ضروری ہی نہیں سمجھا ۔۔
چھوٹی سی تحریر ہے سر کی سوال پوچھے گئے ہیں ۔۔ میں تحریر میں سوال پڑھنے کا اپنا حق ادا کر رہا ہو ۔ جواب لکھ رہا ہو ۔
١ – فرنگنی قوم دنیا کی سب سے بڑی کمرشلائیز قوم ہے ۔۔ جن کا دین ایمان صرف پیسا و عداوت کا اصول ہے ۔۔ یہ بھیک بھی دینگے تو کمرشل سوچ کے ساتھ ۔ فرنگیوں کے قانون ان کی طرح کے ہیں ۔۔ ہاں آپ گر امریکن پو ۔۔ یوریپیین پو ۔۔فرنگی ہو اور آپ ان کے قانون پر گرین گارڈ ہولڈر بھی ہو تو ۔۔ ان کے قانون کی حفاظت کرنا بنتا ہے ۔
٢ – سیاست اپنے آپ میں جو وقار و تقدس رکھتی ہیں ۔۔ ہم نے اس کا خود ستیا ناس پھیرا ہوا ہے ۔۔ ہم جس کو سیاست گند ہے لکھ رہے ہوتے ہیں ۔۔ پتا نہیں خود کو وہ کہا کا سمجھتے ہیں ۔ جمہوری نارے لگتے رہے ہیں لگتے رہے گے ۔۔ چاہے ہم جو بھی ہو جائیں ۔
٣ ۔ اللہ تعلی نے انسان کو انٹیلیکچول ہونے کی جو ایک سفت عنائیت کی ہے ( گناہ و اچھے امال کی تشخیص کا آٹو میٹک نظام ) اس کی روح کی سمجھ انسان کو ایک عام انسان سے بھلے شاہ کا بھی درجا بھی دے سکتی ہے ۔۔ بھلے شاہ ! جس نے دنیا میں نکل کر اس میں رہ کر ۔۔ پھر دنیا والوں کو دنیا کے بارے میں لکھا ۔۔ پر بات وہی ہے ۔۔ کہ بھلے شاہ کوئی سائیسنسدان نہیں تھا سو سائینسدانوں کا بھلے شاہ کون ؟ ۔۔۔ آئینسٹائین
٤ ۔ جرم و گناہ کا تعین یہاں کون کر رہا ہے ؟ ارے حق کس نے دے دیا ایک انسان کو کے وہ لکھے کہ پینٹ پہن نا حرام ہے ۔۔ جرم و گناہ کا تعین یہاں سب کا اپنا اپنا انٹیلیکچول ہی کر رہا ہے ۔۔ سو گر آپ چاہتے ہو کہ آپ کے انٹیلیکچول کو ترجیح ملے ۔۔ تو وہ گر باعث اجر خود کو سابط کر لیگا تو اپنے آپ لوگ اس کو اپنائینگے ۔۔ اسلام کا نا میں ٹھیکے دار ہو نا کسی اور بس باتیں کرنے والی اٍک جیتی روح کو ٹھیکے داری کے لائیق سمجھتا ہو ۔
٥ – آخری سوال کا جواب میرے اوپر تبصرات میں درج ہے کہی ۔
چلو جس کی کوئی پہچان نہیں وہ بھی اسلام کا ڈنڈا لیکر آ دھمکے ہیں اس طرح کے لوگوں کا تبصرہ کاٹ دینا چاہیے جو اپنی پہچان چھپاتا ہے وہ بھی چوری ہی ہے ۔
جس جس نے کمنٹس کیا ہے وہ سچ سچ بتائے کہ اگر وہ ذاتی کمپیوٹر رکھتا ہے۔۔ کمپنی کا نہیں۔۔اس میں ونڈو اصلی ہے کہ کاپی کی جسے احباب چوری کی فرمارہے ہیں اس میں موجود کتنے سافٹ ویئر اصلی کمپنی کے ہیں میرے بھائیوں پہلے اپنے آپ کو رشوت ۔ سود ۔ دھوکا بازی ۔ حق تلفی جیسی لعنتوں سے پاک کر لو پھر کہنا یہ چوری ہے پھر کرنا امریکہ اور یورپ کی طرف داری یہ سب بنانے والا مائیکرو سافٹ خود چور ہے یورپ کے ساتھ اس کے مقدمے ثبوت ہیں ۔
اچھی بحث جاری ہے، یقینن کچھ غلط فہمیاں دور ہوں گی، میں چونکہ اپنا نقطہ نظر بیان کر چکا اسلیے کچھ اور نہیں کہوں گا۔
افتخار صاحب کی طرح میں بھی چوری کے حق میں نہیں ہوں مگر میرے خیال میں تجارت کا یہ استحصالی انداز جو ہمیشہ سے اہل مغرب کا وصف رہا ہے برائی کی اصل جڑ ہے نہ کہ چوری۔ اگر استحصال نہ ہو انصاف کے ساتھ تجارت و فروخت ہو تو چوری خود بخود کم ہوجائیگی۔
