Monthly Archives: May 2009

درندے کہاں کہاں

میں نہیں کہتا کہ مالاکنڈ [سوات اسی میں ہے] میں ظُلم نہیں ہوا ۔ ظُلم ہوا مگر اسے اُچھالنے اور ایک خاص گروہ کو وحشی اور درندے کہنے والوں نے یہ نہ سوچا کہ اُن کے اپنے ہاں کیا ہو رہا ہے ۔ کیا اُن کے خلاف بھی وہ اسی طرح پروپیگنڈا کرتے ہیں اور حکومت کو کہتے ہیں کہ اُن پر فوجی کاروائی کر کے اُنہیں نیست و نابود کر دو ؟ نہیں ایسا وہ کیوں کرنے لگے وہ تو بڑے لوگ ہیں اسلئے اُنہیں تو غریبوں پر ظُلم کا حق پہنچتا ہے ۔

نیچے سال 2008ء کی عورت فاؤنڈیشن کی تیار کردہ رپورٹ سے اعداد و شمار نقل کر رہا ہوں ۔ اسے پڑھ کر دیکھیئے کہ وحشی یا درندے کہاں کہاں پائے جاتے ہیں ۔ یہ اعداد و شمار صرف عورتوں پر ظُلم و تشدد کے ہیں اور ان میں وہ واقعات شامل نہیں ہیں جو کسی کے اثر و رسُوخ یا ڈر کی وجہ سے رجسٹر نہیں کئے گئے اور اخبارات نے بھی اپنی خیر منانے میں بھلی سمجھی

۔ ۔ ۔ ۔ جُرم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام آباد ۔ ۔ پنجاب ۔ ۔ سندھ ۔ ۔ سرحد ۔ بلوچستان

قتل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 19۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 690 ۔ ۔ ۔ 288 ۔ ۔ ۔ 404 ۔ ۔ ۔ 115
قتل غیرت کے نام پر ۔ 2 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 91 ۔ ۔ ۔ ۔۔ 220 ۔ ۔ ۔۔ 32 ۔ ۔ ۔۔ 127
اقدامِ قتل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔2 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 29۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔۔ 45
اغواء ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 76۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1403۔ ۔ ۔ 160 ۔ ۔ ۔ ۔۔ 71 ۔ ۔ ۔ ۔ 52
جسمانی ایذا رسانی ۔ 11 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 279 ۔ ۔۔ ۔ 97 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 193 ۔ ۔۔ 264
گھریلو تشدد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 67 ۔ ۔ ۔۔ ۔ 98 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 113 ۔ ۔ ۔ 34
خود کُشی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 349 ۔ ۔۔ ۔ 144 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 60 ۔ ۔ ۔۔ 18
زنا بالجبر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 316 ۔ ۔ ۔ ۔ 80 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 28 ۔ ۔ ۔ ۔ 10
اجتماعی زنا بالجبر ۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 248 ۔ ۔ ۔ ۔ 50 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 1 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3
جنسی سراسیمگی ۔ 4 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 128 ۔ ۔ ۔ ۔ 40 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 12 ۔ ۔ ۔۔ 3
حراست میں تشدد ۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 43 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 69 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پڑھیئے میرے دوسرے بلاگ پر A “Secret” Database of Israeli Settlements

سوات ۔ طالبان ؟ کچھ سوال و جواب

محبِ وطن جب وطن سے دُور ہوں تو اُن کی توجہ ہر لحظہ وطن طرف رہتی ہے ۔ ایک ایسے ہی دردمند پاکستانی جو اپنی روزی کے سلسلہ میں وطن سے دور ہیں اُنہوں نے کچھ سوالات مجھ سے پوچھ کر میری حوصلہ افزائی کی ہے ۔ ہر چند کہ میں مفکر یا محقق نہیں ہوں لیکن جس ملک میں رہتا ہوں اس کی بہتری کیلئے فکر کرنا تو ایک فطری عمل ہے ۔ موصوف کی برقی چِٹھی کے مطابق اُن کے بہت سے ساتھی بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں اسلئے جو کچھ میرے علم میں آیا ہے اُس کے مطابق جواب دینے کی کوشش کروں گا ۔ برقی چِٹھی کے ذریعہ جواب دینے کی بجائے یہاں اسلئے تحریر کر رہا ہوں کہ دوسرے قارئین بھی مستفید ہو سکیں

