Yearly Archives: 2008

اہلیانِ جموں کشمیر کی پُکار


انشاء اللہ العزيز

ستم شعار سے تجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ميرے وطن ميرے وطن ميرے وطن


ہم کيا چاہتے ہيں ؟

آزادی آزادی آزادی

آج یومِ یکجہتیءِ جموں کشمیر ہے

یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا ۔ میں پہلے اس سلسلہ میں کئی بار لکھ چکا ہوں ۔

1 ۔ جموں کشمیر آزاد کیوں نہ ہوا ۔ پہلی قسط ۔ دوسری قسط اور تیسری قسط
2 ۔ یومِ یکجہتی ءِ جموں کشمیر کیوں منایا جاتا ہے

سروے کیا کہتا ہے

میری ایک تحریر پر ابو شامل صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام کرائے گئے ایک سروے کا حوالہ دیا ۔ اس ویب سائٹ پر دیئے گئے اعداد و شمار کو آسان فہم بنا کر میں نے اپنے بلاگ “حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ Reality is Often Bitter پر شائع کیا ہے ۔ ان اعداد و شمار کا پاکستان میں متعلقہ واداتوں کے ساتھ موازنہ کرنے پر ہی معلوم ہو گا کہ ہمارے مُلک کا کیا حال ہے ۔

خُود کُش بمبار ۔ خبریں اور تصریحات

دنیا کا سب سے پہلا خُود کُش دھماکہ جو میرے علم میں ہے وہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ایک جاپانی ہوا باز نے کیا تھا جو بارُود بھرے ہوائی جہاز کو اُڑاتے ہوئے ناقابلِ تسخیر کہلانے والے برطانوی بحری جہاز کی چِمنی میں گھُس گیا تھا اور دھماکہ کے نتیجہ میں بحری جہاز سمندر میں غرق ہو گیا تھا ۔ اس کے بعد مغربی دنیا کے بَل بوتے پر کئے گئے اسرائیلی مظالم سے تنگ آئے ہوئے فلسطینیوں نے اسے اپنایا اور مغربی دنیا کے جور و سِتم سے تنگ عراقیوں نے بھی اسے ہی کامیاب ہتھیار سمجھا ۔ فلسطینیوں اور عراقیوں کا خُودکُش دھماکے کرنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ بِلک بِلک کر مرنے کی بجائے کیوں نہ دُشمنوں کے کچھ لوگوں کو مار کر خود بھی اذیْتی زندگی سے نجات حاصل کر لیں مگر پاکستان کے شہروں میں پاکستانی ہی خُودکُش حملے کریں یہ سمجھ سے باہر ہے ۔

پچھلے ایک سال سے پاکستان بارودی دھماکوں کی لپیٹ میں ہے جنہیں خُودکُش بمباری قرار دیا جاتا ہے لیکن اخبارات میں لکھے حکومتی و دیگر بیانات حقائق سے میل نہیں کھاتے ۔ ہمارے ملک میں عام علوم کا حال بھی ابتر ہے اور یہ ایک خصوصی علم ہے جس سے واقفیت عام آدمی کے بس میں نہیں ۔ میں اپنی زندگی کی تین اہم دہائیاں اسلحہ کے کارخانوں سے منسلک رہا ہوں اسلئے اسلحہ اور بارُود بشمول دھماکہ خیز مواد کے چال چلن سے کسی حد تک واقف ہوں ۔ یہ تو کوئی ڈَھکی چھُپی بات نہیں کہ خُودکُش بمبار نے اپنے جسم پر ناف سے بغلوں تک پیٹیاں لپیٹی ہوتی ہیں جن میں ارفع دھماکہ خیز مواد [High explosive] ہوتا ہے ۔ اس دھماکہ خیز مواد میں فولاد یا سِکے کی بنی گولیاں [Balls of steel or lead ] ملائی ہوتی ہیں ۔ جب دھماکہ کیا جاتا ہے تو یہ گولیاں بندوق کی گولی سے زیادہ قوتِ حرکت [momentum] کے ساتھ ہر سمت میں چلتی ہیں ۔

