Monthly Archives: March 2008

مرد عورت اختلاط

مرد اور عورت کا اختلاط ایک ایسا مرض ہے جو اپنی ہولناکی یورپ اور امریکہ میں پھیلانے کے بعد پاکستان میں بھی پاؤں جما رہاہے ۔ آجکل ہمارے ملک کے نام نہاد روشن خیال لوگ مرد عورت کے اختلاط کے گُن گاتے ہیں اور اس اختلاط کی عدم موجودگی کو مُلکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بیان کرتے ہیں جو کہ حقیقت نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں عورتیں ماضی میں معاشرے کا بے کار پرزہ کبھی بھی نہ تھیں ۔ وہ ملکی ترقی میں ہمیشہ شامل رہیں ۔ ایک چھوٹی سی مثال 1947ء کی ہے جب لاکھوں کی تعداد میں نادار ۔ بے سہارا ۔ بیمار یا زخمی خواتین اور لڑکیاں بھارت سے پاکستان پہنچیں تو اس دور کی پاکستانی خواتین اور لڑکیاں ہی تھیں جنہوں نے بیگم رعنا لیاقت علی صاحبہ کی سربراہی میں منظم ہو کر نہ صرف ان کی تیمارداری کی اور ڈھارس بندھائی بلکہ انہیں سنبھالا ۔ بسایا ۔ انہیں اپنے گھر چلانے کے قابل کیا اور ہزاروں کی شادی کا اہتمام بھی کیا ۔ رہیں دیہاتی عورتیں جنہیں یہ روشن خیال قیدی کہتے ہیں وہ پہلے بھی پڑھی لکھی شہری عورتوں سے زیادہ کام کرتی تھیں اور آج بھی زیادہ کام کرتی ہیں گھر میں اور گھر سے باہر بھی ۔ بہرکیف یہ ایک علیحدہ موضوع ہے ۔

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مطالعہ اور تحقیق کی خُو مجھے بچپن ہی سے بخشی اور میں نے سنِ بلوغت کو پہنچنے سے قبل ہی عورت مرد کے اختلاط کے عمل کا بغور مطالعہ شروع کر دیا ۔ یہ مرض غیرمحسوس طور پر لاحق ہو جاتا ہے اور بظاہر راحت بخش ہوتا ہے ۔ یہی راحت کا احساس انسان کو ایک دن ڈبو دیتا ہے ۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے لڑکی لڑکے یا عورت مرد کے درمیان ایک خاص قسم کی کشش رکھی ہے ۔ مگر ساتھ ہی حدود و قیود بھی مقرر کر دیں کہ افزائشِ نسل صحیح خطوط پر ہو ۔

آج کی تحریر نہ تو بدکردار عورتوں کے متعلق ہے اور نہ ہی سڑکوں پر اور مارکیٹوں میں گھورنے یا چھڑنے والوں کے متعلق بلکہ شریف زادوں اور شریف زادیوں سے متعلق ہے ۔ جنسی تسکین کی خاطر ایک دوسرے کو ملنے والے لڑکا لڑکی یا مرد عورت کی تعداد بہت کم ہے ۔ اکثریت غیر ارادی طور پر جنسی بے راہروی کا شکار ہوتی ہے ۔ ابتداء عام طور پر تعریف سے ہوتی ہے ۔ بعض اوقات ابتداء جملے بازی سے ہوتی ہے ۔ اختلاط جاری رہے تو بات دست درازی تک پہنچ جاتی ہے اور پھر ایسا لمحہ آنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے جب دونوں نہ صرف اللہ بلکہ اردگرد کی دنیا کو بھول کر غوطہ لگا جاتے ہیں اور احساس سب کچھ کر گذرنے کے بعد ہوتا ہے ۔ کچھ کو احساس اس وقت ہوتا ہے جب لڑکی یا عورت کا جسم اس کی غلطی کی گواہی دینے لگتا ہے ۔ اس معاملہ میں ہر مرحلہ پر ابتداء عام طور پر لڑکے یا مرد کی طرف سے ہوتی ہے ۔ لیکن کبھی کبھار اس کی ابتداء لڑکی یا عورت کی طرف سے بھی ہوتی ہے ۔

