آج گرِیگورین یا عیسوی سال 2008 کی پہلی تاریخ ہے ۔ میں پچھلے سال یعنی 2007ء کے آخری دن سے اس سوچ میں گم ہوں کہ برس ہا برس بیت گئے ۔ لوگوں سے سنتے اور اخبارات میں پڑھتے رہے کہ لوگوں نے نئے سال سے پہلے رات بڑے جوش و خروش سے منائی ۔ کسی نے پٹاخے چلائے ۔ کوئی ناچا ۔ کوئی اُمِ الْخبائث کے مزے لوٹتا رہا ۔ گذشتہ رات کو بھی ایسا ہی ہوا ہو گا ۔ مجھ جیسے [آج کی دنیا کے مطابق] بے ذوق آدمی صرف اپنی غلطیوں کی معافی اپنے اللہ سے مانگتے رہے اور ہر سال اسی سوچ میں گم رہے کہ اس خوشیوں کے بے ہنگم اظہار کی وجہ کیا ہے ؟ کیا ہم نے بہت ترقی کر لی ہے ؟ کیا ہم بہت پڑھ لکھ گئے ہیں ؟ کیا ہم خود کفیل ہو گئے ہیں ؟ کیا ہمارے تمام ہموطنوں کو دو وقت کا کھانا مل رہا ہے ؟
میری عمر 70 سال ہے ۔ دیکھتے ہیں پچھلے 50 سال میں ہم نے کتنی اور کیا ترقی کی ہے ۔ تب یعنی 50 سال قبل ہم تانبے یا پیتل کی تھالیوں میں کھانا کھاتے تھے ۔ شادی میں صرف پلاؤ ۔ زردہ اور ایک سالن ہوتا تھا اور کبھی ساتھ دہی بھی ۔ ہاتھ سے چاول کھاتے تھے ۔ پینے کو پانی ملتا تھا ۔ زمین پر دریاں بچھا کر بیٹھتے تھے ۔ شادی یا دوسری دعوت ہو تو کھا چکنے کے بعد کوئی تھالیوں میں کھانا یا گلاس میں پانی نہیں چھوڑتا تھا ۔ دعوت ختم ہونے پر زمین پر نہ کوئی ہڈی ہوتی تھی نہ چاول کا دانہ ۔
تب کوئی آپ کہہ کر مخاطب ہو تو بڑے ادب سے اور آپ کہہ کر ہی جواب دیتے تھے ۔ چاہے کوئی اپنے ماتحت یا کسی بہت کم عہدہ پر ہو لیکن عمر میں اپنے سے کافی بڑا ہو تو اسے ادب سے مخاطب کرتے تھے ۔ چھوٹے بیٹھے ہوں اور کوئی بڑا آ جائے تو بڑے کو جگہ دے دیتے ۔ بڑوں سے ملنے پر چھوٹے مؤدبانہ طریقہ سے سلام کرتے ۔ بڑوں کے سامنے چھوٹے ٹھٹھہ مذاق نہ کرتے ۔
اب چینی کی پلیٹوں میں کھاتے ہیں ۔ چمچے اور کانٹے سے کھاتے ہیں ۔ دس بارہ قسم کے کھانے ہوتے ہیں جس میں انگریزی ۔ اطالوی اور چینی کھانے شامل ہوتے ہیں ۔ کئی قسم کے مشروب ہوتے ہیں ۔ کرسی میزوں پر مزیّن ہوتے ہیں ۔ اگر کھانا علیحدہ میزوں پر سجا ہو تو کھانے کے گرد جمگھٹا کر لیتے ہیں اور کچھ لوگ پیچھے سے زبردستی آگے گھُس کر کھانا ڈالنے کی کوشش میں آگے کھڑے شخص کے کپڑے سالن آلود کر دیتے ہیں ۔ دعوتوں میں کئی لوگ پلیٹوں میں کھانا اور گلاسوں میں مشروب چھوڑنا تہذیب کی نشانی سمجھتے ہیں ۔ دعوت کے بعد عام طور پر زمین پر بلکہ قالین پر مرغی کی ہڈیاں بکھری ہوئی ہوتی ہیں ۔
اب نام سے مخاطب کیا جاتا ہے چاہے عمر میں مخاطب شخص والدین سے بھی بڑا ہو ۔ بزرگ سے بزرگ شخص بھی اگر عہدہ میں کمتر ہو تو اسے نام سے اور اکڑ کر مخاطب کیا جاتا ہے ۔ چھوٹے بیٹھے ہوں اور کوئی بڑا آ جائے تو چھوٹے اسی طرح پڑے رہتے ہیں ۔ بڑے کے آنے پر چھوٹے سلام تو کُجا بعض اوقات ان کی طرف دیکھنا بھی گورا نہیں کرتے ۔ بڑوں کے سامنے چھوٹے ٹھٹھہ مذاق کرنا شاید اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔
کیا خوب ترقی ہے یہ ۔ ۔ ۔
Hum ne apni tehzeeb iss tez raftar daur mein kahin kho di hai jis ko wapis hasil kerna be had zaroori hai. iss silsile mein hum yaqeenan apne buzurgon se seekhna chahein ge, khane k aaadab bhi, uthne bethne k bhi, guftugu k bhi aur kirdar o afkar ko sanwarne k liye bhi.
مردانہ دنیا کی خاتون صاحبہ
آپ کی تمنا ماشاء اللہ بہت خوش آئیند ہے ۔ حُکم کیجئے ۔ مجھ سے اگر کچھ ہو سکا تو میری خوش نصیبی ہو گی ۔
Aap ka behad shukriya Ajmal Sahib.. Aap k blog se mein ne kafi kuch seekha hai aur jaise hi koi baat samajhne ki zaroorat hui to mein aap se rujoo zaroor karun gi
مردانہ دنیا میں خاتون
بلاجھجھک جو سوال چہیں پوچھئیے ۔ انشاء اللہ بندہ پوری کوشش اور محنت سے جواب دے گا