Yearly Archives: 2008

امریکہ کی نفسیاتی دہشت گردی

ایک طرف تو امریکہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی تیار کردہ نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑیں اور دوسری طرف خود امریکہ کے اندر ایک بلوچ دہشتگرد گروہ کو سہارا دے کر ایران میں سیستان اور پاکستان میں بلوچستان کا توازن خراب کرنے میں مصروف ہے ۔ اس کے علاوہ افغانستان میں کرزئی حکومت کے کھولے ہوئے بدنامِ زمانہ بی ایل اے جس کا اب نام بلوچستان ریپبلیکن آرمی رکھ دیا گیا ہے کے دفاتر کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں باوجودیکہ برطانیہ انہیں دہشتگرد قرار دے چکا ہے ۔

پرویز مشرف کی سربراہی میں ہماری حکومت کا یہ حال ہے کہ 11 ستمبر 2001ء کے بعد سے امریکہ کے سامنے اتنا جھُک چکی ہے کہ بلوچستان جیسے حساس صوبے اور صوبہ سندھ میں امریکہ کو اڈے دے رکھے ہیں ۔ اب تو یہ بھی پتہ چلا ہے کہ امریکہ تربیلہ کے قریب بھی ایک ہوائی اڈا استعمال کر رہا ہے جہاں سے بغیر پائیلٹ کے جہاز [Predator] کی پروازیں بھیجی جاتی ہیں ۔

یہ سب کچھ نچھاور کر دینے کے بعد کہاں ہے امریکہ کی طرف سے پاکستان کی کوئی حمائت ؟ اگر ہم پاکستانیوں میں زرا سی بھی غیرت ہے تو امریکہ کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ سے ہمیں فوراً دستبردار ہو جانا چاہیئے ۔

یہ چھوٹا سا اقتباس ہے ڈاکٹر شیریں مزاری کی تحریر سے جو یہاں کلک کر کے مکمل پڑھی جا سکتی ہے ۔

سوئی کی تلاش

ساٹھ سال قبل جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا تو ایک چھوٹی سی کہانی پڑھی تھی کہ ایک شخص رات کے وقت سڑک پر قُمقَمے کی روشنی میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا ۔ ایک راہگیر نے پوچھا “بھئی کیا ڈھونڈ رہے ہو ؟” اس نے جواب دیا ” سُوئی”۔ راہگیر نے کہا “گِری کہاں پر تھی ؟” وہ شخص کہنے لگا “گھر میں”۔ راہگیر کہنے لگا “عجب آدمی ہو ۔ سوئی کھوئی گھر میں اور ڈھونڈ رہے ہو سڑک پر”۔ وہ شخص بولا ” گھر میں روشنی نہیں ہے”۔

ہمارے صدر صاحب اس کا اُلٹ کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں دھماکے کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والے تو ملک کے باہر ہیں اور صدر صاحب انہیں اپنے مُلک میں تلاش کر رہے ہیں ۔ اس طرح دھماکے کرانے والوں کو کھُلی چھٹی ملی ہوئی ہے ۔

پئے در پئے دھماکوں کے نتیجہ میں صدر صاحب کے معتمدِ خاص اور نگران وزیرِ داخلہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ حامد نواز بھی چند دن قبل ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے بول اُٹھے کہ “لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں دھماکے امریکہ ۔ بھارت اور افغانستان کروا رہا ہے”۔ اس پر امریکی سفیر نے غصہ گِلہ کیا ۔ پھر جب نگران وزیرِ داخلہ نے اپنا بیان واپس لینے کی بجائے ایک اور نجی ٹی وی چینل پر کہا “پاکستان میں ہونے والے دھماکوں میں انڈیا تو بہرحال ملوّث ہے اور شاید امریکہ اور افغانستان بھی اس میں شامل ہیں” تو سرکاری ترجمان نے اسے سرکاری بیان ماننے سے انکار کر دیا ۔

ہمارے صدر صاحب کو بُش نے نمعلوم کونسی گولی کھلائی ہوئی ہے کہ ان پر کسی سچائی کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا ۔