سوال ۔ 1 ۔ یہ پاکستانی طالبان کون ہیں؟ ان میں اور افغانستان کے حقیقی طالبان میں کیا ربط ضبط ہے؟
جواب ۔ 1 ۔ میں طالبان کے حوالے سے ایک تحریر پورے تاریخی پسِ منظر کے ساتھ لکھ چکا ہوں ۔ ابتداء میں نام نہاد پاکستانی طالبان کا نام بیت اللہ محسود سے منسوب ہوا تھا ۔ بیت اللہ محسود کون ہے ؟ میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ اس کے بارے میں سنا ہے اسے گونٹانامو بے میں امریکی قید میں ایک سال گذارنے کے بعد رہا کیا گیا اور یہ پاکستان کے قبائلی علاقہ میں پہنچ کر سرگرمِ عمل ہو گیا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کوئی دوسرا پاکستانی صحتمند حالت میں گونٹانامو بے سے رہا نہیں کیا گیا اور جو رہا کئے گئے وہ افغانستان یا پاکستان میں ابھی تک قید ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکا نے ڈرون حملوں کے ذریعہ طالبان کا نام دے کر سینکڑوں قبائلی ہلاک کئے ہیں لیکن بیت اللہ محسود کو نشانہ کیوں نہیں بنایا ؟ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ بیت اللہ محسود اور اُس کے ساتھی امریکا کا لگایا ہوا زہریلا پودا ہے

آجکل نام نہاد پاکستانی طالبان میں ایک تو ایسے لوگ ہیں جن کے متعلق کسی کو کچھ علم نہیں ۔ جولائی 2007ء میں پرویز مشرف کے حُکم سے جامعہ حفصہ میں داخل سینکڑوں بچیاں فاسفورس بموں سے جلا کر ہلاک کر دی گئیں تھیں سو طالبان کہلانے یا کہے جانے والوں میں کچھ وہ ہیں جن کی بہن یا بیٹی یا قریبی عزیزہ ان بچیوں میں شامل تھیں ۔ کوئی اس لئے طالبان بنا کہ اس کے اہلِ خانہ فوجی کاروائی میں ہلاک ہو گئے اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حکومت نے تحفظ نہ دیا تو وہ اپنی اور اپنے خاندان کی جانیں بچانے کیلئے نام نہاد طالبان کے حصار میں چلے گئے ۔ ان میں جو شرارت کی جڑ طالبان ہیں انہیں بنانے اور اسلحہ اور مالی امداد دینے والے ان تینوں میں سے ایک ۔ دو یا تینوں ہو سکتے ہیں ۔ بھارت ۔ امریکہ ۔ اسرائیل ۔ بقول فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ “پچھلی حکومت نے بھارت کی راء ۔ امریکہ کی سی آئی اے اور اسرائیل کی موساد کو پاکستان میں کام کرنے کی کھُلی چھٹی دے رکھی تھی ۔ جس کے نتیجہ میں اُنہوں نے قبائلی علاقوں میں اپنے لوگ لگا دیئے”

نام نہاد پاکستانی طالبان جو کوئی بھی ہیں ان کا افغانستان کے طالبان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کا مقصد وہ ہے جو افغانستان کے طالبان کا ہے ۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ افغانستان میں روس یا امریکہ کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے ہوں

سوال ۔ 2 ۔ ملا صوفی محمد کون ہیں؟ کیا ان کا رویہ یا انکی موجودہ تحریکات واقعی میں قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات پر مبنی ہیں؟
جواب ۔ 2 ۔ صوفی محمد ایک گاؤں کی مسجد کا امام تھا ۔ ایک بار جماعت اسلامی کی طرف سے کونسلر کا انتخاب جیتا تھا لیکن چند ماہ بعد علیحدہ ہو گیا ۔ 1989ء میں اس نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کی بنیاد رکھی تھی یا اس میں شامل ہوا تھا ۔ ہوا یوں تھا کہ 1974ء میں منظور ہونے والے 1973ء کے آئین کے نام پر 1975ء میں جو عدالتی نظام سوات میں قائم کیا گیا دراصل وہ نظامِ عدل نہیں بلکہ سوات پر مکمل گرفت کیلئے مجسٹریسی نظام تھا ۔ جب اس کے اثرات پوری طرح سامنے آئے تو وہاں کے عوام جو اسلامی طرز کے نظامِ عدل کے عادی تھے اس کے خلاف احتجاج کرنے لگ گئے اور 1989ء میں اس تحریک نے جنم لیا