دھماکہ کے ساتھ ہی خُودکُش بمبار کے دھڑ کے لوتھڑے بن کر چاروں اطراف اُڑ جاتے ہیں ۔ چہرا مسخ ہو جاتا ہے اور سر اُڑ کر کہیں دور جا گرتا ہے کیونکہ تھوڑی [chin] سمیت چہرا سینہ سے باہر کی طرف نکلا ہونے کی وجہ سے گولیوں کی زد میں ہوتا ہے ۔ سر کے بھی ٹکڑے ہو سکتے ہیں ۔ ٹانگیں عام طور پر محفوظ رہتی ہیں کیونکہ دھڑ کا حلقہ ٹانگوں کے حلقہ سے زیادہ ہوتا ہے اور دھماکہ خیز مواد کی پیٹیاں دھڑ کے ارد گرد لپٹی ہوتی ہیں ۔ ارفع دھماکہ خیز مواد بہت ظالم چیز ہے ۔ اگر دھماکہ خُود کُش نہ بھی ہو تو دھماکے کی جگہ کے اِردگِرد موجود لوگوں کے جسم لوتھڑے بن کر دور دور جا گرتے ہیں اور سر تن سے جدا بھی ہو سکتے ہیں ۔ ایک ایسا ہی واقعہ میرا چشم دِید ہے جس میں وہاں موجود 11 کے 11 انسانوں کے جسم کے لوتھڑے دور دور تک پھیل گئے تھے اور کسی کا کچھ پہچانا نہیں جا سکتا تھا ۔ جس عمارت میں یہ لوگ موجود تھے اس کا ملبہ بھی چاروں طرف اس طرح بکھر گیا تھا کہ جیسے وہاں کوئی عمارت تھی ہی نہیں ۔ یہ دھماکہ وہاں موجود چند کلو گرام بارُود کے حادثاتی طور پر پھٹ جانے کا نتیجہ تھا اور یہ خالص بارود تھا یعنی اس میں گولیاں یا کوئی اور چیز نہ تھی ۔

ہمارے ملک میں جتنے بھی دھماکے خودکُش قرار دیئے گئے ان کے بعد “خُودکُش بمبار کا سر مل گیا ” کا نعرہ بلند کیا گیا مگر ٹانگوں کا ذکر کبھی نہ ہوا ۔ اس سے یہ تأثر اُبھرتا ہے کہ عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ دھماکہ یا تو خُودکُش ہوتا ہی نہیں یا اس کا کوئی ثبوت حکومت کے پاس نہیں ہوتا ۔ دراصل خُودکُش دھماکہ قرار دے کر متعلقہ حکومتی کارندے تحیقیق کی بجائے اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔ اگر وہ اسے خُودکُش دھماکہ قرار نہ دیں تو حکومت کی نااہلی ثابت ہوجائے گی ۔

ہر دھماکے کے بعد ایک اور حکومتی اعلان کیا جاتا ہے کہ خُود کُش بمبار کا سر ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے بھیج دیا گیا ہے ۔ یہ بھی عوام کو بیوقوف بنانے کی ایک بھونڈی کوشش ہے ۔ اگر تمام پاکستانیوں کا ڈی این اے ریکارڈ موجود ہو تو موازنہ کے ذریعہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ خُودکُش بمبار [اگر دھماکہ خُودکُش تھا] کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے ورنہ اس کا کوئی فایدہ نہیں ۔

