دنیا میں کچھ ایسے عوامل یا واقعات ہوتے رہتے ہیں جو انسان کی عقل و سوچ سے باہر ہوتے ہیں شاید انہی کو معجزہ کہا جاتا ہے ۔ یہ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی کا بنایا نظام ہے ۔ ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں جن کو اللہ پر یقین نہ رکھنے والے نہیں سمجھ سکتے
جڑواں کائری اور بری ایل 17 اکتوبر 1995ء کو میسا چوسیٹ میموریل ہسپتال میں پیدا ہوئیں ۔ پیدائش کے وقت ہر ایک کا وزن 2 پاؤنڈ تھا اور ان کی صحت کچھ ٹھیک نہ تھی ۔ اُن دونوں کو علیحدہ علیحدہ اِنکیوبیٹرز میں رکھا دیا گیا ۔ کائری کا وزن بڑھنا شروع ہو گیا اور وہ صحتمند ہوتی گئی لیکن بری ایل کا وزن نہ بڑھا اور اسے کوئی افاقہ نہ ہوا ۔ وہ روتی رہتی جس سے اس کی سانس بھی رُکنے لگتی اور رنگ نیلا ہو جاتا ۔ کچھ دن بعد بری ایل کی حالت خراب ہو گئی ۔ نرس نے بہت جتن کئے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ آخر نرس نے ہسپتال کے قوائد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بری ایل کو کائری کے ساتھ اسکے اِنکوبیٹر میں ڈال دیا ۔ چند ہی لمحے بعد کائری نے کروٹ لے کر اپنا ایک بازو بری ایل پر رکھ دیا ۔ اس کے بعد بری ایل کی حالت سدھرنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی سانس ٹھیک ہو گئی اور رنگ بھی گلابی ہو گیا اور وہ صحتمند ہونے لگی
میں اُن دنوں لبیا میں تھا ہمیں پاکستان سے ڈاک ڈپلومیٹک بیگ کے ذریعہ تین دن میں مل جایا کرتی تھی ۔ اپریل 1981ء میں میری بڑی بہن کا خط ملا کہ “والد صاحب تمہیں یاد کرتے ہیں”۔ میرے ذہن نے کہا کہ والد صاحب تو ہمیشہ ہی یاد کرتے ہیں ۔ یہ کچھ گڑبڑ ہے ۔ میں نے دو ہفتے کی چھٹی لی اور بیوی بچوں سمیت پاکستان پہنچا ۔ سٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی اپنے گھر پہنچا تو والد صاحب کو وہاں نہ پا کر سیدھا بڑی بہن کے گھر واہ چھاؤنی پہنچا ۔ دیکھا تو والد صاحب بے سُدھ بستر پر لیٹے ہیں اور خُون چڑھایا جا رہا ہے
میں نے اپنی بڑی بہن جو ڈاکٹر اور پیتھالوجسٹ ہیں کو کمرہ سے باہر لیجا کر پوچھا کہ ” کیا ہوا ؟” وہ آنسو بہاتے ہوئے بولیں “سپیشلسٹس بورڈ نے نااُمید کر دیا تھا اور کہا کہ ان کے بڑے بیٹے کو بُلا لیں تو میں نے آپ کو خط لکھ دیا”۔ ہم کمرہ میں واپس گئے تو میری بیوی اور بچے پریشانی میں گُم سُم کھڑے میرے والد صاحب کی طرف دیکھے جا رہے تھے ۔ باجی نے ابا جان کو ہلا کر کہا ” ابا جی ۔ دیکھیں اجمل آیا ہے اور ساتھ بچے بھی ہیں “۔ والد صاحب نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا اور کچھ کہنا چاہا مگر نہ کہہ سکے ۔ میں نے آگے بڑھ کر والد صاحب کا ہاتھ چُوما اور پھر اُن کا ہاتھ پکڑے اُن کے بستر پر بیٹھ گیا