میرا نہیں خیال کہ صوفی محمد قرآن شریف کی تفسیر ۔ حدیث اور فقہ سے کما حقہُ آگاہ ہے ۔ جس طرح کے صوفی محمد اب بیانات دے رہا ہے وہ 1989ء سے آج تک دیتا آیا ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے کسی نے توجہ نہیں دی ۔ صوفی محمد سیدھا سادھا روائتی دیہاتی ہے یعنی جو ذہن میں آیا کہہ دیا ۔ وہ قرآن و سنْت کا نفاذ تو چاہتا ہے لیکن اس کے رموز سے شاید پوری طرح واقف نہیں ہے ۔ صوفی محمد کے مطابق “عورت کا سوائے حج کے گھر سے باہر نکلنا حرام ہے” ۔ اسی سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ شریعت کا کتنا علم رکھتا ہے ۔ ایک خوبی اُس میں ہے کہ وہ امن پسند ہے اور ایک بار قبل بھی امن بحال کرنے میں اہم کردار ادا کر چکا ہے

سوال ۔ 3 ۔ پاکستانی طالبان کا سوات ڈیل سے یا سوات شریعت سے کیا تعلق ہے؟
جواب ۔ 3 ۔ سوات معاہدہ شریعت کے نفاذ کیلئے نہیں ہے بلکہ نظامِ عدل کا معاہدہ ہے جس کے تحت انصاف سستا اور جلد مہیا ہو سکتا ہے ۔ معاہدہ صوفی محمد سے ہوا کیونکہ وہ صُلح جُو آدمی ہے ۔ اُس کے پیروکار کافی ہیں لیکن نام نہاد پاکستانی طالبان میں ایسے لوگ ہیں جو اُس کے تابع نہیں ہیں ۔ اور جہاں تک میرا قیاس ہے وہ لوگ کسی غیر ملکی ادارے کے ایجنٹ ہیں جو امن قائم نہیں ہونے دیتے تاکہ پاکستان میں استحکام نہ آئے ۔ پاکستان میں عدمِ استحکام کا براہِ راست فائدہ بھارت ۔ امریکہ اور اسرائیل کو پہنچتا ہے

سوال ۔ 4 ۔ سوات میں آخر کیا ہو رہا ہے؟ لڑکی کو کوڑے مارنے کی جو ویڈیو مشہور کی گئی اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟
جواب ۔ 4 ۔ دیر اور بونیر میں فوجی کاروائی کے بعد پاکستانی طالبان نے سوات میں کچھ مقامات پر قبضہ کر لیا تھا ۔ چنانچہ سوات میں بھی فوجی کاروائی شروع کر دی گئی ہے ۔ ان علاقوں کے لوگ پھر سے پریشان ہیں اور اپنی جانیں بچانے کیلئے گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں جس کے نتیجہ میں صرف سوات میں سو سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں

لڑکی کو کوڑے مارنے کا معاملہ عدالتِ عظمٰی میں ہے ۔ متعلقہ وڈیو جن لوگوں نے اُچھالی تھی وہ اس کی درستگی کا کوئی ثبوت آج تک پیش نہیں کر سکے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ معاہدہ سوات کے خلاف یہ ایک منظم غیرملکی سازش تھی تاکہ امن قائم نہ ہو سکے جو کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ اس سلسلہ میں ہمارے ذرائع ابلاغ اور نام نہاد سِول سوسائٹی نے بہت گھناؤنا کردار ادا کیا

