آج ہم ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں کہ جہاں
سچ کو جھوٹ قرار دیا جاتا ہے اور جھوٹ کو عام کیا جاتا ہے
اپنے عیبوں پر سے نظر ہٹانے کے لئے وہی عیب دوسروں میں بتائے جاتے ہیں
سچ کی تلاش بہت مشکل بنا دی گئی ہے
متعصب شخص اپنے سے متفق نہ ہونے والے تمام لوگوں کو تعصب سے بھرا قرار دیتا ہے اور عام فہم بات میں سے اپنی مرضی کا مطلب نکالتا ہے
یہاں کوئی پنجابی بتایا جاتا ہے کوئی پختون
کوئی کہتا ہے میں بلوچی ہوں کوئی کہتا ہے میں سندھی ہوں
کوئی کہتا ہے میں سرائیکی ہوں
کوئی مہاجر بنا ہے اور کوئی حق پرست ہونے کا دعوٰی کرتا ہے
یہ پاکستان ہے جہاں پاکستانی تلاشِ بسیار کے بعد ملتا ہے
کہتے ہیں کہ پاکستان میں مسلمان بھاری اکثریت میں ہیں
نکلیں ڈھونڈنے تو ملتے ہیں
چوہدری ۔ سردار ۔ ملک ۔ سیّد ۔ شاہ ۔ مزاری ۔ زرداری ۔ پیر ۔ پیرزادہ ۔ صاحبزادہ ۔ صدیقی ۔ فاروقی ۔ راجپوت ۔ وغیرہ وغیرہ
مسلمان کا لفظ آتے ہی تصور دیا جاتا ہے کہ انتہاء پسند ہو گا یا جاہل
کاش یہ پڑھے لکھے لوگ تعلیم یافتہ بنتے نہ کہ جاہل
عام شنید ہے کہ انتہاء پسند مُلا یا اُن کے شاگرد ہیں
گھر سے نکلیں چاہے کار پر یا پیدل چاروں طرف دہشتگرد نظر آتے ہیں
ٹکر مارنے والا معذرت کرنے کی بجائے اُلٹا آنکھیں دکھاتا ہے اور کبھی ڈانٹ بھی پلاتا ہے
حد یہ ہے کہ کھڑی گاڑی کو مارنے والا ايک دم سر پر آ کے کہتا ہے یہاں گاڑی کھڑی کیوں کی تھی ؟
کہتے ہیں کہ مدرسوں میں پڑھنے والے انتہاء پسند ہوتے ہیں ان کی وجہ سے ملک کو بہت نقصان پہنچا ہے
ذرا غور کریں تو نقصان پڑھے لکھے خوش پوش شہریوں کے اعمال کا نتیجہ نظر آتا ہے جن میں سے کچھ یہ ہیں
جھوٹ برملا بولنا
وعدہ کر کے پورا نہ کرنا
کہنا کچھ اور کرنا کچھ
اپنی تفریح کی خاطر دوسروں کو نقصان پہنچانا
اپنے حقوق کا شور مچانا اور دوسروں کا حق مارنا
دوسروں پر احسان جتانا اور خود کسی کا احسان نہ ماننا
طاقتور کے جھوٹ کو سچ ماننا اور کمزور کے سچ کو رَد کر دینا
حقیقت یہ ہے کہ ملک میں جو حالات ہیں ان کا سبب صرف اور صرف پڑھا لکھا اور با اثر طبقہ ہے اور یہ دہشتگرد کہلانے والے طالبان بھی انہی کے کرتوت کا پھل ہیں
کہا جاتا ہے کہ طالبان ناپُختہ ذہنوں کی برین واشنگ [brain-washing] کرتے ہیں مگر جو برین واشنگ دینی مدرسوں سے بہت دُور شہروں میں ہو رہی ہے اُس پر کسی کی نظر نہیں اور وہ قوم کو اندر ہی اندر سے کھا رہی ہے
پاکستان کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ پڑھے لکھوں کے شہر میں کی گئی برین واشنگ کا ایک ادنٰی نمونہ جو اتفاق سے میرے تک پہنچ گیا
ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ تعلیم و ہنر کے حصول کا ہے سر ۔ جو لوگ دینی مدارس جو کہ ہمارے کلچر و ثقافت کا کل سرمایہ ہیں کو برین واشنگ سینٹر سمجھنا میرے مطابق نہایت ہی افسوس ناک بات ہے ۔۔
سوشل ترقی میں اساتذہ کی بہت بڑی زمہ داری ہوتی ہے ۔۔ ماں کے بعد یہ استاد ہوتا ہے جس سے بچہ زندگی کے ہنر و فقر سمجھتا ہے استاد نے بچے کو ناصرف درسی بلکہ ایتھیکل تعلیم بھی دینی ہوتی ہے ۔۔ اور پھر سچ و حق کے لیے کوشش کرنا بھی بچا بڑوں سے سیکھتا ہے ۔
گزشتہ دنوں اخبار میں و ٹی وی میں پرچے لیک آوٹ ہوجانے کی خبر تھی ۔ استاد بھی انوالڈ پائے گئے ۔۔ یہاں استاد بچوں کو آج اپنا اپنا پرسنل ٹیوشن سینٹر ریکومنڈ کر رہے ہیں تعلیمی و درسی اعتبار سے یہ ٹھیک پر اجتمائی اعتبار سے گاوں کا ایک بچا تعلیم سے اٍس طرح محروم ہی رہ جاتا ہے ۔۔ آج سٹوڈنٹس موبائیل فون میں ویڈیو ڈائنلوڈ کرنا چٹکی میں سیکھ جاتے ہیں پر ٹوٹی چیز کو جوڑنے و سنوارنے و تخلیق کرنے کا ہنر سیکھنے کے لیے ٹائم ہی نہیں ہے ۔
ماں باپ کے بعد دوسرا رول ٹیچر کا ہوتا ہے ۔۔ ٹیچر سٹوڈنٹس میں امبیشن و جزبہ پیدا کرتے ہیں ، اچھے برے کی تمیز پیدا کرتے ہیں ۔۔ مولانا رومی سے کسی نے پوچھا کہ قوم کیسے مرتی ہے ؟ ۔۔ مولانا رومی نے کہا ” جب اچھے برے کی تمیز قوم ختم کر دیتی ہے قوم مر جاتی ہے “
تصویر بہت چھوٹی ہے۔ پڑھا نہیں جا رہا کہ کیا لکھا ہے۔
ریحان صاحب
باتیں آپ زبردست لکھتے ہیں ؟
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » فرمائش پوری کر دی ہے
نہایت افسوسناک۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسوسناک کیا ہے؟
25 دسمبر کو ٹی وی پر ایک پروگرام آ رہا تھا اور پندرہ پندرہ سال تک کے بچوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ 25 دسمبر اور 14 اگست کیونکر اہم تواریخ ہیں
مذہب ، ملک اور قوم سے متعلق وہ باتیں جو مجھے سکول جانے سے پہلے معلوم تھیں آج کل کی نسل کا یہ حال ہے کہ او لیول کرنے والے طالب علموں کو بھی نہیں معلوم
ڈ ِ ف ر صاحب
او لیول کرنے والوں کو یہ باتیں کیونکر معلوم ہوں گی ؟ ہاں ۔ معلوم ہو سکتی ہیں اگر ان کے والدین کو پاکستان سے دلچسپی ہو ۔
میں ایسے بہت سے بچوں کو جانتا ہوں جو امریکا میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے اور وہ پاکستان اور اسلام سے محبت کرتے ہیں اور ان کا علم رکھتے ہیں ۔