Monthly Archives: February 2008

انتخابات کے دن اور اسکے بعد ؟ ؟ ؟

نعمان صاحب نے مشورہ دیا ہے کہ صبح اگر جلدی ووٹ ڈال دیا جائے تو بہت آسانی رہتی ہے اور ووٹر اطمینان سے اپنا ووٹ ڈال لیتا ہے ۔ دوپہر تک عموما رش بھی بڑھتا جاتا ہے اور سیاسی کارکنوں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے جو ووٹر کو آخری وقت تک لبھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کسی پولنگ اسٹیشن پر بدنظمی یا لڑائی جھگڑا بھی ہوجائے تو اس سے بھی بچت ہوجاتی ہے ۔

ہمارا خاندان ہمیشہ سے صبح پولنگ شروع ہوتے ہی پولنگ سٹیشن پہنچ جاتا رہا ہے اور پندرہ بیس منٹ میں ہم ووٹ ڈال کر گھر کی راہ لیتے رہے ہیں ۔

ووٹ صرف اُس کو دیجئے جس کے صحیح کام نہ کرنے پر آپ اُس کا محاسبہ کر سکیں

ایسے شخص کو ووٹ نہ دیجئے جو منتخب ہو جانے کے بعد قومی دولت یعنی آپ سے مختلف ذرائع سے وصول کیا ہوا ٹیکس ذاتی یا بیکار کاموں میں استعمال کرے

ووٹ اُس کو دیجئے جس کے منتخب ہو جانے کے بعد آپ اُس سے ملاقات کر کے قومی مسائل پر تبادلہ خیال کر سکیں

ایسے شخص کو ووٹ نہ دیجئے کہ منتخب ہو جانے کے بعد اس کے پاس آپ کو ملنے کا وقت ہی نہ ہو

انتخابات سے پہلے ؟

انتخابات کھیل تماشہ نہیں اور نہ ہی چھٹی آرام کرنے کیلئے دی جاتی ہے ۔ ملک کے 15 کروڑ عوام جن میں بوڑھے ۔ جوان ۔ بچے ۔ عورتیں ۔ لڑکیاں ۔ مرد اور لڑکے سب شامل ہیں کی قسمت کا اختیار کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ۔ گویا نہ صرف اپنے ماں ۔ باپ ۔ بہن ۔ بھائی ۔ خاوند یا بیوی ۔ بیٹا ۔ بیٹی بلکہ خود اپنی گردن بھی کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ۔ اسلئے یاد رکھیئے کہ :

خواہ کتنے ہی لاغر یا بیمار ہوں آپ ووٹ ڈالنے ضرور جائیں

تمام رنجشیں ۔ تمام دوستیاں ۔ تمام لالچ ۔ تمام اثر و رسوخ بھُلا کر ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

ووٹ ڈالنے کیلئے خواہ کوئی بھی لے کر جائے ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

کسی کو نہ بتائیں کہ آپ ووٹ کس کو دیں گے ۔ کوئی پوچھے تو جواب میں کہیں ” آپ بالکل فکر نہ کریں ”

اپنے اہلِ خاندان اور دوسرے عزیز و اقارب کو بھی اسی طريقہ پر آمادہ کریں

کچھ بات تنزل کی

میرے ایک نئے قاری عدنان زاہد صاحب نے فرمائش کی کہ میں 1965ء اور 1971ء کے بارے کچھ لکھوں گویا اپنے بوڑھے ہونے کا حق ادا کروں ۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران میں نے عوام ردِ عمل میں بہت فرق دیکھا لیکن اب تو دنیا ہی بدل چکی ہے ۔ اس کا صحیح اندازہ لگانے کیلئے دو پرانے ذاتی تجربے جن پر جوان نسل کو شاید یقین نہ آئے ۔