5۔ پاکستان میں جاری یہ شورشیں آخر کب ختم ہوں گی؟
جواب ۔ 5 ۔ شورش کب ختم ہو گی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ جس طرح پچھلے ایک سال سے اس سارے معاملے سے نبٹا جا رہا ہے اس سے شورش کم ہونے کی بجائے بڑھنے کے امکانات ہیں ۔ مرکزی حکومت بہت بے دلی سے اس اہم معاملے کے لئے کوئی کاروائی کرتی ہے جس سے شُبہ ہوتا ہے کہ اُنہیں پاکستانیوں اور پاکستان کی بجائے اپنی کرسی اور مال اکٹھا کرنے سے غرض ہے جو امریکہ کے دم سے قائم ہے ۔ قبائلی علاقہ میں ان دگرگوں حالات کا اصل ذمہ دار پرویز مشرف ہے جس نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کیلئے قوم اور مُلک کو داؤ پر لگا دیا تھا ۔ جب موجودہ حکومت آئی تو چاہیئے تھا کہ فوری طور پر اس معاملہ کی طرف توجہ دے کر مناسب منصوبہ بندی کی جاتی لیکن اربابِ اختیار اپنی کرسیاں مضبوط کرنے اور دوسرے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے میں گُم رہے ۔ جب معاملہ مالاکنڈ جس میں سوات شامل ہے تک پہنچ گیا تو بھی بے دِلی سے کام کیا گیا ۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے

اُسے تو قتل کرنا اور تڑپانا ہی آتا ہے
گلا کس کا کٹا کیونکر کٹا تلوار کیا جانے

سُنا اور پڑھا تھا کہ کوئی علاقہ مُلک دُشمن لوگوں سے واگذار کرانا ہو تو زمینی کاروائی ہی بہترین ہوتی ہے جس میں خُفیہ والے ہراول دستے کا کام کرتے ہیں ۔ جس طرح سے پچھلے چار سالوں سے قبائلی علاقہ میں اور اب سوات وغیرہ میں فوجی کاروائی ہو رہی ہے اس نے حکومت کی بجائے نام نہاد پاکستانی طالبان کے ہمدرد پیدا کئے ہیں ۔ اس کاروائی میں دُور مار توپوں کے استعمال سے دہشتگردوں کی بجائے عام شہری زیادہ مارے گئے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ۔ خُفیہ والوں کا کردار تو کہیں نظر ہی نہیں آتا

اللہ ہمیں حقائق کو سمجھنے اور درست راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے

پڑھیئے میرے دوسرے بلاگ پر A “Secret” Database of Israeli Settlements

میں کیا ہوں ؟

” میں کیا ہوں ” میرا دوسرا بلاگ ہے جو میں نے 5 مئی 2005ء کو شروع کیا جبکہ پہلا بلاگ میں نے 9 ستمبر 2004ء کو شروع کیا تھا ۔ میرا پہلا بلاگ سب کیلئے تھا اور ہے جبکہ یہ دوسرا بلاگ الگ موضوعات لئے بالخصوص ہموطنوں کیلئے شروع کیا تھا اور اُنہی کیلئے ہے ۔ شاید یہ حُب الوطنی کا جذبہ ہے کہ میں نے غیر محسوس طور پر اس بلاگ کو زیادہ وقت دینا شروع کر دیا ۔ میری خوش نصیبی کہ اسے ہمسایہ ممالک جیسے ایران ۔ افغانستان اور بھارت کے مسلمان بھائی بھی سعادت بخشتے ہیں ۔ کئی ایرانی اور افغانی بھائی اُردو پڑھ تو لیتے ہیں مگر لکھ نہیں سکتے ۔ اُن کی ای میلز مجھے فارسی میں آئیں ۔ مزید میرا یہ بلاگ پڑھا جاتا ہے چین ۔ امریکا ۔ افریقا ۔ فرانس ۔ جرمنی ۔ ہسپانیہ ۔ ہالینڈ ۔ اٹلی ۔ ڈنمارک ۔ سویڈن ۔ برطانیہ ۔ جاپان ۔ ملیشیا ۔ سنگاپور اور فلیپائن وغیرہ میں

میں 4 سال انتظار میں رہا کہ کو ئی مُتجسس قاری مجھے پوچھے کہ “یہ نام کیوں رکھا”۔ مگر ایسا نہ ہوا ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ بہت کم قاری ایسے ہیں جو پوسٹ کے علاوہ کہیں اور نظر ڈالتے ہیں ۔ جہاں تنقید کا امکان ہو ۔ وہاں صفحات پُر ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات بے معنی یا غیر متعلقہ تنقید کی جاتی ہے ۔ ایک بار میں نے تنگ آ کر ایک ناقد سے پوچھا کہ “جس پر آپ لکھے جا رہے ہیں وہ میں نے کہاں لکھا ہے ؟” میری سمجھ میں جو بات آئی ہے یہ ہے کہ عِلمی تجسس شاید اپنے وطن سے کوچ کر گیا ہے