تبصرہ کا جواب

نینی صاحبہ نے میری تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے چند اہم نقاط اُٹھائے ہیں ۔ تبصرہ کا جواب سرِ ورق پر دے رہا ہوں کہ کوئی اور بھی قاریہ ایسی یا قاری ایسا ہو سکتا ہے جس کے ذہن میں یہی سوال اُبھرے ہوں لیکن لکھنا مناسب خیال نہ کیا ہو ۔

تبصرہ کا جواب

بہت خوب ۔ آپ کی اُردو بہت پسند آئی ۔ کسرِ نفسی دیکھیئے کہ ماشاء اللہ اتنی طویل اور جامع تحریر کے بعد فرمایا ہے “اف اردو لکھنا بہت مشکل ھے”۔ محترمہ اُردو لکھتی رہیئے ۔ اِسے مت چھوڑئیے ۔ یہ آپ کی اپنی بولی ہے ۔

میری تحریر کی تشنگی کی طرف توجہ دلا نے کا شکریہ ۔ مجھے اختلاط کی تعریف پہلے ہی لکھنا چاہیئے تھی ۔ فیروز اللُغات نیا ایڈیشن کے مطابق “اختلاط” کے معنی ہیں ۔ ربط و ضبط ۔ میل جول ۔ پیار ۔ میل ملاپ ۔ محبت کی گرم خوشی ۔ چھڑ چھاڑ ۔ اور “اختلاط کی باتیں” کا مطلب ہے پیار اور محبت کی باتیں ۔

محترمہ ۔ عنوان مناسب ہے کیونکہ بات پوری دنیا کی ہو رہی ہے ۔ یہ بتاتا چلوں کہ دنیا کا کوئی مذہب عورت مرد کے اختلاط کی اجازت نہیں دیتا ۔ مگر جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ بے راہ روی کا نتیجہ ہے ۔ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی بعثت کے وقت یہودیوں میں اختلاط کے نتیجہ میں ہونے والی بدکاری کی سزا عورت اور مرد دونوں کو سنگسار کرنا تھی ۔ یہی سزا سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے شادی شُدہ مرد یا عورت کے بدکاری کرنے پر مقرر فرمائی ۔

محترمہ ۔ میں نے اُس کشش کی بات کی تھی جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے فطرتِ انسان میں رکھی ہے اور جائز ہے ۔ جس کشش کا آپ نے ذکر کیا ہے یعنی ” تاجر کی لئے سود میں کشش اور سرکاری ملازم کے لئے رشوت میں”۔ یہ کشش شیطان نے انسان کو بہکانے کیلئے پیدا کی ہے اور ہر شخص میں نہیں ہوتی ۔ ہاں ۔ جب مرد عورت کی پاکیزا کشش میں شیطان کا عمل داخل ہو جائے تو نتیجہ وہی ہوتا ہے جس کی میں نے دو مثالیں دی ہیں ۔

آپ نے اسلامی حدود و قیود کا ذکر کیا ہے ۔ میں پھر کہوں گا کہ کوئی بھی مذہب اس اختلاط کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ یہ بدکاری کی طرف لے جاتا ہے ۔ ہاں اگر ہر انسان اپنے مذہب پر چلے تو پھر کسی قسم کا کوئی مسئلہ ہی پیدا نہ ہو مگر آج کے دور میں تو اُن سیّدنا عیسی علیہ السلام کے ماننے والے جنہوں نے کہا تھا کہ “اگر ایک گال پر کوئی تھپڑ مارے تو دوسرا گا آگے کر دو” اپنے علاوہ باقی سب کا بلا جواز قتلِ عام کر رہے ہیں ۔

آپ نے درست لکھا کہ ساری بگاڑ کا سبب دین سے دُوری ہے ۔ آپ نے اللہ کے فرمان کا ذکر کیا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا یہ حُکم سورت 2 ۔ الْمَآئِدَة کی آیت 2 کا آخری حصہ ہے ۔ وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللہَ إِنَّ اللّہَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ ۔ اور نیکی اور پرہیزگاری [کے کاموں] میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم [کے کاموں] میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو ۔ بیشک اﷲ [نافرمانی کرنے والوں کو] سخت سزا دینے والا ہے