متذکرہ عمل کا شکار صرف جاہل ۔ اَن پڑھ یا غریب ہی نہیں ہوتے اور نہ ہی صرف غیر شادی شدہ ہوتے ہیں بلکہ پڑھے لکھے ۔ آسودہ حال اور شادی شدہ بھی ہوتے ہیں ۔ ہوتا یوں ہے کہ کسی عام ضرورت کے تحت لڑکا لڑکی یا عورت مرد ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ باتوں سے بات کبھی لطیفوں ۔ مذاق یا چوٹوں پر پہنچتی ہے ۔ کبھی کبھی اسی پر جھڑپ بھی ہو جاتی ہے ۔ یہ اس مرض کی ابتدائی علامات ہیں ۔ چاہیئے کہ انسان اسی وقت اپنے آپ کو سنبھالے اور اس راحت یا لذت کے احساس کو ختم کر دے ۔ بالخصوص لڑکی یا عورت کو اس صورتِ حال سے فوری طور پر نکل جانا چاہیئے ورنہ اس مرض کی خطرناکی کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی وقت انسان کیلئے ایک گھمبیر مسئلہ بن سکتا ہے جس کے نتیجہ میں کوئی خودکُشی کر لیتا ہے ۔ کوئی عدالت کے کٹہرے میں پہنچ جاتا ہے اور کوئی قتل کر دیا جاتا ہے ۔ ہلاکت یا کچہری سے بچ جانے والی لڑکیاں یا عورتیں گمنامی کی زندگی گذارتی ہیں ۔ ستم یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ہو مرد یا لڑکا معاشرہ میں اس سانحہ کے بُرے اثرات سے بچا رہتا ہے ۔

زبردستی بدکاری کے جو واقعات اخبارات اور سینہ گزٹ کے ذریعہ ہمارے علم میں آتے ہیں تحقیق کرنے پر افشاء ہوتا ہے کہ ان کی اکثریت اختلاط کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ اس حقیقت سے متعلقہ خاندان کے بزرگ اور وکلاء واقف ہوتے ہیں ۔ ہوتا یوں ہے کہ جب لڑکی یا عورت کو یقین ہو جاتا ہے کہ اس کے گناہ کی سَنَد سب پر عیاں ہونے والی ہے تو وہ اپنی بچت کی کوشش میں اپنے دوست پر زبردستی کا الزام لگا دیتی ہے ۔ دیہات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اصل مجرم کی بجائے کسی دشمن کا نام لے کر مقدمہ درج کرا دیا جاتا ہے ۔ میرے علم میں کئی واقعات کی اصل کہانی ہے لیکن ان میں سے دو ایسے ہیں جن کے متعلق میں آج بھی سوچتا ہوں کہ ایسا کیسے ہو گیا ؟ کیونکہ ان کے متعلقہ لوگوں کو میں اچھی طرح جانتا تھا ۔ وہ سب تعلیم یافتہ ۔ ذہین ۔ شریف النفس اور سمجھدار لوگ تھے اور ان سے ایسی حرکت کی کسی کو توقع نہ تھی ۔

ایک گھریلو خاتون ۔ نیک خاندان کی بیٹی ۔ پسند کی شادی ۔ نیک خاندان کی بہو ۔ عمر 40 سال سے زیادہ ۔ دو بیٹوں اور دو بیٹیوں [عمریں علی الترتیب 18 ۔ 10 ۔ 16 اور 13 سال] کی ماں ۔ خاوند بہت خیال رکھنے والا ۔ اس عورت کو موسقی اور ناچ کا شوق چُرایا ۔ اسکے خاوند کا بہترین دوست اس فن کا ماہر تھا ۔ وہ ان کے ہاں آتا جاتا تھا ۔ عورت نے اُس سے سیکھنا شروع کیا ۔ کچھ ماہ بعد ایک دن اس کا خاوند گھر آیا تو اس نے انہیں ایسی حالت میں دیکھا کہ کھڑے کھڑے بیوی کو طلاق دے دی ۔ بیوی کو اپنی غلطی کا احساس تو ہوا لیکن دیر بہت ہو چکی تھی ۔