اس بلاگ کی وجہ تسمیعہ یہ تھی کہ اپنے مطالعہ اور مشاہدہ کے اُن پہلوؤں کا اظہار کروں جو آئندہ نسل کیلئے سودمند ہو سکتے ہیں اور نئی نسل کو احساس ہو کہ “میں کیا ہوں” یعنی وہ جو کوئی بھی ہیں بحثیت انسان اُنہیں کیا کرنا چاہیئے

جہاں تک میری اپنی ذات کا تعلق ہے ۔ عام لوگوں نے مجھے سمجھا نہیں یا شاید لوگوں کے پاس کسی اور پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا ۔ جو مجھے سمجھے ان میں سے بھی اکثر نے لمبا وقت لگایا ۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ میری کہی ایک بات کی کسی کو تین چار سال بعد سمجھ آئی تو مجھے کہنا پڑا “مریض تو بغیر علاج کے مر کر دفن بھی ہو گیا ۔ اب کیا فائدہ ؟”

میری ایک عادت ہے کہ کوئی پوچھے “کیا ہو رہا ہے ؟” میں برملا کہتا ہوں ” اپنے دو کام ہیں کھانا اور سونا”۔ متعدد بار ایسا ہوا کہ سُننے والے نے سنجیدگی سے اسے سچ سمجھ لیا ۔ جبکہ میں کھانے سے پہلے ایک بڑا گلاس پانی پیتا ہوں اور کبھی پیٹ بھر کے نہیں کھایا خواہ کھانا کتنا ہی لذیز اور میرا دلپسند ہو ۔ 24 گھنٹوں میں کبھی 8 گھنٹے سے زیادہ نہیں سویا ۔ عام طور پر 6 گھنٹے سوتا ہوں ۔ شاید ۔ ۔ ۔ مجھے سمجھنا ہے ہی مشکل

جو قارئین کافی عرسہ سے میرا بلاگ پڑھتے آ رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ میری خصلت سے کچھ آگاہ ہو گئے ہوں ۔ میں نے 19 مئی 2005ء کو “ایسا کرنا”کے تحت اپنی خصلت کا صرف ایک رُخ پیش کیا تھا جس کی وجہ سے بیوقوف ہونے کی سند ملی تھی

میری قسمت میں شاید صرف محنت و کوشش اور دوسروں کی خدمت لکھی ہے جو میں بچپن سے اب تک کرتا آ رہا ہوں ۔ میں اس کیلئے اپنے خالق کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ محنت کرنے والا آدمی کبھی دُکھی نہیں رہتا اور نہ کبھی بازی ہارتا ہے ۔ رہی خدمت تو “ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شُد” پر میرا یقین ہے

جاگو اَو و و و و و

دیر ہو گئی ہے مگر جاگو ۔ ابھی کچھ وقت باقی ہے کہ پانی سر کے اُوپر سے نہیں گذرا

دوسروں کا حق مارنے کی جو عادت پڑ چکی ہے اس بُری عادت سے جان چھڑاؤ
ہوشیاری بہت ہو چکی ۔ ہیراپھیری ۔ جھوٹ ۔ دھوکہ ۔ فریب ۔ بھتہ خوری چھوڑ کر محنت سے کام کرو
اپنی خطاؤں اور نااہلی کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی بجائے اپنی خامیاں دُور کرو
اپنی محرومیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے کی بجائے اپنے اطوار و اخلاق درست کرو
کم کھاؤ ۔ سادہ کھاؤ مگر حلال کی روزی کما کے کھاؤ
دوسروں کو کج رَو کہنے کی بجائے اپنی روِش کی سمت درُست کرو
سُرخ بتی کراس کرنے یا کراس کرنے کی کوشش والی عادت اب چھوڑ دو
ملک کے آئین اور قانون کا زبانی احترام نہیں بلکہ عملی طور پر اس کی پابندی کرو
اسلام ماتھے پر سجانے والا جھُومر نہیں ۔ اگر مسلمان ہو تو اللہ کے احکام پر عمل کرو
قرآن صرف مُردوں پر پڑھنے کیلئے نہیں ۔ اسے سمجھو اور اس پر عمل کرو
اپنے آپ کو اور اپنے ماتحت لوگوں اور اداروں کو درست کر چُکو تو دوسروں کی تنقید نہیں ۔ اُن کی مدد کرو
قومی سُرخ بتی جل چکی ۔ زیادہ مُہلت ملنے کے آثار نہیں ۔ اب راہِ فرار چھوڑ دو