میں 1957ء میں گرمیوں کی چھٹیاں گذارنے کیلئے پلندری ۔ آزاد جموں کشمیر گیا ۔ وہاں میری واقفیت پنجاب رجمنٹ کے ایک کمپنی کمانڈر سے ہو گئی ۔ وہ پلندری کوٹلی روڈ پر کسی جگہ تعینات تھا مجھے پہاڑوں کی سیر کا شوق تھا جس کا میں نے اظہار کیا ۔ اس نے کہا کہ کسی دن ہماری کوئی جیپ پلندری سے خالی جا رہی ہوئی تو وہ مجھے اس کے پاس لیجائے گی ۔ کچھ دن بعد صبح سویرے جیپ آئی اور میں چلا گیا ۔ وہاں پہاڑوں پر پھرتے اور شکار کرتے رہے ۔ شام کو جیپ نے پلندری سے راشن لینے جانا تھا ۔ اس پر میری واپسی تھی لیکن پلندری سے لاسلکیہ [wireless] پیغام آیا کہ راوپنڈی سے راشن نہیں آیا چنانچہ جیپ نہ گئی اور مجھے وہیں خیمے میں پتھریلی زمین پر رات گذارنا پڑی ۔ دوسرے دن جیپ گئی اور میں بھی ۔ [آج یہ حال ہے کہ کمپنی کمانڈر کی گاڑیاں ان کے مہمانوں کو ملتان سے راولپنڈی اور مری تک کی سیر کراتی ہیں]

صحیح یاد نہیں 1964ء یا 1965ء کا واقعہ ہے میں ان دنوں ایک پراجیکٹ میں چیئرمین پاکستان آرڈننس فیکٹریز ۔ میجر جنرل اُمراؤ خان کے سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہا تھا ۔ ایک اجلاس میں کوئی جنرل صاحب جی ایچ کیو سے آئے ہوئے تھے ۔ اجلاس کے ختم ہونے کے بعد بھی بیٹھے رہے اور جنرل اُمراؤ خان سے گویا ہوئے “اپنے بعد ہمیں بھی اس شرف کا موقع دیجئے گا”۔ جب وہ چلے گئے تو جنرل اُمراؤ خان مجھ سے مخاطب ہوئے “دیکھا ۔ جنرل صاحب مجھ سے سِنیئر ہوتے ہوئے بھی کیا کہہ رہے تھے ؟” میں نے جواب دیا “جی ۔ مجھے سمجھ نہیں آئی”۔ تو کہنے لگے “ان بیچاروں کو کھُلی جیپوں پر سفر کرنا ہوتا ہے جن کے شاک ابزاربر نہیں ہوتے ۔ مجھے یہاں آرامدہ کار ملی ہوئی ہے ۔ اس کی طرف اشارہ کر رہے تھے”۔ [ آج ایک ایک جنرل کے پاس پانچ پانچ اعلٰی قسم کی گاڑیاں ہیں ۔ دو صاحب بہادر کے پاس ہوتی ہیں ۔ ایک میں بیگم صاحبہ گھومتی ہیں ۔ ایک میں بچے اور ایک گھٹیا والی میں نوکر ۔ اولالذکر چار گاڑیاں ایئرکنڈیشنڈ ہوتی ہیں]

جنگ 1965ء اور جنگ 1971ء کی مکمل تفصیل سے مضمون بہت طویل اور بوجھل ہو جائیگا ۔ اسلئے میں دونوں کے دوران صرف اپنی معلومات اور تجربہ کے مطابق عوام ۔ فوج اور حکومت کا کردار بہت مختصر بیان کروں گا ۔

