پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے بینچ نے کی ۔ سپریم کورٹ نے عبوری حکم دیا ہے کہ درخواستوں کے حتمی فیصلے تک کاربن ٹیکس وصول نہ کیا جائے جبکہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کاربن ٹیکس وصول نہ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے ۔
حکومت کو اب پیچش کی بیماری ہو جائے گی ۔
اسے کہتے ہیں، تھوکا ہوا منہ کو آنا
حکومت عدالت میں روئے گی اور بیک ڈور سے مذاکرات کرے گی عدلیہ نہ مانی تو حکومت تڑیاں لگائے گی ۔
حکومت کا امتحان ہے، عیاشیاں چھوڑے یا پھرعوام کی ناک کسی اورطرف سے پکڑے، دیکھتے ہیں عوام میں اپنے خواص کے لیے کتنی برداشت ہے۔
غالبا” آپ بیوروکریٹس کی صلاحیتوں کو انڈر اسٹیمیٹ کر رہے ہیں۔ کوی اور راہ نکال لیں گے
کامران صاحب
یہ عدالت تڑیوں میں تو نہیں آئے گی
چوہدری حشمت صاحب
کمر کس لیجئیے ۔ امتحان کا وقت بہت قریب آن پہنچا ہے
محمد ریاض شاہد صاحب
میں بیوروکریٹس کے ساتھ ہی پلا بڑھا ہوں اور ان کے اطوار سے بخوبی واقف ہوں ۔ بس دعا کیجئے کہ عوام کی اکثریت ججوں کے ساتھ رہے پھر اِن شاء اللہ ہمارا ملک اس بحران سے نکل آئے گا
انشااللہ
کاربن ٹیکس نامی سے حکومت پاکستان کو صرف ایک سال میں ایک سو بیس ارب روپے ملنے کی توقع تھی۔ جو کہنے کو تو پٹرول اور گیس کے استعمال سے ماحولیاتی آلودگی دور کرنے کے کام آتا مگر درحقیقت یہ وہ اندھی کمائی تھی جو حکومت بے بس اور لاچار عوام کی جیبوں سے زبردستی نکلوانا چاہتی ہے۔
پاکستان کے ایک بڑے اخبار کی آج کی ایک خبر یہاں نقل کر رہا ہوں ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری حکومت اور تیل کمپنیاں غریب عوام سے کس قدر منافع کماتی ہیں اور کیونکر پاکستانی زر مبادلہ باہر چلا جاتا ہے ۔۔
اسلام آباد…پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر جسٹس ریٹائرڈ بھگوان داس کمیشن نے قیمتوں کے تعین پر مختصر ، درمیانی اور طویل مدتی کی حکمت عملی بنانے اور ایچ او بی سی ، لائٹ ڈیزل اور جے پی فور ، ایندھن کو ڈی ریگولیٹ کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں ۔پٹرولیم قیمتوں کے تعین طریقہ کار پر سپریم کورٹ کی طرف سے تشکیل کردہ بھگوان داس کمیشن کی میڈیا کو جاری رپورٹ میں تجویز مختصر مدتی حکمت عملی میں کہا گیا ہے کہ تیل اور توانائی کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی قائم ہونی چاہیے ۔ رپورٹ کی سفارشات کے مطابق پارکو آئل ریفائنری میں پٹرولیم کے خصوصی ذخائر کی صلاحیت ہونی چاہیے ۔ اس کے ساتھ ایچ او بی سی ، لائٹ ڈیزل اور جے پی ون فیول کی قیمتوں کو بھی ڈی ریگولیٹ کیا جانا چاہیے ۔ کمیشن نے پٹرولیم قیمتوں کی درمیانی مدتی حکمت عملی میں اقتصادیات اور تیل کے ماہرین کی کمیٹی قائم کر کے ایکس ریفائنری قیمتوں کا فارمولا بنانے کی تجویز دی ہے ۔ اوگرا اور وزرت پٹرولیم کی صلاحیت میں اضافہ کیا جانا چاہیے ۔ کمیشن کی رپورٹ میں پٹرولیم مصنوعات سے حکومت اور تیل کمپنیوں کو حاصل فوائد کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں ، اس کے مطابق حکومت نے سال2001 سے مارچ2009 تک پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی مد میں 10 کھرب 23ارب64 کروڑ روپے حاصل کیے ۔اسی طرح پی ایس او نے2001 کے مقابلے میں سال2007-08 میں440 فیصد ، شیل پاکستان نے483 فیصد ، شیوران نے 170 فیصد اور اٹک کمپنی نے ایک ہزار تین سو اٹھانوے فیصد زیادہ کمایا
حکومت نے کیا کرنا ہے
حکومت اس بات پر پورا ایمان رکھتی ہے کہ ”ایک در بند تو سو در کھلے“
آج کی بھی یہ خبر ہے کہ اوگرا کے نوٹیفکیشن کے بعد بھی پرانے نرخوں پر پیٹرول بکتا رہا لیکن حکومت کی طرف سے کوئی اقدام دیکھنے کو نہیں ملا
http://newsurdu.net/2009/07/pakistan-oil-price-5/
محترم اجمل صاحب ۔
عوام تو بچاری ہربارکمرکستی ہے مگر ہرباراسکے ساتھ ہاتھ ہوجاتاہے، یہاں ایک سے بڑھ کرایک شاہ راہ تک رہاہے اور مجھے تو ڈر اس وقت کا کہ کہیں پھرمزدوروں کوزندہ بھٹی میں نہ ڈالا جائے یا اپنی انڈسٹری بچانے کےلیے پانی کا رخ غریب کی بستیوں اورانکی کھڑی فصلوں کی طرف نہ کردیا جائے۔
آپ کا احترام کرتا ہوں اس خاموش ہوجاتاہوں، چلیں آپ ان کے لیےدوبارہ کوشش کرلیں مگرہونا تووہی ہے جورب کو منطورہے۔
یہ جسٹس صاحب بھی بس ایک حد تک ہی جاسکتےہیں، جتنا انکو کہا جائےگا، اور یہ آپ مجھ سے بہتر جانتےہیں۔ ویسے برطانوی وزیر یوں ہی دورے پرتو نہیں آگیا، کس کو کیا کہنا تھا اب آپ سے کیا پردا۔