آندھی کے آثار صاف نظر آ رہے ہیں ۔ آندھی چل پڑی تو اُسے ساری دنیا کے انسان مل کر بھی نہیں روک سکیں گے
ڈرو اُس وقت سے جب آندھی چل پڑے ۔ پھر اللہ کو پُکارنے کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا

Click on “Reality is Often Bitter” to read my another blog with different posts and articles or write the following URL in browser and open http://iabhopal.wordpress.com

نادرا ۔ نا اہلی اور دہشتگردی

نادرا حکام نے انکشاف کیا ہے کہ مختلف طریقوں سے بنوائے گئے ساڑھے دس لاکھ جعلی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ بلاک کر دیئے گئے ہیں جبکہ مزید 1 لاکھ 4 ہزار جعلی کمپیوٹرائزڈ کارڈز کا پتہ لگایا گیا ہے جو اب بھی شہریوں کے زیراستعمال ہیں ۔ ان میں سے لاکھوں کارڈز 2005 میں ہونے والے بلدیاتی اور 2008 میں عام انتخابات میں بھی استعمال ہوئے۔ اب بھی ایک لاکھ سے زائد غیرقانونی ذرائع سے بنوائے گئے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ شہریوں کے زیراستعمال ہیں جو بینک اکاؤنٹس کھلوانے، موبائل فون کی سمز کے اجراء اور پاسپورٹس اور دیگر اہم دستاویزات بنوانے میں بھی استعمال ہو رہے ہیں ۔ دہری شناخت کے حامل ان شناختی کارڈز کے بارے میں جدید نظام کے ذریعے شناخت ہو چکی ہے اور ان افراد کو یہ شناختی کارڈ واپس کرنے کیلئے تین ماہ کا وقت دیا جا رہا ہے ورنہ ان کے خلاف ریاست کے خلاف جرم کے الزام میں مقدمات قائم کئے جائیں گے اور اگر اس میں نادرا کے عملے کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے تو ایسے افراد کو نہ صرف نوکری سے فارغ بلکہ قانونی کارروائی بھی کی جا ئے گی۔

کچھ سوال
کیا یہ سراسر نااہلی نہیں ہے ؟
جعلی کارڈوں کی واپسی کیلئے مزید تین ماہ کیوں دیئے گئے ہیں ؟
ایسے لوگوں کے خلاف قانون فوری طور پر کیوں حرکت میں نہیں لایا جا رہا ؟
کیا ایسا کسی خاص مقصد کیلئے کیا گیا تھا جو ابھی پوری طرح حاصل نہیں ہوا ؟
کیا نادرا دہشتگردی کے فروغ میں مددگار نہیں ؟

قارئین کی فرمائش پر

نعمان صاحب نے میری تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ سوال اُٹھائے تھے ۔ میں دوسرے کاموں میں کافی مصروف تھا اسلئے جلدی میں جواب لکھا تھا جو کہ جامع نہ تھا ۔ کئی قارئین نے اصرار کیا کہ اسے میں سرِورق پر شائع کروں اور مکمل جواب لکھوں ۔ اب جواب مکمل کرنے کوشش کی ہے اور جوابات کی ترتیب سوالات کی ترتیب کے مطابق کر دی ہے

نعمان صاحب کا تبصرہ
قصہ مختصر صرف یہ لکھ دیتے کہ بھٹو فیملی ولن اور ضیا اور ان کی باقیات پاکستان کی تاریخ کے ہیرو ہیں۔ اس تاریخ میں‌سے آپ کئی شاندار کارنامے جان بوجھ کر نظر انداز کرگئے۔ جیسے

