عیدالاضحٰے کی قربانی کے حوالے سے واویلا چند سالوں سے سُن اور اخبارات میں پڑھ رہا تھا ۔ اس سال میں نے سوچا کہ اس پر میں بھی اپنے خیالات اور تجربہ کا خلاصہ پیش کروں ۔ لیکن مجھے توقع نہیں تھی شگفتہ صاحبہ ہماری قوم کے ایک قبیح پہلو کو اُجاگر کرنے کی کوشش میں لکھیں گی “ہم قربانی کے نام پر پہلے دن دوسرے دن حتی کہ تیسرے دن بھی بھاری رقوم خرچ کرتے ہیں ۔ لیکن ہاں حساب لگا کے یہ نہیں کہنے کی ضرورت کہ کچھ حصہ ہی سہی تعلیم کے لیے خرچ کر لیں ان رقوم سے”
قربانی جو عام ہوئی وہ تو سنّتِ سیّدنا ابراہیم علیہ السلام ہی ہے لیکن قربانی انسان کی ابتداء سے جاری ہے ۔ انسانوں کے باپ سیّدنا آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل اور قابیل نے بھی جانوروں کی قربانی دی ۔ ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی ۔ شروع زمانہ میں طریقہ یہ تھا کہ کہیں سے آگ آتی اور جس کی قربانی کو کھا جاتی اس کی قربانی قبول سمجھی جاتی اور جس کی قربانی کو آگ نہ کھاتی وہ قبول نہ سمجھی جاتی ۔ یہ طریقہ کار اس وقت تک جاری رہا جب سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کے اپنے بیٹے کی قربانی کیلئے تیار ہو جانے پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ان کی قربانی اس طرح قبول کر لی کہ بیٹے کو تو کچھ نہ ہوا اور اس کی جگہ دُنبے یا مینڈے ذبح ہوئے ۔ اس وقت سے آج تک دُنبے ۔ مینڈے ۔ بکرے ۔ گائے یا اُونٹ کی قربانی 10 ذوالحجہ کو کی جاتی ہے ۔
دین اسلام میں تعلیم کی اہمیت واضح ہے لیکن سنّت سیّدنا ابراھیم علیہ السلام پر اُٹھنے والے خرچ کو تعلیم پر اُٹھنے والے خرچ سے کوئی واسطہ نہیں ۔ عجب بات تو یہ ہے کہ اس پر اعتراض کرنے والے کروڑوں روپیہ فضولیات پر خرچ کرتے ہیں جو دین سے تعلق ہونا تو کجا اُلٹا گناہ کا سبب ہوتا ہے مثال کے طور پر آتش بازی ۔ قبروں پر چڑھاوے ۔ صدر ۔ وزیر اعظم ۔ گورنروں ۔ وزراء اعلٰی اور دیگر وزراء کے لاحاصل دورے اور جشن جن پر قوم کا اربوں روپیہ خاک کی طرح اُڑایا جاتا ہے ۔ صدرِ پاکستان کے ایک چھوٹے سے پروٹوکال پر کروڑوں روپیہ برباد کر دیا جاتا ہے ۔ صدر ۔ وزیراعظم ۔ وزراء اعلٰی وغیرہ کی حفاظت پر مامور عملہ پر اربوں روپیہ ماہانہ خرچ اُٹھتا ہے ۔ ان تمام فضول اخراجات کا اگر آدھا بھی تعلیم اور صحت پر خرچ کیا جائے تو تمام غریبوں کے بچے بھی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور سب کو اپنے ہی شہر میں مناسب علاج کی سہولت مل سکتی ہے ۔
قربانی کے سلسلے میں یہ بات نہیں بھولنا چاہئیے کہ ایسے لاکھوں لوگوں کو سال میں ایک بار گوشت کھانا نصیب ہوتا ہے جو سال بھر گوشت کو صرف حسرت سے دیکھتے ہیں ۔
آخری جملہ آپ نے سچ فرمایا ایسا ہی ہے۔ :neutral:
محترم اجمل انکل جی
السلامُ عليکُم
