دوبئی کی سیر کی دوسری قسط 12 جنوری کو لکھی تھی
بیٹے نے بتایا کہ دبئی میں عمارات ۔ مراکز للتسویق [Shopping Malls] کے علاوہ عجائب گھر [Museum] اور ساحِل سمندر [Beach] ہی دیکھا جا سکتا ہے ۔ سو عجائب گھر جو ایک پرانے محل کے اندر بنا ہوا ہے دیکھا ۔ اس میں پرانے زمانہ کی کِشتیاں ۔ آلاتِ حرب ۔ لباس ۔ برتن وغیرہ رکھے ہیں ۔ پرانے زمانہ میں اس علاقہ میں جس طرح کے باورچی خانے ۔ غُسلخانے اور سونے اور بیٹھنے کے کمرے ہوتے تھے وہ بنائے ہوئے ہیں ۔ پرانے زمانہ کے ہُنر اور تعلیم و تربیت کے مراکز کی بھی نمائش کی گئی ہے
ہم نے ایک کے بعد دوسرا مرکز للتسویق دیکھنا شروع کئے ۔ ان میں پھرنے سے قبل کئی کلو میٹر پیدل چلنے کا کئی سالہ تجربہ ہونا چاہیئے جو ہمیں دس پندرہ سال قبل تو تھا اب نہیں ہے لیکن اپنی عزت کی خاطر ہم نے مردانہ وار مقابلہ کیا ۔ مرکز للتسویق جہاں ہم گئے ان میں سے جن کے نام یاد رہے وہ حسب ذیل ہیں ۔
مرکز امارات للتسویق ۔ Mall of the Emirates ۔ مول امارات ۔ اس میں برف پر پھِسلنے [Ice Skiing] کا انتظام بھی ہے
مرکز مدینہ الدیرہ ۔ Daira City Centre
مدینہ مھرجان الدبئی ۔ Dubai Festival City
وافی ۔ Wafi ۔ اس کے ساتھ ہی ملحق ایک پرانے بازار کا اصل بحال رکھتے ہوئے اس کی جدید تعمیر کی گئی ہے جس کا نام خان مرجان ہے ۔ یہ بہت خوبصورت سہ منزلہ بازار ہے ۔ اس میں روائتی اشیاء فروخت ہوتی ہیں اور روائتی قہوہ خانہ بھی ہے ۔
ابنِ بطوطہ مرکز للتسویق ۔ اس میں مختلف تہذیبوں کے مطابق حصے بنے ہوئے ہیں اور چھتیں [Ceiling ] بھی مُختلف مگر دلچسپ بنائی گئی ہیں ۔ ایک حصہ میں چھت اس طرح ہے جیسے آسمان جس پر بادل بھی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید تھوڑی دیر میں بارش شروع ہو جائے
سوق مدینہ الجمیرہ . Souk Madinat Jumeirah
مرکز دبئی للتسویق ۔ The Dubai Mall ۔ یہ ابھی نیا نیا بنا ہے ۔ ابھی صرف 500 دکانوں نے کام شروع کیا ہے ۔ 1000 سے زیادہ بند پڑی ہیں ۔ اس میں برف پر پھِسلنے کا دائرہ [Ice Skiing Ring] بھی بن رہا ہے ۔ اس میں بہت بڑا مچھلی گھر [Aquarium] ہے جس میں کبھی ایک اور کبھی دو غوطہ خور بھی تیر رہے ہوتے ہیں ۔
القریہ العالمیہ ۔ Global Village ۔ یہ ایک بین الاقوامی میلہ شاید 18 نومبر کو شروع ہوا اور 22 فروری تک رہے گا ۔ ہم 20 نومبر کو گئے۔ اس میں کچھ دکانیں شروع ہو چکی تھی ۔ اس میں وطنِ عزیز کا بھی ایک بڑا حصہ تھا جس میں قالین ۔ پارچہ جات اور برتنوں کی دکانیں کچھ لگ چکی تھیں باقی سامان آ رہا تھا ۔ اس حصہ کا ماتھا بہت خوبصورت تھا ۔ لاہور کے قلعہ کی شکل بنائی گئی ہے ۔ اس کے سامنے ہی پاکستان کے کھانوں کی دکانیں ہیں بشمول راوی ۔ بندو خان وغیرہ
ان مراکز کی خصوصیات
زیادہتر مراکز کا رقبہ میرے خیال کے مطابق ایک کلو میٹر سکوائر یازیادہ ہے
مرکز کے ساتھ دو سے تین منزلہ پارکنگ کا علاقہ ہوتا ہے جس میں سینکڑوں گاڑیاں کھڑا کرنے کی گنجائش ہوتی ہے
ان میں انسان کی ضرورت کی تقریباً ہر شٔے ملتی ہے شرط جیب بھری ہونا ہے یا بغیر حد کےکریڈٹ کارڈ
سوائے الیکٹریکل اور الیکٹرانکس کے سامان کے ہر چیز وطنِ عزیز کی نسبت مہنگی ہے
