پانچویں یا چھٹی جماعت کی کتاب میں ہم نے ایک کہانی پڑھی تھی جس کے متعلق اب محسوس ہوتا ہے کہ وہ سچا واقعہ ہو گا ۔ کہانی یوں تھی کہ ایک بادشاہ کو دنیا میں لاثانی ہونے کا شوق تھا ۔ اس نے حکم جاری کیا کہ جو مجھے ایسا لباس لا کر دے گا جو دنیا میں کسی کے پاس نہ ہو تو اسے میں مالا مال کر دوں گا ۔ بڑے بڑے جولاہوں نے قسمت آزمائی مگر ناکام رہے ۔ قریبی ملک میں ایک نہائت چالاک آدمی رہتا تھا ۔ اس نے بادشاہ کے حضور پیش ہو کر عرض کی “جناب ۔ میں ایسا لباس تیار کروا سکتا ہوں جو صرف عقلمند شخص کو دکھائی دیتا ہے ۔ اس سے آپ کو اپنے عقلمند مشیر اور وزیر چننے میں بھی آسانی ہو گی”۔ بادشاہ نے کہا “اچھا ۔ وہ لباس تیار کرواؤ”۔ چالاک شخص نے کہا “جناب ۔ یہ میرے فن کا بہت بڑا راز ہے جس کیلئے مجھے کوئی خفیہ کمرہ عنائت کیجئے”۔
بادشاہ نے اپنے محل کا ایک بڑا سا کمرہ اس کے حوالے کر دیا ۔ وہ کھڈیاں وہاں لے آیا اور اس کے آدمی کھڈیاں چلانے لگ گئے ۔ کچھ دن بعد اس آدمی نے بادشاہ کو بتایا کہ لباس تیار ہو گیا ہے ۔ بادشاہ مشاہدہ کرنے گیا تو اسے کچھ نظر نہ آیا لیکن یہ سوچ کر کہ وہ کہیں بیوقوف نہ کہلائے بادشاہ لباس کی تعریف کر کے آ گیا ۔ دوسرے دن دربار میں اعلان کیا گیا کہ اگلے روز بادشاہ سلامت دربار میں ایسا لباس پہن کر آئیں گے جو صرف عقلمند شخص کو نظر آتا ہے ۔ اگلے روز دربار جانے سے قبل بادشاہ کو بڑے اہتمام سے اس شخص نے لباس پہنایا اور بادشاہ دربار میں جا کر بیٹھ گیا ۔
کچھ وزیر و مشیر خاموش بیٹھے رہے اور کچھ بادشاہ کے نئے لباس کے قصیدے پڑھنے لگ گئے ۔ اتفاق سے ایک درباری کے ساتھ اس کا پانچ سالہ بچہ بھی اس دن آیا تھا ۔ وہ ہنستے ہوئے چیخا “بادشاہ ننگا ۔ بادشاہ ننگا”۔
مجھے یہ کہانی اب اسلئے سچ لگتی ہے کہ ہمارے ملک کے صدر جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو پاکستان کے آئین اور قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے بطور فوج کے سربراہ کے قوانین بنا کر انہیں آئین کا حصہ بنانے کا اعلان کر دیا اور اسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ یہ بھی لکھوا دیا کہ اس قانون کو نہ تو پاکستان کی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور نہ اسے پاکستان کی پارلیمنٹ تبدیل یا حذف کر سکتی ہے اور اب اسی کی بنیاد پر بار بار کہہ رہے ہیں “میں 5 سال کیلئے صدر ہوں اور 3 نومبر کو معزول کئے ہوئے جج بحال نہیں ہو سکتے”۔ اور اس کے مداح خواں بھی یہی رٹ لگا رہے ہیں ۔
واہ رے پرویز مشرف ۔ تُو نے ننگے بادشاہ والی کہانی سچ کر دکھائی ۔
اسلام علیکم سر، کیسے ہیں آپ۔
آپکے مضامین کے تو ہم قائل ہیں ہی، ایک بڑی بات کو نہایت سادگی سے کہہ دینا آپ ہی کا خاصہ ہے۔ مگر مشرف صاحب کے کمال کی داد نہ دینا بھی تو زیادتی ہے۔ انکا کمال ہی یہی ہے کہ بڑے سے بڑے مینڈیٹ کو نہایت سادگی سادگی سے ایک طرف رکھ دینا۔
اسلام علیکم،
آپ آگے دیکھیے مزید کیا کیا ہوتا ہے۔
یہ جو لوگ کہہ رہے ہیں عدلیہ کو آذاد کروائیں گے، مشرف کو صدارت چھوڑنا ہوگی ان نعروںکا کیا بنتا ہے؟
افتخار راجہ صاحب ۔ السلام علیکم
آپ کا نام دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ شاید بہت مصروف رہے ۔ امید ہے آپ بخیر و عافیت ہو ں گے ۔
نینی صاحبہ ۔ السلام علیکم
شکر ہے اللہ کا کہ میری تحریر نے کسی کو مسکراہٹ دی ۔ کہتے ہیں کسی کو مسکراہٹ دینا ایک عمدہ کارِ ثواب ہے
عدنان زاہد صاحب ۔ السلام علیکم
دعا کیجئے کہ ملک و قوم کی بہتری ہو ۔
امین
چچا جان – سلام!
آپ مشرف صاحب سے جمہوریت کی بحالی میں رخنہ ڈالنے، امریکیوں کی جی حضوری کرنے یا اپنے ہم وطنوں پر ظلم ڈھانے، ان میں سے کس وجہ یا کسی اور وجہ سے خفا ہیں؟
عدنان زاہد صاحب
آمین آپ نے کس بات پر کہا ہے ؟
بھتیجے اُردودان صاحب
پرویز مشرف سے خفا ہونے کیلئے اتنا ہی جاننا کافی ہے کہ وہ پرلے درجے کا جھوٹا اور خودغرض ہے