1 ۔ پاکستان کے ایٹمی منصوبے کا آغاز اور امریکہ کی مخالفت کے باوجود اس پر کام جاری رکھنا۔
2 ۔ قوم کو ایک متفقہ آئین دینا۔
3 ۔ پاکستان کے میزائل پروگرام کی بنیاد رکھنا۔
4 ۔ بڑے صنعتی اداروں‌ جیسے اسٹیل مل، ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا، بن قاسم بندرگاہ وغیرہ کا آغاز کرنا
5 ۔ ضیاالحق کے کارنامے جیسے امریکہ سے پیسے بٹور کر مجاہد تیار کرنا اور امریکہ کی فتح کے لئے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑنا۔ پاکستان کو ہیروئن اور کلاشنکوف کا گڑھ بنانا اور ایجنسیوں‌کو سیاستدانوں‌کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کرنا وغیرہ۔
6 ۔ قرض‌اتارو ملک سنوارو کے اربوں روپے کے گھپلے،
7 ۔ راؤنڈ اسٹیٹ کے بھارت کے ساتھ چینی اور پیاز کی تجارت سے کروڑوں‌ روپے کے منافعے۔ وغیرہ وغیرہ

میرا جواب
1 ۔ میں کسی طرح پروگرام کے شروع میں منسلک رہا تھا ۔ صرف اتنا بتا دوں کہ واویلہ بہت ہے لیکن سوائے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پاکستان آنے کے اور کچھ نہیں ہوا تھا ۔ کام 1977ء کے آخر میں شروع ہوا ۔ آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے کچھ دیا بھی ہے ۔ میری اُن سے سیاسی مخالفت کے باوجود اُنہوں نے مجھے دو قومی سطح کے اہم پروجیکٹس سونپے تھے اور اللہ کے فضل سے میں اُن کے اعتماد پر پورا اُترا ۔ اگر آپ پوچھیں گے کہ کام کیا تھا تو میں نہیں بتاؤں گا

2 ۔ متفقہ آئین وقت کی مجبوری بن گیا تھا کیونکہ 1970ء میں مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کا ووٹ بنک 33 فیصد سے کم رہا تھا ۔ آئین منظور ہوتے ہی بھٹو صاحب نے سات ترمیمات کر کے جو متفقہ آئین کا حشر کر دیا تھا وہ آپ کو کسی نے نہیں بتایا ؟

3 ۔ پاکستان کے میزائل پروگرام کی بنیاد بھٹو صاحب نے نہیں ضیاء الحق نے جنرل اسلم بیگ کے کہنے پر رکھی تھی ۔ اور مکمل کامیابی نواز شریف کے دوسرے دور میں ہوئی

4 ۔ سٹیل مل کو بغیر متعلقہ صنعتوں کے لگانا حماقت تھی جو ناجانے کس کے مشورہ پر بھٹو صاحب نے کیا وہ آدمی تو ذہین تھے پھر نامعلوم کیا مجبوری تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک سٹیل مل نقصان میں جا رہی ہے ۔ بعد میں سٹیل مل کی تباہی میں ایم کیو ایم کا کردار اہم ہے جس کے 2400 کارکُن ہر ماہ ایک دن کیلئے صرف تنخواہ لینے سٹیل مل جاتے تھے ۔ ان کو 1992ء کے بعد لیفٹیننٹ جنرل صبیح قمرالزمان نے فارغ کیا تھا جب جنرل آصف نواز جنجوعہ آرمی چیف تھے ۔ بن قاسم پورٹ سے میرا کوئی واسطہ نہیں رہا اسلئے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا [ایچ آئی ٹی] کی منصوبہ بندی یحیٰ خان کے دور میں ہوئی لیکن قومی دفاعی ضرورتوں نے پی او ایف کی توسیع پر مجبور کیا اسلئے تاخیر ہوئی ۔ تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایچ ایم سی اور ایچ ایف ایف میں سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے وہ خسارے میں جا رہی تھیں اسلئے فوج کا سربراہ ایچ آئی ٹی میں سیاسی بھرتیوں کے خلاف تھا ۔ جہاں تک میرا خیال ہے ایچ آئی ٹی پر کام ضیاء الحق کے دور میں ہوا