جنگ 1965ء
اچانک 5 اور 6 ستمبر کی آدھی رات کے بعد بھارتی فوج نے واہگہ سرحد عبور کر کے لاہور کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ۔ 7 ستمبر کو سیٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی میں یہ حال تھا کہ صاحبِ حیثیت لوگ مختلف اطراف میں سفر پر روانہ ہونا شروع ہو گئے تھے ۔ شاید ان کی منزل اپنے آبائی شہر ۔ قصبے یا گاؤں تھے ۔ بازار سے اشیاء خوردنی غائب ہونا شروع ہو گئیں ۔ لاہور میں باٹا پور اور جلو جو واہگہ سے نزدیک تھے وہاں کے لوگوں کو پاکستانی فوج نے نکال لیا ۔ وقت بہت کم تھا اسلئے سب صرف اپنی جانیں لے کر نکلے ۔ بدقماش لوگوں نے ان کے گھر لوٹنے شروع کر دیئے ۔
ان دنوں امیر محمد خان نواب کالا باغ مغربی پاکستان کے گورنر تھے ۔8 ستمبر کوانہوں نے بڑے کارخانہ داروں اور تاجروں کو گورنر ہاؤس بلا کر صرف اتنا کہا “اپنے مال منڈیوں میں پھینک دو یا پھر اپنی خیر مناؤ”۔ 9 ستمبر کو تمام دکانیں کھُلی تھیں اور ہر چیز پہلے سے ارزاں مل رہی تھی ۔ کمال تو یہ ہے کہ ہمیشہ دودھ میں پانی ملا کر بیچنے والا بھی خالص دودھ بیچنے لگ گیا تھا ۔ باٹا پور اور جلو کے مکانوں سے جو سامان چوری ہوا تھا وہ اگلی رات کے دوران واپس پہنچ گیا ۔
حکومتی کارندے عام آدمی بن گئے یعنی انہیں ملنا آسان ہو گیا ۔ محاذ پر فوجیوں نے بھارتی یلغار کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور ان کی پیش قدمی روک دی ۔ 9 ستمبر کو لاہور شہر میں خبر پھیلی کہ فوجی محاذ پر بغیر کھائے پیئے لڑ رہے ہیں ۔ لاہوریئے پلاؤ اور مرغ قورمے کی دیگیں پکوا کر محاذ پر پہنچنے شروع ہو گئے ۔ پوری قوم ایک ہو گئی ۔ جہاں سے فوجی ٹرک گذرتے لوگ ان کی آؤ بھگت کرتے ۔ پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں کیا افسر کیا مزدور دن رات کام کرتے رہے ۔ میں سب سیکٹر کمانڈر تھا ۔ پہلے چار دن اور تین راتیں میں بالکل نہ سویا تھا ۔ اللہ جانے میں کیسے کام کرتا رہا ۔ سب کا یہی جذبہ تھا ۔ رات کو میں اپنے علاقہ کے کئی لوگوں کو زبردستی گھر بھیجتا ۔ وہ مجھ سے جھگڑتے کہ صاحب اس وقت ہمارے ملک کو ہماری ضرورت ہے ۔ ہم کام کرتے مر نہیں جائیں گے ۔ ہوائی حملہ کا سائرن بجتا تو سب اپنا کام کرتے رہتے حالانکہ کام چھوڑ کر خندقوں میں پناہ لینے کی ہدائت تھی ۔

ہمارے ملک کے صحافیوں اور شاعروں نے اپنی کی سی حُب الوطنی میں ایسی فرضی کہانیاں لکھیں اور ایسے سُلا دینے والے نغمے لکھے جنہوں نے قوم کو افسانوی دنیا میں پہنچا دیا ۔ سینے سے بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹنے ۔ سبز کُرتے والے کا بم کو ہاتھ سے پرے دھکیلنا اور گانا “جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی” اس کی مثالیں ہیں ۔

جنگ 1971ء
اس جنگ تک لوگ بدل چکے تھے ۔ فرائض کی کوئی بات نہ کرتا اور حقوق پر بہت زور تھا ۔ ورکرز کو کام کرنے کیلئے کہتے تو جواب ملتا “افسر کام کریں جن کے پاس دولت ہے ۔ ہم غریبوں کو کیوں مروانا چاہتے ہیں ۔ ہمارے بچے پیچھے بھوکے مریں گے” ۔ یہ سب اس پروپیگنڈا کا نتیجہ تھا جو پیپلز پارٹی نے الیکشن جیتنے کیلئے استعمال کیا تھا ۔ جنگ کے دوران ایک اہم دفاعی کام کے سلسلہ میں مجھے راولپنڈی سے کراچی جانا پڑا ۔ جب میں کراچی پہنچا تو کراچی کینٹ سٹیشن پر پنجاب جانے والی ٹرین خالص کراچی والے مردوں عورتوں اور بچوں سے کھچا کھچ بھری کھڑی تھی اور سارے پلیٹ فارم پر مزید سینکڑوں مرد عورتیں اور بچے اگلی ٹرین کے انتظار میں بیٹھے تھے ۔ میں جب ریلوے سٹیشن سے باہر نکل کر اپنے دفتر کی گاڑی ڈھونڈ رہا تھا تو ایک صاحب نے پوچھا “صاحب ۔ آپ آ رہے ہیں یا کہ جا رہے ہیں ؟” میں نے جواب دیا “جناب ۔ میں پنجاب سے آیا ہوں”۔ اس پر وہ صاحب حیران ہو کر یہ گردان کرتے چلے گئے “کمال ہے ۔ سب جا رہے ہیں اور یہ آ رہے ہیں”۔