دوسرا قصہ ایک لیڈی ڈاکٹر کا ہے ۔ جس ہسپتال میں وہ ملازم تھی وہیں ایک ڈاکٹر سے اس کی عام سی گپ شپ ہو گئی ۔ جس رات لیڈی ڈاکٹر کی ڈیوٹی ہو تی کبھی کبھار وہ ڈاکٹر گپ شپ کیلئے آ جاتا ۔ ایک رات وہ ہو گیا جس کا اختلاط میں ہمیشہ خدشہ رہتا ہے ۔ دو تین ماہ بعد گناہ ظاہر ہونے کا اُنہیں یقین ہو گیا تو اپنی عزت کا جنازہ نکلتا محسوس ہوا ۔ دونوں کے خاندان ایک دوسرے کو نہ جانتے تھے اور نہ ان کی ثقافت ایک سی تھی ۔ بہرحال دونوں نے اپنے گھر والوں پر کسی طرح دباؤ ڈالا ۔ لڑکے کی منگنی اپنی کزن سے ہو چکی ہوئی تھی جسے توڑ کر دونوں کی شادی ہو گئی ۔

اس مرض کو سمجھنے کیلئے مرد و عورت کی نفسیات ۔ علم العضاء اور کچھ دیگر عوامل کا مطالعہ ضروری ہے ۔ بالخصوص عورتوں کے بارے میں ۔ عورت کو اللہ تعالٰی نے محبت کا پیکر بنایا ہے ۔ وہ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر دُکھی ہو جاتی ہے اور معمولی سے اچھے سلوک سے خوش ہو جاتی ۔ عورت کی یہی خوبیاں اس کیلئے وبال بھی بن سکتی ہیں ۔ دوسرے لڑکی یا عورت کے جسم میں ایک محرک دائرے کی صورت میں نفسیاتی رد و بدل ہوتا رہتا ہے جو کہ اس کی صنف کے لحاظ سے ضروری ہے ۔ ہر چکر کے دوران ایک ایسا وقت آتا ہے کہ مخالف جنس کی کشش بہت زیادہ ہو جاتی ہے ۔ ایسے وقت میں اگر وہ کسی غیر مرد کے قریب ہو جس سے کہ اس کا اختلاط چل رہا ہو تو اس کی عفت ختم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ اس سے بچنے کا یعنی اپنی عفت و ناموس کو بچانے کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے بتا یا ہے کہ مرد عورت یا لڑکا لڑکی باہمی اختلاط سے بچیں اور لڑکی یا عورت غیر لڑکے یا مرد سے سرد مہری سے پیش آئے ۔

دنیاوی لحاظ سے اگر ملنا مجبوری ہو تو عورت یا لڑکی کو چاہیئے کہ کسی بھی مرد یا لڑکے کو علیحدگی میں نہ ملے بلکہ والدہ یا والد یا بڑی بہن یا بڑے بھائی یا خاوند یا بہت سے لوگوں کی موجودگی میں ملے ۔ کئی والدین اپنی بیٹیوں کو اور خاوند اپنی بیویوں کو آزاد خیال بنانے کی کوشش میں اپنے لئے بدنامی کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔ والدین اور خاوندوں کو بھی اپنے کردار پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے ۔ یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ لڑکیوں اور عورتوں کی مناسب حفاظت اور ان کو نان نفقہ ۔ لباس ۔ چھت اور دیگر ضروری سہولیات بہم پہنچانا باپ یا بھائیوں یا خاوند یا بیٹوں پر فرض ہے ۔