ہر قسم کے آدمی کیلئے کھانا کھانے کا بندوبست ہے
زائرین کیلئے مناسب تفریح اور بچوں کی دلچسپی کا سامان موجود ہے
فضا کو صحتمند رکھنے کیلئے فوارے یا آبشار یا نہر ۔ بعض نہروں میں کِشتی چلتی جس سے زائرین لُطف اندوز ہوتے ہیں
کسی کسی مرکز میں ایک چھوٹا سا حصہ ہوتا جس پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے غیرمُسلموں کیلئے
آرام کرنے کیلئے راہداریوں میں صوفے یا بینچ پڑے ہوتے ہیں
کچھ میں سینما ہاؤس ہوتا ہے جہاں سارا دن فلمیں دکھائی جاتی ہیں ۔ ان کے سامنے ٹکٹ خریدنے والوں کی ہر وقت قطاریں لگی رہتی ہیں
زائرین میں لباس کے لحاظ سے غنیم ترین سے مِسکین ترین عورتیں ہوتی ہیں ۔ غنیم ترین یعنی سر سے پاؤں تک مکمل ڈھکی ہوئی اور مِسکین ترین جن بیچاریوں نے ایک یا آدھی بنیان اور کچھہ یا چڈی پہنی ہوتی ہے
ان مراکز کی ایک اہم اور دل خوش کُن خصوصیت یہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کیلئے نماز پڑھنے کا علیحدہ علیحدہ انتظام ہے اور ہر نماز کی اذان پورے مرکز اور پارکنگ ایریا میں واضح طور پر سنائی دیتی ہے ۔ مرکز کی وسعت کی وجہ سے سب لوگ ایک وقت پر مسجد میں نہیں پہنچ سکتے اسلئے جماعت کئی بار ہوتی ہے ۔ نماز پڑھنے والوں میں میرے جیسے بھی ہوتے ہیں اور جینز اور ٹی شرٹ پہننے والے بھی ۔ میری بیگم نے بتایا کہ عورتوں کی مسجد میں بہت سے عبایہ اور رومال رکھے ہوتے ہیں ۔ جو عورتیں انگریزی لباس میں ہوتی ہیں وہ نماز کے وقت پہن لیتی ہیں
ایک دن بیٹا کہنے لگا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ داخلہ فیس والے ساحلِ سمندر کے بالکل ایک طرف جا کر شریفانہ طریقہ سے تفریح کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا جا سکتا ہے ۔ ایک جمعہ کو نماز کے بعد روانہ ہوئے اور اس جگہ پہنچ گئے ۔ فیس کی ادائیگی کے بعد داخل ہو کر آخری سِرے پر کار پارک کی اور چٹائیاں اُٹھا کر ساحل کی طرف چل پڑے ۔ ساحل کے قریب پہنچ کر لوہے کی چادر سے بنی دیوار کے قریب براجمان ہو گئے ۔ بیٹا ۔ بیٹی اور بہو بیٹی کھانا لینے چلے گئے ۔ اُس وقت سمندر کے ہمارے سامنے والے حصہ میں چار پانچ کالی اور گوری عورتیں نہا رہیں تھیں تو ہم منہ خُشکی کی طرف کر کے بیٹھ گئے ۔ شاید اُنہیں اس کا احساس ہو گیا اور وہ کچھ دیر بعد وہاں سے دور چلی گئیں اور گویا ہم آزاد ہو گئے یعنی سمندر کی طرف منہ کر کے سمندر کی لہروں ۔ اس میں چلتی کِشتیوں اور سکیٹس [Skates] کا نظارہ کرنے لگے ۔
عجائب گھر
بقیہ تصاویر کیلئے تھوڑا سا انتظار کیجئے ۔
مگر آپ العین کیوں نہیں گئے ؟
جو کہ دبئی سے صرف دیڑھ گھنٹے کا راستہ ہے اور امارات کا سب سے خوبصورت شہر اور سب سے بڑا چڑیا گھر بھی یہیں ہے –
شعیب صاحب
یادآوری کا شکریہ ۔ ہم بیٹے اور بہو کے ساتھ وقت گذارنے گئے تھے جو کہ صرف ایک ماہ تھا جب کے اُن کی خواہش تھی کہ ہم اُن کے پاس منتقل ہو جائیں ۔ سیر جو کی وہ بیٹے نے کرائی ۔ البتہ العین میں نے 1975ء میں دیکھا تھا جب میں سرکاری دورے پر متحدہ امارات گیا ہوا تھا ۔ امارات میں سب سے زیادہ سرسبز علاقہ العین ہی ہے ۔