اُمّيد ہے آپ بخير ہوں گے ہميشہ کی طرح ايک ايسا موضُوع چُنا ہے آپ نے جو پتہ نہيں کب سے مُجھے ايسے لگتا تھا ميرے دل ميں ہے ليکن پھر آپ کے ہی لکھے ہُوۓ ايک بلاگ پر اتنے تبصرے ہُوۓ کہ باوجُود شديدخواہش کے کُچھ بھي لکھنے کی جُراءت نا کر پائ کہ بحيثيّت ايک عورت ہونے کے گردن زدنی ہونے کا خطرہ زيادہ ہوتا ہے سو بس دل کی دل ميں ہی رہ جاتی ہيں ايسی باتيں بُزدلی کی انتہا کہہ ليں بے شک، اب شگُفتہ کا بلاگ پڑھا ہے تو دل بلّيوں اُچھلا ہے کہ دل کا بوجھ کسی نے تو ہلکا کيا ميں ايسے بہت سوں کو جانتی ہُوں جو صرف نام کے لۓ قُربانی کرنے پر بھی تيآر نہيں ہوتے نام نہيں لينا چاہتی ليکن يہ علم ہے کہ جو کُچھ اُن کے پاس ہے اُس ميں سے بہت کُچھ حقيقت ميں ايسی جگہوں پر لگاتے ہيں جہاںحقيقت ميں ضرُورت ہوتی ہے دل خُوش بھی ہوتا ہے ايسی باتوں سے ليکن دُنيا دکھاوے کے لۓ لوگ باگ يہ کيُوں نہيں سوچتے کہ کُچھ تو دکھائ دے جاتے ہيں ليکن اُن سفيد پوشوں کا کيا جاۓ جو غريب تو نہيں ہيں ليکن اس جان توڑ مہنگائ کے زمانے ميں واقعی پُورا سال گوشت نہيں کھا پاتے جو نا غريب کہلاتے ہيں نا ہی پيٹ بھروں ميں شُمار کۓ جاتے ہيں بس ايک سفيد پوشی والی معصُوم مُسکراہٹ پردے کے پيچھے چُھپاۓ رہتے ہيں جب آج دال روٹی بھی مُشکل ہے تو گوشت،کيا کہيۓکہ قُربانی کے نام پر روز عيدُالاضحيٰ ہے
انکل جی آپ کی دُعاؤں کے لۓ بہت شُکر گُزار ہُوں کہ دُعاؤں کی ضرُورت ہر کسی کو ہر وقت رہتی ہے اپنا خيال رکھيۓ گا اور آپ کی ميل ملی تھی ليکن ميں بہت شرمندہ ہُوں کہ جی ميل سے اوپن نہيں کر سکتی وجہ يہ ہے کہ اُس کا پاس ورڈ بُھول گئ ہُوں اور اسی وجہ سے آپ کی پچھلی کُچھ ميلز بھی نہيں پڑھ پائ کيا آپ مُجھے ای ميل سے ہی بتا ئيں گے وہ باتيں جن سے محرُوم رہی تکليف کے لۓ معزرت خواہ ہُوں ميل کرنے کے لۓ شُکريہ
دُعاگو
شاہدہ اکرم
محمد شاکر عزیز صاحب
ہماری قوم کی اکثریت اللہ کی عطا کردہ عقل کے استعمال کا طریقہ نہیں جانتی ۔
شاہدہ اکرم صاحبہ
آج میں آپ کا تبصرہ پڑھ کر پھر مسکرا دیا لیکن آج آپ کے بھولپن پر ۔ آپ کی بھولی بھالی باتیں اچھی لگتی ہیں ۔ کچھ دیر کیلئے میں بھول جاتا ہوں کہ آپ ماشاء اللہ او یا شائد اے لیول میں پڑھنے والی لڑکی کی والدہ ہیں ۔
رہا جی میل تو آپ جی میل اکاؤنٹ کھولئے ۔ جہاں یوزر نیم اور پاسورڈ کے خانے ہوتے ہیں ان کے نیچے لکھا ہوتا ہے I cannot access my account
اس پر کلک کیجئے ۔ نئے صفحہ پر Forgot password
پر کلک کیجئے ۔ پھر جو ھدایات ملیں ان پر عمل کیجئے ۔ اگر پھر بھی ناکامی ہو تو نیا جی میل اکاؤنٹ بنائیے اور میں ہاٹ میل پر آپ کو انگریزی میں پاسورڈ چُنے کا جو طریقہ لکھ کر بھیج رہا ہوں اس کے مطابق پاسورڈ بنائیے ۔ اس طرح پھر بھولنے کا احتمال نہیں رہے گا ۔
ماشااللہ۔ آپ نے بہت اچھے موضوع پر بہت جامع بات کی ہے۔