زندگی کی بنیاد

گھر میں پیار محبت کا ماحول زندگی کی بنیاد ہے

کبھی اٹل خواہش کا بھی پورا نہ ہونا بڑی خوش قسمتی ہوتا ہے

بہترین تعلق وہ ہے جس میں باہمی محبت باہمی ضرورت سے زیادہ ہو

بصیرت بغیر عمل کے صرف ایک خواب ہے

اور عمل بغیر بصیرت کے فقط وقت گذارنا ہے

مگر بصیرت کے ساتھ عمل دنیا بدل کر رکھ دیتا ہے

کیا 101 فیصد حاصل کیا جا سکتا ہے ؟

محنت کرنے والے بہت لوگوں کی 90 فیصد سے زیادہ نتیجہ حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے ۔ لوگوں کو یہ کہتے عام سنا گیا ہے کہ 101 فیصد درست یا یقینی لیکن کبھی کسی نے نہیں بتایا کہ کیسے ؟ انگریزی میں تو اس کا طریقہ دریافت کر لیا گیا ہے جو کہ اُردو والوں کو شہہ دے دی گئی ہے ۔ اب گیند اُردو والوں کے میدان میں ہے ۔

A=1 B=2 C=3 D=4 E=5 F=6 G=7 H=8 I=9 J=10 K=11 L=12 M=13 N=14 O=15 P=16 Q=17 R=18 S=19 T=20 U=21 V=22 W=23 X=24 Y=25 Z=26

K-N-O-W-L-E-D-G-E = 11+14+15+23+12+5+4+7+5 = 96

H+A+R+D+W+O+R+K = 8+1+18+4+23+15+18+11 = 98

A-T-T-I-T-U-D-E = 1+20+20+9+20+21+4+5 = 100

L-O-V-E-O-F-G-O-D = 12+15+22+5+15+6+7+15+4 = 101

رشتہ دار ۔ ہمدرد یا دُشمن ؟

قارئین بالخصوص شادی شدہ جوڑوں کی رہنمائی کی خاطر میں ایک شخص کی آپ بیتی لکھنے لگا ہوں ۔ اس میں نام سب فرضی ہیں ۔

دو سگی بہنیں تھی ہاجرہ اور حفصہ ۔ وہ بچپن سے ایک ہی پلنگ پر اکٹھی سوتی تھیں اور شادی ہونے تک اکٹھی سوتی رہیں ۔ دونوں کی اکٹھی شادی ہوئی جب ہاجرہ کی عمر 16 سال اور حفصہ کی 14 سال تھی ۔ ہاجرہ کی شادی اپنی پھوپھی کے بیٹے سے ہوئی ۔ دونوں بہنوں میں بچپن سے بہت پیار تھا جو شادی کے بعد بھی قائم رہا ۔ ہاجرہ کے ہاں بیٹا پیدا ہونے کے بعد جب حفصہ کے ہاں یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں تو ہاجرہ نے حفصہ سے کہا کہ میں تمہاری ایک بیٹی کو اپنی بہو بناؤں گی ۔ بیس پچیس سال بعد جب ہاجرہ کا بیٹا نعیم تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازم ہو گیا تو اس نے حفصہ سے اس کی بیٹی نعیمہ کا رشتہ مانگا ۔ بیس پچیس سال سے اس رشتہ کا علم رکھنے والی حفصہ نے اپنی بیٹی نعیمہ کا رشتہ دینے سے انکار کر دیا جس کیلئے کچھ لغو قسم کی وجوہات بتائیں ۔ ہاجرہ نے اپنے چھوٹے بھائی صغیر جس پر وہ اپنی جان چھڑکتی تھیں سے مدد مانگی ۔ صغیر نے نہ صرف حفصہ کا ساتھ دیا بلکہ نعیم کی شکل اور اس کے چال چلن متعلق بے بنیاد باتیں کیں جس سے ہاجرہ کو دکھ پہنچا لیکن اس نے خاموشی اختیار کر لی ۔