ایک بات اگر واشگاف انداز میں کہدیں تو کتنا اچھا ہو کہ سافٹ وئر پائریسی چوری ہے
اور استحصال کا نعرہ لگا کر چوری کو جائز قرار نہ دیں۔۔ اگر کوئی چیز آپ کی قوت خرید سے باہر ہے تو آپ اسے چوری تو نہیں کریں گے؟ فرض کریں میں ایک پروگرام بناتا ہوں اور اسکی قیمت ایسی رکھتا ہوں کے آپ کے چھکے چھوٹ جائیں تو کیا آپ اسے چوری کر لیں گے اور پھر دل کو خوش کرنے کو مجھے استحصالی قرار دیں گے؟
افتخار صاحب آپ ثابت کردیں کہ نان برانڈڈ سسٹم چوری ہے۔۔۔ تمام کمپنیاں بشمول انٹیل اپنے پارٹس علیحدہ بیچتیں ہیں اور آپ جائز طریقے سے انہیں جوڑ کر سسٹم بنا سکتے ہیں جو کہ ھر ملک میں ہو رھا ہے اور کہیں ایسا مقدمہ میرے علم میں نھیں جو برانڈ میکرز( ڈیل آئی بی ایم ( نے اس کو روکنے کو کیا ہو۔۔
ریحان بھائی آپ لوکیشن ڈیپینڈنٹ جواب کیوں دینا چاھتے ہیں
کامران بھائی!
یہاں یہ نکتہ زیر بحث ہے کہ سوفٹ وئیر پہ اجارہ داری کسی کی اور کیوں کر ہے۔ اور اس وجہ سے وہ ادارے بھاری منافع کما رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں لوگ ان اداروں کی شرائط اور قیمت پہ اصلی سوفٹ وئیر نہیں خرید سکتے جس وجہ سے پاکستان کے بازاروں میں ہر قسم کے پائریسی سوفٹ وئیر باآسانی دستیاب ہیں۔ وغیرہ تو اس پہ سب نے اپنی رائے دی ہے۔
ہم پہ لازم ہے کہ اسلام کے قوانین کے اندر رہیں نا کہ اسلام کو اپنے استعمال کے لئیے جائز قرار دیں۔
اسلام کے بارے میں ہمیں ایک بات ذہن میں ہمیشہ رکھنی چاہئیے۔ اسلام میں ہر طے شدہ بات دنیا کے رہنے تک طے ہے۔ اسلام کے جو احکامات ہیں وہ پاکستانی قوم کی اپنی مجبوریوں یا مستیوں کی وجہ سے تبدیل نہیں کئیے جاسکتے۔ جسطرح اشد ضرورت پہ بینک پہ ڈاکہ ڈالنا یا کسی راہگیر کی جیب کاٹنا منع ہے اسی طرح کسی سے کچھ شرائط طے کر کے پھر جانا بھی درست نہیں۔ کسی بھی مسلمان قوم ، یا کسی بھی آئیندہ آنے والے دور میں ، اسلام کے بتائے گئے اصولوں اور قوانین سے سر مو اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔
عقلمند لوگ مسئلہ درپیش آنے پہ کسی مشکل سے دوچار ہونے پہ مل جل کر اس کا کوئی حل ڈہونڈھ نکالتے ہیں ۔ نا کہ ایک غلط کام کی روش کو آگے بڑھاتے ہیں۔
فارغ
مجھے کاونٹر کوشن لکھنے سے پہلے تھوڑا سا خیال کر لو ۔۔ آپ کو میری انٹیشنز کا پتا ہے نہیں ۔۔ آپ کو جواب دینا میرا فرض تھا جو پورا ہوگیا ۔۔ آپ اوپر مجھے پڑھنا پسند کروگے تو جوابات مل جائینگے ۔۔ میں تو بس آپ کو اپنے نالج میں اضافہ کے لیے جان نا چاہتا تھا ۔۔ ( تھا )
جناب ہو سکتا ہے جو فتوٰی جاری ہوا ہے وہ مائیکرو سافٹ والوں نے ہی کروایا ہو ۔ :D
ویسے جناب ایک بات ہے کون پاگل 12000 روپے کی ونڈو انسٹال کرے گا صرف ونڈو سے سب کام نہیں ہوتے باقی پروگرام بھی چاہیں اگر ایک ایک کا حساب کیا جائے تو ایک پی سی کی قیمت کہاں تک چلی جائے گی ۔ مجھے لگتا ہے آپ لوگ اس پر بھی کوئی صدارتی آرڈیننس جاری کروانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
