یہ دَور اشتہار بازی کا ہے جسے انگریزی میں پروپیگنڈہ کہتے ہیں اور اس کا جدید نام کسی حد تک انفارمیشن ٹیکنالوجی بھی ہو سکتا ہے ۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تین صدیاں قبل اشتہاربازی کی بجائے لوگ یا قومیں اپنے ہُنر یا طاقت سے اپنا سِکہ منواتے تھیں ۔ یورپ میں جب یہ خیال اُبھرا کہ صرف حقائق کے سہارے دوسروں کو متأثر کرنا اُن کے بس کا روگ نہیں رہا تو آزادیِ نسواں کے ساتھ ساتھ اشتہار بازی کی صنعت معرضِ وجود میں لائی گئی ۔ اشتہاربازی کا بنیادی اصول حقائق کی وضاحت کی بجائے یہ رکھا گیا کہ اتنا جھوٹ بولو اور اتنی بار بولو کہ کوئی اس کا دس فیصد بھی درست مان لے تو بھی فائدہ ہی ہو ۔
موجودہ دور کی اشتہاربازی نے ٹی وی کی مدد سے اپنے گھروں میں بیٹھے لوگوں کے ذہنوں کو اپنا غلام بنا لیا ہے ۔ نتیجہ صرف یہی نہیں کہ ایک روپے کی چیز 5 یا 10 روپے میں بِک رہی ہے اور لوگ دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں بلکہ بقول ایک مدبّر سربراہِ خاندان ۔ اُنہیں خالص دودھ میسّر ہے لیکن اس کے بچے کہتے ہیں کہ یہ دودھ مزیدار نہیں اور ٹی وی پر سب سے زیادہ اشتہار میں آنے والے ناقص دودھ کو پینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے
آمدن برسرِ موضوع ۔ مجھ سے پچھلی نسل کے کسی شاعر نے آدھی صدی سے زیادہ ماضی میں نجانے کس ترنگ میں آ کر کہا تھا
وجودِ زن سے ہے کائنات میں رنگ
کسی اور نے کچھ سمجھا یا نہیں سمجھا ۔ ہمارے وطن میں اشتہار بنانے والوں نے اسے خُوب سمجھا اور اشتہاروں میں عورت کی شکل نظر آنے لگی ۔ جب عورت کا رنگ اخباروں میں بھرا جا چکا تو ٹی وی نے جنم لے لیا ۔ پھر کیا تھا ۔ نہ صرف عورت کی شکل بلکہ اس کے جسم کی دل لُوٹ لینے والی حرکات کا بھی رنگ بھرنا شروع ہوا ۔
وقت کے ساتھ ساتھ اشتہاری عورت ۔ معاف کیجئے گا ۔ اشتہار میں آنے والی عورت کا لباس اُس کے جسم کے ساتھ چِپکنے لگا ۔ پھر لباس نے اختصار اختیار کیا اور عورت کے جسم کا رنگ ناظرین کی آنکھوں میں بھرا جانے لگا ۔ ٹی وی سکرین سے عورت کا رنگ بڑے شہروں سے ہوتا ہوا قصبوں اور دیہات میں پہنچنے لگا ۔
پچھلے سات آٹھ سال میں حکومتی سطح پر روشن خیال ترقی قوم کی منزلِ مقصود ٹھہرا کر پُورے زور شور سے مادر پِدر آزاد معاشرہ قائم کرنے کی دوڑ لگا دی گئی ۔ کائنات میں عورت کا رنگ بھرنے کیلئے نِت نئے ڈھنگ نکالے گئے ہیں ۔ عورت اور مرد کا اکٹھے جذبات کو اُبھارنے والے ناچ ناچنا ۔ ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑخانی کرنا ۔ اور پھر اس سے بھی اگلی منزل شروع ہوئی کہ مرد کا عورت کو اُٹھا کر ہوا میں لہرانا یا گلے لگانا بھی کائنات میں رنگ بھرنے کا ایک طریقہ قرار پا گیا ۔
بیچاری عورت کھیل تماشہ تو بن گئی مگر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مقرر کردہ تحریم تو ایک طرف اپنی جو عفّت تھی وہ بھی کھو بیٹھی ۔
ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں ۔ اللہ ہمیں مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ شیطان کی یلغار سے بچائے اور سیدھی راہ پر چلائے ۔ آمین ۔
یہ علامہ اقبال کے شعر کا مصرع ہے!