انکل گستاخی معاف آپ نے تصاویر میں کچھ غربا و مساکین کی بھی شامل کر لینا تھیں، بلاگ پر نوجوانوںکی آمد و رفت زیادہ ہو جاتی
ویسے قیامت کی نشانیوںمیں سے ایک یہ بھی ہے کہ صحرا نشین گڈریے عالیشان بلند و بالا عمارات کی تعمیر میں مقابلہ کرینگے۔ امارات کو دیکھ کر یہ پیشن گوئی بھی پوری ہوتی نظر آتی ہے۔
فیصل صاحب
ہم اُس علاقے میں بھی گئے تھے جہاں برِصغیر ہند و پاکستان کی اکثریت رہائش پذیر ہے ۔ مقصد وہاں اپنی مسکینی دکھانا نہیں تھا بلکہ اُن کی حالت دکھانا تھا ۔
السلام علیکم! یہ جو ایک بزرگ تلواروں کی جانب دیکھ رہے ہیں کہیں یہ آپ تو نہیں :grin: میں نے آپ کی جو آخری تصاویر دیکھی تھیں ان میں آپ کی داڑھی نہیں تھی، شاید وہ بہت پرانی تھیں۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟
ابو شامل صاحب ۔ و علیکم السلام و رحمة اللہ
آپ شاید اُن تصاویر کی بات کر رہے ہیں جو اصحاب کی پُرزور فرمائش پر اپریل 2007ء کے پہلے ہفتہ میں شائع کی تھیں ۔ وہ تصاویر شروع 2004ء تک کی تھیں ۔ ابھی اور تصاویر آنے کی توقع ہے پھر پہچانیئے گا کہ ان میں میں کونسا ہوں ۔ تھوڑا سا صبر کیجئے ۔ مجھے سارا سفر نامہ شائع کر لینے دیجئے ۔
Video on Wafi tower ;
http://www.wakeupproject.com/VList.asp?Series=1&Video=9
relevant part starts at 7:49
اسلامُ علیکم
(یہاں میں اسلام و علیکم لکھتے لکھتے رہ گئی، آپ کی پچھلی ڈانٹ اب تک یاد ہے) :smile:
اگر ذاتی طور پہ پوچھا جائے تو مجھے دبئی بالکل پسند نہیں آیا، وجہ یہ ہے کہ بہت مہنگا ہے۔ درہم تو درہم، ڈالرز بھی جیب سے ایسے غائب ہوتے ہیں کہ جیسے سینگوں کے نیچے سے گدھا۔
اور ہم جیسی خواتین ، جنھیں پیدائش کے دوسرے دن سے ہی کفایت شعاری کی گٹھی پلائی جاتی ہے، ایسے دیس میں جا کر اپنے میاں کا جینا حرام کیے رکھتی ہیں۔ شادی کے بعد جب دبئی گھومنے پھرنے گئے تو میرا دبئی گھومنے کا سارا نشہ بل دیکھ دیکھ کر ہرن ہوتا رہا۔ آخر شوہر محترم کو کہنا پڑا آئیندہ آپ کو کراچی کے چڑیا گھر لے جاؤں گا، کچھ خرچہ نہیں ہوگا تو آپ کم سے کم جانور آرام سے دیکھ لیں گی۔
اس کے علاوہ دبئی گھومنے پھرنے کے لحاظ سے اچھا ہے مگر رہائش بہت مشکل ہے، اگر کوئی فیملی کے ساتھ رہ رہا ہو تو پاکستان میں موجود گھر والوں کو خرچہ بھیجنا نا ممکن ہے۔
ویسے کافی عرصہ بعد آپ کے بلوگ پر تبصرہ لکھ رہی ہوں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ مطالعہ بھی نہیں کیا۔ سوچ کے دریچے کھولنے کے لیے آپ کا بلاگ ینٹرنیٹ پر میری پہلی ترجیح ہے۔
فی امان اللہ
صبا سیّد صاحبہ
وعلیک السلام و رحمة اللہ
آپ نے درست کہا دبئی میں مہنگائی بہت زیادہ ہے بجزو الیکٹرانک سامان کے ۔ وہاں ہم تو بیٹے بہو کے ساتھ کچھ وقت گذارنے گئے تھے ۔ بیٹا میرے لئے کپڑے وغیرہ خریدنے لگتا تو میں قیمت دیکھ کر کہتا رہنے دو بہت مہنگا ہے ۔ اس نے اعلان کردیا کہ جب باہر جائیں گے تو ابو کو گھر چھوڑ جائیں گے ۔ پھر مجھ سے چُپ رہنے کا وعدہ لے کر ساتھ لیجانا شروع کیا ۔ اچھے علاقوں میں مکانوں کا کرایہ بھی بہت زیادہ ہے ۔ بیٹے نے ایک اچھے علاقہ میں اپارٹمنٹ لیا ہوا ہے ۔ ماشاء اللہ بیٹے کی جاب اچھی ہے ۔
فی امان اللہ