روشن خیالی؟

میں نے اپنی کل کی تحریر کے آخر میں ایک مشورہ لکھا تھا ۔ اس مشورہ کا ایک پہلو میں نے اُجاگر نہیں کیا تھا جو یہ ہے کہ کسی غیر مرد کے ساتھ اکیلے میں سفر نہیں کرنا چاہیئے ۔ اس سلسلہ میں آج انگریزی اخبار دی نیوز اسلام آباد میں ایک خبر چھپی ہے جو ملاحظہ ہو ۔

ہمارے گھر سے آدھے کلو میٹر کے فاصلہ پر مارگلہ تھانہ ہے ۔ وہاں اسلام آباد کے ایک کالج کی 18 سالہ طالبہ نے پہنچ کر ایس ایچ او کو بتایا کہ وہ اسلام آباد کے سیکٹر جی ۔ 9 میں اپنی سہیلی سے ملنے گئی ۔ سہیلی گھر پر نہ تھی ۔ وہاں اُس کی ملاقات سہیلی کے دوست سے ہوئی جس نے اُسے اپنی کار میں اُس ہوٹل میں پہنچانے کی پیشکش کی جہاں کہ وہ جانا چاہتی تھی ۔ چنانچہ وہ اس لڑکے کے ساتھ چلی گئی مگر بجائے ہوٹل کے وہ اُسے اسلام آباد کے مضافات میں لے گیا اور پستول دکھا کر اُس کی عزت لوٹ لی ۔ میں اس سانحہ کے بعد سیدھی یہاں آئی ہوں ۔ خبر کے مطابق لڑکے کو گذشتہ رات گرفتار کر لیا گیا ہے ۔

اصل بات تو لڑکا لڑکی کے علاوہ صرف اللہ ہی جانتا ہے ۔ اس واقعہ کے متعلق مندرجہ ذیل سوال اہم ہیں

لڑکی اس غیر لڑکے کے ساتھ کیوں گئی ؟
لڑکی سہیلی کے گھر سے واپس اپنے گھر جانے کی بجائے ہوٹل کیوں جانا چاہتی تھی ؟
جب لڑکی نے دیکھا کہ لڑکا صحیح راستہ پر نہیں جا رہا تو اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کیوں نہ کی ؟
اسلام آباد کے جس علاقے کی بات ہو رہی ہے اس میں آجکل رات 11 بجے تک بھی رونق ہوتی ہے ۔

مرد عورت اختلاط

مرد اور عورت کا اختلاط ایک ایسا مرض ہے جو اپنی ہولناکی یورپ اور امریکہ میں پھیلانے کے بعد پاکستان میں بھی پاؤں جما رہاہے ۔ آجکل ہمارے ملک کے نام نہاد روشن خیال لوگ مرد عورت کے اختلاط کے گُن گاتے ہیں اور اس اختلاط کی عدم موجودگی کو مُلکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بیان کرتے ہیں جو کہ حقیقت نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں عورتیں ماضی میں معاشرے کا بے کار پرزہ کبھی بھی نہ تھیں ۔ وہ ملکی ترقی میں ہمیشہ شامل رہیں ۔ ایک چھوٹی سی مثال 1947ء کی ہے جب لاکھوں کی تعداد میں نادار ۔ بے سہارا ۔ بیمار یا زخمی خواتین اور لڑکیاں بھارت سے پاکستان پہنچیں تو اس دور کی پاکستانی خواتین اور لڑکیاں ہی تھیں جنہوں نے بیگم رعنا لیاقت علی صاحبہ کی سربراہی میں منظم ہو کر نہ صرف ان کی تیمارداری کی اور ڈھارس بندھائی بلکہ انہیں سنبھالا ۔ بسایا ۔ انہیں اپنے گھر چلانے کے قابل کیا اور ہزاروں کی شادی کا اہتمام بھی کیا ۔ رہیں دیہاتی عورتیں جنہیں یہ روشن خیال قیدی کہتے ہیں وہ پہلے بھی پڑھی لکھی شہری عورتوں سے زیادہ کام کرتی تھیں اور آج بھی زیادہ کام کرتی ہیں گھر میں اور گھر سے باہر بھی ۔ بہرکیف یہ ایک علیحدہ موضوع ہے ۔