کراچی میں میرا قیام ٹرانزٹ کیمپ میں فوجی افسروں کے ساتھ تھا ۔ وہ پریشان تھے کہ اُنہیں سیدھا محاذ پر لڑنے کیلئے کیوں نہیں بھیجا جا رہا ۔ کسی کو کوئٹہ سے کراچی کسی کو کراچی سے کوئٹہ اور دوسرے شہروں کو اور کسی کو دوسرے شہروں سے کراچی کیوں بھیجا جا رہا ہے ؟ بریگیڈوں کے بریگیڈ مختلف شہروں کے ٹرانزٹ کیمپوں میں کیوں پڑے ہیں ؟

سرکاری اہلکاروں کا رویہ بھی کچھ اچھا نہ تھا ۔ اشیاء صرف مہنگی ہو گئی تھیں ۔ مزدوروں کو کام نہ کرنے کا بہانہ مل گیا تھا کہ ہوائی حملہ ہو جائے گا ۔ سارا سارا دن ادھر اُدھر کھڑے وقت ضائع کرتے رہتے ۔ صرف افسران اور سٹاف کے لوگ کام کرتے ۔

پرویز مشرف کے حق میں مظاہرہ ؟

اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے حق میں ایک مظاہرہ کیا گیا جس میں مختلف شہروں سے آئے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ مظاہرہ میں شریک بعض لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ کس مقصد کے لئے اسلام آباد لائے گئے ہیں۔کئی ایک مظاہرین صرف ٹرانسپورٹ کی مفت سہولت پر اسلام آباد دیکھنے چلے آئے ۔

سیالکوٹ سے آنے والے نوجوانوں کے ایک ٹولے نے بتایا کہ ان کو کہا گیا تھا کہ مناکا پاکستان والے بسوں کا ایک قافلہ لے کر اسلام آباد جا رہے ہیں جس کسی نے بھی جانا ہو وہ مفت آ سکتا ہے ۔ لیکن راستہ میں ہی بس کے اوپر جنرل مشرف کے حق میں بینر لگا دیا ۔ انہوں نے بتایا کے ان کو مشرف کے حق میں ہونے والے مظاہرے کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا جبکہ ہم میں سے کوئی بھی مشرف کے حق میں نہیں بلکہ بعض کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی اور بعض کا مسلم لیگ نواز سے ہے ۔ اور وہ صرف سیرو تفریح کے لیے یہاں آئے ہیں ۔

فیصل آباد کی تحصیل سانگلہ ہل سے آنے والے ایک شخص نے بتایا کے مسلم لیگ ق کے مقامی رہنماء نے مساجد سے اعلانات کروائے کہ اسلام آباد میں واقع درگاہ بری امام میں حاضری کے لیے ایک قافلہ جا رہا ہے اور اس میں مفت جایا جا سکتا ہے اور کھانا بھی ملے گا ۔ لیکن یہاں پر آ کر نہ تو کھانا ملا اور نہ ہی کوئی دربار لے کر گیا بلکہ مظاہرے میں شامل ہونے کو کہا گیا اور کھانا تک نہیں ملا ۔

فیصل آباد سے آنے والے ایک نوجوان سے جب پوچھا گیا کہ وہ کس کے حق میں مظاہرہ کرنے آئے ہیں تو اس نے کہا کہ اس کو تھوڑی دیر پہلے تو یاد تھا لیکن اب یاد نہیں ہے ۔اب میں نے کافی سیر کی ہے اور نام بھول چکا ہوں۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی لیکن اسے صدر مشرف کا نام یاد نہ آ سکا ۔

