وطنِ عزیز میں قسم قسم کے طوطے پائے جاتے ہیں ۔ طوطے کی بُنیادی طور پر دو قسمیں ہیں اور ان دو میں سے ہر ایک کی کئی کئی قسمیں ہیں ۔ ایک طوطا جسے ایک مصنف توتا لکھتے تھے ایک خوبصورت پرندہ ہے ۔ لیکن بات ہو گی دوسری قسم پر۔ دوسری قسم کے بچے تو سب طوطے ہی ہوتے ہیں کیونکہ وہ طوطوں کی طرح پیارے ہوتے ہیں اور طوطوں کی طرح ہی اپنے ادرگرد کے لوگوں کی نقل کر کے بولنا سیکھتے ہیں ۔
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ان دوسری قسم کے طوطوں کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور انہیں سوچنے اور فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے مگر اُن میں سے اکثر ہمیشہ کیلئے طوطا بن بیٹھتے ہیں ۔
ان کی ایک معروف قسم ہے اپنے منہ میاں مِٹھُو جو کہ ایک بے ضرر قسم ہے اور سیدھے سادے افراد پر مشتمل ہے اور اس قسم میں کبھی کبھار ہر شخص شامل ہو جاتا ہے ۔
ان طوطوں کی دوسری قسم موسمی طوطا جو ایسے طوطوں پر مشتمل ہے جو صرف مالدار یا طاقتور کی بولی کی نقل کرتے ہیں ۔ یہ طوطے نا قابلِ اعتبار ہوتے ہیں نہ صرف عام آدمی کیلئے بلکہ اُس کیلئے بھی جس کی بولی وہ بولتے ہیں کہ جونہی اُس سے زیادہ طاقت یا دولت والا سامنے آ گیا تو یہ طوطے نئے نمودار ہونے والے کی بولی بولنے لگتے ہیں ۔
ان طوطوں کی تیسری قسم ہے رٹّو طوطا ۔ اِنہیں جو پڑھا دیا جائے بس اُسے یاد رکھتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر انہیں پڑھا دیا جائے کہ ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے تو چاہے آدھی رات ہو ۔ نہ چاند نکلا ہو اور نہ کوئی قُمقُمہ جل رہا ہو وہ یہی کہیں گے کہ ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے ۔ یہ طوطے سیاسی طوطے بھی کہلاتے ہیں ۔
ان طوطوں کی چوتھی قسم ہے وہ ہے جو شائد احساسِ کمتری کا شکار ہو کر اپنی ہر چیز سے متنفر ہو جاتے ہیں ۔ یہ طوطے دساور بالخصوص سفید چمڑی کے غلام ہوتے ہیں اور ان ہی کی بولی بولتے ہیں ۔ نہ صرف اپنے ہموطنوں پر غیرمُلکیوں کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ اپنے وطن کی بنی بہترین اشیاء پر بھی گھٹیا غیر مُلکی اشیاء کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیز کے بازاروں میں پاکستانی مال غیر مُلکی کہہ کر مہنگے داموں بیچا جاتا ہے اور یہ طوطے فخریہ خریدتے ہیں ۔
ان طوطوں کی پانچویں اور سب سے زیادہ کارآمد نسل چُوری والے طوطے ہیں ۔ یہ طوطے اُس کی بولی بولتے ہیں جو انہیں چُوری کھلاتا ہے یا پھر زیادہ چُوری کھلاتا ہے ۔ وطنِ عزیز میں یہ نسل بڑی کامیاب ہے اور وقت کے ساتھ چُوری کھلانے والے کی کچھ زیادہ ہی وفادار بن گئی ہے ۔ چُوری ملنا بند بھی ہو جائے تو صرف اس اُمید پر کہ شائد پھر چُوری مل جائے وفاداری نبھاتی ہے ۔
ان طوطوں کی چھٹی اور اعلٰی نسل وطنِ عزیز کے حکمرانوں کی ہے جو فیصلہ کرنا تو کُجا کوئی بات کرنے سے بھی پہلے امریکا ۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف دیکھتے ہیں اور جس طرح اُن کے ہونٹ ہِل رہے ہوتے ہیں اُسی طرح یہ طوطے اپنے ہونٹ ہلاتے جاتے ہیں ۔ پھر جو بھی آواز نکلے ان کی بلا سے ۔ انہیں صرف اس پر تسلی ہوتی ہے جس کی نقل انہوں نے کی تھی وہ مطمئن ہے ۔
واہ حضرت کیا روشنی ڈالی ہے طوطوں کی نسلوں پر
لا جواب!
بہترین ، پڑھ کر مزا آگیا۔
تحریر کے شروع میں ، میں سمجھا کہ شائد اہلسنت سبز طوطوں کا زکر ہونے والا ہے، ویسے کیا خیال ہے، انکے ذکر خیر کی کمی نہیں رہ گئی ؟
عبدالرؤف صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریھ ۔ میرا خیال ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد اب مجھ سے آپ ویسے سوال نہیں پوچھیں گے جیسے اس سے پہلے پوچھ رہے تھے