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مطالعہ اور تحقیق کی خُو مجھے بچپن ہی سے بخشی اور میں نے سنِ بلوغت کو پہنچنے سے قبل ہی عورت مرد کے اختلاط کے عمل کا بغور مطالعہ شروع کر دیا ۔ یہ مرض غیرمحسوس طور پر لاحق ہو جاتا ہے اور بظاہر راحت بخش ہوتا ہے ۔ یہی راحت کا احساس انسان کو ایک دن ڈبو دیتا ہے ۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے لڑکی لڑکے یا عورت مرد کے درمیان ایک خاص قسم کی کشش رکھی ہے ۔ مگر ساتھ ہی حدود و قیود بھی مقرر کر دیں کہ افزائشِ نسل صحیح خطوط پر ہو ۔

آج کی تحریر نہ تو بدکردار عورتوں کے متعلق ہے اور نہ ہی سڑکوں پر اور مارکیٹوں میں گھورنے یا چھڑنے والوں کے متعلق بلکہ شریف زادوں اور شریف زادیوں سے متعلق ہے ۔ جنسی تسکین کی خاطر ایک دوسرے کو ملنے والے لڑکا لڑکی یا مرد عورت کی تعداد بہت کم ہے ۔ اکثریت غیر ارادی طور پر جنسی بے راہروی کا شکار ہوتی ہے ۔ ابتداء عام طور پر تعریف سے ہوتی ہے ۔ بعض اوقات ابتداء جملے بازی سے ہوتی ہے ۔ اختلاط جاری رہے تو بات دست درازی تک پہنچ جاتی ہے اور پھر ایسا لمحہ آنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے جب دونوں نہ صرف اللہ بلکہ اردگرد کی دنیا کو بھول کر غوطہ لگا جاتے ہیں اور احساس سب کچھ کر گذرنے کے بعد ہوتا ہے ۔ کچھ کو احساس اس وقت ہوتا ہے جب لڑکی یا عورت کا جسم اس کی غلطی کی گواہی دینے لگتا ہے ۔ اس معاملہ میں ہر مرحلہ پر ابتداء عام طور پر لڑکے یا مرد کی طرف سے ہوتی ہے ۔ لیکن کبھی کبھار اس کی ابتداء لڑکی یا عورت کی طرف سے بھی ہوتی ہے ۔

متذکرہ عمل کا شکار صرف جاہل ۔ اَن پڑھ یا غریب ہی نہیں ہوتے اور نہ ہی صرف غیر شادی شدہ ہوتے ہیں بلکہ پڑھے لکھے ۔ آسودہ حال اور شادی شدہ بھی ہوتے ہیں ۔ ہوتا یوں ہے کہ کسی عام ضرورت کے تحت لڑکا لڑکی یا عورت مرد ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ باتوں سے بات کبھی لطیفوں ۔ مذاق یا چوٹوں پر پہنچتی ہے ۔ کبھی کبھی اسی پر جھڑپ بھی ہو جاتی ہے ۔ یہ اس مرض کی ابتدائی علامات ہیں ۔ چاہیئے کہ انسان اسی وقت اپنے آپ کو سنبھالے اور اس راحت یا لذت کے احساس کو ختم کر دے ۔ بالخصوص لڑکی یا عورت کو اس صورتِ حال سے فوری طور پر نکل جانا چاہیئے ورنہ اس مرض کی خطرناکی کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی وقت انسان کیلئے ایک گھمبیر مسئلہ بن سکتا ہے جس کے نتیجہ میں کوئی خودکُشی کر لیتا ہے ۔ کوئی عدالت کے کٹہرے میں پہنچ جاتا ہے اور کوئی قتل کر دیا جاتا ہے ۔ ہلاکت یا کچہری سے بچ جانے والی لڑکیاں یا عورتیں گمنامی کی زندگی گذارتی ہیں ۔ ستم یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ہو مرد یا لڑکا معاشرہ میں اس سانحہ کے بُرے اثرات سے بچا رہتا ہے ۔

