جو کچھ وطنِ عزیز کے قبائلی علاقوں میں ہوتا آیا ہے اُس کے متعلق میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہا ہوں اور اِن شاء اللہ جلد پوری صورتِ حال کا مختصر جائزہ اپنے مشاہدات کی روشنی میں لکھوں گا ۔ جو بات میری سمجھ میں نہیں آتی یہ ہے کہ الطاف حسین اور اُس کے چیلوں کو صوبہ سرحد اور پنجاب کی فکر کھائے جا رہی ہے لیکن جہاں اُس کا ایک چیلا گورنر اور باقی چیلے وزراء ہیں اور رہائش پذیر ہین وہا حالات ابتر ہیں ۔ اور کراچی کو طالبان نے گھیر لیا کا شور مچا کر سمجھ لیا جاتا ہے کہ کسی نے نہ دیکھا اور نہ سُنا ۔
یہ میں نہیں کہتا ۔ کل سارے کراچی میں شور تھا جو میرے کانوں تک بھی پہنچا جس کا خلاصہ یہ ہے
سہیل ظاہر خٹک جمعہ کی شام گاڑی کھاتہ کے علاقے میں واقع ایک پرنٹنگ پریس کے باہر بیٹھا ہوا تھا کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم مسلح افراد نے اس پر فائرنگ کر دی جس سے وہ شدید زخمی ہوگیا۔ اُسے فوری طور پر سول اسپتال لے جایا گیا جہاں بعدازاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ اسپتال کے سینئر ایم ایل او ڈاکٹر آفتاب چنڑکے مطابق مقتول کے سر میں گولی لگی تھی۔ مرحوم سلطان آباد کا رہائشی تھا۔ ذرائع کے مطابق سہیل پر حملے کی خبر پھیلتے ہی تقریباً 3 سے 4 سو افراد سول اسپتال پہنچ گئے جنہوں نے وہاں شدید توڑ پھوڑ کی۔ ڈاکٹرز کو مارا پیٹا جس سے وہ خوفزدہ ہو کر ایمرجنسی وارڈ چھوڑ چلے گئے
پی ایس ایف کے مذکورہ کارکن کی ہلاکت کے بعد لیاری، لی مارکیٹ، کھارادر، کھڈا مارکیٹ، سلطان آباد، آرام باغ، ایم اے جناح روڈ، بولٹن مارکیٹ، مائی کلاچی، روڈ، سلطان آباد اور دیگر علاقوں میں نامعلوم افراد نے فائرنگ جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ شروع کر دیا، فائرنگ کی زد میں آکر بہار کالونی میں حمید اللہ، رنچھوڑ لائن میں حبیب اور کھڈا مارکیٹ میں مستان شاہ نامی شخص زخمی ہوگئے۔ جبکہ ہنگامے کے سبب متاثرہ علاقوں میں رات گئے تک کھلنے والے بازار اور دکانیں بند ہوگئیں۔ جبکہ لوگ خوفزدہ ہو کر اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔
اگر صوبہ سرحد میں حالات بہتر نہ ہوئے۔ تو کراچی میںحالات بہت خراب ہوجائیں گے۔ اسی وجہ سے کراچی کے لوگ سرحد میں طالبانائزیشن کے سخت خلاف ہیں۔
کراچی میں اگر پشتون اور اردو بولنے والوں کو لڑادیا جائے تو کراچی کی طالبانائزیشن پیس آف کیک ثابت ہوگی۔ حیرت ہے اتنی سادہ سی بات آپ کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
ایک تو پیر صاحب المعروف لنڈن والی جناب کے تعویز و تبلیغ میں اتنا دم نہیں جتنا انکی دھونس میں دم ہے۔
نعمان صاحب
چوہدری یا وڈیرے کی طرح ہر اپنی غلط کاری یا نااہلی کا الزام میراثی یا دادا پر دینا ہوشیاری نہیں عیّاری ہوتا ہے ۔ الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر بیان بازی کرنے اور دوسروں کو ملزم ٹھہرانے کی بجائے کراچی میں رہ کر مسئلہ حل کیوں نہیں کرتا ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس کے چیلے بھتہ خور ہیں اور داداگیری کرتے ہیں جو اس مار دھاڑ کا اصل سبب ہے ۔ زیرِ نظر واقع میں بھی مرنے والا پٹھان ہے ۔ جب نام نہاد پاکستانی طالبان کا شور نہ تھا اُس وقت کراچی میں بوری بند لاشیں ۔ راہ چلتے فائرنگ ۔ اور کُشت و خون کیوں ہوتا تھا ؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کراچی میں امن قائم کرنا طالبان کی ذمہ داری ہے یا کراچی میں حکومت کرنے والوں کی ؟
جاوید گوندل صاحب
غُنڈوں سے ہر شخص ڈرتا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ اگر کو سفیدپوش طاقتور بھی ہو وہ غُنڈے کو ہاتھ نہیں ڈالتا کیونکہ غُنڈے کا سر گندھی نالی میں دے دیا جائے تو بھی اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن سفیدپوش کا کوئی گریبان بھی پکڑ لے تو وہ اسے اپنی بے عزتی تصور کرتا ہے ۔