ايک اعلٰی تعلیم یافتہ اور اعلٰی عہدیدار نے حال ہی میں مجھے ایک لطیفہ سنایا تھا ۔ کل اخبار میں حکومتی کارستانی کی ایک رپورٹ پڑھ کر خیال آیا کہ قارئین کی نذز کروں
شہروں سے جمہوریت کا شور جنگل میں پہنچا ۔ جنگل کی تمام جمہور یعنی تمام جانوروں کے نمائندوں کا اجلاس بُلایا گیا ۔ شیر کی نامزدگی پر بیلوں اور ہرنوں نے شور مچایا ۔ اسی طرح نامزدگیاں ہوتی رہیں اور اعتراضات ہوتے رہے ۔ آخر بندر باقی رہ گیا اور اس کے خلاف کسی نے شکائت نہ کی چنانچہ جمہور کے نمائندوں نے متفقہ طور پر بندر کو اپنا بادشاہ بنا لیا ۔ بندر نے اپنی تقریر میں جمہور کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یقین دلایا کہ اب کسی پر ظُلم نہیں ہو گا ۔ ہر ایک کی سُنی جائے گی اور اس کی مدد کی جائے گی
کچھ روز بعد ایک چڑیا درخت پر اپنے گھونسلے میں اپنے دو ننھے بچوں کو لئے بیٹھی تھی کہ ايک سانپ درخت پر چڑھتا نظر آیا ۔ چڑیا اُڑ کر بندر کے پاس گئی اور سانپ سے بچوں کو بچانے کی درخواست کی ۔ بندر نے اُسی وقت ایک درخت پر چھلانگ لگائی پھر اُچھل کر دوسرے درخت پر گیا پھر تیسرے پر اور اس طرح کئی درختوں چھلانگے لگا کر واپس آیا اور چڑیا کو بتایا کہ “دیکھا ہم نے آپ کیلئے کتنی محنت کی ہے”
چڑیا جب واپس اپنے گھونسلے پر گئی تو دیکھا کہ سانپ اس کے گھونسلے کے قریب پہنچ چکا ہے ۔ وہ ہانپتی کانپتی پھر بندر بادشاہ کے پاس پہنچی اور بتایا کہ سانپ اسکے بچوں کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے ۔ بندر نے پھر ایک درخت سے دوسرے ۔ دوسرے سے تیسرے پر اور اس طرح کئی درختوں چھلانگے لگائیں اور واپس آ کر کہا ” دیکھا ہم نے آپ کیلئے کتنی محنت و کوشش کی ہے”۔ چڑیا اپنے گھونسلے پر پہنچی تو سانپ اُس کے بچوں کو کھا چکا تھا
پاکستانی قوم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی نہیں ہو رہا ؟
:smile:
سبحان اللہ کیا موقع محل بات ہے ۔ ہماری حکومت اور صدر صاحب کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے کبھی امریکہ کبھی رشیاء کبھی یورپ کتنی محنت کر رہے ہیں ہمارے لئے ۔ :D :P
السلام علیکم بہت خوب کیا یہ لطیفہ کسی سرکاری افسر کو بھی سنایا گیا ہے
فوجی ھو تو مسئلہ جمہوریت ہو تو مسئلہ۔۔اب کیا چائہیے بھائی؟
السلام علیکم۔
معزرت کے ساتھ ، سرکیا ہمارے سارے سربراہ اوران کے پیچھے کام کرنے والاخاموش عملہ سارےکےسارے احمق ہوتے ہیں، میراخیال ہے کہ ایسا نہیں ہے اور یہ بات آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں، مخالفت ایک حد تک اچھی ہوتی ہے جب تک تعمیری ہو۔ ملک کی پروٹکشن کے لیے بہت سے ڈپلومیٹک کام کئےجاتےہیں، اس میں خاموشی بہتر ہوتی ہے۔
جہاں میں نے سنا تھا یه لطیفه وهاں پر بندر کهتا هے
مصیبت بنی هی هے بی بی جی لیکن هماری ایفیشنی دیکھ ؟اور میری خارجه پالیسی دیکھ –
جب بمبئی اٹیک ہواتوآپ کو یاد ہوگا کہ انڈیا نے کس طرح آپ پر ڈپلومیٹک اٹیک کیا اورآپ کو پوری دنیا سے الگ کرکے ایک دہشت گرد سٹیٹ ڈکلیرکروانے اورپوری دنیا کوآپ پرچڑھ دوڑنے کی ترغیب دی۔
اگرچہ کہ اس وقت کےجاری کردہ سٹیمنٹ میں کچھ کوتاہاں ہوئی ہیں تاہم مجموعی طورپرآپ اپنے تعلقات کے بنیاد اس معاملے کو فیس کرنے میں کامیاب ہوسکے۔