زبردستی بدکاری کے جو واقعات اخبارات اور سینہ گزٹ کے ذریعہ ہمارے علم میں آتے ہیں تحقیق کرنے پر افشاء ہوتا ہے کہ ان کی اکثریت اختلاط کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ اس حقیقت سے متعلقہ خاندان کے بزرگ اور وکلاء واقف ہوتے ہیں ۔ ہوتا یوں ہے کہ جب لڑکی یا عورت کو یقین ہو جاتا ہے کہ اس کے گناہ کی سَنَد سب پر عیاں ہونے والی ہے تو وہ اپنی بچت کی کوشش میں اپنے دوست پر زبردستی کا الزام لگا دیتی ہے ۔ دیہات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اصل مجرم کی بجائے کسی دشمن کا نام لے کر مقدمہ درج کرا دیا جاتا ہے ۔ میرے علم میں کئی واقعات کی اصل کہانی ہے لیکن ان میں سے دو ایسے ہیں جن کے متعلق میں آج بھی سوچتا ہوں کہ ایسا کیسے ہو گیا ؟ کیونکہ ان کے متعلقہ لوگوں کو میں اچھی طرح جانتا تھا ۔ وہ سب تعلیم یافتہ ۔ ذہین ۔ شریف النفس اور سمجھدار لوگ تھے اور ان سے ایسی حرکت کی کسی کو توقع نہ تھی ۔

ایک گھریلو خاتون ۔ نیک خاندان کی بیٹی ۔ پسند کی شادی ۔ نیک خاندان کی بہو ۔ عمر 40 سال سے زیادہ ۔ دو بیٹوں اور دو بیٹیوں [عمریں علی الترتیب 18 ۔ 10 ۔ 16 اور 13 سال] کی ماں ۔ خاوند بہت خیال رکھنے والا ۔ اس عورت کو موسقی اور ناچ کا شوق چُرایا ۔ اسکے خاوند کا بہترین دوست اس فن کا ماہر تھا ۔ وہ ان کے ہاں آتا جاتا تھا ۔ عورت نے اُس سے سیکھنا شروع کیا ۔ کچھ ماہ بعد ایک دن اس کا خاوند گھر آیا تو اس نے انہیں ایسی حالت میں دیکھا کہ کھڑے کھڑے بیوی کو طلاق دے دی ۔ بیوی کو اپنی غلطی کا احساس تو ہوا لیکن دیر بہت ہو چکی تھی ۔

دوسرا قصہ ایک لیڈی ڈاکٹر کا ہے ۔ جس ہسپتال میں وہ ملازم تھی وہیں ایک ڈاکٹر سے اس کی عام سی گپ شپ ہو گئی ۔ جس رات لیڈی ڈاکٹر کی ڈیوٹی ہو تی کبھی کبھار وہ ڈاکٹر گپ شپ کیلئے آ جاتا ۔ ایک رات وہ ہو گیا جس کا اختلاط میں ہمیشہ خدشہ رہتا ہے ۔ دو تین ماہ بعد گناہ ظاہر ہونے کا اُنہیں یقین ہو گیا تو اپنی عزت کا جنازہ نکلتا محسوس ہوا ۔ دونوں کے خاندان ایک دوسرے کو نہ جانتے تھے اور نہ ان کی ثقافت ایک سی تھی ۔ بہرحال دونوں نے اپنے گھر والوں پر کسی طرح دباؤ ڈالا ۔ لڑکے کی منگنی اپنی کزن سے ہو چکی ہوئی تھی جسے توڑ کر دونوں کی شادی ہو گئی ۔

اس مرض کو سمجھنے کیلئے مرد و عورت کی نفسیات ۔ علم العضاء اور کچھ دیگر عوامل کا مطالعہ ضروری ہے ۔ بالخصوص عورتوں کے بارے میں ۔ عورت کو اللہ تعالٰی نے محبت کا پیکر بنایا ہے ۔ وہ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر دُکھی ہو جاتی ہے اور معمولی سے اچھے سلوک سے خوش ہو جاتی ۔ عورت کی یہی خوبیاں اس کیلئے وبال بھی بن سکتی ہیں ۔ دوسرے لڑکی یا عورت کے جسم میں ایک محرک دائرے کی صورت میں نفسیاتی رد و بدل ہوتا رہتا ہے جو کہ اس کی صنف کے لحاظ سے ضروری ہے ۔ ہر چکر کے دوران ایک ایسا وقت آتا ہے کہ مخالف جنس کی کشش بہت زیادہ ہو جاتی ہے ۔ ایسے وقت میں اگر وہ کسی غیر مرد کے قریب ہو جس سے کہ اس کا اختلاط چل رہا ہو تو اس کی عفت ختم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ اس سے بچنے کا یعنی اپنی عفت و ناموس کو بچانے کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے بتا یا ہے کہ مرد عورت یا لڑکا لڑکی باہمی اختلاط سے بچیں اور لڑکی یا عورت غیر لڑکے یا مرد سے سرد مہری سے پیش آئے ۔