تین سال بعد نعیم اس شہر میں گیا ہوا تھا جہاں اسکے ماموں صغیر رہتے تھے کہ وہاں ہاجرہ اور حفصہ کے بڑے بھائی یعنی نعیم کے بڑے ماموں کبیر جو ملک سے باہر تھے آ گئے اور علیحدگی میں نعیم سے پوچھا کہ تمہیں نعیمہ کی بجائے کوئی اور لڑکی پسند ہے ؟ نعیم کی نفی پر کبیر نے اپنے چھوٹے بھائی صغیر کو ڈانٹ پلائی کہ تمہارے یہاں ہوتے تمہاری بڑی بہنیں بچھڑنے کو آئیں اور تم نے ان کو ملانے کی کوشش نہ کی ۔ کبیر پھر صغیر کو ساتھ لے کر حفصہ کے پاس دوسرے شہر گئے اور اسے لے کر ہاجرہ کے پاس پہنچے جہاں انہوں نے ہاجرہ کے سامنے حفصہ سے پوچھا کہ نعیم کے ساتھ نعیمہ کی شادی نہ کرنے کی کیا وجوہات ہیں ؟ جو وجوہات حفصہ نے بتائیں کبیر نے لغو یا بے بنیاد کہہ کر رد کر دیں لیکن حفصہ نے کہا کہ حتمی فیصلہ سے وہ اپنے گھر جانے کے بعد آگاہ کریں گی ۔ دراصل رشتہ داروں نے ان سے اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے بڑی ہوشیاری کے ساتھ من گھڑت باتیں ہاجرہ ۔ ہاجرہ کے خاوند اور نعیم کے متعلق بتائی ہوئی تھیں ۔

واپس اپنے شہر پہنچنے پر حفصہ کے گھر میں پھر بحث مباحثہ ہوا ۔ آخر فیصلہ ہوا کہ نعیمہ سے پوچھا جائے تو نعیمہ نے اپنی خالہ ہاجرہ کے حق میں ووٹ دے دیا کیونکہ دوسرے امیدوار غیر تھے اور ان کے متعلق مفصل علم نہ تھا چنانچہ نعیمہ کی سگائی یا منگنی نعیم سے ہو گئی ۔

مزید دو سال بعد نعیم اور نعیمہ کی شادی ہو گئی ۔ وہ دونوں ہنسی خوشی رہ رہے تھے کہ نعیمہ کا بھائی اپنی بیوی کے ساتھ ان کے گھر آیا اور چند دن بعد چلا گیا ۔ اس کے بعد پھر لاوہ پکنا شروع ہوا اور نعیمہ کو دو ہفتہ کیلئے بلایا گیا اس خیال سے کہ اسے واپس نہیں بھیجا جائے گا ۔ وجہ نعیم کا مفروضہ ظلم تھا یعنی وہ نعیمہ کو کھانے کو کچھ نہیں دیتا اسی لئے وہ شادی کے بعد موٹی نہیں ہوئی ۔ نعیمہ کے دونوں بھائی اور چھوٹے ماموں صغیر نعیمہ کو طلاق دلانے کیلئے کوشاں تھے ۔ حفصہ کو جب بہت مجبور کیا گیا تو اس نے تھوڑا وقت مانگ کر علیحدگی میں اپنی بیٹی نعیمہ سے پوچھا کہ سب چاہتے ہیں کہ تم نعیم سے طلاق لے لو اور تمہاری شادی ایک بہت اچھے اور امیر گھرانے میں ایک بہت اچھے لڑکے کے ساتھ شادی کریں گے ۔ نعیمہ نے کہا کہ مجھے طلاق نہیں لینا ۔ نعیم بہت اچھا ہے میں اسی کے پاس واپس جانا چاہتی ہوں ۔ دوسرے ہی دن اس نے اپنے بڑے بھائی سے کہا کہ مجھے بس پر چڑھا دو میں میں واپس اپنے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہوں ۔ وہ نعیم کو کہہ کر آئی تھی کہ مجھے دو ہفتے بعد آ کر لے جانا جبکہ ابھی ایک ہفتہ بھی نہ گذرا تھا اور وہ واپس چلی گئی ۔