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
اس کے وہ معنٰی نہیں جو اوپر بیان ہیں!!
شعیب صفدر صاحب ۔ السلام علیکم
آپ نے بالکل ٹھیک لکھا ہے ۔ مندرجہ بالا تحریر طنزیہ ہے ۔
اگر رنگ اندھا دھند غیر متناسب انداز میں ڈال دیے جائیں تو تصویر بھدی اور “اوچھے پن کا شاہکار”لگتی ہے ۔
تزک نگار صاحب ۔ السلام علیکم
یہ بھی ٹھیک ہے لیکن رنگ میں بھنگ ڈال دی جائے تو ؟
بھای صاحب-
اگر عورت نہ ہو تو موبایل کمپنی کیسے بتایے کے کس کو فون کرنا ہے-
سب کو پتا ہے کھچہ نہ بک رہا ہو تو ایک عورت کی تصویر بنا دو فورا بک جایے گا- چاہے شیونگ برش ہو یا ٹافی۔
آمین ثم آمین
جناب بھنگ کا رنگ اتنا گہرا ہوتا ہے کہ اگر اسے بھی ڈال دیا تو رنگ مزید گہرا ہو جائے گا ، یعنی الٹا نقصان :razz:
عارف انجم صاحب ۔ السلام علیکم
آپ نے میری دعا پر آمین کہا ۔ جزاک اللہ خیرٌ
اللہ سب عورتوں کو ہدایت عطا فرمائے اور اسے اپنا اصل مرتبہ سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین۔
مُحترم اجمل جنکل جی
السلامُ عليکُم
مزاج بخير، آپ اپنی تحريروں سے جو تعميری کام ليتے ہيں اُس سے فائدہ تو ہم لوگ اُٹھاتے ہيں ليکن جو کُچھ تماشہ آج ہر ديس کی عورت اپنا بنا رہی ہے ديکھ کر اپنے عورت ہونے پر شرم آتی ہے کاش کہ خُدا کی بنائ اس مخلُوق کو يہ عقل آجاۓ کہ آزادی کے نام پر جواُ س کا حشر کيا جارہا ہے اُس کا نُقصان صرف اُسی کی ذات کو ہی ہو رہا ہے اور جو کُچھ ہم مُسلمان ہوتے ہُوۓ کر رہے ہيں اس سب ميں ہم سب بھی اُتنے ہی قصُور وار ہيں جتنے گُناہ کرنے والے کہ ہم بُرائ کو روک نہيں پا رہے اللہ تعاليٰ ہميں اپنی امان ميں رکّھے اور صحيح اور غلط ميں تميز کرنا سکھاۓ،آمين
اپنا خيال رکھيۓ گا اور دُعاؤں ميں ياد رکھيۓ گا
اللہ حافظ
شاہدہ اکرم
عورت ماں ہو بہن ہو بیوی ہو یا بیٹی اس کی اصل مقام دل ہے ہر روپ میں دل کے پاس جگہ پاتی ہے مگر جب سے مغرب کی اندھی تقلید میں یہ شمع محفل بننی اس نے اپنا وقار کھو دیاحالانکہ مغرب کی عورت تو نہ ماں رہی نہ بیوی نہ بیٹی،خود مغربی اقوام کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کا حل کیا ہےاللہ پاک سب کو دین کی درست سمجھ عطا فرمائے امین