دنیاوی لحاظ سے اگر ملنا مجبوری ہو تو عورت یا لڑکی کو چاہیئے کہ کسی بھی مرد یا لڑکے کو علیحدگی میں نہ ملے بلکہ والدہ یا والد یا بڑی بہن یا بڑے بھائی یا خاوند یا بہت سے لوگوں کی موجودگی میں ملے ۔ کئی والدین اپنی بیٹیوں کو اور خاوند اپنی بیویوں کو آزاد خیال بنانے کی کوشش میں اپنے لئے بدنامی کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔ والدین اور خاوندوں کو بھی اپنے کردار پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے ۔ یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ لڑکیوں اور عورتوں کی مناسب حفاظت اور ان کو نان نفقہ ۔ لباس ۔ چھت اور دیگر ضروری سہولیات بہم پہنچانا باپ یا بھائیوں یا خاوند یا بیٹوں پر فرض ہے ۔

بیوقوف بادشاہ

پانچویں یا چھٹی جماعت کی کتاب میں ہم نے ایک کہانی پڑھی تھی جس کے متعلق اب محسوس ہوتا ہے کہ وہ سچا واقعہ ہو گا ۔ کہانی یوں تھی کہ ایک بادشاہ کو دنیا میں لاثانی ہونے کا شوق تھا ۔ اس نے حکم جاری کیا کہ جو مجھے ایسا لباس لا کر دے گا جو دنیا میں کسی کے پاس نہ ہو تو اسے میں مالا مال کر دوں گا ۔ بڑے بڑے جولاہوں نے قسمت آزمائی مگر ناکام رہے ۔ قریبی ملک میں ایک نہائت چالاک آدمی رہتا تھا ۔ اس نے بادشاہ کے حضور پیش ہو کر عرض کی “جناب ۔ میں ایسا لباس تیار کروا سکتا ہوں جو صرف عقلمند شخص کو دکھائی دیتا ہے ۔ اس سے آپ کو اپنے عقلمند مشیر اور وزیر چننے میں بھی آسانی ہو گی”۔ بادشاہ نے کہا “اچھا ۔ وہ لباس تیار کرواؤ”۔ چالاک شخص نے کہا “جناب ۔ یہ میرے فن کا بہت بڑا راز ہے جس کیلئے مجھے کوئی خفیہ کمرہ عنائت کیجئے”۔

بادشاہ نے اپنے محل کا ایک بڑا سا کمرہ اس کے حوالے کر دیا ۔ وہ کھڈیاں وہاں لے آیا اور اس کے آدمی کھڈیاں چلانے لگ گئے ۔ کچھ دن بعد اس آدمی نے بادشاہ کو بتایا کہ لباس تیار ہو گیا ہے ۔ بادشاہ مشاہدہ کرنے گیا تو اسے کچھ نظر نہ آیا لیکن یہ سوچ کر کہ وہ کہیں بیوقوف نہ کہلائے بادشاہ لباس کی تعریف کر کے آ گیا ۔ دوسرے دن دربار میں اعلان کیا گیا کہ اگلے روز بادشاہ سلامت دربار میں ایسا لباس پہن کر آئیں گے جو صرف عقلمند شخص کو نظر آتا ہے ۔ اگلے روز دربار جانے سے قبل بادشاہ کو بڑے اہتمام سے اس شخص نے لباس پہنایا اور بادشاہ دربار میں جا کر بیٹھ گیا ۔

کچھ وزیر و مشیر خاموش بیٹھے رہے اور کچھ بادشاہ کے نئے لباس کے قصیدے پڑھنے لگ گئے ۔ اتفاق سے ایک درباری کے ساتھ اس کا پانچ سالہ بچہ بھی اس دن آیا تھا ۔ وہ ہنستے ہوئے چیخا “بادشاہ ننگا ۔ بادشاہ ننگا”۔