میں مانتا ہوں کہ انڈیا یا کوئی اورملک ہم پرآسانی سے حملہ آور نہیں ہوسکتا ہے مگریہ بلکل عقلمندی نہیں کہ یہ کہا جائے” آ پنجا لڑا کردیکھ”۔
چنانچہ ڈپلومیٹک دوروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اس کا صحیح فائدہ اٹھانا پالیسی میکرکام ہوتا ، سامنے والا بندہ صرف شو پیس ہوتا ہے۔
بہت خوب کیا یہ لطیفہ کسی سرکاری افسر کو بھی سنایا گیا ہے۔نوائے ادب
میں نے اپنے ایک جاننے والے پاکستان کے ایک اعلٰی سفارتکار سے یہ لطیفہ مشرف دور میں ق لیگ کی حکومت کے بارے میں سنا تھا۔ سنئیر سفارتکار کے مطابق۔ شیر کی لاعلمی میں اس کے مقابلے پہ بندر کو جنگل کا بادشاہ بنائے جانے پہ شیر غضب ناک ہو کر باغیوں کی تلاش میں نکلتا ہے۔تو شیر کی آمد پہ جانور بندر سے کہتے ہیں۔ شیر نزدیک آتا جارہا ہے اور خاصے غضب میں ہے۔ بادشاہ سلامت کچھ کی جئیے۔ تب بندر بے چارہ ڈر کے مارے خوف سے ایک درخت سے دوسرے پہ چھلانگیں لگاتا آجارہا ہوتا ہے اور بندر تاریخی جواب دیتا ہے کہ ۔۔بھاگ دوڑ تو بہت کر رہے ہیں، مگر کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔
تب شیر کو انہوں نے مشرف سے اور پاکستان کے وزیر اعظم کو بندر کے پس منظر میں لطیفہ بیان کیا تھا۔
صاحب نوائے ادب
یہ لطیفہ مجھے ایک اعلٰی سرکاری افسر ہی نے سنایا تھا
احمد صاحب
نہ فوج مسئلہ ہے اور نہ جمہوریت ۔ مسئلہ صرف ہیرا پھیری ہے
چوھدری حشمت صاحب
بہر حال لطیفہ لطیفہ ہوتا ہے ۔ اسے سنجیدہ نہیں لینا چاہیئے ۔
ويسے حکمران کیا کر رہے ہیں وہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی ۔ ہمارے کچھ کہنے سے حقائق نہیں بدلیں گے ۔ پریشانی تو اسی عمل کی ہے کہ جاننے والے اعلٰی عہديدار خاموش ہیں اور ہمیں لطیفے سنا کر ٹہلاتے رہتے ہیں ۔
مجھے یاد ہے کہ جنرل ایوب جن صڈر تھے تو وہ ایک شادی کی محفل میں شریک تھے ۔ وہاں مسخروں نے ایک مکالمہ پیش کیا ۔
“سنا ہے کہ سب بدماش ختم ہو گئے ہیں” “وہ کیسے ؟” “ايوب خان صاحب نے ختم کر دیئے ہیں” ” پر کیسے ؟” “سب کو بنيادی جمہوريوتوں کا رکن بنا دیا ہے”۔
اس پر ايوب خان نے قہقہہ لگایا اور مسخروں کو انعام دیا
خاور صاحب
میں نے یہ فقرہ جان بوجھ کر نہیں لکھا تھا ۔ آپ تو جاپان بيٹھے ہیں میں اسلام آباد میں ہوں اور کراچی بھی جانا ہوتا ہے
محترم اجمل صاحب۔
خزانے میں بھیک کا مال ہے ، عوام مفلوک الحال ہے ، غربت اور بے روزگاری روز بہ روز بڑھتی جارہی ، جن ریاستوں پر برسوں سے تکہ تھا اب وہ بھی منہ موڑ رہے ہیں کہ آخر بھکوں کا کہاں تک پورا کریں۔ کرپشن اپنی انتہا کو ہے۔ اور بندوق بردار سروں پر شریعت کے نام پر منڈلارہے ہیں۔
اب آپ ہی مشورہ دیں کہ اسے میں کیا کریں ، قابل عمل مشورہ ، میرے یا آپ کے پسند کے بندے کولانے کے علاوہ مشورہ کیونکہ یہ مسائل سب کے لئے یکساں ہیں۔
چوھدری حشمت صاحب
انسان خود اپنی تباہی کا سامان کرتا ہے ۔ جب تک عوام کی اکثریت دیانتداری سے محنت و کوشش نہیں کرے گی اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے ۔
میرے اس بلاگ کے بائیں حاشیئے میں سب سے اُوپر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کتاب میں سے دو آیات اور اُن کے نیچے میری طرف سے ایک پیغام لکھا ہے ۔ اگر قوم کے تیس فیصد لوگ ان پر عمل پیرا ہو جائیں تو بہتری تیزی سے آ سکتی ہے