رشتہ دار ۔ ہمدرد یا دُشمن ؟

قارئین بالخصوص شادی شدہ جوڑوں کی رہنمائی کی خاطر میں ایک شخص کی آپ بیتی لکھنے لگا ہوں ۔ اس میں نام سب فرضی ہیں ۔

دو سگی بہنیں تھی ہاجرہ اور حفصہ ۔ وہ بچپن سے ایک ہی پلنگ پر اکٹھی سوتی تھیں اور شادی ہونے تک اکٹھی سوتی رہیں ۔ دونوں کی اکٹھی شادی ہوئی جب ہاجرہ کی عمر 16 سال اور حفصہ کی 14 سال تھی ۔ ہاجرہ کی شادی اپنی پھوپھی کے بیٹے سے ہوئی ۔ دونوں بہنوں میں بچپن سے بہت پیار تھا جو شادی کے بعد بھی قائم رہا ۔ ہاجرہ کے ہاں بیٹا پیدا ہونے کے بعد جب حفصہ کے ہاں یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں تو ہاجرہ نے حفصہ سے کہا کہ میں تمہاری ایک بیٹی کو اپنی بہو بناؤں گی ۔ بیس پچیس سال بعد جب ہاجرہ کا بیٹا نعیم تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازم ہو گیا تو اس نے حفصہ سے اس کی بیٹی نعیمہ کا رشتہ مانگا ۔ بیس پچیس سال سے اس رشتہ کا علم رکھنے والی حفصہ نے اپنی بیٹی نعیمہ کا رشتہ دینے سے انکار کر دیا جس کیلئے کچھ لغو قسم کی وجوہات بتائیں ۔ ہاجرہ نے اپنے چھوٹے بھائی صغیر جس پر وہ اپنی جان چھڑکتی تھیں سے مدد مانگی ۔ صغیر نے نہ صرف حفصہ کا ساتھ دیا بلکہ نعیم کی شکل اور اس کے چال چلن متعلق بے بنیاد باتیں کیں جس سے ہاجرہ کو دکھ پہنچا لیکن اس نے خاموشی اختیار کر لی ۔

تین سال بعد نعیم اس شہر میں گیا ہوا تھا جہاں اسکے ماموں صغیر رہتے تھے کہ وہاں ہاجرہ اور حفصہ کے بڑے بھائی یعنی نعیم کے بڑے ماموں کبیر جو ملک سے باہر تھے آ گئے اور علیحدگی میں نعیم سے پوچھا کہ تمہیں نعیمہ کی بجائے کوئی اور لڑکی پسند ہے ؟ نعیم کی نفی پر کبیر نے اپنے چھوٹے بھائی صغیر کو ڈانٹ پلائی کہ تمہارے یہاں ہوتے تمہاری بڑی بہنیں بچھڑنے کو آئیں اور تم نے ان کو ملانے کی کوشش نہ کی ۔ کبیر پھر صغیر کو ساتھ لے کر حفصہ کے پاس دوسرے شہر گئے اور اسے لے کر ہاجرہ کے پاس پہنچے جہاں انہوں نے ہاجرہ کے سامنے حفصہ سے پوچھا کہ نعیم کے ساتھ نعیمہ کی شادی نہ کرنے کی کیا وجوہات ہیں ؟ جو وجوہات حفصہ نے بتائیں کبیر نے لغو یا بے بنیاد کہہ کر رد کر دیں لیکن حفصہ نے کہا کہ حتمی فیصلہ سے وہ اپنے گھر جانے کے بعد آگاہ کریں گی ۔ دراصل رشتہ داروں نے ان سے اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے بڑی ہوشیاری کے ساتھ من گھڑت باتیں ہاجرہ ۔ ہاجرہ کے خاوند اور نعیم کے متعلق بتائی ہوئی تھیں ۔

واپس اپنے شہر پہنچنے پر حفصہ کے گھر میں پھر بحث مباحثہ ہوا ۔ آخر فیصلہ ہوا کہ نعیمہ سے پوچھا جائے تو نعیمہ نے اپنی خالہ ہاجرہ کے حق میں ووٹ دے دیا کیونکہ دوسرے امیدوار غیر تھے اور ان کے متعلق مفصل علم نہ تھا چنانچہ نعیمہ کی سگائی یا منگنی نعیم سے ہو گئی ۔