بیوقوف بادشاہ

پانچویں یا چھٹی جماعت کی کتاب میں ہم نے ایک کہانی پڑھی تھی جس کے متعلق اب محسوس ہوتا ہے کہ وہ سچا واقعہ ہو گا ۔ کہانی یوں تھی کہ ایک بادشاہ کو دنیا میں لاثانی ہونے کا شوق تھا ۔ اس نے حکم جاری کیا کہ جو مجھے ایسا لباس لا کر دے گا جو دنیا میں کسی کے پاس نہ ہو تو اسے میں مالا مال کر دوں گا ۔ بڑے بڑے جولاہوں نے قسمت آزمائی مگر ناکام رہے ۔ قریبی ملک میں ایک نہائت چالاک آدمی رہتا تھا ۔ اس نے بادشاہ کے حضور پیش ہو کر عرض کی “جناب ۔ میں ایسا لباس تیار کروا سکتا ہوں جو صرف عقلمند شخص کو دکھائی دیتا ہے ۔ اس سے آپ کو اپنے عقلمند مشیر اور وزیر چننے میں بھی آسانی ہو گی”۔ بادشاہ نے کہا “اچھا ۔ وہ لباس تیار کرواؤ”۔ چالاک شخص نے کہا “جناب ۔ یہ میرے فن کا بہت بڑا راز ہے جس کیلئے مجھے کوئی خفیہ کمرہ عنائت کیجئے”۔

بادشاہ نے اپنے محل کا ایک بڑا سا کمرہ اس کے حوالے کر دیا ۔ وہ کھڈیاں وہاں لے آیا اور اس کے آدمی کھڈیاں چلانے لگ گئے ۔ کچھ دن بعد اس آدمی نے بادشاہ کو بتایا کہ لباس تیار ہو گیا ہے ۔ بادشاہ مشاہدہ کرنے گیا تو اسے کچھ نظر نہ آیا لیکن یہ سوچ کر کہ وہ کہیں بیوقوف نہ کہلائے بادشاہ لباس کی تعریف کر کے آ گیا ۔ دوسرے دن دربار میں اعلان کیا گیا کہ اگلے روز بادشاہ سلامت دربار میں ایسا لباس پہن کر آئیں گے جو صرف عقلمند شخص کو نظر آتا ہے ۔ اگلے روز دربار جانے سے قبل بادشاہ کو بڑے اہتمام سے اس شخص نے لباس پہنایا اور بادشاہ دربار میں جا کر بیٹھ گیا ۔

کچھ وزیر و مشیر خاموش بیٹھے رہے اور کچھ بادشاہ کے نئے لباس کے قصیدے پڑھنے لگ گئے ۔ اتفاق سے ایک درباری کے ساتھ اس کا پانچ سالہ بچہ بھی اس دن آیا تھا ۔ وہ ہنستے ہوئے چیخا “بادشاہ ننگا ۔ بادشاہ ننگا”۔

مجھے یہ کہانی اب اسلئے سچ لگتی ہے کہ ہمارے ملک کے صدر جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو پاکستان کے آئین اور قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے بطور فوج کے سربراہ کے قوانین بنا کر انہیں آئین کا حصہ بنانے کا اعلان کر دیا اور اسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ یہ بھی لکھوا دیا کہ اس قانون کو نہ تو پاکستان کی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور نہ اسے پاکستان کی پارلیمنٹ تبدیل یا حذف کر سکتی ہے اور اب اسی کی بنیاد پر بار بار کہہ رہے ہیں “میں 5 سال کیلئے صدر ہوں اور 3 نومبر کو معزول کئے ہوئے جج بحال نہیں ہو سکتے”۔ اور اس کے مداح خواں بھی یہی رٹ لگا رہے ہیں ۔

واہ رے پرویز مشرف ۔ تُو نے ننگے بادشاہ والی کہانی سچ کر دکھائی ۔