اس کے بعد سے اللہ کے فضل سے نعیم اور نعیمہ اچھی زندگی گذار رہے ہیں دونوں کے والدین اور ماموں فوت ہو چکے ہیں ۔ اللہ انہیں جنت میں جگہ دے ۔ بڑے ماموں کبیر تو پہلے ہی نعیم اور نعیمہ سے بہت پیار کرتے تھے ۔ متذکرہ بالا واقعہ کے بعد نعیمہ کی امی حفصہ نے نعیم کو ماں کا پیار دیا اور نعیمہ سے زیادہ نعیم کا خیال رکھا ۔

اللہ کا فرمان ہے ۔ مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو ۔ اُمید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا ۔ سورت ۔ 49 ۔ الْحُجُرَات ۔ آیت 10

ذمہ دار

ایک ترقی پذیر درمیانے سائیز کے ملک جس کے مشیر آئی ایم ایف اور ورڈ بنک تھے کا مشرقِ بعید کے ایک چھوٹے ملک کے ساتھ کشتی رانی کا مقابلہ ہوا۔ مقررہ وقت میں زیادہ فاصلہ طے کرنے والا فاتح قرار پاتا ۔ چھوٹے ملک نے یہ مقابلہ ایک میل کے فرق سے جیت لیا ۔ ترقی پذیر ملک نے فوری طور پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ماہرین کو ایک خطیر رقم کے عوض بُلوایا ۔ کمپیوٹر کے ذریعے اعداد و شمار نکالے گئے۔ آخر میں نتیجہ مرتب ہوا کہ فاتح ملک کی ٹیم میں ایک منیجر اور 6 ملاح ہیں جبکہ ہارنے والی ٹیم 6 منیجروں اور ایک ملاح پر مشتمل ہے۔

یہ ایک اہم قومی مسئلہ تھا اسلئے فوری طور پر ملک کے سربراہ کو رپورٹ پیش کی گئی کہ ٹیم میں تبدیلی ضروری ہے ۔ سربراہ نے فیصلہ دیا کہ ایک سے زیادہ ملاح بھرتی کرنا ملک کی معیشت پر بوجھ ہوگا اسلئے ملاح ایک ہی رہنے جائے ۔ منیجر وں کی اکثریت فوجی افسر اور باقی سول بیوروکریٹ ہیں جو عقلمند ہوتے ہیں اور تجربہ کار بھی اور امریکہ سے آئے ہوئے ماہرین کی رپورٹ پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اسلئے ایک منیجر کو ترقی دے کر جنرل منیجر بنا دیا گیا ۔ ایک کو منیجر ہی رہنے دیا گیا جبکہ 2 کو ڈپٹی منیجر اور 2 کو اسسٹنٹ منیجر بنا دیا گیا ۔

اگلے سال اُسی چھوٹے ملک سے پھر اس ترقی پذیر مُلک کا کشتی رانی کا مقابلہ ہوا۔ اس مرتبہ محنت پر یقین رکھنے والا وہ چھوٹا ملک پھر جیت گیا اور اس بار ایک کی بجائے 2 میل کے برتری سے ۔ ترقی پذیر ملک کے سربراہ نے پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے رابطہ کیا اور اس بار پہلے سے زیادہ عوضانہ پر فوری اور اعلٰی سطحی مشاورت طلب کی ۔ چنانچہ اعلٰی ماہرین کی ایک ٹیم پہنچ گئی اور گہرے مطالع اور زیرک تجزیہ کے بعد اپنی سفارشات میں لکھا کہ کشتی کی ٹیم کو ناکامی سے دوچار کرنے والے یا والوں کا محاسبہ کیا جائے ۔ مُلک کے سربراہ نے اپنے معتمدِ خاص کو اس رپورٹ پر اپنی سفارشات دینے کا کہا ۔ اس نے تجویز کیا ۔ چونکہ کشتی چلانا ملاح کا کام ہے اسلئے جیتنے یا ہارنے کا ذمہ دار بھی وہی ہو سکتا ہے ۔ مُلک کے حاکم نے ملاح کو نوکری سے نکال باہر کیا اور تمام منیجروں کو ترقی دے کر دوسرے بہتر محکموں میں بھیج دیا ۔