مزید دو سال بعد نعیم اور نعیمہ کی شادی ہو گئی ۔ وہ دونوں ہنسی خوشی رہ رہے تھے کہ نعیمہ کا بھائی اپنی بیوی کے ساتھ ان کے گھر آیا اور چند دن بعد چلا گیا ۔ اس کے بعد پھر لاوہ پکنا شروع ہوا اور نعیمہ کو دو ہفتہ کیلئے بلایا گیا اس خیال سے کہ اسے واپس نہیں بھیجا جائے گا ۔ وجہ نعیم کا مفروضہ ظلم تھا یعنی وہ نعیمہ کو کھانے کو کچھ نہیں دیتا اسی لئے وہ شادی کے بعد موٹی نہیں ہوئی ۔ نعیمہ کے دونوں بھائی اور چھوٹے ماموں صغیر نعیمہ کو طلاق دلانے کیلئے کوشاں تھے ۔ حفصہ کو جب بہت مجبور کیا گیا تو اس نے تھوڑا وقت مانگ کر علیحدگی میں اپنی بیٹی نعیمہ سے پوچھا کہ سب چاہتے ہیں کہ تم نعیم سے طلاق لے لو اور تمہاری شادی ایک بہت اچھے اور امیر گھرانے میں ایک بہت اچھے لڑکے کے ساتھ شادی کریں گے ۔ نعیمہ نے کہا کہ مجھے طلاق نہیں لینا ۔ نعیم بہت اچھا ہے میں اسی کے پاس واپس جانا چاہتی ہوں ۔ دوسرے ہی دن اس نے اپنے بڑے بھائی سے کہا کہ مجھے بس پر چڑھا دو میں میں واپس اپنے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہوں ۔ وہ نعیم کو کہہ کر آئی تھی کہ مجھے دو ہفتے بعد آ کر لے جانا جبکہ ابھی ایک ہفتہ بھی نہ گذرا تھا اور وہ واپس چلی گئی ۔

اس کے بعد سے اللہ کے فضل سے نعیم اور نعیمہ اچھی زندگی گذار رہے ہیں دونوں کے والدین اور ماموں فوت ہو چکے ہیں ۔ اللہ انہیں جنت میں جگہ دے ۔ بڑے ماموں کبیر تو پہلے ہی نعیم اور نعیمہ سے بہت پیار کرتے تھے ۔ متذکرہ بالا واقعہ کے بعد نعیمہ کی امی حفصہ نے نعیم کو ماں کا پیار دیا اور نعیمہ سے زیادہ نعیم کا خیال رکھا ۔

اللہ کا فرمان ہے ۔ مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو ۔ اُمید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا ۔ سورت ۔ 49 ۔ الْحُجُرَات ۔ آیت 10

This entry was posted in پيغام, روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

4 thoughts on “رشتہ دار ۔ ہمدرد یا دُشمن ؟

  1. شعیب صفدر

    افضل صاحب کے بعد آپ نے بھی معاشرتی سچی کہانیاں لکھنا شروع کردی!! اُن کی تحریروں کے بعد میرا دلکیا میں بھی لکھو! کہ جس پیشے سے تعلق ہے وہاں ہر ہفتہ ایک سبق اموز حقیقی قصہ معلوم ہوتا ہے مگر پھر خیال آتا ہے یو کسی کے بارے میں لکھنا درست ہو گا؟؟؟

  2. میرا پاکستان

    واقعی صفدر صاحب کے پاس ہم سب سے زیادہ سبق آموز کہانیاں ہوں گی اور ہم تو ان سے درخواست کریں گے کہ وہ یہ کہانیاں فرضی ناموں سے لکھنا شروع کریں تاکہ قارئین ان کے نتائج سے فائدہ اٹھا سکیں۔ کہتے ہیں سب سے سیانا وہ ہوتا ہے جو دوسروں کی غلطیوں سے سبق سکھتا ہے۔
    ہم اس بات کے قائل ہیں کہ اگر لڑکا اور لڑکی اپنا گھر بسانا چاہیں تو انہیں کوئی جدا نہیں‌کرسکتا۔ سب سے بڑا عقل مند وہی ہے جو دوسروں کی باتوں میں نہ آئے اور اپنی زندگی کے بارے میں‌فیصلے خود کرے۔

  3. اجمل Post author

    شعیب صفدر صاحب
    آپ کے پیشے کی وجہ سے جو کہانیاں آپ کے پاس آتی ہیں ان میں کچھ صحیح اور اس کہانی سے زیادہ غمناک ہوتی ہیں اور کچھ میں بناوٹ کی ملاوٹ بھی ہوتی ہے ۔ اسلئے صرف وہ کہانیاں لکھئے گا جن کے متعلق یقین ہو کہ سچ ہیں اور ہر کہانی میں جو سبق ہو اسے ضرور نمایاں کیجئے گا ۔ میں نے جو کہانی لکھی ہے اس کے سب کرداروں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں ۔

    افضل صاحب
    آپ کا خیال بالکل درست ہے ۔

    مردانہ دنیا میں خاتون صاحبہ
    اس دنیا میں اچھے لوگ بھی بستے ہیں جو بچھڑوں کو ملانے میں ہر وقت کوشاں رہتے ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.