دوسرے دن صبح ڈاکٹر صاحب دیکھنے آئے تو مجھے دیکھ کر کہنے لگے “اچھا کیاکہ آپ آ گئے ۔ ہم اپنے پورے جتن کر چکے تھے “۔ والد صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے تو والد صاحب نحیف آواز میں بولے “ڈاکٹر صاحب ۔ یہ میرا بیٹا ہے “۔ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ ڈاکٹر صاحب نے میری طرف دیکھ کر والد صاحب سے کہا “ہاں ۔ اب اِن شاء اللہ آپ جلد ٹھیک ہو جائیں”
ڈاکٹر صاحب روزانہ آتے تھے ۔ تین دن بعد والد صاحب بیٹھ کر یخنی پی رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب پہنچے اور والد صاحب کو دیکھتے ہی بڑے جوش سے بولے “بزرگوار ۔ آپ نے ہمیں فیل کر دیا اور اجمل صاحب پاس ہو گئے ۔ اب اللہ کے فضل سے آپ تیزی کے ساتھ صحتمند ہو رہے ہیں”
اللہ کی کرم نوازی کہ والد صاحب دس دن میں بالکل تندرست ہو گئے ۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا ۔ صرف میرا قُرب تھا جس کو بہانہ بنا کر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے شفاء دینا تھی
رب دیاں رب ای جانے۔۔۔
جعفر صاحب
سوہنے رب دیاں اوہی جانے جیہڑا اوہنوں پچھانے
” بندہ بندے دا دارو ہوندا اے ” یہ فقرے آج بھی میں اپنی ماں کے منہ سے سنتا ہوں واقعی سچ کہتی ہیں ۔ اسکی وضاحت آپ کی پوسٹ ہے ۔
دل کو چھوتی باتیں ہیں۔ مان باپ اللہ تعالٰی کی نعمت ہیں۔ مان باپ کا یا کسی ایک رحمۃ اللہ علیہ ہوجانا۔ اولاد کے لئیے وہ کمی و محرومی ہے ۔جو ساری عمر محرومی کا احساس دلاتی ہے۔
جس تن لاگے وہ تن جانے۔
مُحترم اجمل انکل جي
السلامُ عليکُم
سُبحان اللہ
حيرت تو ہوتی ہے ليکِن اللہ تعاليٰ کی رحمتوں اور نوازِشوں سے کون اِنکاری ہوگا انکل جی آپ کے ابُو کی بيماری کا پڑھ کر مُجھے بھی ايسی ہی ايک انہونی ياد آگئ کہ ميری امّی کو برين ہيمبرج ہُوا تھا مامُوں کے پاس لندن تھيں کوئ بچہ اُن کے پاس نہيں جا سکتا تھا ميں بھی اپنے شوہر کی فيلڈ کی جاب کی وجہ سے اُس وقت پہنچی کہ اُن کے پاس صِرف چند گھنٹے ہی باقی بچے تھے ہوش اور بے ہوشی کے اِس تھوڑے سے وقفے ميں بھی دِماغ کو اِس کا ہوش تھا کہ مامُوں سے کہہ رہی تھيں آج دو نومبر ہے نا مامُوں نے بھی جان بُوجھ کر کہا کِيُوں باجی کيُوں پُوچھ رہی ہيں تو کہتی ہيں آج دو نومبر ہے اور کل تين نومبر ہے کل ميری شاہدہ نے آنا ہے اور اُنہوں نے نا جانے کِس طرح خُود کو مری خاطِر پُوری کوشِشوں سے مُجھے ميری بيٹی اور ميرے شوہر کو ديکھنے کے لِۓ آنکھيں کھول ديں ڈاکٹر حيران تھے کہ يہ بہُت تکليف ميں ہيں کيسے کيا اِنہوں نے ايسا ؟کيا چيز ہے مامتا
کی بورڈ کيُوں نظر نہيں آرہا ؟
ماں، باپ اور اولاد قدرت کا انمول تحفہ ہیں، ان کے اندرپائی جانی والی محب اوراثارسے اللہ کی شان اوربزرگی کا یقین ہوتا ہے۔ اورایسی مثالوں سے اس یقین اور ایمان میں مذید اضافہ ہوتا ہے۔
اللہ آپ کو جزائےخیردے اوران اصحاب کواپنے والدین کی خدمت کی توفیق عطاکرے جن کو یہ انمول نعمت ابھی تک حاصل ہے۔
کریکشن۔
محبت اور ایثار
جب ماںباپ سے متعلق کوئی بات ہوتی ہے تو میرے پاس لفظ ختم ہو جاتے ہیں
بچتے ہیںتو صرف جرم اور نا اہلیاں