5 ۔ ضیاء الحق کی خامیاں بطور فوجی ڈکٹیٹر وہی تھیں جو باقی سب ڈکٹیٹرز کی تھیں اور اُن کو اتنا مشتہر کیا جا چکا ہے کہ میرےبتانے کی ضرورت نہیں رہی البتہ اُس پر چند الزامات صرف بُغز کی بنا پر ہیں ۔ پاکستان میں بندوق کلچر کی ابتداء ایف ایس ایف [Federal Security Force] سے شروع ہوئی جسے بھٹو صاحب نے پولیس اور رینجرز کے مقابلے میں آوارہ قسم کے جیالے اور دوسرے مجرم پیشہ جوانوں کو بھرتی کر کے تیار کیا تھا اور جس کے ایک جتھے نے احمد رضا قصوری کو ہلاک کرنے کیلئے فائرنگ کی تھی اور ہلاک اُس کا باپ ہوا ۔ اسی کو بہانا بنا کر بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تھی ۔ ضیاء الحق نے امریکہ کو براہِ راست پاکستان تو کیا افغانستان میں بھی مداخلت نہ کرنے دی جس کا مالی اور سیاسی فائدہ پاکستان کو ہواتھا ۔ ہوسکتا ہے کہ راستے [pipe line] میں کچھ فوجیوں نے بھی جیبیں بھری ہوں ۔ہیروئین کس نے اور کیوں بنائی میں بہت پہلے لکھ چکا ہوں ۔ اگر آپ درست کہتے ہیں تو یہ بتائیں ہیروئین اس وقت افغانستان میں کیوں سب سے زیادہ پیدا کی جا رہی ہے جبکہ افغانستان میں مْلا عمر کے دور میں بالکل بند ہو گئی تھی اور اب پاکستان میں نام نہاد طالبان ہونے کے باوجود اس کی پیداوار نہیں ہے ؟ سیاستدانوں‌کو بلیک میل کرنے کے لئے ایجنسیوں‌کا استعمال ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوا تھا اور پھر بڑھتا ہی گیا ۔ بھٹو کے حُکم پر اس کے کئی شکار ہوئے جن میں غلام مصطفٰے کھر اور افتخار کھاری مشہور ہیں

6 ۔ قرض‌ اتارو ملک سنوارو کے سلسلہ میں اربوں روپے جمع ہی نہیں ہوئے تھے ۔ اس نعرے کا تعلق میاں نواز شریف سے ہے اگر گھپلا ہوا ہوتا تو بینظیر اور پرویز مشرف نے اتنے جھوٹے مقدمے نواز شریف کے خلاف بنائے تھے ایک سچا بنا کر اُس پر فتح حاصل کر لیتے

7 ۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور شروع ہوا تو بازار میں پیاز ایک روپے کا 2 کلو ملتا تھا ۔ ایک سال بعد پیاز 5 روپے فی کلو ہو گیا ۔ لوگ کہتے تھے “واہ بھٹو ۔ سچ کہا تھا جب میری حکومت آئے گی تو کوئی غریب مزور پیاز سے روٹی نہیں کھائے گا “۔ [بھٹو نے انتخابی مہم کے دوران ٹیکسلا میں ہونے والے جلسہ میں یہ کہا تھا] ۔ ہر سال پیاز کی فصل مڈل مین پیشگی بہت سستے داموں خرید لیتے ۔ فصل ہونے پر گوداموں میں ڈال دیتے اور دس گُنا قیمت پر بیچتے ۔ جو پیاز بچ جاتا اُسے نالوں میں پھینک دیا جاتا ۔ چینی ۔ گھی ۔ وغیرہ کا حال پیاز سے صرف اتنا مختلف تھا انہیں پھینکا نہیں سرحد پار بیچا جاتا تھا ۔ ضیاالحق کے زمانہ میں پیاز اور چینی پہلے سے کم داموں پر بکتی رہی ۔ دکانداروں کی منافع خوری روکنے کیلئے جمعہ بازار شروع کئے جہاں صرف کاشتکاروں اور آڑھتیوں کو اجازت تھی کہ سبزیاں ۔ پھل اور دوسری اشیاء بیچیں جس سے چیزیں سستی دستیاب ہونے لگیں ۔ بھارت سے آلو کی درآمد بینظیر بھٹو کے دور میں ہوئی جس پر جیالوں نے مال بنایا ۔ نئی فصل کی قیمت پر خریدا ہوا پرانا آلو بہت جلد خراب ہو گیا اور نقصان یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو برداشت کرنا پڑا ۔ اسی طرح بینظیر بھٹو کے کارندوں نے مہنگے داموں گھی یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو دیا ۔ عوام نے شور کیا تو بینظیر بھٹو نے کم قیمت پر بیچنے کا حُکم دیا ۔ یہ نقصان بھی یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو برداشت کرنا پڑا ۔ وہ دن اور آج کا دن اس ادارے کی حالت پتلی ہے

نعمان صاحب کی بلاگ پر بھی میرے تبصرے پڑھ لیجئے