زرہ اس لنک کو ملاحظہ فرمائیں قیمتیں پاکستانی روپے میں ہیں صرف آپریٹنگ سسٹم انسٹال ملتا ہے باقی آپ کی ذمہ داری ۔
http://www.beliscity.com/computers_browse_desktops/c4_131/
السلام علیکم۔
میرا ایک سوال ہے۔ اگر کوئی جواب دے سکے تو بڑی مہربانی ہوگی۔
جیسا کہ نعمان صاحب نے وضاحت کی ہے کہ سافٹ وئیر کی فی نقل قیمت وصول کرنا شریعت میں بیان کردہ تجارت کے اصولوں کے خلاف ہے تو (اگر یہ نظریہ درست ہے تو) کیا یہ صرف بیچنے والی کمپنی کی حد تک ہے یا اگر میں اس سے خریدتا ہوں تو یہ میرے لیے بھی ناجائز ہوگا (جب تک اس سافٹ وئیر کا استعمال مجبوری نہ ہو)؟
باقی معاہدے کی خلاف ورزی تو گناہ ہے ہی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسا معاہدہ کرنا جائز ہے؟ :?
قیمت یقینا ادا کرنا چاہیے مگر ان کمپنیوں کو بھی ہماری کھال آہستہ آہستہ اتارنی چاہیے۔ ای بی ایم اس کوچے سے اپنی حرکتوں کی وجہ سے نکلی۔ مثلا اے ایس 400 کا پروگرام اگر کریش کر جاتا تھا تو معاہدے کے مطابق آپ خود اس کو اپ نہیں کر سکتے تھے بلکہ آی بی ایم کا نمایندہ آکر یہ “مشکل فریضہ” انجام دیتا تھا اور فی گھنٹہ دام وصول کرتا تھا- مشرف کے دور میں بل گیٹس کی ملاقات مشرف سے ڈیواس میں کرای گٰیی۔ مایکروسوفٹ نے پاکستان مین تمام پبلک سیکٹردفاتر میں سوفٹویر استعمال کرنے کے وہ بھی بغیر آفٹر سیل سپورٹ کے، 22 ارب روپے مانگے چناچہ یہ بیل منڈھے نہ چڑہ سکی- یورپ میں بھی اسے مارکیٹ پر اجارہ داری اور ہتھکنڈے استعمال کرنے متعدد بار جرمانہ سنایا گیا۔ اب ہمارے ہاں ایک چھوٹے کاروبار کا حامل شخص کیسے اتنی بڑی قیمت ادا کر سکتا ہے چناچہ وہ مینول طریقہ کار کو ترجیح دیتا ہے۔ میرے خھیال میں اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ مل کر اپنا اردو آپریٹنگ سسٹم بناے جو عام کم تعلیم یافتہ انسان بھی مفت استعمال کر سکے۔
Pingback: يوں نہ تھا ميں نے فقط چاہا تھا يوں ہو جائے » سافٹ ویر پائریسی۔ ایک مکروہ فعل ؟
میرے خیال میں تو اصلی کتابیں اور سافٹ وئیر بہت مہنگے ہیں اور بہت کم لوگ ان کو افورڈ کر سکتے ہیں
لیکن جو کر سکتے ہیں وہ اصلی ہی استعمال کرتے ہیں کہ اصل نقل کے فرق سے آگاہ ہیں
لیکن جو نہیں کر سکتے میرےخیال میں ان کے لئے بالکل جائز ہے
علم کو صرف اس بنا پر نہیں روکا جا سکتا کہ دوسرا اس کی قیمت ادا نہیں کر سکتا
پہلے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ سافٹویر کی نقل بنا کر بیچنےوالے کسے نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں؟ اب یہاں یہ خیال رہے کہ سافٹویر کی نقل ایک جعلی سافٹویر نہیں ہوتا بلکہ اصل سافٹویر کی وہ نقل ہوتا ہے جس کا اس سافٹویر کو تخلیق کرنے والے کو کوئی صلہ نہیں ملتا۔ ایک سافٹویر انجنیئر برسوں کی محنت اور ایک سافٹویر کمپنی کروڑوں ڈالر خرچ کرکے جس سافٹویر کو بناتے ہیں، یار لوگ پانچ روپے میں اس کا چھاپہ لگا کر ڈکار جاتے ہیں۔ محنت کش کو مزدوری دینا تو ضروری ہے نا کہ اسلام اس سے بھی منع کرتا ہے؟ آپ کسی کی محنت کو دھونس دھاندلی کے زور پر اپنے فائدہ کے لئے استعمال کریں بلا اجازت یہ فعل تو کسی بھی قانون و اخلاقی دائرہ سے باہر ہے اور کم از کم شرع کی ایسی کوئی کھینچ تان بھی میرے علم میں اب تک نہیں آئی کہ جس کے ذریعے اسے جائز سمجھا جاسکے۔ البتہ “نظریہ ضرورت” کے تحت تو آپ جس کام کو مرضی جائز قرار دے لیں۔ قیمت علم کی نہیں اس محنت کی ہوتی ہے جو اس چیز کو تخلیق کرنے میں صرف ہوئی ہے۔ اگر سستے سافٹویر کا شوق ہے تو اپنے ملک میں تیار کیجئے نئے سافٹویر۔ آخر مائیکروسافٹ نے بھی تو شروع سے سب کچھ کا آغاز کیا تھا۔ بیس برس بنے انہیںیہاںتک پہنچنے میں۔ آپ بھی بسم اللہ کیجئے، بیس برس بعد شائد آپ بھی پائیریسی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہوں
موضوع سے تھوڑا ہٹ کر میرے نزدیک تو سافٹ وئیر کے ذریعے روزی کمانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سافٹ وئیر کو آزاد رکھا جائے اور اس کے لیے اضافی خدمات فراہم کر کے ان کی مزدوری وصول کی جائے۔ جیسا کہ لال ٹوپی (Red Hat) اور کئی دیگر ادارے کرتے ہیں۔ اس طرح سے کمائی گئی روزی میں حرام یا ناجائز منافع خوری کا شبہ نہیں رہتا (یا ہو سکتا ہے کہ ہو لیکن بہت کم ہوگا)۔ اور دنیاوی فوائد بھی بہت ہیں۔
اقتباس از خرم:
“اگر سستے سافٹویر کا شوق ہے تو اپنے ملک میں تیار کیجئے نئے سافٹویر۔ آخر مائیکروسافٹ نے بھی تو شروع سے سب کچھ کا آغاز کیا تھا۔ بیس برس بنے انہیںیہاںتک پہنچنے میں۔”
مائیکروسافٹ نے اپنے کام کا آغاز شروع سے نہیں کیا تھا۔ بڑے بدنام ہیں وہ بھی۔ :P لیکن اس پر بات کروں گا تو پھر دنیا والے یہ سمجھ بیٹھیں گے کہ میں سافٹ وئیر کے معاہدے توڑنے کو غلط نہیں سمجھتا۔
اصل بات جو میں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ابتداء سے سب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ بات کو مختصر رکھنے کے لیے صرف یہ ربط دے دیتا ہوں کہ جو چاہے خود ہی سمجھ لے۔
http://www.gnu.org
اوپر والے تبصرے میں ترمیم:
اصل بات جو میں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ موجودہ سہولیات کے ساتھ ہمیں ابتداء سے سب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔
فارغ صاحب
آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ مائیکوسافٹ بھی چوری کے پارٹس استعمال کرتا ہے ۔ اگر جاپان کے سن کم٫يوٹر پر جگاشاہی پابندی اور اور پھر انڈرہینڈ ڈیل نہ کی جاتی تو آج نہ مائیکروسافٹ ہوتا ۔ نہ انٹل اور نہ آئی بی ایم صرف سن کمپیوٹر دنیا میں بِک رہے ہوتے ۔ مجھے زیادہ لکھنے پر مجبور نہ کریں ۔ میں ہوائی باتیں کرنے کا عادی نہیں ہوں بلکہ ٹھوس معلومات کی بنیاد پر بات کرتا ہوں ۔ آپ کی معلومات مجھے چوری اور ناچوری ثابت کرنے کیلئے نہیں چاہئیں وہ تو بہت لوگ ثابت کرنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔ مجھے ان سوالات کا جواب چاہیئے جو اُٹھائے گئے ہیں
محمد سعد صاحب
اگر خریدار کو علم ہو کہ مال چوری کا ہے اور خرید لے تو گناہگار ہو گا ۔