سرکاری جگا ٹیکس

پرویز مشرف کو لوگوں نے قائدِ قلّت تو کہنا شروع کر دیا ہے لیکن اُس کے بڑے کارنامے پر نظر نہیں ڈالی ۔ وہ ہے سرکاری جگا ٹیکس ۔ جو صرف ایک یا دو جگہ نہیں کئی جگہ اور کئی بار وصولنے کا بندوبست ہے ۔

پاسپورٹ فیس کو مختلف بہانوں سے 10 گنا کر دیا گیا

نادرا قائم کر کے شناختی کارڈ فیس 17 گنا کر دی گئی اور شناختی کارڈ دائمی ہوتا تھا ۔ اس کی معیاد اسطرح مقرر کی گئی کہ اگر کوئی شخص 80 سال زندہ رہے تو وہ 12 دفعہ شناختی کارڈ بنوائے اور اسطرح ساری عمر جگا ٹیکس ادا کرتا رہے ۔

جب نادرا کا بنایا ہوا شناختی کارڈ متعارف کرایا گیا تو سال دو سال تک اس کے غیرمتنازع ہونے کے دعوے کئے جاتے رہے ۔ پرویزی حکومت نے پچھلے سال تمام محکموں کو حکمنامہ جاری کیا کہ نادرا کے شناختی کارڈ کی مصدقہ فوٹو کاپی لی جائے اور اس کے ساتھ سائل کو نادرا سے اپنے نادرا کے بنائے ہوئے شناختی کارڈ کی تصدیق لانے کا کہا جائے ۔ نادرہ کے صرف چند دفاتر تصدیق کرنے کے مجاز ہیں ۔ چنانچہ سائل کو پہلے نادرا کی متعلقہ برانچ تلاش کرنا پڑتی ہے اور پھر لمبی قطار میں کھڑے ہو کر 50 روپے کے عوض ایک تصدیقی پرچی لینا پڑتی ہے جو ہر بار نئی لینا ہو گی ۔

اگر کسی پاکستانی کو ملک سے باہر ملازمت مل جائے تو پاسپورٹ پر ویزہ لگوانے کے بعد ضروری ہے کہ امیگریشن اتھارٹی سے منظوری لی جائے جس کیلئے فیس جمع کرانا ہوتی ہے ۔ امیگریشن اتھارٹی جانے والے کو روک بھی سکتی ہے جس سے بچنے کیلئے کسی کی مُٹھی گرم کرنا ضروری ہو جاتا ہے ۔

تمام اشیاء پر بشمول خوردنی اور ادویاء پر 10 سے 30 فیصد ٹیکس

پٹرول پر پٹرول کی قیمت سے 2 گنا ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے ۔ خیال رہے کہ اکتوبر 1999ء میں پٹرول کی قیمت بشمول ٹیکس سوا 22 روپے فی لیٹر تھی جو کئی سالوں سے 53 روپے 77 پیسے ہے اور اب حکومت چھ سات روپے فی لیٹر بڑھانا چاہتی ہے لیکن الیکشن میں کیو لیگ کے کلین بولڈ ہونے کے ڈر سے نہیں بڑھا رہی ۔

بجلی ۔ گیس اور ٹیلیفون کے بِلوں پر 15 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد ہے

کہا جاتا ہے کہ انکم ٹیکس آمدن پر لگایا جاتا ہے مگر پرویزی حکومت بجلی ۔ گیس اور ٹیلیفون کے بِل جو آمدن نہیں ہوتے بلکہ خرچہ ہوتے ہیں پر جنرل سیلز ٹیکس کے علاوہ انکم ٹیکس بھی کئی سال سے وصول کر رہی ہے ۔

روشن خیالوں سے زیادہ روشن خیال

انصار عباسی ایک تعلیم یافتہ ۔ کُہنہ مشق اور  روشن خیال صحافی ہیں ۔ ایک ٹی وی چینل کے انٹرویو میں ان پر کیا بیتی یہ ہر پاکستانی کو جاننا چاہیئے اور سوچنا چاہیئے کہ ہمیں کہاں لیجانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ جاننے کیلئے یہاں کلک کیجئے ۔