آپ نے جن فضولیات کی بات کی ہے ان میں سرفہرست شادی بیاہ پر کئے جانے والے فضول اخراجات بھی ہیں۔ جیسے کے دولہا اور دلہن کے لیے ہزاروں اور لا کھوں روپے کے ملبوسات، جوکہ زیادہ ترایک دفعہ استعمال کے لیے ہی ہوتے ہیں۔
معراج خٹک صاحب
تبصرہ کا شکریہ ۔ ماشاء اللہ آپ نے ایک اہم قباحت کی نشاندہی کی ہے ۔ آئیندہ بھی رہنمائی فرماتے رہیئے گا
السلام علیکم انکل
بلاشبہ قربانی پر اٹھنے والے خرچ کو تعلیم سے کوئی واسطہ نہیں۔۔ قربانی ایک مقدس فرض کی انجام دہی ہے جو دلوں میں گداز اور دوسروں کے لئے ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔۔۔
لیکن آجکل ‘قربانی’ بھی تو نمود و نمائش کا ایک ذریعہ بن گئی ہے۔ میرے والد بتاتے ہیں کہ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ پورے محلے میں اگر کوئی ایک گھر ہی قربانی کی استطاعت رکھتا تھا تو بھی اس محلے میں سب کے گھر قربانی کا گوشت ہی پکتا تھا کہ تب لوگ قربانی کی اصل روح اور فلسفے کو سمجھتے تھے۔ آج کل یہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے مقابلے میں دو دو چار چار جانور خریدے جاتے ہیں۔۔پورے محلے کیا کالونی میں ان کی نمائش کی جاتی ہے اور قربانی کے بعد غرباء کا حصہ بھی ‘بڑوں’ کی خدمت میں پیش کر دیا جاتا ہے یا پھر مہینوں فریزرز میں گوشت پڑا خراب ہوتا رہے گا لیکن کسی مستحق کو دینے کی نوبت کم ہی آتی ہے۔
جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو آپ نے سچ کہا کہ ہم ‘شاہانِ وقت’ کے پروٹوکول پر کروڑوں روپے لگانا تو افورڈ کر سکتے ہیں لیکن تعلیم کا بجٹ بڑھانا ہماری قومی معیشت پر اضافی بوجھ ثابت ہوتا ہے۔
اہلِ دریچہ صاحبہ ۔ علیکم السلام و رحمت اللہ
آپ کا خیال درست ہے لیکن اللہ کے ایسے بندے بھی ہیں کہ جو ایک دو وقت کے کھانے کیلئے گوشت رکھ کر باقی سب مستحقین میں بانٹ دیتے ہیں ۔ رہی نمود و نمائش تو وہ ہماری قوم میں اس قدر رچ بس گئی ہے کہ ۔۔۔ میں جو لکھنے لگا تھا وہ سچ ہے لیکن میرے دماغ نے کہا۔ برائی کا پر چار نہ کر ۔ اس پر مٹی ڈال دے ۔
میرے لئے دعا کیا کیجئے کہ اللہ میری پچھلی غلطیاں معاف کر دے اور آئیندہ مجھے ہر برائی سے بچائے ۔
محترم اجمل انکل جی
السلامُ عليکُم
اُمّيد ہے آپ بخير ہوں گے آپ کے دۓ گۓ جواب سے مُجھے خُود پر ہی اتنی ہنسی آئ اور آپ کے خطاب پر تھوڑا سا اعتراض بھی ہُوا کہ آ پ نے کتنے آرام سے مُجھے بھولے پن کا خطاب دے ديا جبکہ ميرے خيال ميں تو يہ مہا بيوقُوفی تھی ميں نے اپنے ان پڑھ ہونے کا ثبُوت جو دے ديا آپ کو ، بس وہ کہتے ہيں نا
مُطمئن ہو دل تو ويرانے بھي گيت
دل اُجڑ جاۓ تو شہروں ميں بھي تنہائ بہت
بہر حال مصرُوفيات کی وجہ سے جلد جواب بھی نا دے سکی اور شُکريہ بھی ادا نا کر سکی دُعاؤں اور مدد کے لۓ شُکريہ
اپنا خيال رکھيۓ گا
دُعاگو
شاہدہ اکرم
شاہدہ اکرم صاحبہ ۔ السلام علیکم
ایسی کوئی بات نہیں بڑے بڑے عقلمندوں سے بھی بیوقوفی ہو جاتی ہے