معاہدہ کیسا اور کس نے کیا ؟ جس معاہدے کی بات ہو رہی ہے وہ سافٹ ویئر انسٹال کرتے وقت قبول یا ناقبول پر کلک کرنا ہوتا ہے ۔ بھاری اکثریت اسے پڑھے بغیر کلک کر دیتي ہے ۔ ایک شخص کمپیوٹر خریدتا ہے ۔ اس میں ونڈوز انسٹال ہے تو کیا وہ خریدار دکاندار کو سوال کرے گا کہ ونڈوز چوری کی ہے یا اصلی ؟ ہمارے ملک میں کمپیوٹر استعمال کرنے والوں میں سے اکثر کو اس معاملہ کا علم ہی نہیں ہے ۔
محمد ریاض شاہد صاحب
آپ نے عملی صورت بیان کی ہے جس پر میں بھي قارئین کو لانا چاہ رہا ہوں
خرم صاحب
خوش آمدید ۔ میں نے کچھ سوال پوچھے ہیں جن کا عقلمند لوگوں سے منطقی جواب مانگا ہے ۔ اسلام ہم ہر اس جگہ ثبت کر دیتے ہیں جہاں فرنگی کا فائدہ ہو ۔ کیا باقی سب اعمال میں ہمیں اسلام یاد ہوتا ہے ؟
رہا سافٹ ویئر بنانا تو یہ کام پاکستان کے جوان دو دہائیوں سے کر رہے ہیں اور ان کی مقامی حوصلہ افزائی نہ ہونے کی وجہ سے سب فرنگیوں کی ملکیت بن جاتا ہے جس پر وہ منہ مانگی قیمت لگاتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو بازار کا بھاؤ معلوم ہو کہ ایک کمپیوٹر مناسب طریقہ سے چالو کرنے کیلئے لگ بھگ پچاس ہزار روپے کی اصلی سافٹ ویئر درکار ہوتی ہے ۔ جبکہ ایک عام پاکستانی بیس ہزار روپے میں کمپیوٹر خریدتا ہے
میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی کمپنی ان شرائط پر سافٹ وئیر فروخت کر رہی ہے، جیسا کہ نعمان صاحب نے نشاندہی کی، اور ایک گاہک ان شرائط کو قبول کر کے وہ سافٹ وئیر (اصل قیمت پر) خرید لیتا ہے، تو کیا یہ اس گاہک کے لیے جائز ہے؟ یعنی کمپنی کے لیے ایسی شرائط پر فروخت کرنا غلط ہے تو کیا گاہک کے لیے بھی ایسی شرائط پر خریدنا غلط ہوگا؟ یا بحیثیت گاہک ایسا معاہدہ جائز ہوگا؟
باقی جو چوری اور معاہدے کی خلاف ورزی والا طریقہ ہے، اس میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ غلط ہے۔ بس اسی میں تھوڑا سا کنفیوژن شریف ہے۔
السلام علیکم
ایک اور پہلو توجھ طلب ھے اور وہ ہے قوت خرید۔ امریکھ میں ایک اوسط درجے کا بندہ 3000 ڈالر کماتا ہے۔ اصلی ایکس پی ہمارے ہاں قریبا دس ہزار روپے کی ہے۔ آفس پروگرام اندازا 20000 روپیے کا ہے۔ انٹی وایرس 5000 روپے کا ہے۔ یہ بنے 35000 روپے جو ہمارے اوسط آدمی کی چار ماہ کی تنخواہ ہے۔ غیر ملکی ناشر تیسری دنیا کے لیے بھارت سے اپنی کتابوں کے کم قیمت ایڈیشن چھاپتے ہیں اسی طرح سافٹ ویر میں ہونا چاہیے ورنھ ہم لوگ توشدھ سافٹ ویرافورڈ نھ کر سکنے کی وجھ سے ہا تہ چوری کریں گے یا اس سے محروم رہیں گے
محمد سعد صاحب
میرا ذہن تو کہتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ مہنگی چیز خریدنے سے بچنا چاہیئے اور اس کے خلاف احتجاج کرنا چاہیئے ۔ اگر کوئی طاقتور کی تابعداری کرتا ہے تو وہ باقی لوگوں کا استحصال کرنے میں شریک بن جاتا ہے ۔
اسرار الحق صاحب
یہ نقطہ اہم ہے جس پر اکثر قارئین توجہ نہیں دے رہے ۔ سافٹ ویئر کا جو خرچہ آپ نے لکھا ہے وہ میرے حساب سے 50000 روپے بنتا ہے ۔
السلام و علیکم!