مجھے یہ کہانی اب اسلئے سچ لگتی ہے کہ ہمارے ملک کے صدر جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو پاکستان کے آئین اور قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے بطور فوج کے سربراہ کے قوانین بنا کر انہیں آئین کا حصہ بنانے کا اعلان کر دیا اور اسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ یہ بھی لکھوا دیا کہ اس قانون کو نہ تو پاکستان کی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور نہ اسے پاکستان کی پارلیمنٹ تبدیل یا حذف کر سکتی ہے اور اب اسی کی بنیاد پر بار بار کہہ رہے ہیں “میں 5 سال کیلئے صدر ہوں اور 3 نومبر کو معزول کئے ہوئے جج بحال نہیں ہو سکتے”۔ اور اس کے مداح خواں بھی یہی رٹ لگا رہے ہیں ۔

واہ رے پرویز مشرف ۔ تُو نے ننگے بادشاہ والی کہانی سچ کر دکھائی ۔

مِٹا سکے تو مِٹا لے دنیا

مِٹا سکے تو مِٹا لے دنیا ۔ بنانے والا بنا ہی دے گا ۔

پیر 18 فروری 2008 کو سب نے اللہ کی قدرت کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھی ۔ پرویز مشرف اور اس کے حواریوں کی سر توڑ کوششوں کے باوجود اللہ سُبحانُہُ بعددِ خلقِہِ نے آمریت مخالف قوتوں کو لا سامنے کھڑا کیا ۔

آج اللہ کے دِین اور اللہ کے بندوں کو مِٹانے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں بہت ہیں اور ہر طرف سے ہیں لیکن یہ کوئی پہلا موقع نہیں بلکہ ازل سے شیطان کے پیروکاروں کا وطیرہ ہے اور جب بھی دِیندار اللہ کے احکامات کو پسِ پشت ڈال کر دنیا کی ظاہری چکاچوند میں گم ہونے لگے اہل شیطان نے دین کو مٹانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ۔

شاعرِ مشرق علامہ اقبال جو کہ ایک فلسفی بھی تھے نے یونہی نہیں فرمایا

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بُجھایا نہ جائے گا

تاریخ متذکرہ بالا خیال کی مثبت پُشت پناہی کرتی ہے ۔ اللہ کا دین کبھی مِٹ نہیں سکتا اور اللہ کے بندے جس دن مِٹ گئے میرا یقین ہے کہ اس کے بعد جلد ہی قیامت برپا ہو جائے گی اور یومِ حساب قائم ہو جائے گا ۔

جب روس نے مشرقی یورپ میں مسلم آبادی والی ریاستوں پر قبضہ کیا تو تمام علماء کو شہید کردیا اور تمام مساجد ختم کر دی تھیں ۔ مسلمانوں کا لباس پہننا اور عربی نام رکھنا ممنوع قرار دے دیا گیا ۔ جس کے متعلق معلوم ہوتا کہ مسلمان ہے اسے قتل کر دیا جاتا یا بقیہ عمر کیلئے قید خانہ میں ڈال دیا جاتا ۔ کامل مُخبری اور سخت گیری کے نتیجہ میں روسی حکومت کے اہلکار مطمعن تھے کہ مسلمان اور اسلام دونوں ختم ہو گئے ۔

اس سلسلہ میں ایک واقعہ ماضی قریب کا ہے ۔ آج سے تین دہائیاں قبل روسی اشتراکی ممالک کا اتحاد [U,S,S,R] دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت تھی جسے توڑنے کا تمغہ آج کی بڑی طاقت ریاستہائے متحدہ امریکا [U.S.A] خود اپنے سینے پر سجاتا ہے ۔ درست کہ امریکا نے بھی اپنی سی کوشش کی لیکن بر سرِ پیکار اور در پردہ بھی مسلمان ہی تھے جنہوں نے اس برفانی ریچھ کو واپس برفوں تک ہی محدود کر دیا ۔ افغانستان میں مسلمانوں کے اعلانِ جہاد سے تو سب واقف ہیں لیکن مشرقی یورپ کی ریاستوں میں اسلام کے شیدائی یکدم کہاں سے آ گئے اس سے بہت ہی کم لوگ واقف ہیں ۔