کتابوں کے بارے میں آپ کا استدلال بالکل درست ہے۔ جب غیر اقوام دھڑا دھڑ عربی کتب کے ترجم کر رہے تھے تو کوئی کاپی رائٹ وجود میں نہیں آیا۔ کوئی بھی کہہ سکتا ہیں کہ یہ عربوں کی کوتاہی تھی تو بھائی اخلاقی قدر بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔(اب یہ حال ہے کہ یہاں ایک مترجم اس لیئے پریشان ہو رہا ہے کہ کہیں ہیری پوٹر کا ترجمہ کرنے پر اسے دھر نہ لیا جائے۔)
ان مسروقہ کتابوں سے گوروں کی حاصل ہونے والی تعلیم کے نیتیجے میں جو جو ترقی اور علم و فن کے سمندر وجود میں آئے ہیں انکا اصل منبع تو بہرحال غیر قانونی تراجم ہی ہیں نا۔
تو جناب چوری کے مال سے تیار شدہ مال کی قیمت مقرر کی جائے تو کیا یہ جائز ہے؟
ابو کاشان صاحب
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے ایسے مواقع مہیا کئے کہ ایسی بہت سی معلومات حاصل ہوئیں ۔ ہمارے ہموطن زیادہ تر فرنگیوں کی تحاریر پڑھتے ہین اور اور ان کے جھوٹ کو بھی سچ سمجھتے ہیں ۔
اگر یہاںیہ شرط رکھ دی جائے کہ صرف وہ لوگ پائریسی کے خلاف بول سکتے ہیں جنہوںنے کمپیوٹر اور دوسرے علوم پائریٹڈ سافٹ وئیر اور نقل شدہ کتابوں سے نہیں سیکھے تو شائد یہاں مکمل سکوت چھا جائے
Pingback: سافٹ ویر پائریسی، حلال یاحرام « Nuzhat Ishaq
نزہت اسحاق صاحب
تبصرہ کا شکریہ ۔ میں نے نقل شدہ مال بیچنے کی حمائت نہیں کی بلکہ اجارہ داری کے ذریعہ بے جا مال بنانے کی نشان دہی کی ہے ۔ آپ مجھے صرف اتنا بتا دیجئے کہ اجارہ داری کے ذریعہ بے جا مال بنانا کس معاشرے یا مذہب کے مطابق جائز ہے
نزہت اسحاق صاحب
تبصرہ کا شکریہ ۔ میں نے نقل شدہ مال بیچنے کی حمائت نہیں کی بلکہ اجارہ داری کے ذریعہ بے جا مال بنانے کی نشان دہی کی ہے ۔ آپ مجھے صرف اتنا بتا دیجئے کہ اجارہ داری کے ذریعہ بے جا مال بنانا کس معاشرے یا مذہب کے مطابق جائز ہے
یہ پانچ بھائیوں کے ایک ہی امریکی پاسپورٹ کو بار بار استعمال کر کے امریکہ جانے والی بات کافی ثقیل ہے زود ہضم نہیں ۔ کیا امریکا کے امیگریشن افسران اتنے ہی نا اہل ہیں کہ ایسا ہونے دیا گیا ۔ محترم یہ ان کہانیوں میں سے ایک ہے جو میرے کہانی باز ہموطن چھوڑتے رہتے ہیں
جناب بات دراصل کُچھ یوں ہے کہ میں انگریزوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہوں۔۔
جیسا کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔۔۔ تو یہ چھوٹے موٹے سافٹ وئیرز کیا معنی رکھتے ہیں
میں خوس کئی سافٹوئیر کے کریک بناتا ہوں
ہاہاہاہاہہاہاہا
ارے صاحبو کسی طرح تو انگریز کو نقصان پُہنچانے دو
ہی ہی ہی ہی