میرے ایک دوست محمد اختر صاحب الیکٹریکل انجیئر تھے ۔ وہ 1974ء میں چیکوسلواکیا ایک خاص قسم کی تربیّت کیلئے گئے ۔ ان کے ساتھ جو واقع پیش آیا وہ اُنہی کی زبانی نقل کر رہا ہوں ۔

“مجھے اور ایک نوجوان انجنیئر کو 1974ء میں تربیت کیلئے چیکوسلوکیا کی ایک فیکٹری میں بھیجا گیا ۔ اس فیکٹری میں ہم دو ہی پاکستانی تھے اور ہمارے خیال کے مطابق صرف ہم دو ہی مسلمان تھے ۔ دوپہر کا کھانا فیکٹری ہی میں ہوتا تھا ۔ ہم دونوں کیفیٹیریا کے ایک کونے میں ایک میز پر بیٹھتے تھے ۔ کیفیٹیریا میں بہت سے مقامی نوجوان ہوتے تھے ۔ ایک ماہ سے زیادہ گذر جانے کے بعد ایک دن میرا ساتھی بیمار ہونے کی وجہ سے فیکٹری نہ جا سکا ۔ اس دن میں نے کیفیٹیریا میں ایک مقامی نوجوان کو عجیب حرکات کرتے دیکھا ۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتا ۔ پھر اچانک میری طرف دیکھتا ۔ پھر اِدھر اُدھر دیکھتا اور پھر اپنے سامنے کی طرف دیکھنے لگ جاتا ۔ ایسا اُس نے کئی بار کیا ۔

دوسرے دن پھر میرا ساتھی فیکٹری نہ گیا ۔ اس دن بھی کیفیٹیریا میں وہ نوجوان اُسی میز کے ساتھ بیٹھا تھا اور تین بار وہی حرکت کرنے کے بعد وہ تیزی سے میرے پاس آیا اور اشارے سے میرے پاس بیٹھنے کی اجازت مانگی ۔ میں نے مسکرا کر اُسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ بیٹھنے کے بعد اس نے ادھر اُدھر دیکھا اور پھر میرے کان میں کہا “لا اِلٰہَ “۔ میں سمجھا کہ پوچھ رہا ہے ” تم مسلمان ہو ؟” میں نے ہاں میں سر ہلایا تو اس نے مدھم آواز میں کہا “الحمدللہ” ۔ پھر اس نے اشاروں ہی سے پوچھا “تمہارا ساتھی بھی ۔ لا اِلٰہَ “۔ میں نے ہاں میں سر ہلایا تو اس نے نفی میں سر ہلا کر مجھے اشارے سے سمجھایا کہ وہ شراب پیتا ہے ۔ اس کے بعد کے دنوں میں جب بھی کیفیٹیریا میں زیرِ تربیت لوگوں کے علاوہ کوئی نہ ہوتا تو وہ نوجوان میرے پاس آ کر بیٹھ جاتا اور مدھم آواز میں قرآن شریف کی تلاوت کرتا رہتا ۔ ایک دن اس نے مجھے پوری سورت بقرہ سنادی ۔ ایک دن میں نے اشاروں میں اس سے پوچھا کہ “اس شہر میں تم جیسے کتنے ہیں ؟” تو اس نے انگلیوں سے سمجھایا کہ 1200 ۔ میں نے پوچھا “تم کو قرآن پڑھنا کس نے سیکھایا ہے ؟” اس نے سمجھایا کہ ایک بوڑھا استاد ہے ۔ میں نے پوچھا کہ “تم کہاں قرآن شریف پڑھتے ہو ؟” تو اس نے سمجھایا کہ زیرَ زمین اور کسی کو نہیں معلوم ۔ اگر معلوم ہو جائے تو ہمیں جان سے مار دیا جائے گا ۔”

محمد اختر صاحب وفات پاچکے ہیں ۔ ذہین ۔ شریف النفس اور باعمل مسلمان تھے ۔ اُنہوں نے 1947ء میں ہندو اور سکھ طلباء کے مقابلہ میں انجنئرنگ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور وہاں سے بی ایس سی الیکٹریکل انجنیئرنگ پاس کی ۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں عمدہ مقام مرحمت فرمائے ۔